بھائی آپ نے لکھا ہےکہ آپ نے لیلۃ مبارکۃ کی تفسیر کیلئے نہ جانے متاخر تفسیروں کا حوالہ کیوں دیا؟ میں نے اس میں واضع طور پر لکھا ہے۔ بعض مفسر ین کا خیال ہے اس سے مراد شب برات ہے اور بعض کے نزدیک شب قدر ہے۔ آپ میری پوسٹ دوبارہ پڑھیں ۔
اس حصے میں ہم شب برات کا ذکر کریں گے ۔اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان شہر حبیب الرحمن بھی کہلاتا ہے،شعبان کو دو مبارک مہینوں رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اِس ماہ مبارکہ میں وہ شب ِعظیم بھی ہے جس کو شب برأت اور شب رحمت و نصرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ،جس کے بارے میں قرآن مجید اعلان فرماتا ہے
حٰـمۗ Ǻڔوَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ Ąڒاِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ Ǽ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ Ćۙ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ۭ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ Ĉۚرَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ Čۙ
ترجمہ:حم۔ قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی۔یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔ جس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ (یعنی) ہمارے ہاں سے حکم ہو کر بے شک ہم ہی (پیغمبر کو) بھیجتے ہیں۔ (یہ) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے وہ تو سننے والا جاننے والا ہے۔
مفسرین کرام نے دو طرح کے قول فرمائے ہیں۔بعض مفسر ین کا خیال ہے اس سے مراد شب برات ہے اور بعض کے نزدیک شب قدر ہے۔ان دو اقوال کی تطبیق و جمع میں یہ کہا گیاکہ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍکے بارے میں آیا ہے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ترجمہ جس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔اس سے معلوم ہوااس مبارک رات میں فیصلے ہوتے ہیں اوراگر ہم اس کو حدیث شریف کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فیصلے شعبان کی پندرھویں شب کو ہوتے ہیں اور لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ بے شک اللہ تعالٰی شب برات(لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ) میں فیصلہ جات فرماتا ہے اور لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں اسے فرشتوں کے حوالے کرتا ہے۔
حاشیتہ الجمل علی الجلالین جلد ۴ معالم التنزیل
حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ جملہ معاملات کے فیصلہ جات شعبان کی پندرھویں شب میں ہوتے ہیں۔ روح المعانی جلد ۱۴
امام محمد بن نصرؒ، ابن منذر ؒ،اورابن ابی حاتم ؓنے حضرت ابن عباس ؓ سے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ کی تفسیر نقل کی ہے کہاس رات میں ام الکتاب میں سے لکھا جاتا ہے جو کچھ سال میں رزق ، موت ، حیات اور بارش ہوتی ہے۔جہاں تک کہ حاجیوں کو لکھا جاتا ہے کہ فلاں فلاں حج کرے گا۔
امام ابن ابی حاتم ؒ نے حضرت عطا اللہ خراسانی کے واسطے سے حضرت عکرمہ ؓ سے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍکی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ اس رات ہر محکم امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
حضرت اسماعیل حقی ؒ اپنی تفسیر روح البیان میں اس آیت سے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالٰی اس رات میں حضرت میکائیل علیہ السلام کو رزق کے بارے میں ، حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مصائب و آلام کے بارے میں اور دیگر فرشتوں کو دیگر احکام سپرد فرماتا ہے۔
تفسیر روح البیان
امام ابن مردویہ ؒ حضرت ابن عباس ؓ سے آیت اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ Ǻښ کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہےکہ قرآن حکیم لَيْلَةِ الْقَدْرِ کو نازل ہوا پھر جبرئیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لوگوں کے کلام کے جواب میں آیت در آیت کی صورت میں نازل کرتے رہے۔
تفسیر عثمانی میں نقل ہے سال بھر کے متعلق قضاء و قدر کے حکیمانہ اور اٹل فیصلے اسی عظیم الشان رات میں ''لوح محفوظ'' سے نقل کر کے ان فرشتوں کے حوالہ کیے جاتے ہیں جو شعبہ ہائے تکوینیات میں کام کرنے والے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعبان کی پندرھویں رات ہے جسے شب برات کہتے ہیں۔ ممکن ہے وہاں سے اس کام کی ابتداء اور شب قدر پر انتہاء ہوئی ہو۔ واللہ اعلم۔ یعنی فرشتوں کو ہر کام پر جو ان کے مناسب ہو۔ چنانچہ جبرائیل کو قرآن دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔
تفسیر عثمانی تفسیر سورہ دخان
امام سعید بن منصور ؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ سے روایت نقل کی ہے کہ قرآن حکیم مکمل طور پر حضرت جبرائیل علیہ السلام پر نازل ہوا جبکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بعد میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لاتے رہے۔
امام سعید بن منصور ؒ نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ قرآن حکیم اوپر والے آسمان سے آسمان دنیا پر لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں اکٹھا نازل ہوا پھر اس کے بعد ان سالوں میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا۔
تفسیر در منثور جلد پنجم تفسیر سورہ دخان
علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی ؒ حاشیتہ الصاوی علی الجلالین میں اس کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں کہ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍسے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ یہ حضرت عکرمہ ؓ اور ایک جماعت کا قول ہے۔اور یہ توجیہ چند امور کی وجہ سے قابل قبول ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ پندرھویں شعبان کے چار نام ہیں ۱۔مبارک رات ۲۔برات والی رات ۳۔رحمت والی رات ۴۔ انعام والی رات۔
حاشیتہ الصاوی علی الجلالین جلد چہارم تفسیر کبیر
شیخ علامہ ابومحمّد عبدالحق حقّانی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شبِ برأت حکم اور فیصلے کی رات ہے۔ ناراضگی اور رضامندی کی رات ہےوصل اور اعراض کی رات ہے،اس میں کسی کو سعادت حاصل ہوتی ہے، کسی کو دورکردیاجاتاہے،کوئی نوازاجاتاہے،کوئی محروم ہوتا ہےبہت کفن دھوئے ہوئےتیار رکھے ہوتے ہیں،لیکن کفن پہننے والے غفلت میں بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں
تفسیرحقانی۔از شیخ علامہ ابومحمّد عبدالحق حقّانی
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں یہاں ایک سوال ہے کہ نزول قرآن تیئس سال کی مدت میں ہواہے جس کی ابتدا ربیع الاول کے مہینے سے ہوئی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کا چالیسواں سال شروع ہوا تھا جبکہ خود قرآن کے اندر نزول کے تین متعین موقعوں کی طرف اشارے فرمائے گئے ہیں۔ ایک رمضان کا مہینہ ، دوسرا لَيْلَةِ الْقَدْرِ جو رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے اور تیسرا لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍجو اکثر علما کے نزدیک پندرھویں شعبان ہے۔جس کو شب برات کہتے ہیں تو اس امر واقعی اور ان تین مختلف تعبیروں کے درمیان تطبیق کیسے ہوگی۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ روایات میں اچھی طرح تحقیق و تنقیح کے بعد جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کا نزول لوح محفوظ سے " بیت العزت" میں جو آسمان دنیا پر ایک مقام ہے جس کو اعلٰی مرتبے کے فرشتوں نے گھیر رکھاہے شب قدر میں ہوا جو رمضان المبارک میں ہوتی ہے اور اسی سال اس سے قبل " بیت العزت " میں نزول کی تقدیر اور اس کا حکم شب برات میں ہوا تھا۔اس طرح اب یہ تینوں تعبیریں درست ہو گیئں۔یعنی حقیقی نزول رمضان المبارک کے مہینے میں شب قدر کو ہوا۔تقدیر نزول اس پہلے شب برات میں ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر اس کا نزول ربیع الاول کے کے مہینے میں شروع ہوا۔اور وصال مبارک سے پہلے اس کا نزول مکمل ہوا۔اس توجیہ کے بعد کوئی تعارض نہیں رہا۔ تفسیر عزیزی پارہ عم تفسیر سورۃ القدر۔
جہاں تک آپ نے آیت کریمہ ﴿ إنا أنزلنه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين ﴾ کی تفسیر نصف شعبان کی رات سے کی ہے، تو یہ تفسیر قرآنی نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ شعبان میں۔
اس کے جواب میں یہ بات عرض ہے کہ علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ ۲۷/رجب المرجب کو مبعوث بہ رسالت ہوئے پہلی وحی ۲۷ رجب ہی کو سورہ علق کی صورت میں پیغمبر اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ۔یہ رمضا ن کا مہینہ تو نہیں تھا۔میرے بھائی اس مسلے کو سمجھنے کے لیے کہ مختلف تعبیروں کے درمیان تطبیق کیسے ہوگی۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تفسیر جس کا حوالہ میں نے دیا ہے اس کو پڑھیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ورنہ آپ کہتے پھریں گے کہ رجب المرجب میں سورہ علق کی آیات نازل ہونا قرآنی نصوص کے مخالف ہے کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ رجب المرجب میں۔
السلام علیکم و رحمت الله -
قرآن میں ایک ہی برکتوں والی رات کا ذکر ہے جو شبِِ قدر ہے جس میں فرشتے احکامات اور فیصلے لے کر اترتے ہیں۔ یہ ماہِ رمضان کی رات ہے کہ اسی مہینے میں قرآن اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس رات کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو یعنی جو بھی عبادت یعنی نوافل وغیرہ پڑھے جائیں وہ رمضان کے آخری عشرے کی راتوں کو پڑھے جائیں اور شبِِ قدر کو تلاش کیا جائے۔
حم وَالْكِتَابِ الْمُبِين إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ
روشن کتاب کی قسم ہے۔ ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔ سارے کام جو حکمت پر مبنی ہیں اسی رات تصفیہ پاتے ہیں۔ سورة الدخان آیات ۱۔۳
سورة الدخان کی آیات سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اس رات کا ذکر ہو رہا ہے جس میں اللہ نے کتاب المبین یعنی قرآنِ حکیم نازل فرمایا اور قرآن میں ہی سورة القدر کی ذیل کی آیات اس بات کی وضاحت کر دیتی ہیں۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ سورة القدر، آیت ۱
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ سورة القدر آیت ٤
اگر ہم قران پر نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس میں صرف ایک ہی رحمتوں اور برکتوں والی رات کا ذکر ہے یعنی لیلتہ القدر یا شبِِ قدر جسکے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ فرقہ واریت ہی کو اسلام سمجھا جاتا ہے اور خود دین کو سمجھ کر عمل کرنے کی بجائے فرقوں اور انکے مولویوں کی اندھی تقلید کی جاتی ہے سو اسکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سورة الدخان کی وہ آیات جن میں شب قدر کا ذکر ہے انہیں زبردستی شبِِ برأت سے منسوب کر دیا جاتا ہے اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس رات کی فضیلت کا ذکر تو خود اللہ تعالٰی نے قرآن میں کیا ہے- ویسے بھی شب فارسی کا لفظ ہے نہ کہ عربی زبان کا اور برأت کے معنی ہیں بیزاری - یعنی "بیزاری کی رات"-
کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات جنت البقیع میں جا کر دعا کی لیکن ہمیں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ یہ سال کا کونسا دن یا مہینہ تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں اس حوالے سے کچھ نہیں ملتا اور نہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ ٔکرام کو کرنے کا حکم دیا یا اس حوالے سے کسی خاص تاریخ کا ذکر کیا
اس طرح کی دیو مالائی داستانوں پر مبنی شب برأت نامی یہ تہوار ایجاد کیا گیا بلکہ اس سے متعلق عبادت کے نئے نئے طریقے بھی گھڑ لئے گئے ہیں جنہیں بدعات کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا جیسے ساری رات صلوٰة التسبیح نامی نماز پڑھنا جسکی انفرادی حیثیت تومشکوک ہے ہی کہ اسکے حوالے سے موجود روایات کی سند پر اعتراضات ہیں لیکن اسے باجماعت پڑھنے کی تو سرے سے کوئی روایت موجود ہی نہیں۔ اسی طرح صبح میں قبرستان جا کر قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھانا، عطر و کیوڑے کی بارش کرنا، اگربتیاں جلانا اور رات میں آتش بازی کرنا یا محافلِ نعت و قوالی منعقد کرنا وغیرہ۔ اسی طرح اس تہوار پر حلوہ پکانے کی مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے
اس بدعتی تہوار پر روزہ رکھنے کے حق میں جو حدیث توجیح کے طور پرپیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امت کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کے روز اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اس حدیث کا شبِِ برأت سے کیا تعلق؟ حدیث میں دو دنوں کا ذکر ہے اور وہ بھی ہر ہفتے اور یہاں بات سال کے ایک خاص دن کی ہے جس کا کوئی ثبوت احادیثِ مبارکہ میں نہیں ملتا۔ ہم یہ حدیث ذیل میں کاپی کر رہے ہیں۔
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا پیر اور جمعرات کے دِنوں میں اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اُس اِیمان والے کی مغفرت کر دیتا ہے جِس نے اللہ کے ساتھ کِسی کو شریک نہ کیا ہو ، سوائے اُنکے جو آپس میں بغض رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے اِنکو مہلت دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں۔ صحیح مسلم -
الغرض آج کے مسلمانوں کے لئے یہ بدعتوں سے بھرپور ایک رات ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں -
مسلمانوں کا فرض ہے کہ اللہ کے خالص دین کو ایسی تمام خرافات سے پاک کرنے کی کوشش کریں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کا سامان پیدا کریں۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا۔
اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ سورة التحریم