سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
شرق اوسط سیاست کا آتش فشاں ہے، اس خطے میں تقریباً ہر دس سال میں سیاسی آتش فشاں پھٹتا ہے اور ہر موقع پر سیاسی مصالح و مفاد ات بدلتے ہیں، نیا مخالف بنتا ہے وفاداریان شفٹ ہوتی ہیں، نئی لابیاں اور نئے محور تیار ہوتے ہیں۔
عرب بہاریہ سے قبل اور مابعد سقوط بغداد کے وقفے میں مصر، گلف ممالک اور ترکی کا سیاسی محور تھا، بش کی کوشش تھی کی مصر وایران ترکی اور اسرائیل کا ایک سیاسی محور بن جائے، عرب کا یہ یقین کامل ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق اہل سنت ان کے لیے خطرہ ہیں، اس لیے ان کو ایک حل کی تلاش ہے کہ شرق اوسط میں اسرائیل اوران کے لیے خطرہ نہ رہے۔ بش انتظامیہ نے حل یہ نکالا تھا کہ کہ سیکولر مصر، سیکولر ترکی، رافضی ایران اپنے لواحق کے ساتھ۔ اور صہیونی اسرائیل کے ساتھ چل سکتے ہیں اور صلیبی غرب ان کی پشت پناہی کرے گا۔
ترکی سفارتی تعلقات پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ ہیں، ایران گروپ کا اندر باہر ایک نہیں ہے، اور یہ ان کی مجبوری ہے ظاہری تڑک بھڑک سے وہ مسلمانوں کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہے اور اندرونی طور پر اہل سنت کے مقابلے میں اسے سارے اعدائے اسلام کا اعتبار حاصل ہے۔یہ دو تو شرق اوسط میں بش کے سیاسی محور کے لیے ایک طرح سے ریڈی میڈ تھے، اسرائیل بھی خود اس محور میں شمولیت کے لیے آمادہ تھا اور آمادہ کیوں نہ ہو، اسی کے لیے تو یہ سارے تانے بانے بنے جا رہے تھے، مسئلہ صرف مصر کاتھا، مصر اس نئے سیاسی محور میں شریک نہیں ہو سکتا تھا، بش کے اس نئے محور میں اسے کیا ملتااور کیا کھوتا اس کے سامنے بہت بڑا سوال تھا، اسرائیل کے ساتھ سیاسی تعلقات بحال کرنے کے بعد اس نے کچھ پایا تھا تو بہت کچھ کھویا تھا، اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد اس کی کھوئی ہوئی زمین مل گئی تھی اور مصالحت کے بعد بہت سے خر چوں کے بوجھ سے نجات پا چکا تھا، مزید اسے کچھ ملنے والا نہیں تھا، اس نئے محور میں یافت ایران کی ہوتی اور اسرائیل کی، ترکی کے تجارتی اور سفارتی فوائد بڑھ جاتے تھوڑی سی جنبش سے ترکی ایرانی املاک کے قریب ہوا تھا اور شام کے ساتھ اس کا ۲۰؍ملین کا سالانہ تجارتی لین دین ہونے لگا تھا۔
عرب بہاریہ سے قبل اور مابعد سقوط بغداد کے وقفے میں مصر، گلف ممالک اور ترکی کا سیاسی محور تھا، بش کی کوشش تھی کی مصر وایران ترکی اور اسرائیل کا ایک سیاسی محور بن جائے، عرب کا یہ یقین کامل ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق اہل سنت ان کے لیے خطرہ ہیں، اس لیے ان کو ایک حل کی تلاش ہے کہ شرق اوسط میں اسرائیل اوران کے لیے خطرہ نہ رہے۔ بش انتظامیہ نے حل یہ نکالا تھا کہ کہ سیکولر مصر، سیکولر ترکی، رافضی ایران اپنے لواحق کے ساتھ۔ اور صہیونی اسرائیل کے ساتھ چل سکتے ہیں اور صلیبی غرب ان کی پشت پناہی کرے گا۔
ترکی سفارتی تعلقات پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ ہیں، ایران گروپ کا اندر باہر ایک نہیں ہے، اور یہ ان کی مجبوری ہے ظاہری تڑک بھڑک سے وہ مسلمانوں کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہے اور اندرونی طور پر اہل سنت کے مقابلے میں اسے سارے اعدائے اسلام کا اعتبار حاصل ہے۔یہ دو تو شرق اوسط میں بش کے سیاسی محور کے لیے ایک طرح سے ریڈی میڈ تھے، اسرائیل بھی خود اس محور میں شمولیت کے لیے آمادہ تھا اور آمادہ کیوں نہ ہو، اسی کے لیے تو یہ سارے تانے بانے بنے جا رہے تھے، مسئلہ صرف مصر کاتھا، مصر اس نئے سیاسی محور میں شریک نہیں ہو سکتا تھا، بش کے اس نئے محور میں اسے کیا ملتااور کیا کھوتا اس کے سامنے بہت بڑا سوال تھا، اسرائیل کے ساتھ سیاسی تعلقات بحال کرنے کے بعد اس نے کچھ پایا تھا تو بہت کچھ کھویا تھا، اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد اس کی کھوئی ہوئی زمین مل گئی تھی اور مصالحت کے بعد بہت سے خر چوں کے بوجھ سے نجات پا چکا تھا، مزید اسے کچھ ملنے والا نہیں تھا، اس نئے محور میں یافت ایران کی ہوتی اور اسرائیل کی، ترکی کے تجارتی اور سفارتی فوائد بڑھ جاتے تھوڑی سی جنبش سے ترکی ایرانی املاک کے قریب ہوا تھا اور شام کے ساتھ اس کا ۲۰؍ملین کا سالانہ تجارتی لین دین ہونے لگا تھا۔