دوسرا درس: خطبہ کا ترجمہ اور تشریح
بسم الله الرحمن الرحيم
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، وَأَشْهَدُ أَلَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ إِقْرَارًا بِهِ وَتَوْحِيدًا ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلٰى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا مَزيدًا.
(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)
ترجمہ: ہر قسم کی تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اللہ عز و جل گواہ کافی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسکا کوئی شریک نہیں ہے، میں اس بات کا زبان سے اقرار کرتا ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو یکتا ذات مانتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ آپ پر اور آپ کے اہل اور اصحاب پر بے بہا رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔
❐
تشریح: مصنف رحمہ اللہ نے کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اپنے اس رسالے کی ابتداء بسم اللہ سے کردی، قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء میں بسم اللہ لکھی ہوئی ہے سوائے سورہ براءۃ کے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے خطوط کی ابتداء بسم اللہ سے فرماتے تھے۔
•اسم: وہ لفظ ہے جو کسی متعین معنی پر دلالت کرے یا کسی معنی کو دوسرے معنی سے ممیز (جدا) بنانے کیلئے وضع کیا جائے۔
• اللہ: ذات مقدسہ کا نام ہے، اور اس کا معنی ہے: وہ ذات جس کی عبادت کی جاتی ہے۔
•الرحمن الرحیم: یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے دو خوبصورت نام ہیں، جوکہ رحمت سے مشتق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق اس ذات کا رحمت سے متصف ہونے پر دلالت کرتے ہیں، پھر (الرحمن) کا مطلب ہے: وہ ذات جو اپنے تمام مخلوق پر رحمت کرنے والا ہے، اور (الرحیم) کا مطلب ہے: وہ ذات جو اپنے خاص بندوں یعنی مؤمنین پر رحمت کرنے والا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿
وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا﴾ (الأحزاب: 43)
ترجمہ: اور (اللہ تعالیٰ) مومنین پر رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ کا خلاصہ کلام یہ ہوا کہ: اس رسالے کو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں، جوکہ رحمن اور رحیم ذات ہے، جوکہ تمام مخلوقات پر عام رحمت کرنے والا اور مومنین پر خاص رحمت کرنے والا ہے۔
• (
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَ۔۔۔) شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے سنت نبوی کی اتباع کرتے ہوئے اپنے رسالے کو حمد و ثناء اور شہادتین پر مشتمل خطبے سے شروع کردیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی، اور اسی طرح سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں آتا ہے: (
كل أمر ذي بال لم يبدأ فيه بالحمد لله فهو أقطع) [سنن ابی داؤد: کتاب الأدب: 4840]
یعنی جو بھی اہم فعل یا قول الحمد للّہ سے شروع نہ کی جائے وہ برکت والا نہیں رہتا۔
• الحمد للہ: کا مطلب ہے کہ ہر قسم کے محامد، تعریفیں اور اچھی صفات اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ منعم (نعمت عطاء کرنے والا) ذات ہے.
• الذي أرسل رسوله: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کیلئے پیارے نبی محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔
• الرسول: رسول کا معنی ہے پیغام لانے والا، اور شرع میں رسول اس عظیم شخص کو کہا جاتا ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کسی امر کی وحی کرے اور پھر اس وحی کو انسانوں تک پہنچانے کا امر دے۔
• بالهدى: یہاں ہدی سے مراد علم نافع ہے، یعنی ہر وہ امر جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس پہنچایا ہے، چاہئے وہ سچی خبروں (قصص، اور آخری زمانے کی نشانیاں) کی صورت میں ہو یا اوامر (واجبات، سنن، نوافل) کی صورت میں ہو یا نواہی (حرام، مکروہات) کی صورت میں ہو یا شرائع نافعہ (نظام، قانون) کی صورت میں ہو۔
پھر ہدایت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں:
1: ہدایت کا مطلب ہے کہ کسی کو کسی ہدف تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جائے، اور یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، یعنی وہ ہمیں صحیح راستہ بتلاتے تھے، تاکہ ہم اس پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿
وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ الشوری: 52
ترجمہ: اور بے شک (اے محمدﷺ) تم سیدھا راستہ دکھاتے ہو۔
2: ہدایت کا دوسرا مطلب ہے کسی کام کا الہمام اور توفیق دینا، اور یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿
اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ ۚ ﴾ القصص: 56
ترجمہ: بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہئے لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہئے۔
• و دين الحق: کا مطلب عمل صالح ہے، عمل صالح کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجے گئے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو جس دین کے ساتھ بھیجے گئے ہیں وہ حق دین ہے، اور جو بھی شخص اس دین پر عمل کرے گا اس کا عمل صالح اور مقبول ہوگا ان شاءاللہ۔
• ليظهره على الدين كله: یعنی اللہ تعالیٰ اس محمدی دین کو تمام ادیان اور شرائع پر غالب کر رہے گا، چاہئے وہ تلوار اور جہاد سے ہو یا قلم اور بیان، حجت اور دلیل سے ہو، یہاں تک کہ تمام اہل ارض عرب وعجم پر اس دین کی حقیقت واضح ہو جائے، اور یہ امر واقع ہوگیا، اور مسلمانوں نے جہاد اور تبلیغ کے ذریعے مشرق سے لیکر مغرب تک سب لوگوں پر اسلام کی حقیقت واضح کردی، اور اسلامی حکومت چین سے لیکر اندلس تک جا پھیلی، الحمد للّہ۔
• و كفى بالله شهيدا: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور حقانیت پر گواہی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے، اور وہی ذات ہی ان کی مدد ونصرت فرمائے گا اور ان کے ہر ہر فعل سے باخبر ہے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر ایک قطعی اور یقینی دلیل ہے کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردیتا جیسے دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت کو ہلاک کردیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ° لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ°ثُـمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ﴾ الحاقۃ: 44-46
ترجمہ: اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا۔ تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔
❐
خلاصہ: یہ ہوا کہ ہر قسم کی تعریفیں اور حمد اللہ تعالیٰ کیلئے ہے، اس ذات نے ہم انسانوں پر بڑی نعمت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر ہدایت اور دین حق سے بھیجا، تاکہ حق راستے کی طرف انسانوں کی راہنمائی کرکے دین حق کو جہاد اور بیان و حجت سے سب ادیان پر غالب کردیں، اور اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور ان کی سچی نبوت پر گواہ ہے۔
• وَأَشْهَدُ أَلَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ: یہاں پر کلمہ توحید کی گواہی کا ذکر ہے، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو عبادت کے مستحق ہے، باقی سب آلہہ باطلہ ہیں۔
• وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ: یہ جملہ ماقبل جملے (لا الہ الا اللہ) کی تاکید ہے، "وحدہ" ٫٫إلا اللہ،، کی تاکید ہے جوکہ اثبات پر دلالت کرتا ہے، اور "لا شریک لہ" ٫٫لا إله،، کی تاکید ہے، جوکہ نفی پر دلالت کرتا ہے۔
• إِقْرَارًا بِهِ وَتَوْحِيدًا: یہ جملہ سابقہ جملے کیلئے تاکید معنوی ہے، یعنی میں اپنی زبان سے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کو قولی، عملی اور دلی طور پر مانتا ہوں۔
❐
فائدہ: یہاں پر مصنف رحمہ اللہ نے ایک بہت اہمیت والے امر کی طرف اشارہ کردیا ہے وہ یہ کہ ایمان صرف زبانی اقرار کو نہیں کہا جاتا کہ بس صرف زبان سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے بلکہ ایمان کیلئے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے، اور دل سے اس بات کو مان لیں، منافقین کی طرح نہیں کہ صرف زبان سے اقرار کرے اور دل سے انکار کرے، اور اسی طرح اپنی عملی زندگی میں بھی کلمہ توحید کے تقاضوں پر عمل کرے، کیونکہ عمل کے بغیر ایمان ایمان نہیں ہوتا، جیسے کہ بعض گمراہ فرقوں (مرجئہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ عمل سے ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ضمنی طور پر ان گمراہ فرقوں پر مصنف رحمہ اللہ نے اس عبارت میں رد کردیا۔
• وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہے، جیسے کہ ایمان کیلئے کلمہ توحید کی گواہی دینا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا ضروری ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا لازمی ہے، یہ دونوں شہادتیں لازم ملزوم ہے، آج کل کے زنادقہ کی طرح نہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف توحید کا اقرار کرنا لازمی ہے، پھر چاہئے یہودی بنے یا عیسائی، جبکہ دین اسلام میں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا ضروری ہے اس کے بغیر اس کا اسلام قبول نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، اور جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ لیکر آیا ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے، باقی سب ادیان کے بطلان کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔
اور اس جملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں افراط اور تفریط سے کام لینے والوں پر بھی رد ہے، اہل افراط نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سے اونچا سمجھ کر عبودیت کے درجے پر پہنچا دیا، ان کیلئے علم غیب ثابت کرنا ، اور ان سے بشریت کا نفی کرنا وغیرہ جیسی شرکیات کے مرتکب ہوگئے، اور اہل تفریط نے تو بلکل ان کے رسول ہونے سے انکار کرکے بیزاری کا اظہار کردیا، اب اس بات کی گواہی دینا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ ہے افراط والوں پر رد ہے، اور ان کی شان میں غلو کرنے سے نفی ہے، اور اس بات کی گواہی دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے تفریط والوں پر رد ہے، اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان پر ایمان لانا ضروری ہے، اور جس چیز کا امر دیا ہے اس میں ان کی اطاعت لازمی ہے، اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اور جن چیزوں کی خبر دی ہے اس میں ان کی تصدیق کرنا لازمی ہے، اور جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس میں ان کی اتباع کرنا ضروری ہے۔
• صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ: ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، صلاۃ کا لغوی معنی ہے دعاء، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ذکر کیا ہے: (صلاة الله على رسوله ثناؤه عليه عند الملائكة) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کا مطلب ملائکہ کی مجلس میں ان کی تعریف بیان کرنا ہوتا ہے۔
• وعلى آله و صحبه: آل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مراد ہے، اور جامع اور اسلم قول یہ ہے کہ ہر وہ شخص مراد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے، اور (صَحْبه) صاحب کی جمع ہے، جن سے مراد صحابی ہیں، ہر اس شخص کو صحابی کہا جاتا ہے جس نے مسلمان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی زندگی میں ملاقات کی ہو اور اس کی موت بھی اسلام پر ہوئی ہو۔
• وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا مَزيدًا: کثیر تعداد میں سلامتی ہو، اور ہر قسم کے نقائص اور رذائل سے سلامت ہو۔
❐
خلاصہ: یہ ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جوکہ یکتا ذات ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے، اور یہ بات قولا، عملا اور اعتقادا میں مانتا ہوں۔