Bint e Rafique
رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2017
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
شیریں کا درخت
میرے گاؤں کے ساتھ اک ملحقہ گاؤں ھے ،کوٹلہ چاکر خان ، وہاں کے اک درویش کسان آدمی کے ہاں ہم لسی پینے گئے.
اس بھلے مانس کی آدھ ایکڑ زرعی اراضی تھی ،کہنے لگا میری آدھا ایکڑ زمین سالوں سے یوں استعمال میں ھے، ،کہ ہر سال چیت کے موسم میں "شَریں " جو مقامی بہت دراز اور معقول سفید Bark کا حامل درخت ھے، بہت تیزی سے بڑھتا ھے چھاؤں بھی اسکی بڑی نرالی ھے نہ زیادہ جگہ گھیرتا ھے ،ہر اس موسم میں اس مختص جگہ پہ شریں کے بیج بوتا ھوں اور اگلے سال اسی موسم کو وہ پودے اکھیڑ کر،اپنے چھوٹے لڑکے کے ہمراہ کَسی سنبھالکر .گاؤں کی بل کھاتی ٹیڑھی میڑھی سڑکوں کے ساتھ ساتھ قطار اندر قطار Row by row کھڈے کھودتا چلا جاتا ھوں جڑیں دفن کرتا چلا جاتا ھوں، بستی کے اطراف سڑک کے ساتھ ساتھ تین ہزار سے زائد شریں درخت میرے لگائے ہوئے ،ہر پودا بونے کے بعد ، اسکے پہلو میں دو رکعت نفل پڑھتا ھوں اور عہد کرتا ھوں میں ان درویش پودوں کی مجاوری اور حفاظت مرتے دم تک کروں گا
ہاں صاحب ، گھٹنوں اب دم نہیں رہا ،اپنے چھوٹے لڑکے کو ان درختوں کا خلیفہ مجاز بنا رکھا ھے ( شِریں وسیب میں بوہڑ کے بعد دوسرا بڑا درویش درخت مانا جاتا ھے ہمارے ہاں عقیدہ ھے کے اسکی چھاؤں میں ناپاک بندہ بیٹھے یا اسکے کھلیان کے احاطے میں کوئی احمق پیشاب کردے تو یہ فرط ِ جزبات سے سوکھ جاتا ھے، Body achieves what the mind believes میری ذاتی رائے اس مفہوم سے کچھ ملی جلی سی ھے میں نے اکثر دیکھا ھے اچانک سے تنومند شریں چوٹی تک سفید ہو رہتا ھے جیسے سبز خون نچڑ گیا ہو، اور اسکے آس پاس کے درخت تنومند ہی رہتے، شریں اتنی آسانی سے قدرتی موت مرنے والوں میں سے نہیں ھے)
اس بھلے مانس نے پھل دار درختوں کے بھی جا بجا سڑک کے کنارے کنارے درخت لگا رکھے ہیں جن میں انگور امرود کیلا آم مالٹا سرِ فہرست ہیں ، مگر جمہور میں شریں کو غلبا ھے ،میں نے ان سے کہا
چاچا یہ تو بهت اچھی بات هے پر یه سب درخت سڑک کنارے لگانے میں کیا منطق ھے؟ اور یہ سب تمہاری تو ملکیت میں نہ رہے گا ، جو سڑک کنارے لگ گیا تمہارا تو نہ رہا،کیوں ہلکان ہوتے ہو؟
یہ تو بے وقوفی کا کام هے چاچا. ان درختوں کو اپنی زمین لگاو بلکه باقاعدہ باغیچہ بناو تب یه درخت لگاو کہ بات بنے کچھ آپکی جیب اور کچھ میرے عنقہ دام میں بھی آئے ،
چاچا یه سن کر مسکرایا اور کہنے لگا یہی تو پتے کی بات ھے سائیں،تم نے صحیح کہا یہ میری تو ملکیت میں نہ رہے گا سڑک سہارے لگا تو میری نہیں سب کی ملکیت ہوگیا ،
اب سنو سائیں ہمارا یہ چھوٹا سا کوٹلہ ھے ہم سب کمی کمین دیہاڑی دار مزدور لوگ ہیں ،اور ہم کمی کمینوں کے ہاں بیٹیوں کی تعداد جھولی بھر بھر کے ہوتی ھے اور یہ خدا کی مرضی ھے، ہمارے آزو بازو جہاں تک حد ِ نگہ صفر ہوتی ھے جاگیرداروں کی جاگیریں ہی جاگیریں ہیں، جبکه همارے هاں نظر مارو تو لڑکیاں هی لڑکیاں هوتی هیں
میں جب چھوٹا تھا نا تو میری دو بڑی ہمشیراؤں کو طلاق ہوئی تھی اور یہ مجھے اماں نے بتلایا تھا ،کہ جب میں نے پوچھا طلاق کیا ہوتی اور کیوں ہوتی ھے؟تو وہ کہنے لگی جس لڑکی کے بھاگ میں گہنے بستر جہیز نہیں اسکے بھاگ میں طلاق ھے،
سسرالیوں نے کہا تمہاری لڑکیاں نحوستی ہیں انپر جنات کا سایہ ھے دھرو ان ملیچھوں کو اپنے پاس ، مجھے اس بات نے زندگی بھر چین نہ لینے دیا ، میرے معصوم سے دماغ میں جانے کیا بات بیٹھی کہ میں اٹھ کھڑا ہوا ، میں چپکے سے اماں کے پہلو سے اٹھا اور قبرستان کنارے لگے شریں کے اک دراز درخت پہ تیر کی تیزی سے چڑھ گیا ، اور شریں کے بیج والے بڑے بڑے خوشے کتر کتر کر جیبوں میں بھرنے لگا ، پھر تیر کی تیزی سے نیچے اترا اور اپنے گھر کے سامنے والی جگہ پر کھرپے سے جگہ کھودتا گیا ،اور بیچ بکھیرتا گیا ،پھر بھاگ کر نلکے سے لوٹے میں پانی میں بھرا اور ان جگہوں کو تر وتر کرتا گیا ،
اس دن کے بعد سے میرا معمورہ شب و روز بن گیا ، صبح ہونے سے شام کی سُرمائل کے اتر آنے تک ،آلتی پالتی مارے دیوانوں کی طرح ٹکٹکی باندھے شریں کے اگنے کا انتظار کرتا ،کبھی مارے بیچنی کے مٹی ہٹا ہٹا بیج کھود کر دیکھتا ھے کہ اوپر آنے میں کتنی گرہیں ابھی باقی ہیں،میرے بس میں نہ تھا اپنا خون انڈیلوں وہ جلد سے جلد اگیں اور تن آور ہوجائیں ،اور جس صبح شریں نے میرے احاطے میں پہلی نرملا کندل سی کونپل زمیں سے نکالی میں دیوانوں کی طرح اسکے طواف میں دوڑنے لگا ،اطراف کے درختوں کو میں متوجہ ہوکر کہتا ،یہ یہ اگ آیا ھے ، یہ ، یہ دیکھو یہ اگنے لگے ہیں،...وہ بائیس بیج تھے جنہوں نے میری ٹکٹکیوں کی بیتابیوں کی گرم آوری سے گبھرا کر زمیں کا کمبل پھاڑ کر گہری سانس کھینچی ،کہ انکی اور میری جان میں جان آئی ،
میں نے اک دن اماں سے پوچھا ،اماں یہ سڑک کا مالک کون ھے؟ اماں نے کہا ، پتر وہی جو بے گھر ھے ، جسکا نہ کوئے ،وہ جسکا دور ٹھکانہ ،جو سڑکوں پر سها
میرے گاؤں کے ساتھ اک ملحقہ گاؤں ھے ،کوٹلہ چاکر خان ، وہاں کے اک درویش کسان آدمی کے ہاں ہم لسی پینے گئے.
اس بھلے مانس کی آدھ ایکڑ زرعی اراضی تھی ،کہنے لگا میری آدھا ایکڑ زمین سالوں سے یوں استعمال میں ھے، ،کہ ہر سال چیت کے موسم میں "شَریں " جو مقامی بہت دراز اور معقول سفید Bark کا حامل درخت ھے، بہت تیزی سے بڑھتا ھے چھاؤں بھی اسکی بڑی نرالی ھے نہ زیادہ جگہ گھیرتا ھے ،ہر اس موسم میں اس مختص جگہ پہ شریں کے بیج بوتا ھوں اور اگلے سال اسی موسم کو وہ پودے اکھیڑ کر،اپنے چھوٹے لڑکے کے ہمراہ کَسی سنبھالکر .گاؤں کی بل کھاتی ٹیڑھی میڑھی سڑکوں کے ساتھ ساتھ قطار اندر قطار Row by row کھڈے کھودتا چلا جاتا ھوں جڑیں دفن کرتا چلا جاتا ھوں، بستی کے اطراف سڑک کے ساتھ ساتھ تین ہزار سے زائد شریں درخت میرے لگائے ہوئے ،ہر پودا بونے کے بعد ، اسکے پہلو میں دو رکعت نفل پڑھتا ھوں اور عہد کرتا ھوں میں ان درویش پودوں کی مجاوری اور حفاظت مرتے دم تک کروں گا
ہاں صاحب ، گھٹنوں اب دم نہیں رہا ،اپنے چھوٹے لڑکے کو ان درختوں کا خلیفہ مجاز بنا رکھا ھے ( شِریں وسیب میں بوہڑ کے بعد دوسرا بڑا درویش درخت مانا جاتا ھے ہمارے ہاں عقیدہ ھے کے اسکی چھاؤں میں ناپاک بندہ بیٹھے یا اسکے کھلیان کے احاطے میں کوئی احمق پیشاب کردے تو یہ فرط ِ جزبات سے سوکھ جاتا ھے، Body achieves what the mind believes میری ذاتی رائے اس مفہوم سے کچھ ملی جلی سی ھے میں نے اکثر دیکھا ھے اچانک سے تنومند شریں چوٹی تک سفید ہو رہتا ھے جیسے سبز خون نچڑ گیا ہو، اور اسکے آس پاس کے درخت تنومند ہی رہتے، شریں اتنی آسانی سے قدرتی موت مرنے والوں میں سے نہیں ھے)
اس بھلے مانس نے پھل دار درختوں کے بھی جا بجا سڑک کے کنارے کنارے درخت لگا رکھے ہیں جن میں انگور امرود کیلا آم مالٹا سرِ فہرست ہیں ، مگر جمہور میں شریں کو غلبا ھے ،میں نے ان سے کہا
چاچا یہ تو بهت اچھی بات هے پر یه سب درخت سڑک کنارے لگانے میں کیا منطق ھے؟ اور یہ سب تمہاری تو ملکیت میں نہ رہے گا ، جو سڑک کنارے لگ گیا تمہارا تو نہ رہا،کیوں ہلکان ہوتے ہو؟
یہ تو بے وقوفی کا کام هے چاچا. ان درختوں کو اپنی زمین لگاو بلکه باقاعدہ باغیچہ بناو تب یه درخت لگاو کہ بات بنے کچھ آپکی جیب اور کچھ میرے عنقہ دام میں بھی آئے ،
چاچا یه سن کر مسکرایا اور کہنے لگا یہی تو پتے کی بات ھے سائیں،تم نے صحیح کہا یہ میری تو ملکیت میں نہ رہے گا سڑک سہارے لگا تو میری نہیں سب کی ملکیت ہوگیا ،
اب سنو سائیں ہمارا یہ چھوٹا سا کوٹلہ ھے ہم سب کمی کمین دیہاڑی دار مزدور لوگ ہیں ،اور ہم کمی کمینوں کے ہاں بیٹیوں کی تعداد جھولی بھر بھر کے ہوتی ھے اور یہ خدا کی مرضی ھے، ہمارے آزو بازو جہاں تک حد ِ نگہ صفر ہوتی ھے جاگیرداروں کی جاگیریں ہی جاگیریں ہیں، جبکه همارے هاں نظر مارو تو لڑکیاں هی لڑکیاں هوتی هیں
میں جب چھوٹا تھا نا تو میری دو بڑی ہمشیراؤں کو طلاق ہوئی تھی اور یہ مجھے اماں نے بتلایا تھا ،کہ جب میں نے پوچھا طلاق کیا ہوتی اور کیوں ہوتی ھے؟تو وہ کہنے لگی جس لڑکی کے بھاگ میں گہنے بستر جہیز نہیں اسکے بھاگ میں طلاق ھے،
سسرالیوں نے کہا تمہاری لڑکیاں نحوستی ہیں انپر جنات کا سایہ ھے دھرو ان ملیچھوں کو اپنے پاس ، مجھے اس بات نے زندگی بھر چین نہ لینے دیا ، میرے معصوم سے دماغ میں جانے کیا بات بیٹھی کہ میں اٹھ کھڑا ہوا ، میں چپکے سے اماں کے پہلو سے اٹھا اور قبرستان کنارے لگے شریں کے اک دراز درخت پہ تیر کی تیزی سے چڑھ گیا ، اور شریں کے بیج والے بڑے بڑے خوشے کتر کتر کر جیبوں میں بھرنے لگا ، پھر تیر کی تیزی سے نیچے اترا اور اپنے گھر کے سامنے والی جگہ پر کھرپے سے جگہ کھودتا گیا ،اور بیچ بکھیرتا گیا ،پھر بھاگ کر نلکے سے لوٹے میں پانی میں بھرا اور ان جگہوں کو تر وتر کرتا گیا ،
اس دن کے بعد سے میرا معمورہ شب و روز بن گیا ، صبح ہونے سے شام کی سُرمائل کے اتر آنے تک ،آلتی پالتی مارے دیوانوں کی طرح ٹکٹکی باندھے شریں کے اگنے کا انتظار کرتا ،کبھی مارے بیچنی کے مٹی ہٹا ہٹا بیج کھود کر دیکھتا ھے کہ اوپر آنے میں کتنی گرہیں ابھی باقی ہیں،میرے بس میں نہ تھا اپنا خون انڈیلوں وہ جلد سے جلد اگیں اور تن آور ہوجائیں ،اور جس صبح شریں نے میرے احاطے میں پہلی نرملا کندل سی کونپل زمیں سے نکالی میں دیوانوں کی طرح اسکے طواف میں دوڑنے لگا ،اطراف کے درختوں کو میں متوجہ ہوکر کہتا ،یہ یہ اگ آیا ھے ، یہ ، یہ دیکھو یہ اگنے لگے ہیں،...وہ بائیس بیج تھے جنہوں نے میری ٹکٹکیوں کی بیتابیوں کی گرم آوری سے گبھرا کر زمیں کا کمبل پھاڑ کر گہری سانس کھینچی ،کہ انکی اور میری جان میں جان آئی ،
میں نے اک دن اماں سے پوچھا ،اماں یہ سڑک کا مالک کون ھے؟ اماں نے کہا ، پتر وہی جو بے گھر ھے ، جسکا نہ کوئے ،وہ جسکا دور ٹھکانہ ،جو سڑکوں پر سها