• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جواب دینے میں بھی وقت لگا رہے ہیں جب کہ آپ آن لائن بھی ہوتے ہیں
پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا بہت مسئلہ ہے لاہور میں اس وقت ١٢ گھنٹے سے زیادہ کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اس وجہ سے بعض دفعہ جواب دینے میں تاخیر ہو جاتی ہے ورنہ آپ سے دوری ہمیں کب برداشت ہے۔
میں اپنا موقف رکھ چکا ہوں وہ غلط ہے یا صحیح آپ کو اعتراض ہے تو وجہ اعتراض تو بیان کرنا پڑے گا یا صرف اعتراض قائم کرنے سے کام چل جائے گا ہار جیت کا فیصلہ ہوجائے گا اور اپنی فتح کا اعلان فرمادیں گے[/QUOT]
بھائی ہار جیت کی بات نہیں ہے ہماری اس لمبی چوڑی بحث کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔
آپ مجھ سے شد و مد کے ساتھ یہ سوال کرتے رہے ہیں:
موسیٰ علیہ السلام کون سا علم سیکھنے گئے تھے( اللہ تعالی نے ان کو خضرعلیہ السلام کے پاس کیوں بھیجا تھا) کیا موسیٰ علیہ السلام شریعت کا علم سیکھنے گئے تھے یا وہ کوئی دوسرا علم تھا جس کی معلومات کے لیے تشریف لے گئے تھے پہلے اس کی وضاحت فرمادیں
جب میں نے اس کا جواب دے دیا تو آپ نے اس کا کوئی نتیجہ نکالے بغیر بات ختم کر دی۔
حضرت خضرؑ کو علم لدنی عطا ہوا تھا تو اس سے ثابت کیا ہوا یہ تو بتا دیجئے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اس اعتبار سے تو کچھ بھی ثابت نہیں ہوا
اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم شریعت نہیں تھا،وہ علم لدنی تھا جس کو علماء نے اَسرار و معارف کا اِلہامی علم قرار دیا ہے اس کے علاوہ اور کچھ ہے تو برائے مہربانی مطلع فرمادیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورة القصص٢٨: ٥٦)“(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) بلاشبہ آپ، جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔”(صحیح بخاری، التفسیر، باب تفسیر قولہ تعالی (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ)،حدیث ٤٧٧٢ و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی صحۃ اسلام من حضرہ الموت.....الخ، حدیث ٢٤)"
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
بھائی میں بات کو جتنا سمیٹنا چاہ رہا ہوں احباب اتنا ہی پھیلاتے جارہے ہیں
مولانا صاحب اب کسی طرح کا جواب عنایت نہ فرمائیں
جزاک اللہ خیراً
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم شریعت نہیں تھا،وہ علم لدنی تھا جس کو علماء نے اَسرار و معارف کا اِلہامی علم قرار دیا ہے
ٹھیک ہے بھائی علم لدنی تھا علم لدنی تھا لیکن اب کیا کیا جائے۔ آپ نے اس ایک موضوع پر اتنی ساری پوسٹیں کی ہیں تو کسی چیز کا اثبات تو کیجئے۔ مان لیا حضرت خضرؑ کے پاس علم لدنی تھا تو.......
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
عزیز محترم
آج میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اس تھریڈکی تمام ابحاث کا خلاصہ پیش کردوں لیکن اندازہ ہوا کہ ایک طویل عمل ہے اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آپ پھر دوبارہ سے الفاظ کے گورک دھندے میں الجھا لیتے اس لیے عرض ہے
میں باربار علم لدنی اور عجائبات پر اس لیے زور دے رہا تھا کہ آپ نے (اغلب) یا کسی اور صاحب نے علم لدنی سے ہی انکار کردیا تھا
اعتراض یہ تھا من لدنا قرآن پاک بہت جگہ استعمال ہوا ہے اس سے علم لدنی کہاں ثابت ہوا تو عزیز گرامی
یہ تو اتفاق ہوچکا کہ علم لدنی ہی تھا
اب اس میں جو احتمالات یا خفیہ اعتراضات یہ ہو سکتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ صوفیاء کو علم لدنی عطا ہوتا ہے ؟
تو محترم میں اس کا جواب دے چکا ہوں
جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا:
یہاں ظاہر نص سے یہ پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر کو علم لدنی سے نوازا تھا۔ کوئی ایسی نص پیش کر دیجئے جس سے پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے صوفیا کو علم لدنی سے نوازتا ہے۔
اگر آپ اس تھریڈ میں جواب نہیں دینا چاہتے تو نئے تھریڈ میں بھی جواب دے سکتے ہیں۔
اس کو جواب میں نے یہ دیا تھا:
مجھے یا د نہیں پڑتا کہ میں نے کہیں یہ لکھا ہو کہ صوفیاء کو علم لدنی عطا کیا جاتا ہے ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہے کہ علم لدنی ہے کیا اور اس کا دائرہ کار کیا ہے
میں نے یہ نہیں لکھا کہ صوفیاء کو علم لدنی عطا ہوتا ہے
میں نے لکھا ہے:
جب کسی کو اپنا امام استاذ ،پیر یا رہبر مان لیا تو من مانی چھوڑ دینی چاہیے( بشرطیکہ ان کی باتیں شریعت سے متعارض نہ ہوں )اس سے اکتساب فیض رک جاتا ہے اور علم کی برکت ختم ہوجاتی ہے ، اگرچہ علم توہوتا ہے مگر علم لدنی ختم ہوجاتا ہے علم کی باریکیاں اور آمد بند ہوجاتی ہے جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی
محترم آپ معلم ہیں اس بات کوآپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئی شاگرد استاذ کی نافرمانی کرے تو اس شاگرد پر علم کا فیض بند ہوجاتا ہے اور علم کی برکتیں ختم ہوجاتی ہیں یعنی منجانب اللہ قلب پر علم کا ورود رک جاتا ہے اس ورود علم کو علم لدنی کہا ہے

دوسرا اعتراض تھا آپ کا عجائبات سے متعلق تو اس کا جواب میں نے یہ دیا تھا:
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
(رحم الله أخي موسى، لو صبر لأرانا من عجائب علم الله عند الخضر عليه السلام)

اب رہی آپ کی یہ بات :
ٹھیک ہے بھائی علم لدنی تھا علم لدنی تھا لیکن اب کیا کیا جائے۔ آپ نے اس ایک موضوع پر اتنی ساری پوسٹیں کی ہیں تو کسی چیز کا اثبات تو کیجئے۔ مان لیا حضرت خضرؑ کے پاس علم لدنی تھا تو.......
تو بات ختم آپ اپنے گھر خوش میں اپنے گھر خوش
اور بھائی جان حرب بھائی کا یہ حوالہ کافی ہے:
(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورة القصص٢٨: ٥٦)“(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) بلاشبہ آپ، جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔”(صحیح بخاری، التفسیر، باب تفسیر قولہ تعالی (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ)،حدیث ٤٧٧٢ و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی صحۃ اسلام من حضرہ الموت.....الخ، حدیث ٢٤)"
اس لیے میری گزارش ہے کہ بات کو الجھانے اور بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں میں بار بار مراسلت کے اختتام کی گزارش کررہا ہوں
اور بھائی’’فوق کل ذی علم علیم،دست بالای دست بسیار است‘‘
اگر آپ یہی کہلوانا چاہ رہے ہیں تو بھائی میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ’’ اعلم‘‘ہیں جب موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام میں علم کا فرق ہوسکتا ہے تو میری کیا بساط
فقط واللہ اعلم بالصوب
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
پروفیسر نظامی اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔


کوئی انسانی تحریک خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، جب افراط وتفریط، عمل درعمل کا بازیچہ بنتی ہے تو اس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی، فقہ اسلامی کی تدوین نے مسلمانوں کی دینی اور سماجی زندگی کو سنوارنے میں عظیم الشان کام کیا، لیکن جب اس کو حیلہ بازیوں اور مکاریوں کا ذریعہ بنایا گیا تو مسلمانوں کی عملی زندگی بےروح ہوکر رہ گئی، متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کی زد سے بچانے میں بڑی خدمت انجام دی لیکن جب علم کلام نے شکوک وشبہات پیدا کرنا مقصد بنا لیا تو مسلمانوں کی ذہنی زندگی میں بڑا انتشار پیدا ہوگیا ہی حال تصوف کا بھی ہوا۔ جب باطنی زندگی کو ظاہری زندگی سے الگ کر لیا گیا تو شریعت و طریقیت کی تفریق پیدا ہوگئی دنیا پرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی گئی، مجاز پرستی، پیر پرستی، قبرپرستی، نغمہ وسرور کو روحانی ترقی کا لازم جزء قرار دیا گیا! بیشک یہ سب گمراہیاں تصوف سے بیدار ہوئیں (تاریخ مشائخ چشت پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ١١)۔۔۔
 
Top