• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک کا مفہوم اور اس کی اقسام

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمان الرحیم

شرک کی تعریف اور اقسام

(الف) شرککی تعریف:شرک کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی اور کو شریک کرنا۔ الوہیت میں شرک کا یہ انداز ہے کہ اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو بھی پکارا جائے یا عبادت کی کوئی بھی قسم اللہ کے غیر کے لیے بجا لائی جائے جیسے ذبح، نذر و نیاز، خوف و رجا اور محبت۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اوراس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
۱۔ شرک میں الٰہ والی خصوصیات کسی اور میں ثابت کرکے مخلوق کو خالق کے مشابہہ قرار دیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنے والا مخلوق کو اللہ عزوجل اور خالق کے مشابہہ قرار دیتا ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
(اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ)(لقمان:۳۱)
”بلاشبہ شرک ظلم عظیم ہے۔“
ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کی بجائے کسی دوسری جگہ رکھنا۔ غیر اللہ کی عبادت کرنے والا بھی عبادت کسی اور کی بجا لا رہا ہوتا ہے اور اللہ عزوجل کا حق کسی اور کو دے رہا ہوتا ہے جو کہ اس کا حق دار ہی نہیں اور یہی سب سے بڑا ظلم ہے۔
۲۔ اللہ عزوجل نے بتلایا ہے کہ شرک سے توبہ کیے بغیر مرنے والے کے لیے مغفرت اور معافی کی گنجائش نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ)(النسا:۸۴)
”یقینا اللہ نے اپنے ساتھ کیے گئے شرک کو معاف نہیں کرنا۔ اس کے علاوہ جسے جو چاہے معاف کردے گا۔“
۳۔ اللہ عزوجل نے خود اعلان فرمایا ہے کہ اس نے مشرک کے لیے جنت حرام قرار دی ہے اور مشرک جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ)(المائدۃ:۲۷)
”جس نے بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“
۴۔ شرک کی وجہ سے دیگر تمام نیک اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
(وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ)(الانعام:۸۸)
”اگر یہ شرک کرتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے۔“
اسی طرح مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِِلَیْکَ وَاِِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَءِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ)(الزمر:۵۶)
”آپ کی طرف اور آپ سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔“
۵۔ مشرک کا خون اور مال حلال ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَ احْصُرُوْھُمْ وَ اقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ)(التوبۃ:۵)
”تم مشرکین کو جہاں بھی پاؤ ان کو قتل کرو، انھیں پکڑو، گھیرو اور ہر گھات والی جگہ پر ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔“
نبی کریمe کا فرمان ہے:
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا:لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، فَمَنْ قَالَ:لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی مَالَہُ وَنَفْسَہُ إِلَّا بِحَقِّہِ، وَحِسَابُہُ عَلَی اللَّہِ“ (صحیح البخاری:۴۲۹۶، صحیح مسلم:۰۲)
”مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ کے اقرار کرنے تک ان سے قتال کرتا رہوں۔ جس نے بھی لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا اس نے مجھ سے اپنی جان و مال کو محفوظ کر لیا، سوائے استثنائی صورتوں کے،اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔“
۶۔ شرک کبیرہ ترین گناہ ہے۔ رسول اللہe نے ایک روز اپنے صحابہ کرامy سے فرمایا:
اَلَا اُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ؟ قُلْنَا: بَلٰی یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! قَالَ: الْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَ عَقوْقُ الْوَالِدَیْنِ‘ (صحیح البخاری: ۴۵۶۲، وصحیح مسلم: ۷۸)
”کیا میں تمھیں کبیرہ ترین گناہوں کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ صحابہ کرامy نے کہا: کیوں نہیں! ضرور اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“
امام ابن قیمa کا کہنا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود بیان کیا ہے کہ مخلوق کی تخلیق کا مقصد ہے۔ اللہ عزوجل کے اسماء و صفات کی معرفت حاصل کرنا۔ صرف اس کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور لوگوں کا اس عدل و انصاف کا بول بالا کرنا جس کی وجہ سے آسمان و زمین کا نظام قائم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ)(الحدید:۵۲)
”ہم نے رسولوں کو صاف صاف نشانیاں اور ہدایات دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان بھی نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔“
اس آیت مبارکہ میں اللہ عزوجل نے بتلایا ہے کہ اسی نے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور انھیں کتابوں سے نوازا تاکہ لوگ عدل و انصاف پر کاربند رہیں۔ عظیم ترین عدل تو توحید ہے۔ یہی عدل کی اَساس اور بنیاد ہے جب کہ شرک عظیم ظلم ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
(اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) (لقمان:۳۱)
”بلاشبہ شرک ظلم عظیم ہے۔“
شرک عظیم ترین ظلم ہے اور توحید اصل عدل ہے۔جو چیز بھی اس مقصود حقیقی کے خلاف ہوگی وہ کبیرہ ترین گناہ ہو گی۔
امام صاحب کا کہنا ہے کہ شرک فی نفسہٖ اس مقصود حقیقی کے خلاف ہے اس لیے یہ مطلق طور پر کبیرہ ترین گناہ ہے۔ اللہ عزوجل نے ہر مشرک پر جنت حرام قرار دی ہے اور اہل توحید کے لیے مشرک کا جان و مال مباح ٹھہرایا ہے۔ اہل توحید مشرکین کو اپنے غلام بناسکتے ہیں کیوں کہ انھوں نے رب تعالیٰ کی عبدیت سے منہ موڑا ہے۔ اللہ عزوجل مشرک کاکوئی عمل قبول نہیں کرتے، روزِ قیامت نہ تو اس کے بارے میں کسی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ نہ ہی اس کی کوئی بات مانی جائے گی اور نہ ہی اسے کسی طرح کی ڈھیل دی جائے گی۔ مشرک آدمی اللہ عزوجل کے بارے میں جاہل ترین ہوتا ہے کیونکہ اس نے اللہ کا شریک بنایا ہے۔ یہ انتہائی درجے کی جہالت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ظلم عظیم بھی۔ مشرک اس ظلم کے ذریعے اللہ عزوجل کا تو کوئی کوئی نقصان نہیں کرتا،وہ تو اپنے آپ پر ہی ظلم و زیادتی کرتا ہے اور یہ اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔(ابن القیم، الجواب الکافی،ص:۹۰۱)
۷۔ شرک نقص اور عیب ہے۔ اللہ عزوجل کی ذات ان دونوں طرح کے عیوب سے پاک ہے۔ شرک کرنے والا اللہ عزوجل کی اس پاکی کا انکار کرتا ہے۔

(ب) شرک کی انواع
شرک دو طرح کا ہوتا ہے۔
پہلی نوع:شرک ِ اکبر ہے، اس وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کا مرتکب اگر توبہ کے بغیر مر جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن قرار پاتا ہے۔ اس شرک سے مقصود کسی طرح کی عبادت غیر اللہ کے لیے بجا لانا ہے۔ جیسے: غیر اللہ سے دعا ء و مناجات کرنا۔صدقہ و خیرات، نذرو نیاز اور جانور ذبح کرکے اللہ عزوجل کی بجائے قبروں اور جن و شیاطین کا تقرب حاصل کرنا۔ مرُ دوں یاجن و شیاطین کے نقصان پہنچانے یا بیماری لگانے سے ڈرنا۔ کسی چیز کے حصول یا مصائب و آلام سے نجات کے لیے غیر اللہ سے ایسی امیدیں وابستہ کرنا جس کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہ ہو۔ جیسے کہ اب اولیاء اور صالحین کی قبروں اور مزاروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اللہ عزوجل کا واضح ارشاد ہے:
(وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاء ِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّہِ) (یونس:۰۱/۸۱)
”یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نا تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نفع۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔“
دوسری نوع:شرک ِ اصغر ہے۔ اس کا مرتکب ملت سے خارج تو نہیں ہوتا،البتہ اس کی توحید میں نقص واقع ہو تا ہے۔ یہ شرک اکبر کا ذریعہ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔

پہلی قسم
: ظاہری شرک، اس سے مراد شرکیہ الفاظ و افعال ہیں۔ الفاظ کی مثال ہے،جیسے: غیر اللہ کی قسم اٹھانا۔ رسول اللہeکا واضح فرمان ہے:
مَن حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَر وَ أَشْرَکَ“ (سنن الترمذی: ۵۳۵۱۱ و مسند احمد:۲۷۰۶)
”غیر اللہ کی قسم کھانے والا کفر اور شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔“
اسی طرح کسی کا یوں کہنا کہ ”جو اللہ نے اور آپ نے چاہا۔“ ایسا کہنے والے کے بارے میں رسول اللہe نے فرمایا تھا:
اَجَعَلْتَنِی لِلّٰہِ عَدْلًا؟ بَلْ مَا شَاءَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ“ (مسند احمد: ۱۶۵۲، السلسلۃ الصحیحۃ: ۹۳۱)
”تو نے تومجھے اللہ کے برابر کردیا ہے؟ بلکہ (یوں کہو) جو صرف اللہ نے چاہا۔“
اسی طرح یہ کہنا کہ ”اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتا یا کرتا“ بلکہ درست یہ ہے کہ یوں کہا جائے ”جو اللہ نے چاہا اور پھر فلاں نے۔“ ِ”اگر اللہ اور پھر فلاں نہ کرتا یا ہوتا۔“ لفظ ”ثُمَّ“ جس کا معنی ”پھر“ ہے۔ یہ ترتیب اور وقفے کے لیے ہوتا ہے۔ اس طرح بندے کی چاہت کو اللہ کی مشیئت کے تابع ہونے کا اقرار اور اظہار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
(وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاء ِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّہِ)(التکویر:۱۸/۹۲)
”تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔“
حرف ”و“ جس کا معنی ”اور“ ہے۔یہ صرف جمع کے لیے آتا ہے۔ اشتراک میں نہ ترتیب ضروری ہوتی ہے اور نہ ہی آگے پیچھے ہوناضروری ہوتا ہے۔ جیسے کوئی کہے ”میرے تو صرف اللہ اور آپ ہی ہیں“ اس کا مطلب ہے کہ مجھ پر اللہ کی خیرو برکات اور آپ کی نوازشات ہیں۔

شرکیہ افعال و اعمال کی مثال: جیسے کہ نقصان سے بچنے یا بیماری سے شفا کے لیے کڑا پہننا، یا دھاگا باندھنا۔ نظر بد سے بچاؤ کے لیے تعویذ ڈالنا۔ اگر آدمی اس طرح کی اشیاء کو شفا کا ذریعہ یا نقصان سے بچاؤ کا سبب سمجھنے لگے تو وہ شرک اصغر ہے کیونکہ اللہ عزوجل نے ان میں ایسی کوئی تاثیر نہیں رکھی اور نہ ہی انھیں اس کے لیے بنایا ہے۔ لیکن اگر آدمی انھی چیزوں کو نفع یا نقصان کا مالک سمجھنے لگے تو یہ شرک اکبر ہے کیونکہ اس نے اللہ عزوجل کے اختیارات کسی اور کو دیے ہیں۔

دوسری قسم:شرک اصغر کی دوسری قسم شرک خفی ہے۔اس سے مراد نیت اورارادے میں شرک ہونا ہے۔ جیسے کہ ریاکاری اور دکھلاوا ہے۔مثال کے طورپر کوئی آدمی عمل تو ایسا کرے جو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہو، لیکن اس عمل سے مقصود لوگوں کی تعریف حاصل کرنا ہو۔ جیسے کہکوئی آدمی ظاہری طور پر اچھی نمازادا کرے اور صدقہ و خیرات کرے،لیکن اس کا مقصد لوگوں کی تعریف اورشہرت ہو۔ اسی طرح کوئی بآواز بلند ذکر و اذکاراور خوبصورت آواز میں تلاوتِ قرآن کرتا ہے، لیکن اسسے مقصود لوگوں میں نیک نامی اور شہرت ہو۔ نیک عمل میں ریاکاری سے وہ عمل بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاء ِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّہِ)(الکھف: ۸۱/۰۱۱)
”جو بھی اپنے رب کی ملاقات کا آرزومند ہے وہ نیک عمل بجا لائے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔“
رسولِ مقبولe کا فرمان ہے:
إِنَّ اَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرکُ الأَصْغَرُ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّہِ! وَ مَا الشِّرْکُ الأَصْغَرُ؟ قَالَ: الرِّیَاء“ (مسند احمد:۰۳۶۳۲، السلسلۃ الصحیحۃ:۱۵۹)
”مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خدشہ شرک اصغر کا ہے، آپ ﷺسے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ریاکاری۔“
کسی دنیوی مقصد کے لیے عمل کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ جیسے کہ کوئی صرف حصولِ دنیا کے لیے لوگوں کی امامت کراتا ہے،اذان دیتا یا حج کرتا ہے، یا مال و متاع کے لیے جہاد کرتا یا دینی علم حاصل کرتا ہے۔ رسول اللہe نے فرمایا:
تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَالدِّرْہَمِ، وَالقَطِیفَۃِ، وَالخَمِیصَۃِ، إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ لَمْ یَرْض“ (صحیح البخاری:۷۸۸۲)
”درہم و دینار اور کپڑے، چادر کا پجاری ذلیل و رسوا ہو، اگر اسے کچھ مل جائے تو خوش ہو جاتا ہے اور محروم رہنے پر ناراض ہو جاتا ہے۔“
امام ابن قیمa کہتے ہیں کہ نیت اور ارادے میں شرک تو بے کنار سمندر ہے۔اس سے کم لوگ ہی بچ پاتے ہیں۔ جو بھی اپنے عمل سے رضائے الہٰی کے علاوہ کسی اور چیز کا خواہش مند ہو، اس کا مقصد قربتِ الٰہی کی بجائے کچھ اور ہے اور وہ اپنے عمل کی جزا دنیا میں لینا چاہتا ہے۔ ایسا آدمی نیت اور ارادے کے شرک میں مبتلا ہے۔ اخلاص کا مطلب ہے:افعال واقوال سے صرف رضائے الٰہی مطلوب و مقصود ہو۔ نیت و ارادہ صرف اور صرف اُسی ذاتِ باری تعالیٰ کو راضی کرنا ہو۔ یہی خلیل اللہ حضرت ابراہیمu کی حنیفی ملت ہے اور اسی کا اس ذات باری تعالیٰ نے ہر ایک کو حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی سے کچھ قبول نہ کیا جائے گا اور یہی حقیقت اسلام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِینَ) (آل عمران: ۳/ ۵۸)
”جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے گا وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا، بلکہ وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔“
یہی ملت ابراہیمی ہے، اس سے اعراض برتنے والا بلاشبہ بے وقوف ہے۔ (ابن القیم، الجواب الکافی،ص: ۵۱۱)
سابقہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک اکبر اور شرک اصغر میں کئی اعتبار سے فرق ہے۔جیسے:
۱۔ شرک اکبر کا مرتکب ملت سے خارج ہو جاتاہے،جب کہ شرک اصغر والا ملت سے خارج نہیں ہوتا۔
۲۔ شرک اکبر کا مرتکب جہنم میں ہمیشہ کے لیے رہے گا،جب کہ شرک اصغر والا اگر جہنم رسید ہو بھی گیا تو وہ اس میں ہمیشہ نہ رہے گا۔
۳۔ شرک اکبر کی وجہ سے دیگر تمام نیک اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں،جب کہ شرک اصغر سے دیگر اعمال ضائع نہیں ہوتے۔ بلکہ اس سے وہی عمل ضائع ہوتا ہے جس میں ریاکاری ہو یا جس سے مقصود حصولِ دنیا یا طلبِ شہرت ہو۔
۴۔ شرک اکبر کے مرتکب کا جان و مال مباح ہو جاتا ہے، جب کہ شرک اصغر کی وجہ سے جان و مال مباح نہیں ہوتا۔(ماخوذ من کتاب التوحید لصالح الفوزان )

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری رکن د ا ر ا لمعارف لاہور
(۲۶۶۶۳۴۴۔۶۰۳۰)
 
Top