محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۴۷ وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۴۸
اے بنی اسرائیل میرے اس فضل (احسان) کویاد کرو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ سارے جہان کے لوگوں پر میں نے تمھیں بزرگی بخشی۔(۴۷) اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی (نافرمان منکر) کسی دوسرے مجرم(منکر) کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اس کی طرف سے شفاعت (سفارش) قبول ہوگی اور نہ اس کے بدلے میں کچھ لیاجائے گا اور نہ ان کو مدد پہنچے گی۔۱ ؎ (۴۸)
۱؎ ان آیات میں دوبارہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیاہے تاکہ ان پر وہ تمام انعام جو کیے گیے ہیں، گنائے جائیں اور انھیں دین حنیف کی طرف مائل کیاجائے ۔
اولاً یہ فرمایا کہ تمھیں ہم نے اپنے تمام معاصرین پرمادی وروحانی فضیلت دی۔
ثانیاً ان کو ان کے موجودہ مزعومات سے باز رہنے کی تلقین فرمائی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمھارے احباء وعلماء، تمہارے اولیاء وشہداء تمھیں مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون کی گرفت سے بچالیں گے ۔ اس قسم کی سفارش جو ذاتی عمل سے معر ّا ہو،، قطعاً سود مند نہیں ہے۔ قرآن حکیم نے عام طورپر شفاعت کی نفی کی ہے اور کہیں کہیں اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ کہہ کر ایک نوع کے لوگوں کومستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سفارش کا وہ مفہوم جو یہ لوگ سمجھے ہوئے تھے بالکل غیر موزوں ہے ۔ یعنی شریعت کی مخالفت کے باوجود شفاعت پر بھروسہ۔ یہ محض فریب نفس ہے جس میں یہ لوگ مبتلا تھے، اس لیے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی پرزور تردید کی اور انھیں عمل پر آمادہ کیا۔
{عَدْلٌ} معاوضہ، بدل،قسمت۔
اے بنی اسرائیل میرے اس فضل (احسان) کویاد کرو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ سارے جہان کے لوگوں پر میں نے تمھیں بزرگی بخشی۔(۴۷) اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی (نافرمان منکر) کسی دوسرے مجرم(منکر) کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اس کی طرف سے شفاعت (سفارش) قبول ہوگی اور نہ اس کے بدلے میں کچھ لیاجائے گا اور نہ ان کو مدد پہنچے گی۔۱ ؎ (۴۸)
۱؎ ان آیات میں دوبارہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیاہے تاکہ ان پر وہ تمام انعام جو کیے گیے ہیں، گنائے جائیں اور انھیں دین حنیف کی طرف مائل کیاجائے ۔
اولاً یہ فرمایا کہ تمھیں ہم نے اپنے تمام معاصرین پرمادی وروحانی فضیلت دی۔
ثانیاً ان کو ان کے موجودہ مزعومات سے باز رہنے کی تلقین فرمائی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمھارے احباء وعلماء، تمہارے اولیاء وشہداء تمھیں مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون کی گرفت سے بچالیں گے ۔ اس قسم کی سفارش جو ذاتی عمل سے معر ّا ہو،، قطعاً سود مند نہیں ہے۔ قرآن حکیم نے عام طورپر شفاعت کی نفی کی ہے اور کہیں کہیں اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ کہہ کر ایک نوع کے لوگوں کومستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سفارش کا وہ مفہوم جو یہ لوگ سمجھے ہوئے تھے بالکل غیر موزوں ہے ۔ یعنی شریعت کی مخالفت کے باوجود شفاعت پر بھروسہ۔ یہ محض فریب نفس ہے جس میں یہ لوگ مبتلا تھے، اس لیے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی پرزور تردید کی اور انھیں عمل پر آمادہ کیا۔
حل لغات
{عَدْلٌ} معاوضہ، بدل،قسمت۔