عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
پیش کردہ:عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شعائر اللہ کی اہمیت
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۳۲
اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری (الحج:۳۲)
اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۰ۭ
جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔(الحج:۳۰)
میرے محترم بزرگو دوستو!اور عزیز ساتھیو!
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں متعدد جگہ اور متعد موقعوں پر تقویے والی زندگی گزارنے ہدایت فرمائی ہے۔تقویٰ ایک ایسی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کرانسا ن اللہ کا مقرب بندہ ہوجاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں تقویٰ والی زندگی اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔
صاحب ''المنجد '' نے تقوے کےمعنٰی حفاظت اور نگرانی کرنا لکھا ہے۔
اور راغب نے مفردات میں لکھا ہے :
''اَلوِقَایۃُ حِفظُ الشَّیء مِمّایُوذِیہِ ''
مضر اور نقصان دہ چیز سے حفاظت کانام تقویٰ ہے
قرآن مجید میں تقویٰ کا بیان:
قرآن مجیدمیں لفظ'' تقویٰ ''کا مختلف صورتوں میں، بیسوں جگہ پر استعمال ہوا ہے۔ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ چار معانی کا حامل ہے۔اردو میں ہم یہ معانی بچاؤ،ڈر،خوف خدا اور پرہیز گاری کے الفاظ میںادا کر تے ہیں۔ جبکہ ان میں سے آخری مفہوم پہلے تین مفاہیم کا جامع ہے۔ یعنی جب انسانی زندگی میںگنا ہوں سے بچنا، آخرت کے عذاب سے ڈرنا، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف میں تقویٰ کےمفہوم میں جمع ہو جاتے ہیں، تو وہ ایک جامع مفہوم وجود میں آتا ہے، جس کو ہم پرہیز گاری کی تعبیر کرسکتے ہیں ، اور یہ تقویٰ کے اس تصور کی اساس ہے، اور یہی دین میں مطلوب ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔