• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت کی تشکیل میں حدیث کا کردار !!!!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
السلام علیکم !!

اس امت میں ایک گروہ ہمیشہ سے ایسا موجود رہا ہے جو قرآن کو تو مانتا ہےلیکن حدیث کو نہیں مانتا ،یہ گروہ منکرین حدیث کا گروہ کہلاتا ہے،آج سے چودہ سو برس پہلے جب کہ اس گروہ کی موجودگی کاکوئی تصور بھی نہیں تھا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشین گوئی فرمادی تھی ،حدیث میں ہے :‘‘ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھے اور جب میری کوئی حدیث اس کے سامنے آئے تو وہ کہے کہ میں نہیں جانتا ہم نے یہ بات کتاب اللہ میں کہیں نہیں دیکھی جو ہمارے لیے کافی ہے’’ (ترمذی:5/37،رقم الحدیث :2663)۔


اگر آج بھی کوئی شخص حدیث کا انکار کرتا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کی صداقت کا آئینہ دار ہے، جہاں تک دلائل کی بات ہے ہر شخص اپنے اپنے مطلب کی بات کہہ بھی دیتا ہے اور اسے دلائل کے ذریعے مضبوط بھی بنادیا ہے، حقیقت عوام سے تو اوجھل رہتی ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ کس دلیل میں کتنا وزن ہے اور کو ن سی بات کہاں موزو ں ہے اور کہا غیر مناسب ہے، اب اسی مضمون کو لیجئے ،مضمون نگار نے اپنے دعوے کے حق میں جو دلائل پیش کئے ہیں ان سے ان کا دعویٰ ثابت بھی ہورہا ہے یا نہیں، اس پہلو پرانہوں نے غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی ، کون سی بات کس سیاق وسباق میں کہی جارہی ہے یہ بات بھی بڑی اہم ہے جسے مضمون نگار نے نظر انداز کیا ہے،پھر اپنے مطلب کی چند آیات منتخب کرلینا اور اس دعوے کے برخلاف صاف صریح اور واضح آیات سے صرف نظر کرلینا کتنی بڑی جسارت ہے، شاید مضمون نگار کو اس کا احساس نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ ہم فتنۂ انکار حدیث کا جائزہ لیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کے قرآن وحدیث کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہے، قرآن اگر متن ہے تو حدیث اس کی شرح ہے ، قرآن میں اگر مبادی واصول بیان کئے گئے ہیں تو حدیث میں فروغ وجزئیات پر بحث کی گئی ہے، جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ محض قرآن سے شریعت کو سمجھ لیں گے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔


بلاشبہ قرآن شریعت کے احکام کا اولین مآخذ اور اصل سرچشمہ ہے، لیکن اس میں بے شمار آیات مجمل ہیں جو تشریح وتوضیح ہے بغیر سمجھ میں نہیں آتیں، مثال کے طور پر قرآن کریم میں نماز کا حکم مجمل طور پر آیا ہے ، نہ اس میں رکعات کی تعداد بیان کی گئی ہے، نہ نماز پڑھنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور نہ نماز کے اوقات کی تعیین کی گئی ہے، اسی طرح زکوۃ کا معاملہ ہے، اس کا حکم بھی مطلقاً آیا ہے نہ وہ حد بیان کی گئی ہے جس پر زکوۃ ہے، نہ زکوٰۃ کے وجوب کی شرائط ونصاب زکوۃ کی مقدار کا ذکر ہے، باقی احکام شرعیہ کا بھی یہی حال ہے کہ قرآن کریم میں ان کا ذکر تو ہے مگر اجمال کے ساتھ تفصیل کے لیے ضروری ہے کہ ہر حکم کی شرائط اور ارکان وغیرہ واضح ہوں، حدیث اسی وضاحت کا نام ہے، اگر صحابہ کرام ؓ اپنی زندگی میں سرکار دوعالمﷺ کی خدمت میں رہ کر احکام کا علم حاصل نہ کرتے تو ان پر عمل کس طرح ہوتا ، یا تو ہر شخص اپنی اپنی مرضی اور فہم کے مطابق عمل کرتا یا لاعلمی کوبہانہ بناتا اور تارک عمل ہوکر بیٹھ جاتا اس کے برعکس صحابۂ کرامؓ نے سرکار دوعالم ﷺ کے ارشادات عالیہ کے ایک ایک لفظ کو اس طرح محفوظ کیاکہ دنیا جمع و ترتیب اور تدوین وحفاظت کے اس مضبوط نظام سے ششد ررہ گئی ،کیا ایک عبث اور لایعنی کام کے لئے صحابہ ٔ کرامؓ اپنی زندگی کاکوئی لمحہ ضائع کرسکتے تھے ،یقینی طور پر وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو محض اس کی کتاب سے سمجھنا ممکن نہیں ہے، جب تک کہ زبان رسالت سے ان احکام کی تشریح وتوضیح نہ ہو، یا جب تک وہ سرکار دوعالم ﷺ کو ان احکام سے مطابق عمل کرتا ہوا نہ دیکھ لیں۔


صحابۂ کرامؓ اور ان کے بعد آنے والے محدثین وفقہا نے کتاب وسنت کی گہرائیوں میں جاکر فقہی مسائل کے استباط اور ان کی تدوین میں اپنی عمریں لگادیں لیکن ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نےان تمام محنتوں کو لغو اور غیر ضروری قرار دے دیا اور یہ دعوی کیا کہ قرآن میں ہر چیز کھول کھول کر بیان کردی گئی ،اس کا کوئی حکم نبی کی تشریح اور توضیح کا محتاج نہیں ہے، یہ گروہ تین طری کے نظریات رکھتا ہے، ایک یہ کہ رسول کی حیثیت محض ایک قاصد اور پیغام برکی ہوتی ہے،اصل اہمیت پیغام کی ہے اور بنیادی ضرورت اس پیغام کو سمجھنے کی ہے، پیغام لانے والے کا کام پیغام پہنچا کر ختم ہوجاتا ہے، اس سے زیادہ اس کی اطاعت کسی پرواجب نہیں ، نہ صحابہ پر اور نہ دوسروں پر، دوسرا نظر یہ یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ارشادات اور ان کی قولی وفعلی تعلیمات صحابہؓ کے لیے تو واجب العمل تھیں، دوسروں کے لئے نہ وہ حجت ہیں اور نہ واجب الاطاعت ہیں، تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اگر چہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد ات اور اعمال وافعال سب حجت ہیں اور امت کے لیے ان کی اطاعت ضروری بھی ہے، مگر کیوں کہ ہو ہم تک قابل اعتماد ذریعے سے نہیں پہنچے ہیں اس لیے ان پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ لوگ جن کو عام اصطلاح میں منکرین حدیث کہا جاتا ہے اپنے پاس کچھ دلائل بھی رکھتے ہیں ، مثلاً یہ کہ قرآن کو اللہ نے آسان بنا کر نازل کیا ہے، جو کتاب ذکر وفہم کے لیے اتنی سہل اور آسان ہوا سے سمجھنے کے لیے کسی حدیث کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے ،اللہ کا ارشاد ہے: وَلَقَّدُ یَسر ناَ الْقُر آنَ للزّ کْرِ (القمر:۱۷)‘‘اور ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کردیا ہے’’ یقیناً قرآن کریم ذکر وتذکیر اور وعظ ونصیحت کے لیے آسان ہے، مگر اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ شرعی احکام کے اسنباط کے لئے بھی یہ کتگاب آسان بنا دی گئی ہے۔


اس کے برعکس سرکار دوعالم ﷺ سے فرمایا گیا:‘‘ہم نے قرآن آپ پر اس لیے اتارا ہے کہ آپ لوگوں کو واضح کرکے بتلادیں کہ ان پر کیا نازل کیا گیا ہے’’(الخل :۴۴)۔اگر قرآن اتنا ہی آسان ہے تو سرکار دوعالم ﷺ کو بیان کا مکلّف قرار دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم کی حیثیت ایک متن کی ہے اور سرکار دوعالم ﷺ اس متن کے شارح اور اس میں پوشیدہ اسرار وحکم کے مبّین ہیں، اس گروہ کاکہنا یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ آیات بینات کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی آیات بالکل کھلی اور واضح ہیں، نہ ان میں کسی طرح کی پیچیدگی ہے اورنہ کچھ باتیں پردۂ خفا میں رکھی گئی ہیں،کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث کی ضرورت نہیں ہے، حالاں کہ یہ ایک فرسودہ دلیل ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ نہیں متعدد جگہوں پر اپنی آیات کو بینات کی صفت سے متصف کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو ہر کس وناکس سمجھ سکتا ہے، یا سمجھ کر عمل کرسکتا ہے ، جن لوگوں نے بھی ذخیرہ ٔ حدیث اور اقوال صحابہؓ سے بے نیاز ہوکر قرآن فہمی کی دنیا میں قدم رکھا ہے انہوں نے ٹھوکریں ہی کھائی ہیں ،کہیں انہیں یہ محسوس ہوا کہ آیات میں تعارض ہے،کہیں قرآن کے بیانات انسانی عقل کے دائرے میں نہیں سما سکے اور وہ تجربات ومشاہدات کے خلاف محسوس ہوئے، کچھ لوگوں نے عقلی گھوڑے دوڑائے اور گمراہ ہوئے او رکچھ نے اپنے عجزکا اعتراف کیا اور قدم پیچھے ہٹائے اور یہ مانا کہ آیات بینات کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں بلکہ تو حید ورسالت ،جزاوسزا اور آخرت وغیرہ سے متعلق جو کچھ اس کتاب میں فرمایا گیا ہے وہ اتنا واضح او رمدلل ہے کہ اسے سمجھنا دشوار نہیں ہے، اس کے باوجود لوگ اسے سمجھتے نہیں ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے ۔


سرکار دوعالمﷺ کی بشریت کو بھی موضوع بحث بنا کر آپ کے ارشادات واقوال کے واجب الاطاعت ہونے سے انکار کیا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ جب قرآن کریم میں یہ بات آپ ﷺ کی زبان مبارک سے صاف کردی گئی : انّما اَنَا بَشَرُ مثلُکُمْ (الکہف: ۱۱۰) ‘‘کہ میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں’’پھر یہ مطالبہ کرنا کہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کے قول یا عمل کی اطاعت کی جائے مضحکہ خیز لگتا ہے ،اول تو ہم اپنی زندگی میں اپنے ہی جیسے کتنے لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بشر ہونا لائق اطاعت ہونے کے منافی نہیں ہے، پھر یہ اور اس طرح کی آیات جس سیاق میں نازل کی گئی ہیں ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے جو سمجھا گیا، بلکہ یہ مشرکین ملکہ کیے افسانہ طراز یوں او رالزام تراشیوں کے ضمن میں بیان کی گئی ایک حقیقت ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کبھی کبھی وہ یہ سوچا کرتے تھے اور برملا اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے کہ آپ کوئی مافوق الفطرت ہستی ہیں اس لیے ان کا مطالبہ ہوتا تھا کہ آپ کچھ معجزات دکھلائیں ،اس کے جواب میں آپ ﷺ بہ حکم ّخدایہ ارشاد فرمادیتے تھے کہ میں تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں ، معجزات میرے اختیار سے مادرا ہیں ، مجھ میں اور تم میں فرق اتنا ہے کہ مجھ پروحی نازل جاتی ہے،یہ اور اس طرح کے چند دلائل کی بنیاد پر منکرین حدیث نے اس قیمتی ذخیرے سے صرف نظر کرلیا جسے ہم حدیث کہتے ہیں۔


وہ ہر حکم کے دلیل کتاب اللہ میں تلاش کرنے لگے ، اگر انہیں کوئی حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو وہ اسے ناقابل عمل تصور کرتے ہیں۔ منکرین حدیث کا یہ طرز فکر کتنا گمراہ کن ہے اس کا اندازہ خود قرآنی تصریحات سے لگایا جاسکتا ہے ، اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے حکم ، اقتدار اور اختیار جیسی صفات بیان کی ہیں تو دوسری طرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال کوامت کے لئے واجب الاطاعت بھی قرار دیا ہے، منکرین حدیث کے پاس ان آیات کا کیا جواب ہے جن میں ارشاد فرمایا گیا: ‘‘آپ فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا’’(آل عمران :۳۱)۔‘‘اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ ﷺ اور صاحب امر (امیر، حاکم وغیرہ) کی اطاعت کرو، اگر کسی معاملے میں تمہارے اندر نزاع واختلاف ہوتو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر اللہ اور قیامت پر یقین رکھتے ہو،یہی اور عمدہ طریقہ ہے’’(النسا :۵۹)۔


‘‘قسم ہے آپ کے رب کی کہ یہ مومن شمار نہیں ہوں گے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو حکم تسلیم نہ کرلیں اور آپ جو فیصلہ فرمائیں اس پر ترددنہ کریں اور اس کو مکمل طور پر تسلیم کرلیں’’(النسا :۸۰)۔‘‘کسی مسلمان مردوعورت کے لیے جائز نہیں کہ اللہ ورسول کے فیصلے کے بعد حیل وحجت کریں، جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلے طور پر گمراہ ہوگا’’( الاحزاب :۳۶)۔‘‘پیغمبر جو کچھ تمہیں دیں اس کو لے لو اور جس نے منع کریں اس سے رک جاؤ’’(الحشر:۷)۔‘‘جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی’’ (النسا:۸۰)‘‘اللہ اور رسول کی اطاعت کرو شاید تم پر رحم کیا جائے’’ (آل عمران : ۱۳۲) ‘‘آپ فرمادیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم نے روگردانی کی تو (سمجھ لو کہ )اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا’’ (آل عمران :۳۲)۔‘‘وہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کو اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزو ں کو حلال کرتے ہیں اور بری چیز وں کو حرام قرار دیتے ہیں ’’(الاعراف:۱۵۷)۔‘‘
مسلمانوں کا قول جب ان کو اللہ کی اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان میں فیصلہ کردیں یہ ہے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم نے سن لیا اور اس کو مان لیا ’’ (النور :۵۱)۔


یہ چند آیات بہ طور مثال بیان کی گئی ہیں ورنہ اس نوعیت کی اور بھی آیات ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے ،بلکہ رسول کی اتباع اوراطاعت اللہ کی قربت اور اس کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کی خیر کی دعوت دیں، برائی سے روکیں ،ان کے سامنے حلال وحرام کے احکام بیان فرمائیں لوگوں کے نزاعات اختلافات میں فیصلے فرمائیں ،اور اب آپ فیصلہ صادر فرمادیں پھر کسی مسلمان کے لیے اس کو قبول کرنے میں تردو نہ ہوناچاہئے ،اگر کسی نے ذرا بھی اختلاف کیا یا فیصلہ ماننے میں پس وپیش کیا تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے کیا آپ ﷺ کے ارشادات، تعلیمات او راعمال کو نظر انداز کر کے اطاعت اور اتباع کے کوئی معنی ہیں، اگر سب کچھ قرآن ہی ہے تو پھر اطاعت رسول اور اتباع رسول کا حکم ہی بے مقصد نظر آتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول وعمل کی اتباع بھی ضروری ہے اور یہ کوئی من گھڑت عقیدہ نہیں ہے بلکہ خود قرآن کریم نے اسے ضروری قرار دیا ہے ، بلکہ قرآن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ وحی سے ہی فرماتے ہیں:‘‘کہ آپ خواہش نفس سے کلام نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو ان کی طرف سے نازل کی جاتی ہے ’’ (النجم :۴) ۔


اسی لیے علما نے کتاب وسنت دونوں کو وحی الہی قرار دیا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب اللہ وحی متلوہے یعنی نماز وغیرہ میں اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور حدیث رسول ﷺ وحی غیر متلوہے یعنی اس کی تلاوت نہیں کی جاتی ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے کتاب کے ساتھ حکمت کا بھی ذکر فرمایا ہے، اکثر علما کی رائے یہ ہے کہ یہاں حکمت سے مراد حدیث رسو صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، فرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ ان میں ان ہی میں کے ایک (شخص کو) رسول (بنا کر) بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں ،ان کو پاکیزگی کا درس دیتے ہیں ، اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ’’(آل عمران :۱۶۴)۔جمہور علما اور محققین کا خیال ہے کہ حکمت کتاب کے علاوہ کوئی چیز ہے، اسے ہم دین کے اسرار اورشریعت کے احکام بھی کہہ سکتے ہیں ، اسی کو علما نے ‘‘سنت’’ کہا ہے،چنانچہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘اللہ نے کتاب کا ذکر یہ قرآن ہے اور حکمت کاذکر بھی فرمایا ، میں نے قرآن سے شغف رکھنے والے اہل علم سے سنا ہے کہ حکمت سے مراد سنت رسول اللہ ﷺ ہے، پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا پھر اس کے بعد متصلاً لفظ حکمت لایا گیا ،اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی بعثت کو بہ طور احسان بھی ذکر فرمایا گیا ہے، حکمت کو کتاب کے ساتھ ملا کر لانے سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اس سے مراد سنت رسول اللہ ﷺ ہے’’۔


ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی نے امام شافعیؒ کی اس راے سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعیؒ یقینی طور پر حکمت کو سنت مانتے ہیں ،کیونکہ یہاں لفظ الح کمۃ کا عطف الکتاب پرکیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں چیزوں کتاب اور حکمت میں مغائرت ہویعنی دونوں الگ الگ ہوں ، اور یہ مناسب نہیں کہ کتاب کے ساتھ سنت رسول کے علاوہ کسی چیز کا ذکر کیا جائے خاص طور پر اس وقت جب کہ اللہ تعالیٰ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بندوں پر بطور اس وقت ذکر فرمارہے ہیں ، اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح قرآن کا اتباع ضروری ہے ، اسی طرح سنت کا اتباع بھی ضروری ہے۔ (السنۃ ومکانتہافی التشر یع الاسلامی :۶۹)


ذخیرۂ حدیث کو نظر انداز کر کے شریعت پر عمل کرنا عقلاً بھی ناقابل فہم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جتنے بھی احکام بیان فرمائے ہیں وہ سب مجمل بیان فرمائے ہیں ، ان کی تفصیل حدیث میں ملتی ہیں ، اگر ان تفصیلات کو نظر انداز کردیا جائے تو قرآن کے احکامات پر کس طرح عمل ہوگا، نماز دین کا اہم ستون اور بنیادی رکن ہے، قرآن کریم میں جگہ جگہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن کہیں بھی اس کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا، نہ اس کی شرائط صحت ذکر کی گئیں ،نہ یہ بیان کیا گیا کہ دن رات میں کتنی نمازیں ہیں اور کو ن سی نماز کب ادا ہوگی اور کس نماز میں کتنی رکعتیں ہیں، یہ تمام باتیں حدیث سے ثابت ہیں، اسی طرح قرآن میں صرف یہ فرمادیا گیا کہ زکوٰۃ اداکرو لیکن یہ زکوٰۃ کب فرض ہوگی، اسکا نصاب کیا ہے، مقدار زکوٰۃ کیا ہے، حولان حول اموال ظاہر ہ وباطنہ کی تفصیلات قرآن میں کہیں بھی نہیں ہیں، جب کہ ان تفصیلات کا علم حاصل کئے بغیر فریضۂ زکوٰۃ کی ادائیگی ممکن نہیں۔


اسی طرح روزوں کے سلسلے میں فرمایا گیا کہ ‘‘جس شخص کورمضان کامہینہ ملے وہ روزہ رکھے’’ روزہ کیا ہے ، کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ، کن چیزوں سے روز ہ نہیں ٹوٹتا یہ چیزیں قرآن میں نہیں ہیں بلکہ حدیث میں ہیں، حج او رعمرہ اللہ کے لئے پورا کرو’’لیکن ان دونوں کی تکمیل کی کیا صورت ہوگی، قرآن میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ہے، جب کہ حدیث میں ان عبادتوں کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں عبادات پر ہی کیا موقوف ہے نکاح، طلاق، رضاعت، حضانت ، تجارت، اجارہ رہن، وصیت وغیرہ کے احکام بھی قرآن میں مختصراً ذکر کئے گئے ہیں ، ان سے شریعت کا رخ تو متعین ہوتا ہے او رمنشأ خدا وندی کا علم بھی ہوتا ہے ، مگر ان میں سے کسی کا حکم بھی اس نوعیت کا نہیں کہ اس پر عمل کیا جاسکے اِلاّیہ کہ حدیث رسول ﷺ سے مدد لی جائے ۔ اسی لیے امت کا اس پر اجماع ہےکہ قرآن کریم کے بعد اسلام کا دوسرا اہم مأخذ حدیث ہے، جس طرح قرآن با عتبار ثبوت کے قطعی اور یقینی ہے اسی طرح احادیث کا وہ بڑا حصہ بھی قطعی اور یقینی ہے جو تو اتر سے ثابت ہے، جس طرح قرآن سے شریعت کے احکام ثابت بھی ہوتے ہیں اور منسوخ بھی اسی طرح احادیث سے بھی احکام ثابت ہوتے ہیں اور منسوخ بھی
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
السلام علیکم محمد ارسلان بھائی یہ مضمون یہاں مکمل شو نہیں ہورہا ہیں کیا وجہ ہے رہنمائی فرمائے جزاکم اللہ خیرا
 
Top