• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت اور فقہ کا فرق

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
شریعت اور فقہ کا فرق
----------------------
شریعت تو کتاب وسنت ہیں اور فقہ، کتاب وسنت کا فہم ہے جو کہ ایک عالم دین کو حاصل ہوتا ہے۔ فقہ، شریعت نہیں ہے بلکہ شریعت کا فہم ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فقہ میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ شریعت ایک ہے جو کہ کتاب وسنت ہے جبکہ فقہیں زیادہ ہیں کہ جن میں سے آٹھ اس وقت دنیا میں رائج ہیں۔ اور جن جن ممالک میں یہ فقہیں رائج ہیں، ان کا ذکر ملحق امیج میں دیکھا جا سکتا ہے۔

پس شریعت اور فقہ میں ایک بنیادی فرق تو یہ ہوا کہ شریعت اصل ہے اور فقہ اس کا ماخوذ ہے یعنی فہم ہے۔ دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ دوام شریعت کو حاصل ہے نہ کہ فقہ کو۔ پس قیامت تک کے لیے شریعت کی اتباع کو واجب قرار دینا تو لازم ہے لیکن ہر عامی اور عالم کے لیے کسی متعین فقہ کی تقلید کو لازم قرار دینا، اس فقہ کو دوام دینے کے مترادف ہے جو کہ شریعت کا خاصہ ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کے الفاظ میں شریعت منزل ہے اور فقہ رستہ ہے۔ جس طرح فقہاء کو بائی پاس کر کے شریعت کا فہم حاصل کرنا غلط منہج ہے، اسی طرح فقہاء کی آراء کو منزل بنا لینا بھی غلط ہے۔ فقہاء رستہ ہیں، منزل نہیں ہیں، منزل کتاب وسنت ہے۔

ہر دور کے علماء سلف صالحین کے منہج فہم کے مطابق اجتہاد کریں گے، یہ اجتہاد قدیم مسائل میں بھی ہو گا کہ جن میں فقہاء اپنی آراء پیش کر چکے کہ ان میں اپنے اجتہاد سے ترجیح قائم کریں اور جدید میں بھی کہ جن میں فقہاء کی آراء موجود نہیں ہیں۔ یہ اجتہاد کرنا علماء پر فرض ہے اور اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو یہ دین اس تقلیدی جمود کا شکار ہو جائے گا کہ جس سے معاشرے میں دین پر اعتماد میں کمی واقع ہو گی اور دین کے قابل عمل ہونے کے بارے لوگوں کے خلجان میں اضافہ ہو گا۔

عوام کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے معاصر دور کے علماء کی اتباع کریں، اور تقلید اور اتباع میں فرق یہ ہے کہ تقلید میں عالم دین کی پیروی کی جاتی ہے لیکن اس سے دلیل طلب نہیں کی جاتی جبکہ اتباع میں عالم دین سے دلیل بھی مانگی جاتی ہے اور پیروی عقیدتا تو دلیل کی ہوتی ہے اور عملا عالم دین کی ہوتی ہے۔

معاشرے میں مفتیوں کی ایسی بہتات ہے کہ جیسے رمضان میں کھجور کی لیکن سوچوں پر تالے پڑے نہیں ہوئے بلکہ جان بوجھ کر ڈال دیے ہیں، اگر دس سال کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مفتی کا کام صرف اتنا ہے کہ فتاوی شامیہ یا فتاوی عالمگیریہ کھول کر سائل کو مسئلہ بتلا دے تو بھئی خدا کے لیے ان کتابوں کے آسان فہم ترجمے اور شروحات لکھ کر عوام کے ہاتھ میں تھما دو اور یہ اتنے بڑے بڑے دار العلوموں کے لیے، زکوتیں، صدقے اور چندے لینا بند کر دو تا کہ اسی پیسے سے معاشرے میں غریبوں کی فلاح کا کام ہو سکے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عوام کے ہاتھ میں کتاب وسنت تھما دو کہ ہر شخص کو مجتہد بنا دو، میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ مفتی صاحب مجتہد مطلق بن کر نئی اصول فقہ اور مصادر دین وضع کرنا شروع کر دیں، مقصود کلام یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام، ساری فقہوں کو ایک ہی فقہ اسلامی شمار کریں، بوحنیفہ ومالک، شافعی وحنبل، بخاری وابن تیمیہ، یہ سب ہمارے فقہاء ہیں، مقاصد شریعت اور معاشرے کی مصالح کو اہمیت دیں، اور اجتہاد کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کریں، اگر علماء اجتہاد نہیں کریں گے تو پھر معاشرے میں وہ لوگ اجتہاد کر رہے ہیں کہ جنہیں وہ اجتہاد کا اہل نہیں سمجھتے۔
حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
فقہ اورشریعت میں فرق بتانے والے بڑے کنفیوز ہیں، وہ کہتے ہیں :
شریعت اصل ہے اور فقہ اس کا ماخوذ ہے یعنی فہم ہے۔
یہ بے تکی بات ہے،قرآن اور حدیث کافہم کیاقرآن وحدیث سے کوئی علیحدہ چیز ہے،ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ الفاظ الگ ہوتے ہین اورمعانی الگ ہوتے ہیں، آپ شریعت کو الفاظ اورفقہ کو معانی قراردے لیں کسی کو اختلاف نہیں ہوگالیکن قرآن وحدیث کا فہم کو قرآن وحدیث کے ساتھ ترادف کی نسبت ہے یاتباین کی؟ایک شخص قرآن وحدیث سے جوکچھ سمجھے گاوہی اس کے نزدیک قرآن وحدیث ہوگا ،یاکچھ اور؟
سوال یہ اٹھے گاکہ اگرقرآن وحدیث کا فہم علیحدہ شے ہے تو پھر نفس شریعت سوائے الفاظ کے اورکچھ نہیں بچتا، کیونکہ جب بھی قرآن کی کسی آیت یاحدیث کا کوئی مطلب یامعنی بیان کریں گے وہ آپ کا مفہوم ہوگا جوآپ نے اس آیت سے سمجھاہے؟
یہ تقسیم مولانا ادریس زبیر صاحب نے بھی کی ہے لیکن اس کے ثبوت میں کوئی دلیل وہ پیش نہیں کرسکے اورنہ حافظ زبیر صاحب کے ہی پاس اس تقسیم اورتفریق کی کوئی معتبر ،قابل اعتماد دلیل ہے۔
دعویٰ کے ساتھ دلیل بہت ضروری ہے، محض الفاظ دلیل کی جگہ کبھی نہیں لے سکتے۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
فقہ ہر مجتھد کا اپنا فھم ہے
جب وہ شریعت کے اصل معنی کے موافق ہوجائے تو شریعت کا اطلاق اس پر درست ہے ورنہ نہیں
لہذا مجمع علیہ مسائل میں تو ہم کہ سکتے ہیں ہیں کہ فقہ و شریعت یہاں ایک ہے.
اختلافی مسائل میں ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ شریعت کا مقصود ہے.
اور ہم پر اہل سنت کے منھج استدلال کے مطابق کیے گئے اپنے اجتھاد پر عمل ہی واجب ہے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
امام شافعی رحمہ اللہ کے الفاظ میں شریعت منزل ہے اور فقہ رستہ ہے۔ جس طرح فقہاء کو بائی پاس کر کے شریعت کا فہم حاصل کرنا غلط منہج ہے، اسی طرح فقہاء کی آراء کو منزل بنا لینا بھی غلط ہے۔ فقہاء رستہ ہیں، منزل نہیں ہیں، منزل کتاب وسنت ہے۔
۔۔۔۔ زبردست
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ بے تکی بات ہے،قرآن اور حدیث کافہم کیاقرآن وحدیث سے کوئی علیحدہ چیز ہے،ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ الفاظ الگ ہوتے ہین اورمعانی الگ ہوتے ہیں، آپ شریعت کو الفاظ اورفقہ کو معانی قراردے لیں کسی کو اختلاف نہیں ہوگالیکن قرآن وحدیث کا فہم کو قرآن وحدیث کے ساتھ ترادف کی نسبت ہے یاتباین کی؟ایک شخص قرآن وحدیث سے جوکچھ سمجھے گاوہی اس کے نزدیک قرآن وحدیث ہوگا ،یاکچھ اور؟
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿سورة النساء ٨٢﴾
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (ترجمہ: احمد علی لاہوری)
یعنی کہ منزل من اللہ میں اختلاف و تضاد نہیں ہو سکتا! اور قرآن وحدیث منزل من اللہ ہیں، اور ان میں تضاد نہیں!
جبکہ فقہ میں اختلاف وتضاد موجود ہے، اسی لئے مجتہد مصیب بھی ہوتا ہے، اور مخطی بھی! اس میں کوئی دو رائے نہیں!
لہٰذا اختلافی شيء کو قرآن وحدیث قرار دینا، درست نہیں!
قرآن وحدیث اور ان کی فقہ میں جو مغایرت وتفاوت موجود ہے، اسے سمجھنا چاہیئے! اور اس مغایرت وتفاوت کا نظر انداز کرنا، قرآن وحدیث کے منزل من اللہ ہونے کی نفی کرنے کے مترادف ہے!

کہ منزل من اللہ میں اختلاف وتضاد نہیں ہو سکتا!
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ منزل من اللہ یعنی قرآن وحدیث کے معنی و مطالب میں بھی کوئی اختلاف وتضاد نہیں! اختلاف لوگوں کی فہم یعنی فقہ کا ہے!
اس اختلاف وتضاد کی نسبت لوگوں کے لئے رکھیں۔
 
Last edited:
Top