• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرقِ اوسط میں سیاست کے بدلتے زاویئے (عبدالمعید مدنی علیگڑھ )

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شرق اوسط سیاست کا آتش فشاں ہے، اس خطے میں تقریباً ہر دس سال میں سیاسی آتش فشاں پھٹتا ہے اور ہر موقع پر سیاسی مصالح و مفاد ات بدلتے ہیں، نیا مخالف بنتا ہے وفاداریان شفٹ ہوتی ہیں، نئی لابیاں اور نئے محور تیار ہوتے ہیں۔
عرب بہاریہ سے قبل اور مابعد سقوط بغداد کے وقفے میں مصر، گلف ممالک اور ترکی کا سیاسی محور تھا، بش کی کوشش تھی کی مصر وایران ترکی اور اسرائیل کا ایک سیاسی محور بن جائے، عرب کا یہ یقین کامل ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق اہل سنت ان کے لیے خطرہ ہیں، اس لیے ان کو ایک حل کی تلاش ہے کہ شرق اوسط میں اسرائیل اوران کے لیے خطرہ نہ رہے۔ بش انتظامیہ نے حل یہ نکالا تھا کہ کہ سیکولر مصر، سیکولر ترکی، رافضی ایران اپنے لواحق کے ساتھ۔ اور صہیونی اسرائیل کے ساتھ چل سکتے ہیں اور صلیبی غرب ان کی پشت پناہی کرے گا۔
ترکی سفارتی تعلقات پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ ہیں، ایران گروپ کا اندر باہر ایک نہیں ہے، اور یہ ان کی مجبوری ہے ظاہری تڑک بھڑک سے وہ مسلمانوں کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہے اور اندرونی طور پر اہل سنت کے مقابلے میں اسے سارے اعدائے اسلام کا اعتبار حاصل ہے۔یہ دو تو شرق اوسط میں بش کے سیاسی محور کے لیے ایک طرح سے ریڈی میڈ تھے، اسرائیل بھی خود اس محور میں شمولیت کے لیے آمادہ تھا اور آمادہ کیوں نہ ہو، اسی کے لیے تو یہ سارے تانے بانے بنے جا رہے تھے، مسئلہ صرف مصر کاتھا، مصر اس نئے سیاسی محور میں شریک نہیں ہو سکتا تھا، بش کے اس نئے محور میں اسے کیا ملتااور کیا کھوتا اس کے سامنے بہت بڑا سوال تھا، اسرائیل کے ساتھ سیاسی تعلقات بحال کرنے کے بعد اس نے کچھ پایا تھا تو بہت کچھ کھویا تھا، اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد اس کی کھوئی ہوئی زمین مل گئی تھی اور مصالحت کے بعد بہت سے خر چوں کے بوجھ سے نجات پا چکا تھا، مزید اسے کچھ ملنے والا نہیں تھا، اس نئے محور میں یافت ایران کی ہوتی اور اسرائیل کی، ترکی کے تجارتی اور سفارتی فوائد بڑھ جاتے تھوڑی سی جنبش سے ترکی ایرانی املاک کے قریب ہوا تھا اور شام کے ساتھ اس کا ۲۰؍ملین کا سالانہ تجارتی لین دین ہونے لگا تھا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
بش کے مجوزہ سیاسی محور میں داخلے سے مصر کو کچھ نہ ملنے والا تھا، اسے صرف نقصان ہوتا اور یہ نقصان کئی طرح ہوتا۔ بش اس نئے محور میں سعودی عرب اور گلف کے دوسرے ممالک کو شامل نہیں کر سکتا تھا، نئے حالات انھیں اس محور میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے، اب اگر مصر اس نئے محور میں داخل ہوتا توبلاد خلیج اسے رفض کر دیتے اور وہاں سے اس کی آمدنی بند ہو جاتی یہ ایسا خسارہ ہوتا کہ اس کی بھرپائی کسی سے نہیں ہو سکتی تھی،دوسرے خطے میں اہل سنت کی حیثیت کمزور ہو جاتی اور شیعہ گردی کا طوفان اس حد تک بڑھ جاتا کہ خطے کے لیے وبال جان بن جاتی، تیسرے سارے عالم اسلام میں مصراور سعودی عرب کی ساکھ سنی ملک کی حیثیت سے کمزور ہو جاتی،اور ایسا خسارہ ہوتا کہ اس کی بھرپائی مسلمان زمانے تک نہ کر پاتے۔
پہلے سیاسی مشرقی کیمپ سویت یونین اور مغربی کیمپ یورپ اور امریکہ کے ذریعہ بنتے تھے، سویت یونین کے بکھراؤ اور کمیونزم کا تجربہ کلی طور پر ناکام ہونے کے بعداب دنیا کے خطوں میں سیاسی محور امریکہ بناتا ہے، موجودہ عالمی سیاست میں اس کی اور اس کے ہمنواؤں کی چلتی ہے، جذبات، جوش و خروش، چیخ و پکار، نفرتیں اور اتہامات اس نئے یا پرانے عالمی نظام میں ذرہ برابر نہ موثر نہ بن سکے، نہ بن سکیں گے۔نظامِ عالم جذباتی نعروں نفرت و اتہامات سے نہیں قومی ایکتا محنت اور اعلی اہدافِ حیات سے بنتا ہے۔
بش کی تجویز سرد خانے میں پڑی تھی دوبارہ اس کو روشنی میں لانے کی ہمت اب اوبامہ نے جٹائی ہے، جب انھیں لگا کہ بش کے سیاسی محورکو شرق اوسط میں قائم کرنے کا وقت آگیا ہے، افغانستان اور عراق میں قتل عام کرنے اور تباہی پھیلانے ۴۴؍کھرب ڈالر برباد کرنے اور فوج کو بڑی تعداد میں کٹوانے اور ان کے مورال کو تباہ کرنے کے بعد غرب نے محسوس کیا کہ انھوں نے بہت کچھ کھو دیاہے، ان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، دہشت گردی کے نام پر لڑ کر مسلمانوں کو برباد نہیں کیا جا سکتاہے انھیں بھڑ کایا جا سکتا ہے، انھوں نے عرب بہاریہ کا یہ منظر بھی دیکھا، ان کے لیے خطر ہ مزید بڑھتا نظر آیا، بش کا سیاسی روڈ میپ اور سیاسی محور مکمل طور پر خواب بنتا جا رہا ہے،دہشت گردی کا ہوا اور اس سے لڑائی کا ساراما حصل مائنس میں جا رہا تھا اس لیے غرب کے تجزیے نے عرب بہاریہ میں اپنی نئی حکمت علمی طے کی، غرب کا تجزیہ بھر پور معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے، موہوم اعداد و شمار سے وہ کام نہیں چلاتے۔ سیاسی دینی سماجی اقتصادی اطلاعات کے مرکب تجزیئے کے بعد اوبامہ انتظامیہ کا فیصلہ اب کے بار یہ ہوا کہ شرق اوسط میں بش کے سیاسی محور کو قائم کرنا اشد ضروری ہے، مصر کے ذریعہ سارا کھیل بگڑا تھا لہذا مبارک کے جانے کے بعد اخوان حکومت پر ڈورے ڈالے جائیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اوبامہ کی موقع پرستانہ سیاست نے بش کی پرانی تجویز کو تباہ کن تبدیلیوں کے ساتھ پھر سے خطے میں نافذ کرنے کا عزم کیا۔ سعودی عرب محورِشر(AXES OF EVIL) میں محسوب ہو چکا تھا، اس کی وہابیت جو ایک واہمہ ہے دنیا کے ہر طبقے خطے اور مسلک کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جو فقط ایک وہم ہے، اس بار فضائیاتی تجارتی کارپوریٹیو شیخڈم قطر کو زیرِ دام لایا گیا ہے، اس نے عرب بہاریہ میں خطے میں سیاسی تبدیلیوں کے لیے کافی کچھ خرچ کیا تھا اس کے رجحانات اس طرح شفٹ ہوئے تھے کہ اس نے خطے میں اخوانیوں کی جنبہ داری اور حمایت کو اپنا رجحان بنا لیا،سیکولرزم کی طرف اس کا بڑھتا رجحان اور مغربیت پر اس کی شیفتگی اس کے موقف میں تبدیلی کا باعث بنی، اس لیے قطر اپنی کم مایگی کے باوجود خطے میں اپنا اہم رول کر رہا تھا، خاص کر اخوان کی کفالت اور حمایت کے ذریعہ۔ لیبیا میں اخوانی لیڈروں کی اس نے بھر پور حمایت کی اور اس کی چاہت کے مطابق وہاں اخوانی بالا دست ہو گئے، خطے میں اخوانیوں اور اخوانی رجحان رکھنے والے تحریکیوں کے ساتھ اس کی ساجھی داری نے اس کو خطے میں اور خطے کے باہر قابلِ توجہ بنا دیا۔
اوبامہ اور اس کی انتظامیہ کا کالیکو لیشن یہ بنا کہ ترکی کا سیکولراسلام، اخوان کا جمہوری اسلام، قطر کا مغرب پسند تحریکی پسند نظریہ، ایران کا رافضی شیعہ اسلام باہم متقارب ہو سکتے ہیں،اور مغرب کی صلیبیں صہیونی عیسائیت اور اسرائیل کی صہیونیت کے ساتھ ایڈ جسٹ کر سکتے ہیں، خیر سے مصر جو بش کے پرانے شرق اوسط کے سیاسی محور کی راہ میں حائل ہو گیا تھا، وہاں اخوانی مرسی حکومت قائم ہو چکی تھی، مرسی حکومت کو مبارک عہد کی ہر شئی سے کد تھی، پھر اس کی حمایت میں قطر کمر بستہ تھا۔ترکی اور ایران بھی اس سے چمٹ چکے تھے،اور باہم ذہنی ہم آہنگی بھی تھی،خود مصر کا تحریکی بلاگ بن رہا تھا۔ اردن، تونس، مصر، الجزائراور لیبیا اس کے بلاگ میں شامل تھے،اگر یہ بلاگ بن جاتا تو دنیا کے سارے تحریکی اس بلاگ میں شامل ہو سکتے تھے، اوبامہ کو یہی مقصود تھا اس لیے مصر میں مرسی حکومت کے استحکام کی بھرپور ضمانت اور حمایت غرب سے بھی ملی اور مذکورہ تمام اسلامی ممالک سے بھی۔ مرسی زیرِ دام آچکے تھے، اس لیے انھیں اتنا سب کچھ مل رہا تھا، اور سارا تحریک عالم ان کے پیچھے تھا،اور سارا رافضی عالم ان کا حمایتی تھا۔ اور مغرب کی ضرورت تھی کہ ان کی حمایت کرے لیکن حقیقت میں یہ سب ساون کے سانولے بادل ہیں جو بن برسے اڑجاتے ہیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اس سیاسی محور کے بننے کے پیچھے اعدائے اسلام نے یہ امیدیں لگا رکھی تھیں کہ جب سیاسی تحریکی اور سیکولر اسلام کی جڑین خطے میں مضبوط ہوں گی اور رافضی ایرانی اسلام ان کے اوپر مسلط ہو جائے گا تو اصلی سنی اسلام کی مغرب خلق کردہ ''دہشت گردی'' سے اسے نجات مل جائے گی۔اسرائیل کا جوہری توانائی اور جوہری اسلحے کے مقابلے میں ایران کے جوہری منصوبے تسلیم کر لیے جائیں گے۔ اور ترکی کی طاقت بھی رہے گی، تو خطے میں طاقت کا توازن قائم ہو جائے گا،مغرب اچھی طرح جانتا ہے تحریکی اسلام، سیکولر اور رافضی اسلام میں تقارب کی جڑیں پیوست ہیں، یہ تینوں کسی دینی مسئلے میں نصوص قرآن و سنت کی اہمیت کے قائل نہیں ، تعقل پسندی ضرورت، حالات و ظرورت حالات فطرت مادی مفادات اور اسلامی اتحاد کے بجائے حاجیاتی اتحاد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں،اس لیے ان کے فکر و خیال اور نظریہ و موقف میں تغیرو تبدل بہت آسانی سے ہو سکتا ہے،اور ان کو ہموار کرنا بہت آسان ہے، اسی لیے ان تینوں کو جوڑنے کی کوشس ہوئی اور کوشس کامیاب بھی ہو گئی تھی اور نئے سیاسی محور میں قطر، ترکی، ایران اور مصر کا مربعہ مغرب کی صہیونیت زدہ صلیبی عیسائیت اور صہیونی یہودیت سے جڑنے کو تیار تھا۔ ظاہر ہے یہ مصالح کا کھیل ہے اور کھیل ہمیشہ کھیلا جاتا ہے اور بر سر اقتدار حکومتیں اور پارٹیاں صورتِ حال سے باہر نہیں جا سکتی ہیں، اگر ملک و ملت کے مفادمیں حصول مصالح و منافع کی سرگرمیاں ہوں تو کسی کو غدار دین و غدار ملت نہیں کہا جا سکتاہے اور مصالح میں کمی بیشی کے اعتبار سے ہر ایک کو تصرف کا حق حاصل ہے، کہیں حالات و ظروف کی کمزوریاں بھی ہو سکتی ہیں ، ہاں اگر عمدا یہ بد نیتی و دینی کی بنیاد پر ملت کے ساتھ کھیل ہو تو اس پرنکیر ضروری ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اس نئے سیاسی محور سے اہل سنت کے ممکن حد تک نقصانات ہیں،اگر یہ بن جائے تو ہر طرف سیاسی اسلام، سیکولر اسلام اور رافضی اسلام کا جھنڈا بلند ہوگا، خالص دین کی طرف رجوع کی ساری محنتیں رکاوٹ ہو جائیں گی، عقیدہ و اصول کی اہمیت بڑے پیمانے پر ختم ہو جائے گی، صہیونیت اور رافضیت پورے عالم میں اہل سنت کی گھیرا بندی کر لے گی، عبادات سیاست بن جائیں گی، یہ محور مل کرگلف کی دولت ہاتھوں سے لوٹے گا اور سارے اہل سنت ممالک میں عدم استحکام پیدا کر ے گا، خصوصا گلف میں۔ اور خالص دین کے خالص داعیوں کو ہر طرف ملزم بنایا جائے گا، صحابہ کی اہمیت ختم ہو جائے گی،سنت کا رفض ہوگا یا اس کی اہمیت گھٹے گی، قرآن کریم کی من مانی تاویلات ہوں گی۔
جس نئے محور سے اتنا زیادہ مسلمانوں اور اہل سنت کا نقصان ہو اسے کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے، انھیں خطروں کو دور کر نے کے لیے مصر اور سعودی عرب نے اس نئے محور کی راہ کو بلاک کیا ہے، اور مصری فوج نے خود کو تباہی سے بچانے کے لیے فوجی اقدام کیا ہے،مصراور سعودی عرب کی یکجہتی سے دیگر اہل سنت دنیا ان کے وزن اور ان کے موقف کی معقولیت کو سمجھ سکتی ہے، دور کے تماشائی کی یا گلف کی غیرمعقول مخالفت فکرو شعور کے لیے معاون نہیں بن سکتی، امریکی فوبیا یہاں کا م نہیں کرتا ہے، اچھلنے والے تحریکی اب اپنے امریکی مخالف سے خطرہ کیوں نہیں محسوس کرتے۔
مصالح کی دنیا میں یہ کشمکش جاری رہے گی اور مصالح کے لیے جتھا بندیاں محوریں اور مخالفت کے چکر سے نجات نہیں مل سکتی، لیکن ہر ملک کو اپنا حساب کتاب رکھنا چاہیے، پرانے بہت سے محور بنے جس میں سب سے زیادہ فائدہ رافضی ایران اور اس کے مخالفین کا ہوا، شرق اوسط میں اسے بہت بڑی سبقت اور اہمیت حاصل ہو گئی، اور سارے شرق اوسط میں اس کی عسکریت پھیل گئی،اور اس کے عسکری حلیف تباہی مچانے لگے اور وہ اپنی ثقافتی سیاسی اور عسکری سرگرمیوں سے دشمنان اسلام کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ اسے ان سے ہر موقع پر حمایت، نصرت اور مدد ملنے لگی۔وہ مغرب سے بھی مستفید ہوتا ہے اور مشرق کے ممالک روس اور چین سے بھی، اس کی مستقل شٹل ڈپلومیسی چلتی رہتی ہے، اسرائیل اس نئے سیاسی محورپر راضی تھا ، اخوان مصر کی شمولیت پر وہ مکمل چپ تھااسے بھی نیم رضا مندی سمجھئے۔
شرق اوسط میں نئے سیاسی محور کا موجودہ امریکی منصوبہ اہل سنت کو گھیرنے اور انھیں کمزور کرنے، معاشی طور پر انھیں تباہ کر نے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اللہ تعالی فتنوں سے بچائے۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
مولانا کو بھی "دور کے تماشائی" باور نہ کرنے کی "دلیل" کیا ہو سکتی ہے؟ کیونکہ ہم نے تو سنا یا پڑھا نہیں کہ انہوں نے موجودہ حالات کے دوران مصر یا سعودی عرب میں اپنا کچھ تجزیاتی وقت گزارا ہو؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اسے ہم "ریال"کاکمال کیوں نہ سمجھیں
یہ مضمون صرف مفروضہ کی بنیاد پر قائم ،دلیل نام کی کسی بھی شے سے عاری ہے۔
سبحان اللہ کیاجوڑ ملایاہے؟
سعودی عرب قرآن وسنت کی دعوت دینے والا؟، جنرل عبدالفتاح سیسی قرآن وسنت کا خالص شیدائی؟اوراخوان قرآن وحدیث کےسب سے بڑے دشمن۔
انشاء اللہ جلد ہی اس پر ایک مضمون لکھوں گا جس میں واضح کروں گاکہ اس کھیل کے پیچھے کون کون سے "قرآن وسنت"کے داعیان شامل ہیں جنہوں نے اپنے شاہی اورکاروباری مفادات کو قرآن وسنت کا جامہ پہنادیاہے۔
اورقربان جائے سعودی حکومت کی قرآن وسنت کی محبت پر کہ جنرل عبدالفتاح سیاسی قبول ہے۔ مصر کی لادین عدلیہ قبول ہے۔ فوج کی لادین حکومت قبول ہے لیکن اسلام کیلئے تمام ترقربانیوں کے باوجود اخوان قبول نہیں ہے کیااس سے بھی بڑھ کر قرآن وحدیث کی محبت کی عمل مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ہم توواقعتاقائل ہوگئے بلکہ گھائل ہوگئے۔
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسے ہم "ریال"کاکمال کیوں نہ سمجھیں
یہ مضمون صرف مفروضہ کی بنیاد پر قائم ،دلیل نام کی کسی بھی شے سے عاری ہے۔
سبحان اللہ کیاجوڑ ملایاہے؟
سعودی عرب قرآن وسنت کی دعوت دینے والا؟، جنرل عبدالفتاح سیسی قرآن وسنت کا خالص شیدائی؟اوراخوان قرآن وحدیث کےسب سے بڑے دشمن۔
انشاء اللہ جلد ہی اس پر ایک مضمون لکھوں گا جس میں واضح کروں گاکہ اس کھیل کے پیچھے کون کون سے "قرآن وسنت"کے داعیان شامل ہیں جنہوں نے اپنے شاہی اورکاروباری مفادات کو قرآن وسنت کا جامہ پہنادیاہے۔
اورقربان جائے سعودی حکومت کی قرآن وسنت کی محبت پر کہ جنرل عبدالفتاح سیاسی قبول ہے۔ مصر کی لادین عدلیہ قبول ہے۔ فوج کی لادین حکومت قبول ہے لیکن اسلام کیلئے تمام ترقربانیوں کے باوجود اخوان قبول نہیں ہے کیااس سے بھی بڑھ کر قرآن وحدیث کی محبت کی عمل مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ہم توواقعتاقائل ہوگئے بلکہ گھائل ہوگئے۔
والسلام
جزاک اللہ خیرا ۔
طنز نگاری کے سوا آپ کا تبصرہ اچھا لگا ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اسے ہم "ریال"کاکمال کیوں نہ سمجھیں
یہ مضمون صرف مفروضہ کی بنیاد پر قائم ،دلیل نام کی کسی بھی شے سے عاری ہے۔
سبحان اللہ کیاجوڑ ملایاہے؟
سعودی عرب قرآن وسنت کی دعوت دینے والا؟، جنرل عبدالفتاح سیسی قرآن وسنت کا خالص شیدائی؟اوراخوان قرآن وحدیث کےسب سے بڑے دشمن۔
انشاء اللہ جلد ہی اس پر ایک مضمون لکھوں گا جس میں واضح کروں گاکہ اس کھیل کے پیچھے کون کون سے "قرآن وسنت"کے داعیان شامل ہیں جنہوں نے اپنے شاہی اورکاروباری مفادات کو قرآن وسنت کا جامہ پہنادیاہے۔
اورقربان جائے سعودی حکومت کی قرآن وسنت کی محبت پر کہ جنرل عبدالفتاح سیاسی قبول ہے۔ مصر کی لادین عدلیہ قبول ہے۔ فوج کی لادین حکومت قبول ہے لیکن اسلام کیلئے تمام ترقربانیوں کے باوجود اخوان قبول نہیں ہے کیااس سے بھی بڑھ کر قرآن وحدیث کی محبت کی عمل مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ہم توواقعتاقائل ہوگئے بلکہ گھائل ہوگئے۔
والسلام
جس کو آپ مفروضہ کہہ رہے ہیں ہم اس کو تجزیہ کہتے ہیں ۔
دیکھتے ہیں آپ جس کو دلیل کہہ رہے ہیں ۔ وہ کہاں سے لے کر آتے ہیں ۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
جس کو آپ مفروضہ کہہ رہے ہیں ہم اس کو تجزیہ کہتے ہیں ۔
مگر بھائی ! ہم تو اسے "دور کے تماشائی" کا تجزیہ کہتے ہیں :P
اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اصل موضوع سے متعلق کئی ضمنی موضوعات سے کیوں صرف نظر کیا گیا؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف ایک مخصوص اینگل سے "ردعمل" ظاہر کرنا مقصود تھا؟ دین کی بات بہترین انداز میں آگے پہنچانے والے مذہبی پیشواؤں کو سیاست کے خارزار میں اپنی انگلیاں فگار نہیں کرنی چاہیے ورنہ پھر جو کھلی اڑے گی تو وہ داغ دامن سے مٹایا نہ جائے گا۔ ایک ڈھونڈو کئی مثالیں مل جاتی ہیں اس تعلق سے
 
Top