مگر جو عورت طلاق یافتہ ہو، کیا طلاق کے بعد وہ اپنے شوہر کے گھر رہ سکتی ہے؟ وہاں عدت گزار سکتی ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہےکہ:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا ))
(سورۃ طلاق ، آیت 1)
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں ، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا ، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے "
ــــــــــــــــــــ
اس آیت سے چند احکام سامنے آتے ہیں :
(1) ۔۔
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ۔تم انہیں ان کے گھر سے نکالو "
یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔
(2)۔۔
وَلَا يَخْرُجْن۔۔اور نہ وہ (خود) نکلیں ،
یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔
(3)
إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ
۔۔ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں "
یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔
(4)(
لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا )
یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
(دیکھئے تفسیر احسن البیان )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تفسیر تیسیرالقرآن میں ہے :
عدت کے دوران مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور اس دوران خاوند کے حقوق کی نگہداشت کو ملحوظ رکھا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا 49) 33۔ الأحزاب :49) یعنی اگر تم عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو )
یعنی صحبت ہونے کے بعد اگر طلاق دی ،اور دورانِ عدت حمل معلوم ہوجائے۔ تو بچہ بھی طلاق دینے والے مرد کا ہوگا۔ اور وہ اس کا وارث بھی ہوگا۔ صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال ہی نہیں ہوتا لہذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں۔
یعنی خاوند کے ہاں عدت گزارنا مطلقہ عورت کی ذمہ داری ہے اور مرد کا یہ حق ہے کہ عورت اسی کے ہاں عدت گزارے اس دوران مرد اس سے صحبت کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اور وہ عورت کی رضا مندی کے بغیر بھی اپنا یہ حق استعمال کرسکتا ہے۔
٣۔
عدت کے دوران کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس عورت سے نکاح تو دور کی بات ہے منگنی کے لیے پیغام تک بھی دے سکے۔ اور اگر خاوند نے عورت کو اس حالت میں طلاق دی کہ وہ گھر پر موجود ہی نہ تھی یا اپنے میکے گئی ہوئی تھی یا اسے اس کے میکے پیغام بھیج دیا گیا تھا اور عورت عدت کے دوران نکاح کرلے تو وہ نکاح باطل ہوگا۔
[٢]
عدت کا عرصہ خاوند کے ہاں گزارنے کا حکم اور مصلحت۔ خاوند کے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ عدت گزارنا غیر شرعی اور گناہ کا کام ہے :۔ ہمارے ہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں لڑائی ہوئی تو بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی یا خود میاں نے اسے میکے روانہ کردیا۔ بعد میں کسی وقت بیک وقت تین طلاق لکھ کر بھیج دیں۔ یا خاوند بیوی کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیتا ہے یا بیوی خود ہی اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ ان سب صورتوں میں عورت کی عدت اس کے میکے میں ہی گزرتی ہے۔ یہ سب باتیں خلاف شرع اور گناہ کے کام ہیں۔ کیونکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ عورت عدت اپنے طلاق دینے والے خاوند کے ہاں گزارے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران سکنیٰ اور نفقہ کی ذمہ داری مرد کے سر پر ڈال دی ہے۔ اور بیوہ کے اخراجات کی ذمہ داری میت کے لواحقین پر جو ترکہ کے وراث ہوں گے۔
اور اس حکم میں کئی مصلحتیں ہیں۔ سب سے بڑی مصلحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ جس مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوچکا ہے۔ اسے زوجین کو اپنی اپنی امکانی حد تک نبھانا ہی چاہئے۔ طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات کی بنا پر دی گئی ہے۔ جبکہ حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔
چنانچہ ارشاد نبوی ہے۔ ''ان ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ''(ابوداؤد۔ کتاب الطلاق) یعنی طلاق جائز اور حلال تو ہے مگر یہ اللہ کے ہاں سخت ناگوار چیز ہے۔ اب عورت اگر اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی تو ان کے ملاپ، صلح صفائی، رضا مندی اور رجوع کی کئی صورتیں پیش آسکتی ہیں۔ جو عدت باہر گزارنے کی حالت میں ناممکن ہوجاتی ہیں۔
[٣] صریح برائی کے مختلف پہلو :۔ یعنی صریح برائی کی مرتکب ہوں تو انہیں گھر سے نکال دینے کی اجازت ہے۔ صریح برائی سے مراد زنا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن میں زنا کے لئے یہ الفاظ متعدد مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ اور نشوز بھی یعنی عورت کا ہر بات میں ضد اور کھینچا تانی کا رویہ اختیار کرنا اور مرد کی رائے کی بہرحال مخالفت پر آمادہ رہنا یا بدزبانی کرنا اور کرتے رہنا یعنی ایسے حالات پیدا کردینے سے مصالحت کے بجائے مزید بگاڑ اور تناؤ کی فضا بن جائے۔ اور یہ بدزبانی یا کھینچا تانی مرد سے بھی ہوسکتی ہے اور اس کے قریبی رشتہ داروں مثلاً اس کے والدین وغیرہ سے بھی اور اس سے چوتھی مراد بذات خود ایسی عورتوں کا گھر سے نکل جانا بھی ہے۔ یعنی عدت کے دوران عورتوں کے از خود مرد کے گھر سے نکل جانے کو ہی (فَاحِشَۃً مُّبَیِّنَۃً) قرار دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں بھی انہیں واپس گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔انتہیٰ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس عورت کو کہاں رکھا جائے اور یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
سورۃ طلاق آیت نمبر 6
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَی
تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔