• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوال کے چھ روزے اور امام ابو حنیفہ

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ بھائی لگتا ہے آپ کو بھی بات سمجھ نہیں آئی وہ بات دوبارہ نقل کررہا ہوں۔امید ہے اس بار غور کرنے کی کوشش کریں گے۔ان شاءاللہ
بھائی دین کے معاملے بغیر غور کیے بغیر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ۔ اس لئیے پچھلی پوسٹس بھی غور سے پڑہیں اور یہ بھی ان شاء اللہ غور سے ہی پڑہوں گا

حدیث میں ہے کہ ’’جس شخص نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے۔(صحيح مسلم:كتاب الصيام13، باب39،حديث1164) ‘‘ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ’’ شوال کے چھ روزے رکھنا ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہیں خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے۔(فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣ ) ‘‘
یہ بات نقل ہونے کے بعد آپ کی طرف سے ایک دعوی آیا تھا
اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے
بھائی حدیث کی مخالفت تب ہوتی ہے جب کسی کے پاس صحیح سند سے حدیث پہنچے اور وہ حدیث کے خلاف فتوی دے ۔آپ سے دعوی ثابت نہ ہوا بلکہ اگلی پوسٹ میں اس بے دلیل دعوی کو غائب کرکے بات کا رخ موڑ دیا ۔
محترم بھائی اب آپ پر لازم ہے کہ
1۔اس بات کا اعتراف کریں کہ امام صاحب نے حدیث کےخلاف فتویٰ دیا ہے
2۔یا اس بات کا اعتراف کریں کہ امام صاحب نے غلطی کی ہے
3۔ یا اس بات کو واضح کریں کہ امام صاحب کا فتویٰ بھی عین شریعت کےمطابق ہے۔ جیسا کہ آپ لوگ باقی مسائل میں اس طرح کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں
4۔ یا اس بات کا اعتراف کریں کہ کتب احناف میں امام صاحب پر جھوٹ بولا گیا ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ
بھائی ، ہم کو خود قرآن و حدیث پر عمل کرنا چاہئیے لیکن اکابر کا اگر کوئی خلاف حدیث فتوی دیکھیں تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہئیے یہاں تک تو آپ کا اور ہمارہ اتفاق ہے لیکن اگلی بات میں مجھے آپ سے حضرات سے شدید اختلاف ہے ۔ آپ حضرات کسی اکابر کی خلاف حدیث فتوی دیکھ کر یہ تحقیق نہیں کرتے کیا وہ حدیث صحیح سند کے ساتھ اس محترم ہستی تک پہنچی تھی یا نہیں بس زبان درازیاں شروع کردیتے ہیں ۔ یہاں پر مجھے آپ حضرات سے شدید اختلاف ہے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص نے حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پانے کے باوجود مخالفت کی ہمیں کسی بھی قسم کی توہیں امیز الفاظ اس شخصیت کے لئیے نہیں کہنا چاہئیے ۔ ہاں چون کہ ہم تک صحیح حدیث پہنچی ہے تو ہم اس فتوی پر عمل نہیں کریں گے بلکہ حدیث پر ہی عمل کیا جائے گا۔

جی محترم بھائی پہلے بھی اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اب دوبارہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ بات یہاں احناف کےحوالے سے نہیں بلکہ امام صاحب کے حوالے سے ایک مسئلہ پر ہے۔ صرف ایک مسئلہ پر۔اور ہم نے نہ تو کوئی تعصب کیا اور نہ نقل کرنے میں کوئی خیانت کی بلکہ جیسا آپ لوگوں نے لکھا اسی کو آپ کی ہی کتب سے بحوالہ نقل کردیا۔۔اگر ہمارےنقل پہ ہی آپ خفا ہوگئے ہیں تو یہ بات ہماری سمجھ سے کوسوں دور ہے۔
ٹھیک ہے ۔ اگر آپ بات صرف امام ابو حنیفہ کے حوالہ سے کرنا چاہتے ہیں تو میں بھی احناف کی بات نہ چھیڑوں گا ۔ آپ بھی مت چھیڑیں

اور پھر حیرانگی والی بات تو یہ ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔اور آپ لوگوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ تقلید کرتے ہوئے جیسا فرمایا گیا اسی کے آگے سرخم کرلیتے۔یہاں پر آپ لوگوں نے تقلید کا پھندا گلے سے کیوں نکالا ؟ کیا آپ لوگ امام صاحب سے زیادہ مجتہد ہوگئے؟ اس مسئلے میں امام صاحب کے قول وفتویٰ پر اعتماد کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا آپ لوگ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی روش اپنائے ہوئے ہیں ؟ باقی کتنے سارے مسائل جو احادیث کے خلاف ہیں اس میں آپ تقلید کرتے ہیں تو یہاں تقلید کیوں نہیں کی ؟
مجھے احناف کی بات سے منع کرکے خود بحث کو احناف کی طرف لے کرجا رہے ہیں ۔ آپ نے خود کہا
کہ بات یہاں احناف کےحوالے سے نہیں بلکہ امام صاحب کے حوالے سے ایک مسئلہ پر ہے
اس لئیے اگلی پوسٹس میں آپ بھی صرف اس نقطہ پر رہیں ۔

بہت خوب محترم بھائی یہاں اس بات کا جواب نہیں بلکہ یہاں پر تو آپ لوگوں کی دوگلا پالیسی واضح ہورہی ہے۔۔کہ کہیں تقلید تقلید کے وجوب کے نعرے اور کہیں تقلید سے بھاگنے کے راستے۔۔اگر تقلید نہ کرنے سے انسان من مانی میں پڑ جاتا ہے تو پھر آپ لوگ بھی اسی من مانی میں پڑ کر غیر مقلد ہوگئے۔۔ کیا تقلید اسی کو کہتے ہیں کہ دل نے چاہا بات مان لی اور دل نے نہ چاہا تو بات رد کردی؟
چون کہ بات صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہورہی ہے ۔ میں احناف کے رویے پر بات نہیں کر رہا اور امید کرتا ہوں کہ آپ خود بھی اپنے اصول کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور بات احناف کی طرف نہیں لے کر جائیں گے

ماشاء اللہ ثم ماشاءاللہ واہ کیا بات ہے محترم تلمیذ بھائی آپ کی ....کتابیں آپ کے مذہب کی، لکھا مذہب حنفی کے علماء نے، فتویٰ آپ کے مقلدامام کا، ہمارے نقل کرنے پر اب ہم پر یہ ذمہ داری ڈال رہے ہیں کہ آپ یہ بھی ثابت کریں اور آپ وہ بھی ثابت کریں.........بہت خوب
جو دعوی کرتا وہ ہی ثابت کرتا ہے ۔ دعوی ثابت نہیں ہوتا تو فضول کی بحث چھوڑ دیں ۔

گڈ چلیں آپ نے یہ بات تو مان لی کہ فقہی کتب میں کمزور، ضعیف اور من گھڑت اقوال بھی موجود ہیں...عزیز بھائی جس طرح ہمارے علماء نے سر دھڑ کی بازی لگا کر حدیث کی تخریج کی اور صحیح کوصحیح کہا اور ضعیف کو ضعیف کہا تو یہ کام فقہی کتب کے حوالے سے آپ لوگ کب شروع کررہے ہیں؟ تاکہ فقہی کتب سے بھی صحیح اقوال کو ضعیف، کمزور، لاغر، من گھڑت اقوال سے الگ کیا جائے اور ہر ہر قول کی سند بیان کردی جائے؟؟.......اور پھر دوسری بات آپ لوگ اس طرح کے بے سند، بےتکے اقوال کا بے جا دفاع کیوں کرتے ہیں ؟....اور پھر یہ آپ ہی ثابت کریں کہ یہ فتویٰ امام صاحب کی طرف غلط منسوب کیا گیا ہے...اور ساتھ یہ بھی بتائیں کہ آپ کے اکابرین میں سے کتنے علماء ایسے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہو کہ امام صاحب نے یہاں پر غلطی کی ہے؟ یا کہا ہو کہ یہ فتویٰ امام صاحب سے ثابت ہی نہیں غلط منسوب ہے؟ وغیرہ
آپ نے مجھے کہا کہ میں امام ابو حنیفہ کے شوال کےروزوں کے تعلق کے حوالہ سے بات کروں اور باتیں نہ چھیڑوں ۔ اور خود ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں ۔ دعوی ثابت ہوتا ہے تو کریں ورنہ خوامخواہ دعوی کرنے سے کل کو کوئی آپ کی بات سننا بھی پسند نہ کرے گا ۔


محترم بھائی نقل کرنے کی تکلیف ضرورہم نےکی ہے۔ اب آپ کی مرضی دعویٰ سمجھیں یا کچھ اور۔۔۔اور وہ بھی بحوالہ آپ کی ہی کتب سے۔۔۔یہ تو آپ کو ہی ثابت کرنا پڑے گا محترم تلمیذ بھائی جان۔۔یا پھر تسلیم کرلیں کہ امام صاحب کافتویٰ حدیث کے خلاف ہے اور امام صاحب نے حدیث کی مخالفت کی ہے ؟
بھائی میں یہ کہ رہا ہوں کہ آپ کا دعوی ہے
اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے
یہ حدیث کی مخالفت تب ثابت ہوگي جب آپ سے یہ ثابت کریں گے کہ یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ تک پہنچی اور امام ابو حنیفہ نے حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پانے کے باوجود مخالفت کی ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ بھی شوال کے روزوں کی فضیلت کے قائل نہ تھے ۔ کیا کبھی آپ نے امام مالک رحمہ اللہ کے خلاف بھی ایسے فتوے لگآئے ۔ کبھی نہہیں کیا ہوگا کیوں کہ آپ کی ضد صرف احناف اور ان کے اکابر سے ہے ۔


بہت خوب۔ دھوکہ دینےمیں آپ لوگوں کا ثانی کوئی بھی نہیں۔۔پہلی بات بات احناف کی نہیں امام صاحب کی ہے۔
ٹھیک ہے اب میں بھی صرف امام صاحب کی حد تک بات کر رہا ہوں اور آپ سے بھی گذرارش ہے کہ صرف امام صاحب کے متعلق جو دعوی آپ نے کیا ہے اس تک ہی رہیں

۔۔دوسری بات اگر یہ بات بلا سند،بلا دلیل اور بے تکی ہے تو آپ کی ہی کتب سے نقل کی گئی ہے۔جس کامطلب ہے کہ کتب احناف بلاسند، بلا دلیل اور بے تکی باتوں سے بھری پڑی ہیں
میں نے آپ کے دعوی کو بے تکا کہا تھا
آپ کا دعوی تھا
اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے
یہ دعوی کہاں ہماری کتب میں لکھا ہے ۔ ؟؟؟؟؟

۔۔تیسری بات اگر کل قیامت کو ہم سے یہ پوچھا گیا کہ حدیث کے صریح خلاف اقوال کی موجودگی میں آپ لوگوں نے محمد کریمﷺ کے اقوال کادفاع کرتے ہوئے اس کونشان زدہ نہیں کیا تو پھر اس کاکیا جواب ہوگا ؟
بھائی ہم تو صریح حدیث پر ہی عمل کر رہے ہیں ۔ شوال کے روزوں کی فضیلت کے قائل ہیں۔

جو آپ نے جواب دیا ہے گزارش ہے کہ وہ اس سوال کاجواب نہیں ہے۔۔آگے بھائی جان خود سمجھ لیں۔۔۔یا پھر اس پر الگ تھریڈ قائم کرنا ہے تو بہتر ہے
ماشاء اللہ تھریڈ سے غیر متعلق باتیں آپ کرتے جائیں اور الگ تھریڈ میں بناتا جاوں
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جی تلمیذ بھائی جان آپ سے گزارش ہے کہ جو بات دعویٰ کے طور پر بار بار پیش کیے جارہے ہیں اس کو اس اقتباس کے ساتھ ملا کر پڑھیں
حدیث میں ہے کہ ’’جس شخص نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے۔(صحيح مسلم:كتاب الصيام13، باب39،حديث1164) ‘‘ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ’’ شوال کے چھ روزے رکھنا ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہیں خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے۔(فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣ ) ‘‘ اب یہاں پر امام ابوحنیفہ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے۔
دیکھیں بھائی حدیث کہتی ہے شوال کے روزے رکھے جائیں۔۔اور امام صاحب کا قول ہے کہ مکروہ ہیں۔۔اب آپ بتائیں کہ حدیث کی صریح مخالفت ہے یا نہیں؟ ہاں یا ناں میں جواب .........آپ کےجواب کے بعد ہی دیکھا جائے گا کہ یہ دعویٰ تھا یا کچھ اور۔

اور پھر آپ مجھے بتائیں کہ مجھ سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور میں اس کو مسئلہ بتا دیتا ہوں۔ بعد میں مجھے پتہ چلتا ہے یا کوئی مجھے خبردار کرتا ہے کہ میرا بتایا ہوا مسئلہ حدیث کے مخالف تھا۔ کوئی اور مجھے کہہ دیتا ہے یا کسی اور کو بتاتا ہے کہ گڈمسلم نے تو حدیث کی صریح مخالفت کی ہے۔۔ اب آپ بتائیں وہ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہے یا نہیں ؟۔یا اس کا یہ کہنا درست ہوگا یا نہیں ؟

یہ بات بعد کی ہے کہ جب میں نے مسئلہ بتایا اس وقت مجھے حدیث کا علم تھا؟ یا نہیں ۔؟ یا میں نے دلیل وتحقیق کرنے کی زحمت ہی نہیں کی اور بغیر علم کے دین میں بات کرڈالی۔؟ اب جب حدیث کا علم ہوچکا ہے اور علم ہوجانے کے بعد میری بات حدیث کے صریح مخالف بھی ثابت ہوچکی ہے۔۔تو پھر کوئی کہے کہ آپ نے حدیث کی صریح مخالفت کی ہے یا آپ کی بات حدیث کے صریخ مخالف ہے۔۔تو کیا میرا دفاع کرتے ہوئے کوئی اس سے یہ پوچھنے بیٹھ جائے گا کہ پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ گڈمسلم کو حدیث صحیح سند سے پہنچی بھی تھی کہ نہیں ۔؟

عزیز بھائی اس لیے تو میں نے بار بار وہی اقتباس پوسٹ کیا کہ آپ غور سے پڑھیں۔دوبارہ مختصر کچھ یوں عرض کیے دیتا ہوں کہ
’’ بادلائل یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امام صاحب کا قول حدیث کے مخالف ہے۔۔اس بات کو آپ بھی مان چکے ہیں۔(واضح الفاظ میں بیان تو نہیں دیا لیکن مانتے ہیں)۔ کیونکہ حدیث کچھ کہتی ہے اور امام صاحب کچھ فرما گئے ہیں۔کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں ؟ کہ امام صاحب کی بات حدیث کے مخالف ہے۔؟ تاکہ واضح بیان بھی آجائے آپ کا۔‘‘
اور میں نے بھی یہی بات کی ہے کہ امام صاحب نےحدیث کی صریح مخالفت کی ہے۔۔اب آپ صرف اتنا بتائیں گے (اس بات کو فی الحال بعد کی باتوں پر چھوڑتے ہوئے کہ حدیث پہنچی تھی یا نہیں) کہ اب ہم تک قول بھی پہنچ چکا ہے اور حدیث بھی پہنچ چکی ہے۔اور ہم پر یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ قول حدیث سے ٹکرا رہا ہے۔۔تو اب آپ خود ہی بتائیں کہ امام صاحب کی بات حدیث کے صریخ مخالف ہے یا نہیں؟ یا دوسرے الفاظ میں یہاں پر امام صاحب نے حدیث کی مخالفت کی ہے یا نہیں ؟؟

امام صاحب کو حدیث پہنچی تھی یا نہیں؟ حدیث کاعلم ہوتے ہوئے مسئلہ بتایا یابھول چو ک میں بتا دیا ؟ امام صاحب مسئلہ پیش آنے پر حدیث کی جستجو کرتے بھی تھے یا اپنی رائے سےفتویٰ دے دیاکرتے تھے؟ ان باتوں کو فی الحال نہ چھیڑیں۔آپ سے جو یہاں پوچھا ہے آپ اسی کاجواب دیں۔۔جزاکم اللہ

باقی آپ کی تمام باتیں خارج از موضوع ہیں۔ اس لیے ان پر کچھ نہیں کہا گیا
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
تلمیذ صاحب کیوں بیکار اپنی توانائی ضائع کررہےف ہیں۔ ان کے سوال کا بنیادی جواب دیئے گئے لنک میں موجود ہے ۔
اگروہ اس تعلق سے مزید کچھ باتیں کہتے ہیں توجواب دیجئے اوراگربحث برائے بحث ہےجیساکہ ہورہاہے تواس سے خاموشی بہتر ہے۔
مجھے امید نہیں یقین ہے کہ وہ اس تعلق سے کچھ نہیں کہیں گے اورگڈ مسلم صاحب کے تمام مراسلات کا جائزہ لے لیجئے،شاہد نذیر صاحب کے بعد دوسرانمبرانہی کاہے۔ لایعنی مراسلات اوراس میں لایعنی باتیں جس کے سرپیر کاکچھ پتہ نہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تلمیذ صاحب کیوں بیکار اپنی توانائی ضائع کررہےف ہیں۔ ان کے سوال کا بنیادی جواب دیئے گئے لنک میں موجود ہے ۔
محترم ذرا وہی جواب تو یہاں پیسٹ کرنے کی زحمت فرمائیں۔ہم نےتو بار بار پڑھا ہے پر نظر نہیں آسکا۔ اگر آپ کو نظر آرہا ہے تو پلیز یہاں نقل فرماکر شکریہ کاموقع دیں
اگروہ اس تعلق سے مزید کچھ باتیں کہتے ہیں توجواب دیجئے اوراگربحث برائے بحث ہےجیساکہ ہورہاہے تواس سے خاموشی بہتر ہے۔
جی حضور جو بات شاکر بھائی نے پوچھی تھی اور پھر آپ نے بغیر سوچے سمجھے لنک ٹکا دیا۔اسی حوالے سے ہی بات کررہا ہوں۔
مجھے امید نہیں یقین ہے کہ وہ اس تعلق سے کچھ نہیں کہیں گے اورگڈ مسلم صاحب کے تمام مراسلات کا جائزہ لے لیجئے،شاہد نذیر صاحب کے بعد دوسرانمبرانہی کاہے۔ لایعنی مراسلات اوراس میں لایعنی باتیں جس کے سرپیر کاکچھ پتہ نہیں۔
ماشاءاللہ غیبی امور پر حکم لگانے والی ایک اور عظیم ہستی۔۔۔جی جی لایعنی باتیں۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اصل سوال تقلید کے حوالے سے ہے کہ یہاں امام صاحب کی تقلید سے دستبرداری کیوں اختیار کی گئی ہے؟ کیا صرف اسی لئے کہ متاخر احناف کا فتویٰ موجود ہے؟؟؟ اگر نہ ہوتا تو پھر تقلید ہی کی جاتی چاہے وہ حدیث مبارکہ کے صریح خلاف ہوتی؟!!

یعنی یہاں شوال کے روزوں کو (امام صاحب﷫ کے فتویٰ کے خلاف) صرف اس لئے جائز قرار دیا گیا ہے کہ اس پر متاخر احناف کا فتویٰ موجود ہے۔ اگر نہ ہوتا تو کیا حدیثِ مبارکہ پر عمل ہوتا یا پھر تقلید جامد کی بے جا پیروی؟؟؟

یہی ہمارا احناف سے اصل اختلاف ہے کہ جہاں صحیح احادیث مبارکہ کے بالکل برخلاف امام صاحب اور متاخر احناف کا فتویٰ موجود ہوتا ہے وہاں تقلید کو خیر آباد کہہ کر حکم الٰہی ﴿ اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَ‌بِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ٣ پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟!! وہاں متبعین کتاب وسنت کو کیوں غیر مقلد اور لا مذہب قرار دیا جاتا ہے؟؟!!

الله تعالىٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اسلام و علیکم ، شوال کے روزے لگاتار رکھنے چاہئے یا متفرق؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اس مسئلے میں وسعت ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اسلام و علیکم ، شوال کے روزے لگاتار رکھنے چاہئے یا متفرق؟
ابو صالح بھائی حدیث کو دوبارہ پڑھیں
’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘(صحيح مسلم:كتاب الصيام13، باب39،حديث1164)
جس شخص نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے۔
حدیث میں نہ اکھٹے کا ذکر ہے اور نہ الگ الگ۔بس ماہ شوال کی بات ہے کہ یہ روزے رکھنے شوال میں ہی ہیں۔چاہے اکٹھے رکھے جائیں، چاہے جدا جدا۔واللہ اعلم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ابو صالح بھائی حدیث کو دوبارہ پڑھیں
حدیث میں نہ اکھٹے کا ذکر ہے اور نہ الگ الگ۔بس ماہ شوال کی بات ہے کہ یہ روزے رکھنے شوال میں ہی ہیں۔چاہے اکٹھے رکھے جائیں، چاہے جدا جدا۔واللہ اعلم
بعض روایا ت میں متتابعۃ کی صراحت ہے کہ ان روزوں کو ایک ساتھ رکھا جائے لیکن یہ روایات صحیح نہیں ہیں۔
 

ناظم شهزاد٢٠١٢

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 07، 2012
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
1,533
پوائنٹ
120
بھائی حدیث کی مخالفت تب ہوتی ہے جب کسی کے پاس صحیح سند سے حدیث پہنچے اور وہ حدیث کے خلاف فتوی دے ۔
تلمیذ بھائی کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اس حدیث کے بارے علم نہیں تھا؟
یعنی عدم علم کی بنا پر فتوی صادر کیا گیا؟
گڈ مسلم بھائی کا تبصرہ اپنی جگہ لیکن میرے سوالات کا جوابات تو دیجیے۔
 
Top