• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرمین کی فلم اس قدر اہم کیوں؟

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
اجلے کردار کی رعنائی اور تابندہ عزم و ہمم کی زیبائی سے جان بوجھ کر صرف نظر برت کر، اپنے وطن کے چند ناسوروں کے مکروہ کردار کو اجاگر کر کے یہ تاثر دینے والے لوگ کہ یہ ملک برائیوں کی آماجگاہ ہے اور پھر اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن سے ایوارڈ لینے والے ہاتھ اس وطن کے خیر خواہ ہیں یا بدخواہ؟ برائیوں کی نشان دہی ضرور کیجئے، جرائم کی بیخ کنی ہر صورت کیجئے مگر کسی دشمن ملک میں جا کر اس کا ڈھنڈورا پیٹنا کون سی دانش مندی ہے؟ اغیار کے سامنے اپنی خامیاں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور پھر فتح کے شادیانے بجانا کہ جیسے کوئی نعمت غیر مترقبہ حاصل ہو گئی ہو، چہ معنی دارد؟ حالانکہ عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنا یا دیگر کوئی بھی جرم ہو، اکثر کا سبب یہ فلمیں ہی تو ہیں۔
جدہ، سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے، 2009ءمیں وہاں سیلاب نے بڑی تباہی مچائی، 120لوگ اس سیلاب میں لقمہ اجل بنے، سیلاب کی طغیانیوں اور سرکش لہروں میں ڈوبتے لوگوں کی جان بچانے کے لئے فرمان علی نامی ایک نوجوان نے جرات اور دلیری کی ایک عظیم داستان رقم کی۔ 32 سالہ فرمان علی نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر 14لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا، وہ ایک ایک کر کے چودہ انسانوں کو سیلاب کے منہ میں سے زندہ نکال لایا مگر جب 15ویں شخص کو بچانے گیا تو وہ خود سرکش موجوں کا مقابلہ نہ کر سکا اور زندگی کی بازی ہار گیا۔ فرمان علی ایک سٹور پر کام کرتا تھا، آپ یہ سن کر یقینا حیران ہوں گے کہ فرمان علی کا تعلق پاکستان کے شہر سوات سے تھا، سعودی عرب کے فرمانروا عبداللہ نے نہ صرف اسے سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا بلکہ ایک شاہراہ کا نام بھی اس سے منسوب کر دیا۔ ایسی ہی ایک منفرد شخصیت ماسٹر محمد ایوب کی ہے جو گزشتہ پچیس سالوں سے بغیر کسی تنخواہ کے اسلام آباد کے ایک علاقے میں بچوں کو مفت تعلیم دے رہا ہے، اس نے اپنی زندگی کی 25 بہاریں علم کی روشنی عام کرنے کے لئے کھپا دیں مگر کوئی اسے جانتا تک نہیں۔ چند سال پیشتر لودھراں میں اعلیٰ کردار کے حامل اساتذہ کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی، میں بھی اس تقریب میں مدعو تھا، اس تقریب میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر رانا مہدی حسن صاحب بھی موجود تھے جو اپنی 35 سالہ سروس میں کبھی ایک منٹ بھی سکول لیٹ نہیں پہنچے، یہی نہیں بلکہ انہوں نے اتنی طویل سروس میں کوئی ایک چھٹی بھی نہ لی، حتیٰ کہ وہ اپنی شادی کے دن بھی سکول آئے اور باقاعدہ بچوں کوپڑھایا مگر نہ معلوم کہ میڈیا کی آنکھ سے ایسے عظیم المرتبت لوگ کیونکر اوجھل ہیں؟ شرمین عبید چنائے کی نظر انتخاب بھی ایسے لوگوں پر نہ ٹکی، اس نے اپنی فلم کا محور و مرکز ایسی خواتین کو بنایا جن کے چہروں پر تیزاب ڈال دیا گیا، ذرا سوچیے کہ تیزاب گردی کے ایسے گھمبیر واقعات ہیں جو رونما ہوتے ہیں، یقینا ایسا فعل انتہائی گھمبیر، بھیانک اور مستوجب سزا ہے۔ نبی مکرمﷺ نے تو چہرے پر مارنے سے بھی منع فرمایا ہے، تیزاب ڈال کر چہرہ جھلسا دینے کی جس قدر مذمت اور تیزاب ڈالنے والے کی جتنی بھی مرمت کی جائے، کم ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات ہمارے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتے، یقینا کوئی بھی معاشرہ کلی طور پر جرائم سے پاک نہیں ہوتا، سو ایسے واقعات دنیا میں کہیں بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے متعلق ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہمارے معاشرے کی درست عکاسی نہیں ہے۔ شرمین عبید کو چند خواتین کے تیزاب سے جلتے چہرے تو دکھائی دیئے مگر اسے امریکی ڈرون طیاروں سے برسائے گئے بارود میں جھلستے بچوں، خواتین اور بزرگوں کے زخم آلود چہرے کیوں نظر نہ آئے....2004ءسے یہ خونیں سلسلہ جاری ہے اور تھمنے میں ہی نہیں آ رہا، کیا یہ ہماری ملکی سالمیت اور خود مختاری پر طمانچہ نہیں، کیا یہ خواتین پر ظلم اور سفاکیت نہیں؟ اگر خواتین پر ہی ظلم دکھانا مقصود تھا تو کیا شرمین عبید کو نہیں خبر کہ صرف 2010ءمیں 900 افراد ڈرون طیاروں سے برسائی گئی آگ میں بھسم ہو گئے، اب تک 2712 کے قریب لوگ ڈرون طیاروں کے منہ کا لقمہ بن چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ ڈرون طیاروں سے برسائے گئے بارود میں ایسے کیمیکل شامل ہوتے ہیں جن کے سامنے تیزاب کی کوئی حیثیت ہی نہیں، حد تو یہ ہے کہ ان ڈرون طیاروں کے حملوں سے مرنے والوں کی نماز جنازہ ادا کرنے والوں پر بھی حملے کئے گئے، اگر خواتین پر ظلم و زیادتی دکھانا مطمح نظر تھا تو اسے امریکی عقوبت خانے میں سسکتی تڑپتی عافیہ صدیقی کیوں دکھائی نہ دی؟
لوگ بغلیں بجا رہے ہیں کہ پاکستانی فلم کو آسکر ایوارڈ مل گیا، میں کہتا ہوں یہ پہلے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ امریکا نے خود یہ فلم تیار کروائی اور پھر اسے ایوارڈ دے کر ساری دنیا کے سامنے پاکستان کا یہ نقشہ پیش کیا کہ یہاں خواتین کے چہروں پر تیزاب ڈال کر جھلسا دینے والے سفاک لوگ بستے ہیں۔ شرمین عبید چنائے جو امریکا میں مقیم ہے اور نیو یارک ٹائمز ٹیلی ویژن سے وابستہ ہے، خود کہتی ہے کہ اس کے ساتھی ڈائریکٹر ڈینیل ینگ نے یہ فلم بنانے کا مشورہ دیا تھا۔
پاکستان میں گاہے گاہے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں، یقینا مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے مگر پاکستان سے زیادہ جرائم کی منڈی تو امریکا خود ہے، کیا دنیا کو نہیں پتا کہ صرف 2006ءمیں امریکا میں 2 لاکھ 32 ہزار 9سو 60 خواتین کے ساتھ زیادتی کے مقدمات درج ہوئے، اب بھی روزانہ 600 سے زائد خواتین کے ساتھ جنسی درندگی ہوتی ہے۔ 2005ءمیں ایک ہزار ایک سو اکاسی خواتین کو ان کے خاوندوں نے قتل کر ڈالا۔ امریکا میں ہمہ قسم کے جرائم کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ دس شہروں کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ سٹاک ٹون، راک فورڈ، ہالٹ مور، لٹل راک، آک لینڈ، میمفس ٹن، نیو ہیون کون، ایس ٹی لوئیس میسوری، ڈیٹرائیٹ اور فلنٹ وہ شہر ہیں جو جنسی جرائم کے باعث سب سے زیادہ خطرناک تصور کئے جاتے ہیں، اگر انہیں ہماری خواتین کے چہروں کا اتنا ہی خیال ہے تو جب یہ خواتین اپنے چہروں کو پردے میں چھپاتی ہیں تو پھر وہ سیخ پا کیوں ہو جاتے ہیں۔ تیزاب سے جلتے چہروں پر ترس کھانے والے یہ لوگ قرآن کو جلانے سے بھی کیوں نہیں چوکتے؟ قرآن کو نذر آتش کرنے والے ان لوگوں کے دل آخر ہماری خواتین کے چہروں کے متعلق کیوں کڑھ رہے ہیں؟ یہ کیوں ہمارے غم میں اس قدر نڈھال ہیں کہ اس پر فلم بنائی جا رہی ہیں، یہ ہماری خواتین کے چہروں کی حفاظت کیلئے اتنے ہلکان اور دبلے کیوں ہوئے جا رہے ہیں؟ ذرا سنجیدگی سے سوچئے اور غور کیجئے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput
 
Top