• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوہر پر تہمت لگانے والی بیوی کے لیے سزا

صہیب منصور

مبتدی
شمولیت
جون 20، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
29
اگر بیوی اپنے شوہر پر تہمت زنا لگاتی ہے مگر چار گواہ پیش نہیں کرتی تو کیا اس پر قذف کے اسی کوڑے لگائے جائیں گے؟

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

صہیب منصور

مبتدی
شمولیت
جون 20، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
29
اگر بیوی اپنے شوہر پر تہمت زنا لگاتی ہے مگر چار گواہ پیش نہیں کرتی تو کیا اس پر قذف کے اسی کوڑے لگائے جائیں گے؟

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
علماء کرام متوجہ ہوں برائے مہربانی

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اگر بیوی اپنے شوہر پر تہمت زنا لگاتی ہے مگر چار گواہ پیش نہیں کرتی تو کیا اس پر قذف کے اسی کوڑے لگائے جائیں گے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال :
إذا اتهمت زوجها بالزنا هل لها أن تلاعنه ؟
أود معرفة ما هو الإجراء الذي تتبعه المرأة التى تتهم زوجها بالزنا . هل عليها أن تقسم يمين اللعان على نفسها كما فى سورة النور ؟ أم أن هذا يسري فقط على الزوج الذى يتهم زوجته؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله
اللعان إنما يشرع لأمرين :
الأول : إذا قذف الزوج زوجته بالزنا ، ولم يأت بأربعة شهود ، فله إسقاط حد القذف عنه باللعان .
والثاني : أن يريد نفي الولد عنه .
والأصل في ذلك قوله تعالى : ( وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ...الآيات) النور/6
قال ابن كثير رحمه الله في تفسيره : " هذه الآية الكريمة فيها فَرَجٌ للأزواج وزيادة مخرج إذا قذف أحدهم زوجته ، وتعسّر عليه إقامة البينة أن يلاعنها كما أمر الله عز وجل وهو أن يحضرها إلى الإمام فيدّعي عليها بما رماها به ، فيحلفه الحاكم أربع شهادات بالله في مقابلة أربعة شهداء إنه لمن الصادقين أي فيما رماها به من الزنا ، والخامسة أن لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين ، فإذا قال ذلك ، بانت منه بنفس هذا اللعان عند الشافعي وطائفة كثيرة من العلماء ، وحرمت عليه أبداً ، ويعطيها مهرها ويتوجب عليها حد الزنا ، ولا يدرأ عنها العذاب إلا أن تلاعن فتشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين ، أي فيما رماها به والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين ، ولهذا قال : ( ويدرأ عنها العذاب ) يعني الحد ( أن تشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين * والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين ) " انتهى .
وأما الزوجة فإذا قذفت زوجها بالزنا ، ولم تأت بأربعة شهود ، فإنها تحد حدّ القذف ؛ لقوله تعالى : ( وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ) النور/4 .
وهذه الآية تشمل قذف النساء والرجال سواء .
قال القرطبي رحمه الله في تفسيره : " ذكر الله تعالى في الآية النساء من حيث هنّ أهم ، ورميهن بالفاحشة أشنع وأنكى للنفوس . وقذف الرجال داخل في حكم الآية بالمعنى ، وإجماع الأمة على ذلك " انتهى .
وقال الماوردي في "الأحكام السلطانية" ص 287 : " وإذا قذفت المرأة زوجها حُدَّت , ولم تلاعن " انتهى .
وإذا علمت المرأة بزنا زوجها ، ولم يكن لديها البينة ، وهي أربعة شهود ، فإن عليها أن تنصحه وتذكره وتخوفه بالله تعالى ، فإن استمر في غيه ، فلتطلب الطلاق منه ، أو تخالعه ، لأنه لا خير لها في البقاء معه ، ولما قد يترتب على مجامعته لها من مضرة عليها .
والله أعلم .(الإسلام سؤال وجواب )

https://islamqa.info/ar/101771
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
سوال : ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ جو عورت اپنے خاوند پر زنا كى تہمت لگائے تو كيا وہ اپنے خاوند كے ساتھ لعان كر سكتى ہے جيسا كہ سورۃ النور ميں بيان ہوا ہے ؟
يا كہ يہ صرف خاوند پر جارى ہو گا جو اپنى بيوى پر تہمت لگاتا ہے ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد للہ:
لعان دو وجہ كى بنا پر مشروع ہے:
پہلى وجہ:
جب خاوند اپنى بيوى پر زنا كى تہمت لگائے، اور اس كے پاس چار گواہ نہ ہوں، تو خاوند كو حد قذف سے بچنے كے ليے لعان كرنے كا حق حاصل ہے.
دوسرى وجہ:
وہ اپنے سے بچے كى نفى كرنا چاہتا ہو.

اس ميں اصل دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
{ جو لوگ اپنى بيويوں پر بدكارى كى تہمت لگائيں اور ان كے پاس اپنے علاوہ اس كا كوئى اور گواہ نہ ہو تو ايسے لوگوں ميں سے ہر ايك كا ثبوت يہ ہے كہ چار مرتبہ اللہ كى قسم كھا كر كہيں كہ وہ سچوں ميں سے ہيں }.
{ اور پانچويں مرتبہ كہے كہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ تعالى كى لعنت ہو }.
{ اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہو سكتى ہے كہ وہ چار مرتبہ اللہ كى قسم كھا كر كہے يقينا اس كا خاوند جھوٹ بولنے والوں ميں سے ہے}.
{ اور پانچويں دفعہ كہے كہ يقينا اس پر اللہ تعالى كا غضب ہو اگر اس كا خاوند سچوں ميں سے ہو }النور ( 6 - 9 ).

ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" اس آيت كريمہ ميں خاوند كے ليے نكلنے كى راہ بيان كى گئى ہے كہ جب ان ميں سے كوئى اپنى بيوى پر بدكارى كى تہمت لگائے، اور اس كے ليے اسے ثابت كرنا اور گواہ پيش كرنے مشكل ہوں تو پھر وہ بيوى كے ساتھ لعان كر سكتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا ہے.

وہ اس طرح كہ وہ بيوى كو قاضى اور حكمران كے سامنے لا كر اس كے ساتھ اس تہمت پر لعان كرے، تو قاضى اور حاكم چار گواہوں كے مقابلہ ميں اسے چار بار اللہ كى قسم اٹھوائے كہ وہ سچ بول رہا ہے، يعنى اس نے جو اس پر زنا كى تہمت لگائى ہے وہ اس ميں سچا ہے، اور پانچويں بار يہ كہے كہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ كى لعنت ہو.

جب يہ كہہ چكے تو اس لعان كى بنا پر شافعى حضرات اور علماء كى ايك جماعت كے ہاں عورت اس كے نكاح سے نكل جائيگى اور اس پر ہميشہ كے ليے حرام ہو جائيگى، اور خاوند اسے اس كا مہر ادا كريگا، اور اس عورت پر زنا كى حد واجب ہو گى.

اور اس سے يہ حد اس وقت تك ختم نہيں ہو سكتى جب تك وہ بھى لعان نہ كر لے، اگر وہ بھى پانچ قسميں اٹھائے، چار بار كہے كہ اللہ كى قسم وہ جھوٹا ہے، اور پانچويں بار كہے كہ اگر وہ ( خاوند ) سچا ہو تو اس ( مجھ ) پر اللہ كا غضب ہو " انتہى.

اور رہا بيوى كا مسئلہ كہ جب وہ اپنے خاوند پر زنا كى تہمت لگائے اور چار گواہ پيش نہ كرے تو اسے حد قذف لگائى جائيگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور وہ لوگ جو پاكدامن عورتوں پر زنا كى تہمت لگائيں پھر چار گواہ پيش نہ كر سكيں تو انہيں اسى كوڑے لگاؤ، اور كبھى بھى ان كى گواہى قبول نہ كرو، يہ فاسق لوگ ہيں }النور ( 4 ).

اور يہ آيت تہمت ميں مرد اور عورت سب كو شامل ہے.

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے آيت ميں عورتوں كا ذكر كيا ہے اس ليے كہ وہ اہم ہيں، اور عورتوں پر فحاشى كى تہمت زيادہ شنيع اور نفس كے ليے بہت زيادہ ناپسند ہے، اور مردوں پر زنا كى تہمت بالمعنى اس آيت ميں داخل ہے، اور امت كا اس پر اجماع ہے " انتہى.

اور شافعیہ کے نامور امام الماوردى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر بيوى اپنے خاوند پر زنا كى تہمت لگائے تو عورت كو حد لگائى جائيگى، اور وہ لعان نہيں كر سكتى " انتہى.
ديكھيں: الاحكام السلطانيۃ ( 287 ).

اور اگر بيوى اپنے خاوند كے زنا كرنے كا علم ركھتى ہو اور اس كے پاس كوئى دليل اور گواہى يعنى چار گواہ نہ ہوں، تو بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كو وعظ و نصحيت كرے اور اسے سمجھائے، اور اللہ كا خوف دلائے، اور اگر پھر بھى خاوند اپنى گمراہى ميں پڑا رہے تو عورت اس سے طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے، يا اس سے خلع لے لے، كيونكہ ايسے خاوند كے ساتھ رہنے ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، اور اس ليے بھى كہ اس سے مجامعت كرنے ميں نقصان اور ضرر ہو سكتا ہے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
تہمت لگانے کی حد اپنے آپ سے کیسے ختم کرسکتا ہے؟

اگر کوئی انسان کسی دوسرے پر زنا کی تہمت لگائے، اور وہ توبہ کرنا چاہتا ہو، تو اپنے آپ سے تہمت کی سزا کیسے ختم کرسکتا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:
تہمت لگانے کی سزا اسّی (80) کوڑے ہے، اسکی دلیل فرمانِ باری تعالی میں ہے:
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً)
ترجمہ: اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ ۔ النور/4

چنانچہ اگر کسی شخص نے پاکباز شخص پر تہمت لگائی تو تہمت لگانے والے پر تہمت کی سزا واجب ہو جاتی ہے۔
اور کچھ حالات میں تہمت لگانے والے کی حد ختم ہوجاتی ہے:
پہلی حالت: وہ چار گواہ لے آئے جو ملزم کے بارے میں زنا کرنے کی گواہی دے دیں، اسکی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً)
ترجمہ: اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ۔ النور/4

دوسری حالت: کہ ملزم خود ہی زنا کا اعتراف کر لے، اس بات پر علماء کا اتفاق ہے دیکھیں : "المغنی" (12/386)
تیسری حالت: اگر خاوند خود اپنی بیوی پر تہمت لگائے، تو ایسی حالت میں خاوند لعان کے ذریعے حد کو ختم کروا سکتا ہے، دلیل فرمانِ باری تعالی :
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ * وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ)
ترجمہ: اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے سوا ان کے پاس گواہ بھی کوئی نہ ہو تو ان میں سے ایسے شخص کی شہادت یوں ہوگی کہ وہ چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے [6]اور پانچویں دفعہ یوں کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ النور6، 7

چنانچہ جب ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان لعان کروایا تھا، اور اُسکے بعد ہلال کو تہمت کی سزا نہیں دی۔ جیسے کہ مسلم (1496) میں ہے۔
چوتھی حالت: ملزم اپنا حق خود ہی معاف کردے، اور تہمت لگانے والے پر حد لگانے کا مطالبہ ہی نہ کرے، اور اسکی تفصیل سوال نمبر (112116)کے جواب میں گزر چکی ہے۔

چنانچہ مندرجہ بالا بیان کے بعد اگر کسی نے جھوٹی تہمت لگائی، تو اسکےلئے حدّ قذف ختم کرنے کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معذرت کرے، اور معافی مانگے، چنانچہ اگر تو وہ معاف کردے تو الحمد للہ، اور اگر وہ تہمت کی حد لگانے کا مطالبہ کرے تو یہ اُسکا حق ہوگا۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
لعان کے متعلق قرآنی آیات میں وارد حکم دیکھئے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (9) (سورۃ النور )
ترجمہ : اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں بجز ان کی اپنی ذات کے تو (اس صورت میں) ان میں سے ایک کی (یعنی شوہر کی) گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے۔
اور پانچویں بار یہ کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔
اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص (اس کا شوہر) جھوٹا ہے۔
اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر احسن البیان میں ہے :
یہاں اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔
لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہوں بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔ انتہی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
لعان کا حق صرف مرد کو اسلئے دیا گیا کہ اگر عورت زنا کرے گی تو مرد کیلئے نسب خالص نہیں رہے گا
اسلئے اسے گواہوں کی عدم موجودگی کے سبب لعان کا موقع دیا تاکہ وہ اس زنا سے پیدا ہونے والے بچے سے براءت کا اظہار کرسکے،

جبکہ خاوند اگر زنا کا مرتکب تو عورت کو نسب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ، اسلئے وہ گواہی کا شرعی نصاب پورا کئے بغیر مرد پر زنا کا الزام نہیں لگاسکتی ،
 
Top