السلام علیکم
عزیز محترم
آج میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اس تھریڈکی تمام ابحاث کا خلاصہ پیش کردوں لیکن اندازہ ہوا کہ ایک طویل عمل ہے اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آپ پھر دوبارہ سے الفاظ کے گورک دھندے میں الجھا لیتے اس لیے عرض ہے
میں باربار علم لدنی اور عجائبات پر اس لیے زور دے رہا تھا کہ آپ نے (اغلب) یا کسی اور صاحب نے علم لدنی سے ہی انکار کردیا تھا
اعتراض یہ تھا
من لدنا قرآن پاک بہت جگہ استعمال ہوا ہے اس سے علم لدنی کہاں ثابت ہوا تو عزیز گرامی
یہ تو اتفاق ہوچکا کہ علم لدنی ہی تھا
اب اس میں جو احتمالات یا خفیہ اعتراضات یہ ہو سکتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ
صوفیاء کو علم لدنی عطا ہوتا ہے ؟
تو محترم میں اس کا جواب دے چکا ہوں
جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا:
یہاں ظاہر نص سے یہ پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر کو علم لدنی سے نوازا تھا۔ کوئی ایسی نص پیش کر دیجئے جس سے پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے صوفیا کو علم لدنی سے نوازتا ہے۔
اگر آپ اس تھریڈ میں جواب نہیں دینا چاہتے تو نئے تھریڈ میں بھی جواب دے سکتے ہیں۔
اس کو جواب میں نے یہ دیا تھا:
مجھے یا د نہیں پڑتا کہ میں نے کہیں یہ لکھا ہو کہ صوفیاء کو علم لدنی عطا کیا جاتا ہے ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہے کہ علم لدنی ہے کیا اور اس کا دائرہ کار کیا ہے
میں نے یہ نہیں لکھا کہ صوفیاء کو علم لدنی عطا ہوتا ہے
میں نے لکھا ہے:
جب کسی کو اپنا امام استاذ ،پیر یا رہبر مان لیا تو من مانی چھوڑ دینی چاہیے( بشرطیکہ ان کی باتیں شریعت سے متعارض نہ ہوں )اس سے اکتساب فیض رک جاتا ہے اور علم کی برکت ختم ہوجاتی ہے ، اگرچہ علم توہوتا ہے مگر علم لدنی ختم ہوجاتا ہے علم کی باریکیاں اور آمد بند ہوجاتی ہے جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی
محترم آپ معلم ہیں اس بات کوآپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئی شاگرد استاذ کی نافرمانی کرے تو اس شاگرد پر علم کا فیض بند ہوجاتا ہے اور علم کی برکتیں ختم ہوجاتی ہیں یعنی منجانب اللہ قلب پر علم کا ورود رک جاتا ہے اس ورود علم کو علم لدنی کہا ہے
دوسرا اعتراض تھا آپ کا عجائبات سے متعلق تو اس کا جواب میں نے یہ دیا تھا:
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
(رحم الله أخي موسى، لو صبر لأرانا من عجائب علم الله عند الخضر عليه السلام)
اب رہی آپ کی یہ بات :
ٹھیک ہے بھائی علم لدنی تھا علم لدنی تھا لیکن اب کیا کیا جائے۔ آپ نے اس ایک موضوع پر اتنی ساری پوسٹیں کی ہیں تو کسی چیز کا اثبات تو کیجئے۔ مان لیا حضرت خضرؑ کے پاس علم لدنی تھا تو.......
تو بات ختم آپ اپنے گھر خوش میں اپنے گھر خوش
اور بھائی جان حرب بھائی کا یہ حوالہ کافی ہے:
(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورة القصص٢٨: ٥٦)“(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) بلاشبہ آپ، جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
”(صحیح بخاری، التفسیر، باب تفسیر قولہ تعالی (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ)،حدیث ٤٧٧٢ و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی صحۃ اسلام من حضرہ الموت.....الخ، حدیث ٢٤)"
اس لیے میری گزارش ہے کہ بات کو الجھانے اور بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں میں بار بار مراسلت کے اختتام کی گزارش کررہا ہوں
اور بھائی’’
فوق کل ذی علم علیم،دست بالای دست بسیار است‘‘
اگر آپ یہی کہلوانا چاہ رہے ہیں تو بھائی میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ
’’ اعلم‘‘ہیں جب موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام میں علم کا فرق ہوسکتا ہے تو میری کیا بساط
فقط واللہ اعلم بالصوب