بھائی دین کے معاملے بغیر غور کیے بغیر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ۔ اس لئیے پچھلی پوسٹس بھی غور سے پڑہیں اور یہ بھی ان شاء اللہ غور سے ہی پڑہوں گاتلمیذ بھائی لگتا ہے آپ کو بھی بات سمجھ نہیں آئی وہ بات دوبارہ نقل کررہا ہوں۔امید ہے اس بار غور کرنے کی کوشش کریں گے۔ان شاءاللہ
یہ بات نقل ہونے کے بعد آپ کی طرف سے ایک دعوی آیا تھاحدیث میں ہے کہ ’’جس شخص نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے۔(صحيح مسلم:كتاب الصيام13، باب39،حديث1164) ‘‘ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ’’ شوال کے چھ روزے رکھنا ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہیں خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے۔(فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣ ) ‘‘
بھائی حدیث کی مخالفت تب ہوتی ہے جب کسی کے پاس صحیح سند سے حدیث پہنچے اور وہ حدیث کے خلاف فتوی دے ۔آپ سے دعوی ثابت نہ ہوا بلکہ اگلی پوسٹ میں اس بے دلیل دعوی کو غائب کرکے بات کا رخ موڑ دیا ۔اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے
بھائی ، ہم کو خود قرآن و حدیث پر عمل کرنا چاہئیے لیکن اکابر کا اگر کوئی خلاف حدیث فتوی دیکھیں تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہئیے یہاں تک تو آپ کا اور ہمارہ اتفاق ہے لیکن اگلی بات میں مجھے آپ سے حضرات سے شدید اختلاف ہے ۔ آپ حضرات کسی اکابر کی خلاف حدیث فتوی دیکھ کر یہ تحقیق نہیں کرتے کیا وہ حدیث صحیح سند کے ساتھ اس محترم ہستی تک پہنچی تھی یا نہیں بس زبان درازیاں شروع کردیتے ہیں ۔ یہاں پر مجھے آپ حضرات سے شدید اختلاف ہے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص نے حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پانے کے باوجود مخالفت کی ہمیں کسی بھی قسم کی توہیں امیز الفاظ اس شخصیت کے لئیے نہیں کہنا چاہئیے ۔ ہاں چون کہ ہم تک صحیح حدیث پہنچی ہے تو ہم اس فتوی پر عمل نہیں کریں گے بلکہ حدیث پر ہی عمل کیا جائے گا۔محترم بھائی اب آپ پر لازم ہے کہ
1۔اس بات کا اعتراف کریں کہ امام صاحب نے حدیث کےخلاف فتویٰ دیا ہے
2۔یا اس بات کا اعتراف کریں کہ امام صاحب نے غلطی کی ہے
3۔ یا اس بات کو واضح کریں کہ امام صاحب کا فتویٰ بھی عین شریعت کےمطابق ہے۔ جیسا کہ آپ لوگ باقی مسائل میں اس طرح کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں
4۔ یا اس بات کا اعتراف کریں کہ کتب احناف میں امام صاحب پر جھوٹ بولا گیا ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ
ٹھیک ہے ۔ اگر آپ بات صرف امام ابو حنیفہ کے حوالہ سے کرنا چاہتے ہیں تو میں بھی احناف کی بات نہ چھیڑوں گا ۔ آپ بھی مت چھیڑیںجی محترم بھائی پہلے بھی اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اب دوبارہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ بات یہاں احناف کےحوالے سے نہیں بلکہ امام صاحب کے حوالے سے ایک مسئلہ پر ہے۔ صرف ایک مسئلہ پر۔اور ہم نے نہ تو کوئی تعصب کیا اور نہ نقل کرنے میں کوئی خیانت کی بلکہ جیسا آپ لوگوں نے لکھا اسی کو آپ کی ہی کتب سے بحوالہ نقل کردیا۔۔اگر ہمارےنقل پہ ہی آپ خفا ہوگئے ہیں تو یہ بات ہماری سمجھ سے کوسوں دور ہے۔
مجھے احناف کی بات سے منع کرکے خود بحث کو احناف کی طرف لے کرجا رہے ہیں ۔ آپ نے خود کہااور پھر حیرانگی والی بات تو یہ ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔اور آپ لوگوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ تقلید کرتے ہوئے جیسا فرمایا گیا اسی کے آگے سرخم کرلیتے۔یہاں پر آپ لوگوں نے تقلید کا پھندا گلے سے کیوں نکالا ؟ کیا آپ لوگ امام صاحب سے زیادہ مجتہد ہوگئے؟ اس مسئلے میں امام صاحب کے قول وفتویٰ پر اعتماد کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا آپ لوگ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی روش اپنائے ہوئے ہیں ؟ باقی کتنے سارے مسائل جو احادیث کے خلاف ہیں اس میں آپ تقلید کرتے ہیں تو یہاں تقلید کیوں نہیں کی ؟
اس لئیے اگلی پوسٹس میں آپ بھی صرف اس نقطہ پر رہیں ۔کہ بات یہاں احناف کےحوالے سے نہیں بلکہ امام صاحب کے حوالے سے ایک مسئلہ پر ہے
چون کہ بات صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہورہی ہے ۔ میں احناف کے رویے پر بات نہیں کر رہا اور امید کرتا ہوں کہ آپ خود بھی اپنے اصول کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور بات احناف کی طرف نہیں لے کر جائیں گےبہت خوب محترم بھائی یہاں اس بات کا جواب نہیں بلکہ یہاں پر تو آپ لوگوں کی دوگلا پالیسی واضح ہورہی ہے۔۔کہ کہیں تقلید تقلید کے وجوب کے نعرے اور کہیں تقلید سے بھاگنے کے راستے۔۔اگر تقلید نہ کرنے سے انسان من مانی میں پڑ جاتا ہے تو پھر آپ لوگ بھی اسی من مانی میں پڑ کر غیر مقلد ہوگئے۔۔ کیا تقلید اسی کو کہتے ہیں کہ دل نے چاہا بات مان لی اور دل نے نہ چاہا تو بات رد کردی؟
جو دعوی کرتا وہ ہی ثابت کرتا ہے ۔ دعوی ثابت نہیں ہوتا تو فضول کی بحث چھوڑ دیں ۔ماشاء اللہ ثم ماشاءاللہ واہ کیا بات ہے محترم تلمیذ بھائی آپ کی ....کتابیں آپ کے مذہب کی، لکھا مذہب حنفی کے علماء نے، فتویٰ آپ کے مقلدامام کا، ہمارے نقل کرنے پر اب ہم پر یہ ذمہ داری ڈال رہے ہیں کہ آپ یہ بھی ثابت کریں اور آپ وہ بھی ثابت کریں.........بہت خوب
آپ نے مجھے کہا کہ میں امام ابو حنیفہ کے شوال کےروزوں کے تعلق کے حوالہ سے بات کروں اور باتیں نہ چھیڑوں ۔ اور خود ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں ۔ دعوی ثابت ہوتا ہے تو کریں ورنہ خوامخواہ دعوی کرنے سے کل کو کوئی آپ کی بات سننا بھی پسند نہ کرے گا ۔گڈ چلیں آپ نے یہ بات تو مان لی کہ فقہی کتب میں کمزور، ضعیف اور من گھڑت اقوال بھی موجود ہیں...عزیز بھائی جس طرح ہمارے علماء نے سر دھڑ کی بازی لگا کر حدیث کی تخریج کی اور صحیح کوصحیح کہا اور ضعیف کو ضعیف کہا تو یہ کام فقہی کتب کے حوالے سے آپ لوگ کب شروع کررہے ہیں؟ تاکہ فقہی کتب سے بھی صحیح اقوال کو ضعیف، کمزور، لاغر، من گھڑت اقوال سے الگ کیا جائے اور ہر ہر قول کی سند بیان کردی جائے؟؟.......اور پھر دوسری بات آپ لوگ اس طرح کے بے سند، بےتکے اقوال کا بے جا دفاع کیوں کرتے ہیں ؟....اور پھر یہ آپ ہی ثابت کریں کہ یہ فتویٰ امام صاحب کی طرف غلط منسوب کیا گیا ہے...اور ساتھ یہ بھی بتائیں کہ آپ کے اکابرین میں سے کتنے علماء ایسے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہو کہ امام صاحب نے یہاں پر غلطی کی ہے؟ یا کہا ہو کہ یہ فتویٰ امام صاحب سے ثابت ہی نہیں غلط منسوب ہے؟ وغیرہ
بھائی میں یہ کہ رہا ہوں کہ آپ کا دعوی ہےمحترم بھائی نقل کرنے کی تکلیف ضرورہم نےکی ہے۔ اب آپ کی مرضی دعویٰ سمجھیں یا کچھ اور۔۔۔اور وہ بھی بحوالہ آپ کی ہی کتب سے۔۔۔یہ تو آپ کو ہی ثابت کرنا پڑے گا محترم تلمیذ بھائی جان۔۔یا پھر تسلیم کرلیں کہ امام صاحب کافتویٰ حدیث کے خلاف ہے اور امام صاحب نے حدیث کی مخالفت کی ہے ؟
یہ حدیث کی مخالفت تب ثابت ہوگي جب آپ سے یہ ثابت کریں گے کہ یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ تک پہنچی اور امام ابو حنیفہ نے حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پانے کے باوجود مخالفت کی ۔اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے
کیا آپ کو معلوم ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی شوال کے روزوں کی فضیلت کے قائل نہ تھے ۔ کیا کبھی آپ نے امام مالک رحمہ اللہ کے خلاف بھی ایسے فتوے لگآئے ۔ کبھی نہہیں کیا ہوگا کیوں کہ آپ کی ضد صرف احناف اور ان کے اکابر سے ہے ۔
ٹھیک ہے اب میں بھی صرف امام صاحب کی حد تک بات کر رہا ہوں اور آپ سے بھی گذرارش ہے کہ صرف امام صاحب کے متعلق جو دعوی آپ نے کیا ہے اس تک ہی رہیںبہت خوب۔ دھوکہ دینےمیں آپ لوگوں کا ثانی کوئی بھی نہیں۔۔پہلی بات بات احناف کی نہیں امام صاحب کی ہے۔
میں نے آپ کے دعوی کو بے تکا کہا تھا۔۔دوسری بات اگر یہ بات بلا سند،بلا دلیل اور بے تکی ہے تو آپ کی ہی کتب سے نقل کی گئی ہے۔جس کامطلب ہے کہ کتب احناف بلاسند، بلا دلیل اور بے تکی باتوں سے بھری پڑی ہیں
آپ کا دعوی تھا
یہ دعوی کہاں ہماری کتب میں لکھا ہے ۔ ؟؟؟؟؟اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے
بھائی ہم تو صریح حدیث پر ہی عمل کر رہے ہیں ۔ شوال کے روزوں کی فضیلت کے قائل ہیں۔۔۔تیسری بات اگر کل قیامت کو ہم سے یہ پوچھا گیا کہ حدیث کے صریح خلاف اقوال کی موجودگی میں آپ لوگوں نے محمد کریمﷺ کے اقوال کادفاع کرتے ہوئے اس کونشان زدہ نہیں کیا تو پھر اس کاکیا جواب ہوگا ؟
ماشاء اللہ تھریڈ سے غیر متعلق باتیں آپ کرتے جائیں اور الگ تھریڈ میں بناتا جاوںجو آپ نے جواب دیا ہے گزارش ہے کہ وہ اس سوال کاجواب نہیں ہے۔۔آگے بھائی جان خود سمجھ لیں۔۔۔یا پھر اس پر الگ تھریڈ قائم کرنا ہے تو بہتر ہے