محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
"شرعی حدود اور سزائیں رحمت الہی کا حسین مظہر"
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 05-ربیع الثانی- 1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "شرعی حدود اور سزائیں رحمت الہی کا حسین مظہر" ارشاد فرمایا جس کےاہم نکات یہ تھے:
٭ رحمتِ الہی کی وسعت
٭ رحمتِ الہی کے مظاہر
٭ حدود اور شرعی سزائیں بھی رحمت
٭ گناہ کی سزا فوری نہ ملنا بھی رحمت
٭ قدرتی آفات اخروی عذاب کی یاد دہانی
٭ قدرتی آفات اور شرعی سزاؤں کے مابین تجزیہ
٭ عمر رضی اللہ عنہ کی نصیحت
٭ شریعت سے رو گردانی کرنے والوں کا انجام
٭ احکاماتِ الہی کے زندگی پر اثرات
٭ واجبات اور ممنوعہ اعمال بدن کیلیے بالترتیب غذا اور زہر
٭ شرعی حدود کے پانچ بنیادی مقاصد
٭ حدود کے بارے میں زبان درازی کرنے والے ہوش کے ناخن لیں
٭ مجرم پر شرعی حد کے مثبت اثرات
٭ دورِ حاضر میں خارجیوں اور تکفیریوں سے بچیں
٭ اسلامی عسکری اتحاد
٭ عسکری اتحاد میں شامل ممالک کی ذمہ داریاں
٭ نوجوانوں کی ذمہ داریاں۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے بندوں کو شریعت دے کر ان پر رحم کیا، ان پر جود و کرم اور نعمتوں کے خزانے بہائے، وہ تمام لوگوں کے اعمال شمار کر رہا ہے، وہ اطاعت گزاری پر ثواب دیتا ہے اور نا فرمانی کی صورت میں ابتدائی طور پر در گزر فرماتا ہے فوری سزا نہیں دیتا، چنانچہ اگر انسان توبہ کر لے تو پروردگار بندے کی توبہ پر خوش ہوتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، الوہیت و ربوبیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ کو اللہ تعالی نے تمام مخلوقات پر فضیلت سے نوازا، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔ ٭ رحمتِ الہی کی وسعت
٭ رحمتِ الہی کے مظاہر
٭ حدود اور شرعی سزائیں بھی رحمت
٭ گناہ کی سزا فوری نہ ملنا بھی رحمت
٭ قدرتی آفات اخروی عذاب کی یاد دہانی
٭ قدرتی آفات اور شرعی سزاؤں کے مابین تجزیہ
٭ عمر رضی اللہ عنہ کی نصیحت
٭ شریعت سے رو گردانی کرنے والوں کا انجام
٭ احکاماتِ الہی کے زندگی پر اثرات
٭ واجبات اور ممنوعہ اعمال بدن کیلیے بالترتیب غذا اور زہر
٭ شرعی حدود کے پانچ بنیادی مقاصد
٭ حدود کے بارے میں زبان درازی کرنے والے ہوش کے ناخن لیں
٭ مجرم پر شرعی حد کے مثبت اثرات
٭ دورِ حاضر میں خارجیوں اور تکفیریوں سے بچیں
٭ اسلامی عسکری اتحاد
٭ عسکری اتحاد میں شامل ممالک کی ذمہ داریاں
٭ نوجوانوں کی ذمہ داریاں۔
پہلا خطبہ:
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اختیار کرو، تقوی کو وسیلہ بناؤ، تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے تحفظ، رحمت، اور رضا حاصل ہوگی، نیز اللہ تعالی کے غضب ، عذاب، اور رسوائی سے بچ جاؤ گے۔
مسلم اقوام!
فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ}
میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، میں اپنی رحمت متقی، زکاۃ دینے والے اور ہماری آیات پر ایمان لانے والوں کیلیے لکھ دونگا۔ [الأعراف : 156]
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
(اللہ تعالی نے مخلوقات کی تخلیق سے پہلے ایک تحریر لکھی: "میری رحمت میرے غضب سے زیادہ ہے" یہ تحریری صورت میں اللہ تعالی کے پاس عرش پر ہے) {وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ}
میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، میں اپنی رحمت متقی، زکاۃ دینے والے اور ہماری آیات پر ایمان لانے والوں کیلیے لکھ دونگا۔ [الأعراف : 156]
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
اسے بخاری نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
٭ رحمت الہی کا عظیم ترین مظہر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایسے تمام اسباب و ذرائع بیان کر دیے ہیں جن سے وہ دنیاوی و اخروی خیر و سعادت ، اور عزت حاصل کر سکتے ہیں وہ ہے: ربّ رحیم اور رسولِ امین کی اطاعت، فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ}
ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو جب بھی رسول تمہیں اس چیز کی دعوت دیں جو تمہارے لئے زندگی بخش ہے [الأنفال : 24]
اسی طرح فرمایا:
{قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ}
آپ کہہ دیں: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر تم [اطاعت سے] رو گردانی کرو تو رسول اپنی ذمہ داری کا جوابدہ ہے، اور تم اپنی ذمہ داری کے، اگر تم اس [رسول]کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے، رسول کی ذمہ داری صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ہے۔ [النور : 54]{قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ}
پروردگار کی شریعت کے ذریعے ہی مسلمان پر امن، پر اطمینان اور خوش حال زندگی گزار سکتا ہے، نیز اسی شریعت کی بنا پر اللہ تعالی دنیا و آخرت میں بلائیں بھی ٹال دیتا ہے۔٭ اللہ تعالی کی طرف سے مکلف لوگوں کیلیے بنائی گئی شریعت واجب یا مستحب احکام، یا ممنوعہ چیزوں، حدود، وعید، اور تعزیری امور پر مشتمل ہے، اور پوری شریعت بندوں پر اللہ تعالی کی رحمت ، خیرو برکت آسانی اور سراپا عدل ہے ، فرمانِ باری تعالی ہے:
{يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ}
اللہ تعالی تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے، وہ تمہیں تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ [البقرة : 185]
ایک مقام پر فرمایا:
{وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى}
اور ہم آپ کی آسان راستے کی جانب رہنمائی کرینگے [الأعلى : 8]
اسی طرح فرمایا:
{مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} {وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى}
اور ہم آپ کی آسان راستے کی جانب رہنمائی کرینگے [الأعلى : 8]
اسی طرح فرمایا:
اللہ تعالی تمہیں کسی تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا تاہم تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے، تا کہ تم پر وہ اپنی نعمتیں پوری کر دے اور تم شکر گزار بن جاؤ۔ [المائدة : 6]ایک مقام پر فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ}
بیشک اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ [النحل : 90]
لہذا شریعت الہی دنیا میں انسان کیلیے خوش حالی اور آخرت میں نعمتوں والی جنت میں رہنے کی ضامن ہے۔{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ}
بیشک اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ [النحل : 90]
٭ اللہ تعالی شرعی سزاؤں اور حدود کی وجہ سے قدرتی بلائیں ٹال دیتا ہے، لہذا جب بھی لوگ شرعی احکامات نافذ کرینگے تو اللہ تعالی دنیا میں انہیں گناہوں کے وبال ، اور تباہ کن حادثات سے محفوظ رکھے گا نیز آخرت میں انہیں عذاب سے بچا لے گا، جبکہ شرعی احکام کے نفاذ میں کوتاہی یا سستی برتنے پر تقدیری فیصلوں کے مطابق سزا بھی ملے گی اور تمام گناہوں کا حساب بھی ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا}
[جنت میں داخلہ] تمہاری خواہشات یا اہل کتاب کی خواہشات پر [منحصر] نہیں ہے، برا عمل کرنے والے کو اس کا بدلا دیا جائے گا، اور اسے اللہ کے مقابلے میں کوئی دوست اور مدد گار نہیں ملے گا۔ [النساء : 123]
٭ [اور یہ ایک حقیقت ہے کہ : گناہوں کی] قدرتی سزائیں شرعی سزاؤں سے کہیں زیادہ شدید اور درد ناک ہوتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ}
ایک حدیث میں ہے کہ:
(بیشک اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے، پھر جب پکڑتا ہے تو اسے مہلت نہیں دیتا)
بخاری و مسلم نے اس روایت کو ابو موسی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ}
بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔[البروج : 12]
ایسے ہی فرمایا:
{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ} {إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ}
بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔[البروج : 12]
ایسے ہی فرمایا:
آپ کہہ دیں: وہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے عذاب دینے پر قادر ہے، یا تمہیں فرقوں میں بانٹ کر گتھم گتھا کر دے ، اور باہمی لڑائی کا مزا چکھائے، دیکھیں ہم کیسے آیات مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ سمجھ جائیں۔ [الأنعام : 65]
٭ اللہ تعالی کی بندوں پر یہ رحمت ہے کہ اللہ تعالی ظالموں کو فوری طور پر سزا نہیں دیتا بلکہ کچھ مہلت عطا فرماتا ہے:{وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدٌ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًا}
اسی طرح فرمایا:
{وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى}
اگر اللہ تعالی لوگوں کو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے پکڑنے لگے تو دھرتی پر کوئی بھی جاندار نہ چھوڑے، لیکن وہ انہیں ایک محدود مدت تک مہلت دیتا ہے۔ [فاطر : 45]٭ اور اگر تقدیر میں لکھی ہوئی سزائیں مستحق لوگوں کو مل جائیں تو یہ حقیقت میں ان سے بھی سخت ترین سزاؤں کی یاد دہانی ہوتی ہے تا کہ گناہ گار گناہوں سے توبہ کر لے، اور غضب الہی کا موجب بننے والے امور سے باز آ جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ}
بر و بحر میں لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد بپا ہو گیا ہے، تا کہ [اللہ تعالی]انہیں ان کے کچھ گناہوں کا بدلہ دے، تا کہ وہ رجوع کریں۔ [الروم : 41]
اسی طرح فرمایا:
{وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ}
ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے دنیاوی عذاب لازمی دینگے تا کہ وہ رجوع کریں۔ [السجدة : 21]{وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ}
ایک مقام پر فرمایا:
{أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ}
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سال میں انہیں ایک یا دو بار عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے، لیکن پھر بھی وہ توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں![التوبہ: 126]چنانچہ اگر کوئی شخص توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، لیکن اگر کوئی پھر بھی سر کشی کیلیے اصرار کرے اور اللہ تعالی کے علم میں ہو کہ وہ توبہ نہیں کریگا تو پھر اللہ تعالی اسے سخت سزا دیتا ہے، لیکن اصل سزا آخرت میں جہنم اور غضب الہی کی صورت میں ملے گی۔
جاری ہے ---
Last edited: