• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شعبان کی پندرھویں رات

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306

نام كتاب: شعبان کی پندرھویں رات
مؤلف : محمد رفيق طاهر
اشاعت أولى :ذي الحجه 1430هـ
ناشر:مكتبـه أهـل الأثر
00923217302283
http://www.ahlalathr.net

¢

ماہ شعبان کا آغاز ہوتے ہی شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت و عظمت اور اس کے خصائل و خصائص بیان ہو نا شروع ہوجاتے ہیں، جبکہ کتاب و سنت صحیحہ میں اس کی کسی قسم کی کوئی خاص فضیلت وارد نہیں ہوئی۔ذیل میں ہم مروجہ دلائل کا جائزہ لیں گے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
لیلۃ مبارکہ:۔
بعض لوگ سورۂ دخان کی ابتدائی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں جو لیلہ مبارکہ کا تذکرہ ہوا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے۔ مگر یہ قیاس آرائی محض باطل پر مبنی ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے سورۂ دخان میں فرمایا ہے:
"إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{3} فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ{4}" [الدخان:۳،۴]
"یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔ (یہ وہ رات ہے) جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اس جگہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے کیونکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ } [القدر:1]
"ہم نے اس کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔"
اور یہ معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہے ۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ۔۔۔} [البقرة:185]
رمضان کا مہینا وہ ہے کہ جس می قرآن نازل کیا گیا ہے۔
ان تینوں آیات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہواکہ لیلہ مباکہ لیلہ قدر ہے اور وہ رمضان میں ہے کیونکہ قرآن مجید کا نزول رمضان کے مہینہ میں لیلہ مبارکہ یعنی لیلہ قدر کو ہوا۔ اور اسی رات ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے، نہ کہ شعبان کی پندرھویں رات کو۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بے حساب مغفرۃ:۔
ایک روایت جامع ترمذی کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں: " فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فخرجت ، فإذا هو بالبقيع ، فقال : " " أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله " ، قلت : يا رسول الله ، إني ظننت أنك أتيت بعض نسائك ، فقال : " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا ، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب " [جامع الترمذي ، أبواب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، حديث:‏۷۳۹]
" میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کو گم پایا تو مٰں آپ کی تلاش میں نکلی ۔ آپ ﷺ بقیع میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تجھے خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تجھ پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں سمجھی شاید آپﷺ اپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس گئے ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان (پندرھویں) کی رات کو آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتے ہیں۔"
اس روایت کی سند میں کئی نقص ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود ہی لکھا ہے: " " حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج " " ، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث ، وقال : يحيى بن أبي كثير لم يسمع من عروة ، والحجاج بن أرطاة لم يسمع من يحيى بن أبي كثير"
"عائشہ رضی اللہ عنھا کی یہ حدیث ‏صرف اسی سند سے ہی مروی ہے اور میں نے امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ الباری کو سنا کہ وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے نہیں سنا اور حجاج بن ارطاۃ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا۔"
تو گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے اور سبب ضعف بیان کرتے ہوئے سند کا دوجگہ پر انقطاع ذکر فریاما ہے۔ اور اسی طرح "حجاج بن ارطاۃ" صدوق ہے لیکن کثیر الخطاء والتدلیس ہے، اور یحییٰ بن ابی کثیر بھی مدلس راوی ہے، اور یہ دونوں لفظ "عن" سے روایت کررہے ہیں اور عالم اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ مدلس راوی کا عنعنہ ناقابل قبول ہے۔
لہٰذا ان چار نقائص کی بناء پر یہ روایت مردود و ناقابل اعتبار ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
روزہ:۔
اسی طرح کی ایک اور روایت سنن ابن ماجہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: " إذا كانت ليلة النصف من شعبان ، فقوموا ليلها وصوموا نهارها ، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا ، فيقول : ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا ، حتى يطلع الفجر " [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏138۸‏]
" جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو ، بے شک اللہ تعالیٰ غروب شمس کے بعد آسمان دنیا پر آجاتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ کیا کوئی مجھ سے معافی مانگنے والا نہیں کہ میں اس کو معاف کردوں ؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا نہیں ہے کہ میں اس کو رزق دوں؟ کیا کوئٰ پریشانی میں مبتلا نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"
اس روایت کی سند میں ابوبکر بن محمد بن ابی سبرۃ السبری المدنی ہے، جو کہ ضعیف ہےبلکہ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ یہ روایتیں گھڑتا ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ اور من گھڑت روایات ضعیف کی بدترین قسم ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
مشرک یا کینہ پرور کے سوا عام معافی:۔
ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو مشرک اور بغض وکینہ رکھنے والے کے سوا اپنی ساری مخلوق کو معاف فرمادیتے ہیں: [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏13۹۰‏]
لیکن اس کی سند میں بھی کئی علتیں ہیں جن میں سے عبداللہ بن لھیعہ کا مختلط ہونا اور ضحاک بن ایمن کا مجہول ہونابالخصوص قابل ذکر ہیں۔ لہٰذا ان دوموٹی موٹی وجوہات کی بنا پر یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ٹھہری۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
صلاۃ الفیۃ:۔
شعبان کی نصف کی رات کو بعض لوگ صلاۃ البراۃ یا صلاۃ الالفیۃ ادا کرتے ہیں جس میں سو رکعات میں سے ہر رکعت میں ۱۰ بار "قل ھواللہ " (سورۂ اخلاص) پڑھی جاتی ہے۔ اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
حاصل البحث:۔
اس مذکورہ بالا توضیح سے یہ نتیجہ نکلا کہ نصف شعبان کے بارہ میں جو بھی مرویا ت ہیں وہ تمام تر موضوع یا ضعیف ہیں ۔ یہی بات امام عقیلی نے الضعفاء ۲۹/۳ میں اور حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ نے الباعث علی انکار البدع والحودث ص۲۵ میں کہی ہے۔
لہٰذا ان تمام تر بدعات و خرافات سے اجتناب کیاجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اکمل واتم ورد العلم الیہ اسلم
الراجی الی عفو ربہ الظاہر

ابو عبدالرحمن محمد رفیق الطاہر
 

israrulhaq

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
32
اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان شہر حبیب الرحمن بھی کہلاتا ہے،شعبان کو دو مبارک مہینوں رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اِس ماہ مبارکہ میں وہ شب ِعظیم بھی ہے جس کو شب برأت اور شب رحمت و نصرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ،جس کے بارے میں قرآن مجید اعلان فرماتا ہے
حٰـمۗ ۝وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ۝اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ ۝ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ۝ۙ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ۭ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ ۝ۚرَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ۝ۙ
ترجمہ: حم۔ قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی۔یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔ جس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ (یعنی) ہمارے ہاں سے حکم ہو کر بے شک ہم ہی (پیغمبر کو) بھیجتے ہیں۔ (یہ) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے وہ تو سننے والا جاننے والا ہے۔
مفسرین کرام نے دو طرح کے قول فرمائے ہیں۔بعض مفسر ین کا خیال ہے اس سے مراد شب برات ہے اور بعض کے نزدیک شب قدر ہے۔ان دو اقوال کی تطبیق و جمع میں یہ کہا گیاکہ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ کے بارے میں آیا ہے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ترجمہ جس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔اس سے معلوم ہوااس مبارک رات میں فیصلے ہوتے ہیں اوراگر ہم اس کو حدیث شریف کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فیصلے شعبان کی پندرھویں شب کو ہوتے ہیں اور لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ بے شک اللہ تعالٰی شب برات(لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ) میں فیصلہ جات فرماتا ہے اور لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں اسے فرشتوں کے حوالے کرتا ہے۔
حاشیتہ الجمل علی الجلالین جلد ۴ معالم التنزیل
حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ جملہ معاملات کے فیصلہ جات شعبان کی پندرھویں شب میں ہوتے ہیں۔ روح المعانی جلد ۱۴
امام محمد بن نصرؒ، ابن منذر ؒ،اورابن ابی حاتم ؓنے حضرت ابن عباس ؓ سے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ کی تفسیر نقل کی ہے کہ اس رات میں ام الکتاب میں سے لکھا جاتا ہے جو کچھ سال میں رزق ، موت ، حیات اور بارش ہوتی ہے۔جہاں تک کہ حاجیوں کو لکھا جاتا ہے کہ فلاں فلاں حج کرے گا۔
امام ابن ابی حاتم ؒ نے حضرت عطا اللہ خراسانی کے واسطے سے حضرت عکرمہ ؓ سے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ اس رات ہر محکم امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
حضرت اسماعیل حقی ؒ اپنی تفسیر روح البیان میں اس آیت سے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالٰی اس رات میں حضرت میکائیل علیہ السلام کو رزق کے بارے میں ، حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مصائب و آلام کے بارے میں اور دیگر فرشتوں کو دیگر احکام سپرد فرماتا ہے۔
تفسیر روح البیان
امام ابن مردویہ ؒ حضرت ابن عباس ؓ سے آیت اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۝ کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہےکہ قرآن حکیم لَيْلَةِ الْقَدْرِ کو نازل ہوا پھر جبرئیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لوگوں کے کلام کے جواب میں آیت در آیت کی صورت میں نازل کرتے رہے۔
تفسیر عثمانی میں نقل ہے سال بھر کے متعلق قضاء و قدر کے حکیمانہ اور اٹل فیصلے اسی عظیم الشان رات میں ''لوح محفوظ'' سے نقل کر کے ان فرشتوں کے حوالہ کیے جاتے ہیں جو شعبہ ہائے تکوینیات میں کام کرنے والے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعبان کی پندرھویں رات ہے جسے شب برات کہتے ہیں۔ ممکن ہے وہاں سے اس کام کی ابتداء اور شب قدر پر انتہاء ہوئی ہو۔ واللہ اعلم۔ یعنی فرشتوں کو ہر کام پر جو ان کے مناسب ہو۔ چنانچہ جبرائیل کو قرآن دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔
تفسیر عثمانی تفسیر سورہ دخان
امام سعید بن منصور ؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ سے روایت نقل کی ہے کہ قرآن حکیم مکمل طور پر حضرت جبرائیل علیہ السلام پر نازل ہوا جبکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بعد میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لاتے رہے۔
امام سعید بن منصور ؒ نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ قرآن حکیم اوپر والے آسمان سے آسمان دنیا پر لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں اکٹھا نازل ہوا پھر اس کے بعد ان سالوں میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا۔
تفسیر در منثور جلد پنجم تفسیر سورہ دخان
علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی ؒ حاشیتہ الصاوی علی الجلالین میں اس کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں کہ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ یہ حضرت عکرمہ ؓ اور ایک جماعت کا قول ہے۔اور یہ توجیہ چند امور کی وجہ سے قابل قبول ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ پندرھویں شعبان کے چار نام ہیں ۱۔مبارک رات ۲۔برات والی رات ۳۔رحمت والی رات ۴۔ انعام والی رات۔
حاشیتہ الصاوی علی الجلالین جلد چہارم تفسیر کبیر
شیخ علامہ ابومحمّد عبدالحق حقّانی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شبِ برأت حکم اور فیصلے کی رات ہے۔ ناراضگی اور رضامندی کی رات ہےوصل اور اعراض کی رات ہے،اس میں کسی کو سعادت حاصل ہوتی ہے، کسی کو دورکردیاجاتاہے،کوئی نوازاجاتاہے،کوئی محروم ہوتا ہےبہت کفن دھوئے ہوئےتیار رکھے ہوتے ہیں،لیکن کفن پہننے والے غفلت میں بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں
تفسیرحقانی۔از شیخ علامہ ابومحمّد عبدالحق حقّانی
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں یہاں ایک سوال ہے کہ نزول قرآن تیئس سال کی مدت میں ہواہے جس کی ابتدا ربیع الاول کے مہینے سے ہوئی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کا چالیسواں سال شروع ہوا تھا جبکہ خود قرآن کے اندر نزول کے تین متعین موقعوں کی طرف اشارے فرمائے گئے ہیں۔ ایک رمضان کا مہینہ ، دوسرا لَيْلَةِ الْقَدْرِ جو رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے اور تیسرا لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ جو اکثر علما کے نزدیک پندرھویں شعبان ہے۔جس کو شب برات کہتے ہیں تو اس امر واقعی اور ان تین مختلف تعبیروں کے درمیان تطبیق کیسے ہوگی۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ روایات میں اچھی طرح تحقیق و تنقیح کے بعد جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کا نزول لوح محفوظ سے " بیت العزت" میں جو آسمان دنیا پر ایک مقام ہے جس کو اعلٰی مرتبے کے فرشتوں نے گھیر رکھاہے شب قدر میں ہوا جو رمضان المبارک میں ہوتی ہے اور اسی سال اس سے قبل " بیت العزت " میں نزول کی تقدیر اور اس کا حکم شب برات میں ہوا تھا۔اس طرح اب یہ تینوں تعبیریں درست ہو گیئں۔یعنی حقیقی نزول رمضان المبارک کے مہینے میں شب قدر کو ہوا۔تقدیر نزول اس پہلے شب برات میں ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر اس کا نزول ربیع الاول کے کے مہینے میں شروع ہوا۔اور وصال مبارک سے پہلے اس کا نزول مکمل ہوا۔اس توجیہ کے بعد کوئی تعارض نہیں رہا۔
تفسیر عزیزی پارہ عم تفسیر سورۃ القدر
طالب دعا:۔ اسرارالحق
 
Top