لیلۃ مبارکہ:۔
بعض لوگ سورۂ دخان کی ابتدائی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں جو لیلہ مبارکہ کا تذکرہ ہوا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے۔ مگر یہ قیاس آرائی محض باطل پر مبنی ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے سورۂ دخان میں فرمایا ہے:
"إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{3} فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ{4}" [الدخان:۳،۴]
"یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔ (یہ وہ رات ہے) جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اس جگہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے کیونکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ } [القدر:1]
"ہم نے اس کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔"
اور یہ معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہے ۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ۔۔۔} [البقرة:185]
رمضان کا مہینا وہ ہے کہ جس می قرآن نازل کیا گیا ہے۔
ان تینوں آیات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہواکہ لیلہ مباکہ لیلہ قدر ہے اور وہ رمضان میں ہے کیونکہ قرآن مجید کا نزول رمضان کے مہینہ میں لیلہ مبارکہ یعنی لیلہ قدر کو ہوا۔ اور اسی رات ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے، نہ کہ شعبان کی پندرھویں رات کو۔