عبد السلام مدنی
رکن
- شمولیت
- جنوری 23، 2018
- پیغامات
- 28
- ری ایکشن اسکور
- 6
- پوائنٹ
- 52
شوال کے روزے قضائے صیامِ رمضان سے پہلے یا پہلے قضا ؟
? :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمد للہ رب العالمین,و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
رمضان کے روزے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے, اس کا ثواب پورے سال بھر روزہ رکھنے کے برابر قرار دیا گیا ہے,چنانچہ بہ صراحت و وضاحت نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر)(مسلم:۱۱۶۴)
ترجمہ: (جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال ہر سال شوال کے ماہ میں انتہائی شد و مد کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ رمضان کے روزے کی قضاپہلے ہوگی یا قضا سے پہلے بھی شش عیدی روزے رکھے جا سکتے ہیں؟
بیمار حضرات,حیض و نفاس والی خواتین ,اصحاب ِ اعذار کیا پہلے قضا کریں گے,پھر شش عیدی روزے رکھیں گے یا شوال کے روزے شوال ہی میں رکھیں گے اور رمضان کے قضا روزے کسی بھی وقت قضا کر لیں گے تو ثواب حاصل ہوجائے گا ؟
اس سلسلہ میں علمائے کرام کے دو رائیں ہیں
پہلی رائے :پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتے ہیں,پھر رمضان کے روزوں کی قضا کبھی بھی کی جا سکتی ہے ,(خاص کر اگر عذر شرعی ہو,اور اکثر روزے چھوٹ گئے ہوں)یہ قول جمہور علمائے اسلام(مالکیہ,شافعیہ,حنفیہ,(اور ایک قول کے مطابق)حنابلہ کا ہے, علمائے معاصرین میں ( ایک قول کے مطابق) علامہ البانی ,شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ,شیخ عبد العزیز الفوزان ,فقیہ ِعصر علامہ محمد بن صالح العثیمین ۔رحمہ اللہ ۔ کے خاص الخاص شاگرد ِ ارشد شیخ خالد بن عبد اللہ المصلح , شیخ خالد بن عبد المنعم الرافعی اورمحمد بن صالح المنجد جیسے علمائے اسلام کا ہے,ہاں افضل اور بہتر یہی ہے کہ حتی المقدور کوشش یہی ہو کہ پہلے قضا کر لی جائے,پھر شوال کے روزے رکھے جائیں
دوسری رائے: پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ہوگی پھر شوال کے روزے رکھے جائیں گے,رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنے سے وہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی,جو حدیث میں بیان کی گئی ہے,یہ قول ایک روایت کے مطابق حنابلہ کا ہے,علمائے معاصرین میں سے سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز ,فقیہ ِ وقت علامہ ابن عثیمین اور شیخ ابن جبرین۔رحمہم اللہ۔اور شیخ صالح فوزان,شیخ عبد المحسن العباد البدراور شیخ عبد الرحمن السحیم ۔حفظہم اللہ ۔ نےاسی قول کو راجح قرار دیا ہے
ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی ٔ کریمﷺنے۔۔۔ من صام رمضان ثم أتبعہ۔۔۔ فرمایا ہے,اگر رمضان کے روز ے نہیں رکھے تو,, اتباع,, کیسے اور کیوں کر ہوگا ؟
نیز رمضان کے روزے فرض ہیں,جو اللہ کا حق ہیں,اور اللہ کا حق پہلے ادا کیا جاتا ہے,پھر نوافل کا نمبر آتا ہے‘جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا ہے,پوری حدیث ملاحظہ فرمائیں :( جاءت امرأةٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالت : إنَّ أختي ماتت وعليها صومُ شَهرينِ متتابعينِ قالَ أرأيتِ لَو كانَ علَى أختِك دينٌ أكنتِ تقضيه قالت نعم قالَ فحقُّ اللَّهِ أحقُّ )(ترمذی :۷۱۶,ابن ماجہ:۱۷۵۸,نسائی :۲۹۱۴,صحیح ابن حبان:۳۵۷۰)(ترجمہ:ایک خاتون نبی ٔ کریمﷺ کی خدمت میں آئی,اور عرض کیا:میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے,اور ان پر دو مہینے لگاتار روزے رکھنے ہیں,آپﷺنے فرمایا:تمہارا کیا خیال ؟اگر تمہاری بہن پر قرض ہو,کیا اسے پہلے ادا نہیں کروگی؟عرض کیا:ہاں ,چنانچہ آپﷺنے فرمایا:اللہ کا حق زیادہ حقدار ہے(کہ سب سے پہلے ادا کیا جائے) صحیح مسلم میں کچھ یوں ہے (أنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسولَ اللهِ صَلّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ فَقالَتْ : إنَّ أُمِّي ماتَتْ وَعَلَيْها صَوْمُ شَهْرٍ ، فَقالَ : أَرَأَيْتِ لو كانَ عَلَيْها دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ ؟ قالَتْ : نَعَمْ ، قالَ : فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بالقَضاءِ.)(صحیح مسلم:۱۱۴۸) ترجمہ:ایک خاتون نبی ٔ کریمﷺ کے پاس آئی اور عرض گزار ہوئی:میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے,اور ان پر ایک ماہ کا روزہ ہے,آپﷺنے فرمایا:تمہارا کیا خیال ہے؟اگر ان پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتی نا ؟عرض کیا :ہاں,چنانچہ آپﷺنے فرمایا:اللہ کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اسے ادا کیا جائے
نیز فرمایا: (أنَّ امْرَأَةً جاءَتْ إلى النبيِّ ﷺ ، فقالَتْ : إنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أنْ تَحُجَّ فَماتَتْ قَبْلَ أنْ تَحُجَّ ، أفَأَحُجَّ عَنْها ؟ قالَ : نَعَمْ ، حُجِّي عَنْها ، أرَأَيْتِ لو كانَ على أُمِّكِ دَيْنٌ أكُنْتِ قاضِيَتَهُ؟ ، قالَتْ : نَعَمْ ، فقالَ: اقْضُوا اللَّهَ الذي له ، فإنَّ اللَّهَ أحَقُّ بالوَفاءِ)(بخاری:۷۳۱۵)ایک عورت نبی ٔ کریمﷺکی خدمت میں آئی اور کہنے لگی:میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی ہے,البتہ حج کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا ہے,کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپﷺنے فرمایا:ان کی طرف سے حج کرلو,تمہارا کیا خیال ہے ؟اگر تمہاری ماں کے اوپر قرض ہوتا تو ,تو ادا کرتی نا؟عرض کیا :ہاں,تو آپﷺنے فرمایا:اللہ کے لئے جو ہے,اسے ادا کرو,کیوں کہ اللہ پورا کرنے کا زیادہ حقدار ہے)
چنانچہ جب ہم شوال کے روزوں کے متعلق وارد تمام احادیث کا جائزہ لیتے ہیں تو دو دو چار کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اس سلسلہ میں جمہور کا قول ہی راجح ہے اور درست بات یہی ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے بھی شش عیدی روزے رکھے جا سکتے ہیں,ملاحظہ فرمائیں
(۱)حضرت ابو ایوب الأنصاری کی حدیث میں وارد (ثم أتبعہ ستا من شوال)کی توضیح دیگر احادیث میں وارد الفاظ سے بھی ہوتی ہے,جس میں لفظ (ثم)کی بجائے (لفظ (و)آیا ہوا ہے,جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ترتیب و تعقیب مراد نہیں ہے,بلکہ روزہ رکھنے کی ترغیب ہے ,تامل فرمائیں
(الف)حضرت غنام ۔رضی اللہ عنہ۔ سے روایت ہے کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(من صامَ رمضانَ وأتبعَهُ ستًّا من شوّالٍ فَكَأنَّما صامَ السَّنةَ)(الإصابہ :۳/۱۸۸,ابن مندہ نے اس حدیث کو موصولا ذکر فرمایا ہے)(ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے اس کے بعد رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزہ رکھا(یعنی پورے سال روزے رکھنے کا ثواب اس نے پالیا)
(ب)حضرت ابو ایوب الأنصاری ۔رضی اللہ عنہ۔کی ایک دوسری حدیث میں کچھ یوں بیان ہوا ہے,نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(مَن صام رمضانَ ، وأَتْبَعَهُ سِتًّا من شوالٍ ، كان كصومِ الدهرِ)(صحیح الجامع:۶۳۲۷,جامع الأحادیث للسیوطی:۲۲۶۱۴)( ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے اس کے بعد رکھے تو گویا اس نے پوری عمر روزہ رکھا)
(ج)حضرت ابو أیوب الأنصاری ۔رضی اللہ عنہ۔ کی ایک اور حدیث میں کچھ یوں مذکور ہے(مَن صام رَمَضانَ وأتْبَعَه سِتًّا من شوّالٍ ، فكأنَّما صام الدَّهرَ)(تخریج مشکل الآثار:۲۳۴۳, و ۲۳۴۴,و ۲۳۴۵,اور شیخ ارناؤط نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے )( :۶۳۲۷)( ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے اس کے بعد رکھے تو گویا اس نے پوری عمر روزہ رکھا)
(د)نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(من صام رمضان وستا من شوال فقد صام السنة)(ابن حبان:۳۶۳۵,شیخ شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے,نیز دیکھئے:تخریج مشکل الآثار:۲۳۳۸,علامہ البانی نے بھی صحیح الموارد:۷۶۸میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے)
(ھ) نیز حضرت ابو ہریرہ ۔رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے,فرماتے ہیں(من صام رمضان وأتبعه بست من شوال فكأنما صام الدهر)(بزار:۸۳۳۴,تاریخ دمشق:۳۵/۳۶,أحد طرقہ صحیح:الترعیب و الترہیب:۲/۱۲۵)جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پوری عمر روزہ رکھا))
(و) نیز نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(صِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ وَصِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِشَهْرَيْنِ فَذَلِكَ صِيَامُ سَنَةٍ)(سنن کبری:۲۸۷۳,و سندہ صحیح عن ثوبان۔رضی اللہ عنہ۔مولی رسول اللہﷺ,الجامع الصغیر للسیوطی:۵۱۰۰,صحیح الجامع:۳۸۵۱) ترجمہ:رمضان کے روزے دس مہینہ کے برابر اور شوال کے چھ روزے دو مہینے کے روزے کے برابر ہوئے تو یہ ایک سال کے روزے کے برابر ہوا )
(ز)نیز حضرت جابر بن عبد اللہ الأنصاری ۔رضی اللہ عنہ۔فرماتے ہیں کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( مَن صامَ رمضانَ ، وسِتًّا من شوّالٍ ، فكأنَّما صامَ السَّنةَ كلَّها)(مسند أحمد:۱۴۳۰۲,عبد بن حمید:۱۱۱۴,شرح مشکل الآثار:۲۳۵۰,شیخ شعیب الأرناؤط نے اس کی سند کو صحیح لغیرہ کہا ہے)(جس نے رمضان کے روزے رکھے,اور شوال کے چھ روزے,گویا اس نے پورے سال روزہ رکھا)
ان تمام احادیث پر غور فرمائیں کہ آپﷺ نے (ثم)(جو ترتیب و تعقیب کے لئے آتا ہے)کی بجائے (و)کا لفظ وارد ہوا ہے,جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ترتیب کوئی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی مقصود ہے
(۲)بعض احادیث پر بھی غور فرمائیں جن میں علی الإطلاق عید کے بعد کا تذکرہ ہوا ہے,چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
(ألف)نبی ٔ کریمﷺنے خود ہی اپنی بان فیض ترجمان سے ایک سال کے برابر روزہ رکھنے کے ثواب کی تفصیل بتائی ہے ,جیسا کہ حضرت ثوبان ۔رصی اللہ عنہ ۔سے روایت ہے کہ نبی ٔ اکرمﷺ نےفرمایا:(من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها)(ابن ماجہ :۱۴۰۲, و سندہ صحیح)( جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔( جو کوئي نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا ))
(ب)نیز حضرت ثوبان کی حدیث میں اس ثواب کی تشریح کچھ یوں آئی ہے,خود نبی ٔ کریمﷺنے فرمایا:( جعل اللهُ الحسنةَ بعشر أمثالِها ، فشهرٌ بعشرةِ أشهرٍ ، وصيامُ ستَّةِ أيامٍ بعد الفطرِ تمامُ السَّنةِ)(صحیح الترغیب :۱۰۰۷, و سندہ صحیح)(ترجمہ: اللہ تعالی نے ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر قرار دیا ہے‘چنانچہ ایک مہینہ دس مہینے کے برابر قرار پایا اور عید کے بعد چھ روزے پورے سال کے مساوی ہوئے)
(ج)نیز حضرت ثوبان ۔رضی اللہ عنہ۔سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے,نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: (مَن صام رَمضانَ فشَهرٌ بعَشْرةِ أشهُرٍ ، وصيامُ ستَّةِ أيّامٍ بعدَ الفِطرِ ، فذلك تَمامُ صيامِ السَّنةِ)(مسند أحمد:۲۲۴۱۲,سنن کبری:۲۸۶۰,ابن ماجہ:۱۷۱۵, و سندہ صحیح کما قال الأرناؤط فی تخریج المسند)
(د)نیز حضرت ثوبان ۔رضی اللہ عنہ۔سے ہی مروی ہے فرماتے ہیں کہ نبی ٔ اکرمﷺکا ارشاد عالی ہے (مَن صامَ سِتَّةَ أيامٍ بَعدَ الفِطرِ ، کان تَمامَ السَّنةِ ، مَن جاءَ بالحَسَنةِ فله عَشرُ أمثالِها)( المعجم الأوسط :۷۶۰۷,ابن خزیمہ:۲۱۱۵, تخریج شرح السنۃ :۶ ۳۳۱) شیخ ارناؤط نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے)
(۳)حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔ کے معمول پر انتہائی سنجیدگی سے غور فرمائیں ,آں رصی اللہ عنہا۔خود اپنے بارے میں فرماتی ہیں: (كانَ يَكونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِن رَمَضَانَ ، فَما أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إلَّا في شَعْبَانَ ، الشُّغْلُ مِن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ ، أَوْ برَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ)(بخاری :۱۹۵۰,مسلم:۱۱۴۶)(میرے اوپر رمضان کے روزے باقی رہتے تھے,شعبان سے پہلے ان کی قضا میں نہیں کرپاتی تھی,کیوں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ یا آپﷺسے کام رہتا تھا)
ظاہر سی بات ہے اماں عائشہ۔رضی اللہ عنہا۔ شوال کے رزے یقینا رکھتی تھیں, بالیقین آپﷺکو اس کی خبر بھی تھی,اس کے باوجود کبھی آپﷺنے انہیں روکا نہیں اور نہ ہی ٹوکا ,جس سے معلوم ہوا رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے بھی شوال کے روزے رکھے جا سکتے ہیں
(۴)اس امر پر بھی غور فرمائیں کہ رمضان کے روزوں کی قضا کے اندر گنجائش موجود ہے, فی الفور قضا واجب نہیں ہے,اس بات پر جملہ مذاہب اربعہ کا اجماع ہے,(دیکھئے:الإنصاف للمرداوی:۳/۳۳۴,المجموع للنوی:۶/۳۶۵,مواہب الجلیل للحطاب :۳/۳۸۴,بدائع الصنائع:۲/۱۰۴,فتح القدیر ۲ ۳۵۵) اگر یہ کہا جائے کہ پہلے قضا روزے رکھے جائیںٖ پھر شوال کے روزے رکھے جائیں تو اس ((گنجائش))کے ختم کردینے کے مترادف ہوگا ,اور فی الفور قضا کو لازم قرار دینا لازم آئے گاجو کہ یکسر درست نہیں ہے
(۵)اس امر پر بھی غور فرمائیں کہ اگر (۔۔۔ثم أتبعہ ستا من شوال۔۔۔) کے ظاہری معنی کو مراد لیا جائے اور کہا جائے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ہوگی پھر شوال کے روزے رکھے جائیں گے تو اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ ہم (من صام رمضان)سے ظاہری طور پر یہ بھی مراد لیں کہ جس نے ایک روزہ بھی بہ عذر شرعی چھوڑ دیا تو گویا اس نے رمضان کے روزے رکھے ہی نہیں ,حالانکہ ایسی بے تکی بات تو کوئی کہتا ہی نہیں ہے,جس سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ شوال کے روزے قضا سے پہلے رکھے جا سکتے ہیں,ہاں اتنی بات تو ضرور ہے کہ بہتر یہی ہے کہ قضا پہلے کرلی جائے پھر شوال کے روزے رکھے جائیں,لیکن جہاں تک بات جواز کی رہی تو شوال کے روزے قضا سے پہلے رکھے جا سکتے ہیں,یہی بات قرین ِ انصاف بھی ہے,اور اقرب إلی الصواب بھی
ربِّ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اتباع ِ کتاب و سنت کی توفیق ارزانی کرے,حاملِ شریعت بنائے,اور تا دم ِ حیات تعلیماتِ اسلامیہ پر عمل پیرا رکھے آمین یا رب العالمین
? :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمد للہ رب العالمین,و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
رمضان کے روزے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے, اس کا ثواب پورے سال بھر روزہ رکھنے کے برابر قرار دیا گیا ہے,چنانچہ بہ صراحت و وضاحت نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر)(مسلم:۱۱۶۴)
ترجمہ: (جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال ہر سال شوال کے ماہ میں انتہائی شد و مد کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ رمضان کے روزے کی قضاپہلے ہوگی یا قضا سے پہلے بھی شش عیدی روزے رکھے جا سکتے ہیں؟
بیمار حضرات,حیض و نفاس والی خواتین ,اصحاب ِ اعذار کیا پہلے قضا کریں گے,پھر شش عیدی روزے رکھیں گے یا شوال کے روزے شوال ہی میں رکھیں گے اور رمضان کے قضا روزے کسی بھی وقت قضا کر لیں گے تو ثواب حاصل ہوجائے گا ؟
اس سلسلہ میں علمائے کرام کے دو رائیں ہیں
پہلی رائے :پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتے ہیں,پھر رمضان کے روزوں کی قضا کبھی بھی کی جا سکتی ہے ,(خاص کر اگر عذر شرعی ہو,اور اکثر روزے چھوٹ گئے ہوں)یہ قول جمہور علمائے اسلام(مالکیہ,شافعیہ,حنفیہ,(اور ایک قول کے مطابق)حنابلہ کا ہے, علمائے معاصرین میں ( ایک قول کے مطابق) علامہ البانی ,شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ,شیخ عبد العزیز الفوزان ,فقیہ ِعصر علامہ محمد بن صالح العثیمین ۔رحمہ اللہ ۔ کے خاص الخاص شاگرد ِ ارشد شیخ خالد بن عبد اللہ المصلح , شیخ خالد بن عبد المنعم الرافعی اورمحمد بن صالح المنجد جیسے علمائے اسلام کا ہے,ہاں افضل اور بہتر یہی ہے کہ حتی المقدور کوشش یہی ہو کہ پہلے قضا کر لی جائے,پھر شوال کے روزے رکھے جائیں
دوسری رائے: پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ہوگی پھر شوال کے روزے رکھے جائیں گے,رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنے سے وہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی,جو حدیث میں بیان کی گئی ہے,یہ قول ایک روایت کے مطابق حنابلہ کا ہے,علمائے معاصرین میں سے سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز ,فقیہ ِ وقت علامہ ابن عثیمین اور شیخ ابن جبرین۔رحمہم اللہ۔اور شیخ صالح فوزان,شیخ عبد المحسن العباد البدراور شیخ عبد الرحمن السحیم ۔حفظہم اللہ ۔ نےاسی قول کو راجح قرار دیا ہے
ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی ٔ کریمﷺنے۔۔۔ من صام رمضان ثم أتبعہ۔۔۔ فرمایا ہے,اگر رمضان کے روز ے نہیں رکھے تو,, اتباع,, کیسے اور کیوں کر ہوگا ؟
نیز رمضان کے روزے فرض ہیں,جو اللہ کا حق ہیں,اور اللہ کا حق پہلے ادا کیا جاتا ہے,پھر نوافل کا نمبر آتا ہے‘جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا ہے,پوری حدیث ملاحظہ فرمائیں :( جاءت امرأةٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالت : إنَّ أختي ماتت وعليها صومُ شَهرينِ متتابعينِ قالَ أرأيتِ لَو كانَ علَى أختِك دينٌ أكنتِ تقضيه قالت نعم قالَ فحقُّ اللَّهِ أحقُّ )(ترمذی :۷۱۶,ابن ماجہ:۱۷۵۸,نسائی :۲۹۱۴,صحیح ابن حبان:۳۵۷۰)(ترجمہ:ایک خاتون نبی ٔ کریمﷺ کی خدمت میں آئی,اور عرض کیا:میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے,اور ان پر دو مہینے لگاتار روزے رکھنے ہیں,آپﷺنے فرمایا:تمہارا کیا خیال ؟اگر تمہاری بہن پر قرض ہو,کیا اسے پہلے ادا نہیں کروگی؟عرض کیا:ہاں ,چنانچہ آپﷺنے فرمایا:اللہ کا حق زیادہ حقدار ہے(کہ سب سے پہلے ادا کیا جائے) صحیح مسلم میں کچھ یوں ہے (أنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسولَ اللهِ صَلّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ فَقالَتْ : إنَّ أُمِّي ماتَتْ وَعَلَيْها صَوْمُ شَهْرٍ ، فَقالَ : أَرَأَيْتِ لو كانَ عَلَيْها دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ ؟ قالَتْ : نَعَمْ ، قالَ : فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بالقَضاءِ.)(صحیح مسلم:۱۱۴۸) ترجمہ:ایک خاتون نبی ٔ کریمﷺ کے پاس آئی اور عرض گزار ہوئی:میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے,اور ان پر ایک ماہ کا روزہ ہے,آپﷺنے فرمایا:تمہارا کیا خیال ہے؟اگر ان پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتی نا ؟عرض کیا :ہاں,چنانچہ آپﷺنے فرمایا:اللہ کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اسے ادا کیا جائے
نیز فرمایا: (أنَّ امْرَأَةً جاءَتْ إلى النبيِّ ﷺ ، فقالَتْ : إنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أنْ تَحُجَّ فَماتَتْ قَبْلَ أنْ تَحُجَّ ، أفَأَحُجَّ عَنْها ؟ قالَ : نَعَمْ ، حُجِّي عَنْها ، أرَأَيْتِ لو كانَ على أُمِّكِ دَيْنٌ أكُنْتِ قاضِيَتَهُ؟ ، قالَتْ : نَعَمْ ، فقالَ: اقْضُوا اللَّهَ الذي له ، فإنَّ اللَّهَ أحَقُّ بالوَفاءِ)(بخاری:۷۳۱۵)ایک عورت نبی ٔ کریمﷺکی خدمت میں آئی اور کہنے لگی:میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی ہے,البتہ حج کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا ہے,کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپﷺنے فرمایا:ان کی طرف سے حج کرلو,تمہارا کیا خیال ہے ؟اگر تمہاری ماں کے اوپر قرض ہوتا تو ,تو ادا کرتی نا؟عرض کیا :ہاں,تو آپﷺنے فرمایا:اللہ کے لئے جو ہے,اسے ادا کرو,کیوں کہ اللہ پورا کرنے کا زیادہ حقدار ہے)
چنانچہ جب ہم شوال کے روزوں کے متعلق وارد تمام احادیث کا جائزہ لیتے ہیں تو دو دو چار کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اس سلسلہ میں جمہور کا قول ہی راجح ہے اور درست بات یہی ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے بھی شش عیدی روزے رکھے جا سکتے ہیں,ملاحظہ فرمائیں
(۱)حضرت ابو ایوب الأنصاری کی حدیث میں وارد (ثم أتبعہ ستا من شوال)کی توضیح دیگر احادیث میں وارد الفاظ سے بھی ہوتی ہے,جس میں لفظ (ثم)کی بجائے (لفظ (و)آیا ہوا ہے,جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ترتیب و تعقیب مراد نہیں ہے,بلکہ روزہ رکھنے کی ترغیب ہے ,تامل فرمائیں
(الف)حضرت غنام ۔رضی اللہ عنہ۔ سے روایت ہے کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(من صامَ رمضانَ وأتبعَهُ ستًّا من شوّالٍ فَكَأنَّما صامَ السَّنةَ)(الإصابہ :۳/۱۸۸,ابن مندہ نے اس حدیث کو موصولا ذکر فرمایا ہے)(ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے اس کے بعد رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزہ رکھا(یعنی پورے سال روزے رکھنے کا ثواب اس نے پالیا)
(ب)حضرت ابو ایوب الأنصاری ۔رضی اللہ عنہ۔کی ایک دوسری حدیث میں کچھ یوں بیان ہوا ہے,نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(مَن صام رمضانَ ، وأَتْبَعَهُ سِتًّا من شوالٍ ، كان كصومِ الدهرِ)(صحیح الجامع:۶۳۲۷,جامع الأحادیث للسیوطی:۲۲۶۱۴)( ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے اس کے بعد رکھے تو گویا اس نے پوری عمر روزہ رکھا)
(ج)حضرت ابو أیوب الأنصاری ۔رضی اللہ عنہ۔ کی ایک اور حدیث میں کچھ یوں مذکور ہے(مَن صام رَمَضانَ وأتْبَعَه سِتًّا من شوّالٍ ، فكأنَّما صام الدَّهرَ)(تخریج مشکل الآثار:۲۳۴۳, و ۲۳۴۴,و ۲۳۴۵,اور شیخ ارناؤط نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے )( :۶۳۲۷)( ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے اس کے بعد رکھے تو گویا اس نے پوری عمر روزہ رکھا)
(د)نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(من صام رمضان وستا من شوال فقد صام السنة)(ابن حبان:۳۶۳۵,شیخ شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے,نیز دیکھئے:تخریج مشکل الآثار:۲۳۳۸,علامہ البانی نے بھی صحیح الموارد:۷۶۸میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے)
(ھ) نیز حضرت ابو ہریرہ ۔رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے,فرماتے ہیں(من صام رمضان وأتبعه بست من شوال فكأنما صام الدهر)(بزار:۸۳۳۴,تاریخ دمشق:۳۵/۳۶,أحد طرقہ صحیح:الترعیب و الترہیب:۲/۱۲۵)جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پوری عمر روزہ رکھا))
(و) نیز نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(صِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ وَصِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِشَهْرَيْنِ فَذَلِكَ صِيَامُ سَنَةٍ)(سنن کبری:۲۸۷۳,و سندہ صحیح عن ثوبان۔رضی اللہ عنہ۔مولی رسول اللہﷺ,الجامع الصغیر للسیوطی:۵۱۰۰,صحیح الجامع:۳۸۵۱) ترجمہ:رمضان کے روزے دس مہینہ کے برابر اور شوال کے چھ روزے دو مہینے کے روزے کے برابر ہوئے تو یہ ایک سال کے روزے کے برابر ہوا )
(ز)نیز حضرت جابر بن عبد اللہ الأنصاری ۔رضی اللہ عنہ۔فرماتے ہیں کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( مَن صامَ رمضانَ ، وسِتًّا من شوّالٍ ، فكأنَّما صامَ السَّنةَ كلَّها)(مسند أحمد:۱۴۳۰۲,عبد بن حمید:۱۱۱۴,شرح مشکل الآثار:۲۳۵۰,شیخ شعیب الأرناؤط نے اس کی سند کو صحیح لغیرہ کہا ہے)(جس نے رمضان کے روزے رکھے,اور شوال کے چھ روزے,گویا اس نے پورے سال روزہ رکھا)
ان تمام احادیث پر غور فرمائیں کہ آپﷺ نے (ثم)(جو ترتیب و تعقیب کے لئے آتا ہے)کی بجائے (و)کا لفظ وارد ہوا ہے,جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ترتیب کوئی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی مقصود ہے
(۲)بعض احادیث پر بھی غور فرمائیں جن میں علی الإطلاق عید کے بعد کا تذکرہ ہوا ہے,چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
(ألف)نبی ٔ کریمﷺنے خود ہی اپنی بان فیض ترجمان سے ایک سال کے برابر روزہ رکھنے کے ثواب کی تفصیل بتائی ہے ,جیسا کہ حضرت ثوبان ۔رصی اللہ عنہ ۔سے روایت ہے کہ نبی ٔ اکرمﷺ نےفرمایا:(من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها)(ابن ماجہ :۱۴۰۲, و سندہ صحیح)( جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔( جو کوئي نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا ))
(ب)نیز حضرت ثوبان کی حدیث میں اس ثواب کی تشریح کچھ یوں آئی ہے,خود نبی ٔ کریمﷺنے فرمایا:( جعل اللهُ الحسنةَ بعشر أمثالِها ، فشهرٌ بعشرةِ أشهرٍ ، وصيامُ ستَّةِ أيامٍ بعد الفطرِ تمامُ السَّنةِ)(صحیح الترغیب :۱۰۰۷, و سندہ صحیح)(ترجمہ: اللہ تعالی نے ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر قرار دیا ہے‘چنانچہ ایک مہینہ دس مہینے کے برابر قرار پایا اور عید کے بعد چھ روزے پورے سال کے مساوی ہوئے)
(ج)نیز حضرت ثوبان ۔رضی اللہ عنہ۔سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے,نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: (مَن صام رَمضانَ فشَهرٌ بعَشْرةِ أشهُرٍ ، وصيامُ ستَّةِ أيّامٍ بعدَ الفِطرِ ، فذلك تَمامُ صيامِ السَّنةِ)(مسند أحمد:۲۲۴۱۲,سنن کبری:۲۸۶۰,ابن ماجہ:۱۷۱۵, و سندہ صحیح کما قال الأرناؤط فی تخریج المسند)
(د)نیز حضرت ثوبان ۔رضی اللہ عنہ۔سے ہی مروی ہے فرماتے ہیں کہ نبی ٔ اکرمﷺکا ارشاد عالی ہے (مَن صامَ سِتَّةَ أيامٍ بَعدَ الفِطرِ ، کان تَمامَ السَّنةِ ، مَن جاءَ بالحَسَنةِ فله عَشرُ أمثالِها)( المعجم الأوسط :۷۶۰۷,ابن خزیمہ:۲۱۱۵, تخریج شرح السنۃ :۶ ۳۳۱) شیخ ارناؤط نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے)
(۳)حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔ کے معمول پر انتہائی سنجیدگی سے غور فرمائیں ,آں رصی اللہ عنہا۔خود اپنے بارے میں فرماتی ہیں: (كانَ يَكونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِن رَمَضَانَ ، فَما أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إلَّا في شَعْبَانَ ، الشُّغْلُ مِن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ ، أَوْ برَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ)(بخاری :۱۹۵۰,مسلم:۱۱۴۶)(میرے اوپر رمضان کے روزے باقی رہتے تھے,شعبان سے پہلے ان کی قضا میں نہیں کرپاتی تھی,کیوں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ یا آپﷺسے کام رہتا تھا)
ظاہر سی بات ہے اماں عائشہ۔رضی اللہ عنہا۔ شوال کے رزے یقینا رکھتی تھیں, بالیقین آپﷺکو اس کی خبر بھی تھی,اس کے باوجود کبھی آپﷺنے انہیں روکا نہیں اور نہ ہی ٹوکا ,جس سے معلوم ہوا رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے بھی شوال کے روزے رکھے جا سکتے ہیں
(۴)اس امر پر بھی غور فرمائیں کہ رمضان کے روزوں کی قضا کے اندر گنجائش موجود ہے, فی الفور قضا واجب نہیں ہے,اس بات پر جملہ مذاہب اربعہ کا اجماع ہے,(دیکھئے:الإنصاف للمرداوی:۳/۳۳۴,المجموع للنوی:۶/۳۶۵,مواہب الجلیل للحطاب :۳/۳۸۴,بدائع الصنائع:۲/۱۰۴,فتح القدیر ۲ ۳۵۵) اگر یہ کہا جائے کہ پہلے قضا روزے رکھے جائیںٖ پھر شوال کے روزے رکھے جائیں تو اس ((گنجائش))کے ختم کردینے کے مترادف ہوگا ,اور فی الفور قضا کو لازم قرار دینا لازم آئے گاجو کہ یکسر درست نہیں ہے
(۵)اس امر پر بھی غور فرمائیں کہ اگر (۔۔۔ثم أتبعہ ستا من شوال۔۔۔) کے ظاہری معنی کو مراد لیا جائے اور کہا جائے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ہوگی پھر شوال کے روزے رکھے جائیں گے تو اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ ہم (من صام رمضان)سے ظاہری طور پر یہ بھی مراد لیں کہ جس نے ایک روزہ بھی بہ عذر شرعی چھوڑ دیا تو گویا اس نے رمضان کے روزے رکھے ہی نہیں ,حالانکہ ایسی بے تکی بات تو کوئی کہتا ہی نہیں ہے,جس سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ شوال کے روزے قضا سے پہلے رکھے جا سکتے ہیں,ہاں اتنی بات تو ضرور ہے کہ بہتر یہی ہے کہ قضا پہلے کرلی جائے پھر شوال کے روزے رکھے جائیں,لیکن جہاں تک بات جواز کی رہی تو شوال کے روزے قضا سے پہلے رکھے جا سکتے ہیں,یہی بات قرین ِ انصاف بھی ہے,اور اقرب إلی الصواب بھی
ربِّ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اتباع ِ کتاب و سنت کی توفیق ارزانی کرے,حاملِ شریعت بنائے,اور تا دم ِ حیات تعلیماتِ اسلامیہ پر عمل پیرا رکھے آمین یا رب العالمین
اٹیچمنٹس
-
603.1 KB مناظر: 299