• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟ (حصہ اول)

کليني نے يہي اپني سند کے ساتھ سالم بن سلمہ سے روايت کي ہے کہ ايک شخص نے ابو عبداللہ عليہ السلام کے پاس قرآن سے عام لوگوں کي قرأٔت کے برخلاف پڑھا اور ميں سن رہا تھا۔ تو ابو عبداللہ عليہ السلام نے فرمايا: اس قرأت کے ساتھ پڑھنے سے رک جاو جيسے عام لوگ پڑھتے ہيں تو بھي اسي طرح پڑھ، جب قائم (مذعومہ امام) آئے گا تو وہ قرآن کو اس کي اصل صورت ميں پڑھے گا۔ پھر انہوں نے وہ مصحف (قرآن) نکالا جس کو علماء عليہ السلام نے لکھا تھا۔ اور اس کي کتابت سے فارغ ہونے کے بعد اس کو لوگوں کے سامنے پيش کيا اور فرمايا: يہ اللہ کي کتاب ہے جيسا کہ اس نے محمدﷺ پر نازل کي تھي ميں نے اس کو تختيوں سے جمع کيا ہے۔ تو لوگوں نے کہا ہمارے پاس مصحف ہے جس ميں قرآن جمع ہے ہميں تمہارے اس مصحف کي ضرورت نہيں۔ تو حضرت علي نے فرمايا: اللہ کي قسم! آج کے بعد تم اس مصحف کو کبھي نہيں ديکھ سکو گے۔ مجھ پر يہ لازم تھا کہ ميں نے جب اس کو جمع کيا تھا اس کي تم کو خبر دوں کہ تم اس کو پڑھو (ايضاً ج2 ص633)۔

يہ اور اس قسم کي بہت سي مثاليں شيعہ کي سب سے معتبر کتاب جس کو کليني نے اپنے امام غائب پر پيش کيا تھا تو اس نے اس کي توثيق کي تھي موجود ہيں ليکن ہم نے تکرار سے بچتے ہوئے ان کو يہاں ذکر کرنے سے اعراض کيا ہے اس ليے کہ وہ کتاب فصل الخطاب ميں آ گئي ہيں جس کے ليے ہم نے اپني اس کتاب کا چوتھا باب مختص کيا ہے۔

مقصود يہي ہے کہ ان روايات کو کليني نے اپنے ائمہ معصومين سے روايت کيا ہے کہ ان کا يہي عقيدہ تھا کہ يہ قرآن جو لوگوں کے ہاتھوں ميں ہے محرف شدہ ہے جيسا کہ وہ اس کي نسبت شيعہ حضرات کي طرف بھي کرتے ہيں کہان کا بھي تحريف قرآن کا عقيدہ ہے۔ ان آٹھ روايات ميں چار ائمہ علي بن ابي طالب، محمد باقر، جعفر (35) اور ابو الحسن کا عقيدہ بيان ہوا ہے کہ وہ تحريف قرآن کا (معاذ اللہ) عقيدہ رکھتے تھے(حاشيہ باقي؟) نيز الکافي ان کے ائمہ متأخرين کے عقيدہ تحريف کا بھي اثبات ہے۔ ليکن ہم ان کي روايات يہاں درج نہيں کريں گے کيونکہ ہم بيان کر رہے ہيں کہ ہم ان کي وہي روايات ذکر کريں گے جو ان کے ائمہ معصومين سے منقول ہيں۔

الکافي کے بعد ہم ان کي ايک اور قديمي کتاب تفسير قمي کا ذکر کرتے ہيں جو ان کے ہاں نہايت قابل اعتماد ہے اور وہ کتاب بھي ان کے معصوم ائمہ کے زمانہ ميں لکھي گئي ہے۔

علي بن ابراہيم قمي حديث اور تفسير ميں شيعوں کا شيخ المشائخ ہے کليني کي کتاب (الکافي) جو صحاح اربعہ ميں سے سب سے اہم کتاب ہے اس ميں بہت سي روايات قمي سے ہيں اور محمد بن يعقوب کليني اس کا شاگرد ہے۔ قمي کے بارہ ميں نجاشي کہتا ہے:۔

حديث ميں ثقفہ ثبت اور قابل اعتماد اور صحيح المذہب ہے اس نے حديث کا بہت زيادہ سماع کيا۔ اور بہت سي کتابيں تصنيف کيں التفسير بھي اسي کي کتاب ہے (رجال النجاشي ص183)۔

وہ ہمارے اصحاب کے رايوں ميں نہايت جليل القدر راوي ہے اس سے شيعہ کے محدثين کے مشائخ روايت ليتے ہيں ہميں اس کي تاريخ وفات کا تو علم نہيں ہوا ہاں البتہ وہ 307؁ھ ميں بقيدِ حيات تھا (الکني والالقاب ص68ج3)۔

’’وہ ابو الحسن محمد الامام العسکري کے دور کا ہے۔‘‘ (اذريعہ لاغا بزرک الطہراني ص302ج4)۔

اس کي تفسير کے بارہ ميں آرائ:۔

1- يہ تفسير بہت سي تفاسير کے ليے اصل الاصول ہے۔

2- اس کي روايات نہايت قليل وسائط سے دو صادقين: باقر وجعفر سے مروي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ ’’الذريعہ‘‘ ميں کہا ہے کہ قمي کي تفسير در قيقت صادقين کي تفسير ہے۔

3- اس کا مولف امام حسن عسکري کے زمانے کا ہے۔

4- قمي کا باپ جس نے اپنے بيٹے کے ليے اخبار روايت کي ہيں وہ امام رضا کا صحابي تھا۔

(36) 5- اس کي کتاب ميں اہل بيت کے فضائل کے بارہ ميں بہت بڑا علم ہے جس کو ان کے دشمنوں نے قرآن سے نکالنے کي پوري کوشش کي ہے۔

6- يہ بہت سي آيات قرآن کے بيان کرنے کي ضامن ہے جن کا کامل مفہوم صرف اھل بيت جو قرآن کے پڑھنے والے ہيں کي راہنمائي اور مدد کے بغيرسمجھنا ممکن نہيں (مقدمہ تفسير القمي سيد طيب موسوي الجزائري ص15)۔

قمي اپني تفسير کے مقدمہ ذکر کرتا ہے:۔

قرآن ميں سے ناسخ اور منسوخ بھي ہے محکم اور متشابہ بھي ہے۔ عام اور خاص بھي ہے۔ تقديم وتاخير بھي ہوئي ہے منقطع اور معطوف بھي ہے اور جس طرح اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اس کے برعکس اس ميں تغير وتبدل بھي ہوا ہے (تفسير القمي ص9ج1)۔

جس طرح اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اس کے برعکس تغير وتبدل کي يہ مثال ہے کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:۔

{كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} ابو عبداللہ عليہ السلام نے اس آيت کے قاري سے فرمايا: يہ امت بہتر کس طرح ہو سکتي ہے جنہوں نے امير المومنين (علي) اور حسين بن علي کو قتل کيا؟ ان سے پوچھا گيا اے ابن رسول! يہ کن الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي تو فرمايا: يہ آيت ان الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي: {كُنْتُمْ خَيْرَ آئِمَةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (امۃ کے بجائے ائمہ کا لفظ ہے) کيا تو ديکھتا نہيں کہ اللہ تعاليٰ نے آيت کے آخر ميں ائمہ کي مدح کي ہے کہ: {تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} اسي طرح آيت: {الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} ابو عبداللہ کے سامنے پڑھي گئي تو انہوں نے فرمايا: ايمان داروں نے اللہ تعاليٰ سے بہت بڑا سوال کيا کہ وہ ان کو لوگوں کا امام بنا دے۔ ان سے عرض کيا گيا اے ابن رسول! يہ آيت کن الفاظ سے نازل ہوئي تو انہوں نے فرمايا: {الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَّقِينَ إِمَامًا} کے الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي اور اسي طرح آيت {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ} ابو عبداللہ کے سامنے پڑھي گئي تو انہوں نے فرمايا: اللہ کے امر سے کسي چيز کي کيسے حفاظت کي جا سکتي ہے اور پيچھے رہنے والے سامنے کس طرح ہو سکتے ہيں۔ تو ان سے عرض کيا گيا اے ابن رسول! پھر يہ آيت کن الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي ہے تو انہوں نے فرمايا: يہ آيت ان الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي تھي کہ: {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيْبٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ يَحْفَظُونَهُ بِأَمْرِ اللَّهِ} اسي طرح تحريف کي بہت سي مثاليں ہيں (تفسير القمي ص10ج1)۔

(37) اس مطبوع کتاب کے ٹائيٹل پر لکھا ہوا ہے کہ: يہ تفاسير ميں سے قديم ترين کتاب ہے جس نے اہلِ بيت کے بارہ ميں نازل شدہ آيات سے پردہ ہٹايا ہے۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟ (حصہ دوم)
اسي طرح محمد بن مسعود بن عياش اسلمي المعروف عياشي ہے جس کے بارہ ميں نجاشي نے کہا: ثقہ صدوق اور طائفہ شيعہ کے عين تھے (رجال النجاشي ص247)۔

خو انساري نے معالم العلماء سے ذکر کيا ہے کہ وہ اپنے زمانہ ميں علم وادب، فہم وفراست ميں اہل مشرق کے سب سے بڑے تھے۔ اس نے دو سو سے زيادہ کتابيں تصنيف کي ہيں (روضات الجنات ص130ج6)۔

قمي کہتا ہے مشائخ الرجال نے فرمايا: عياشي ثقہ صدوق طائفہ شيعہ کے عين اور اس کے کبير اور جليل القدر وسيع الاخبار بعيد الروايۃ اور ان پر اطلاع پانے والا تھا۔ اس کي تصانيف دو سو سے زائد ہيں جن ميں کتاب التفسير بڑي معروف ہے قمي نے ابن نديم سے نقل کيا ہے کہ اس نے اس کے بارہ ميں کہا ہے کہ فقہاء شيعہ ميں يہ اپنے زمانے کا علم ميں يکتا تھا (الکني والالقاب ص449-450ج2)۔

طباطبائي نے کہا: کہ وہ شيعہ کے اعيان علماء اور روايت ميں حديث وتفسير کے اساطين ميں سے تھا جو تيسري صدي ہجري ميں زندہ تھا۔ علماء فن نے اس کتاب کو زمانہ تاليف سے ليکر آج کے دن تک کسي جرح اور چشم پوشي کے شرف قبوليت بخشا ہے۔ اور يہ زمانہ تقريباً گيارہ صديوں پر محيط ہے (مقدمہ حول الکتاب لمولفہ محمد حسين طباطائي ص؟؟ ج؟)۔

(38) طہراني نے اپني کتاب ’’الذريعہ‘‘ ميں لکھا ہے: (عياشي کي تفسير ابو نضر محمد بن مسعود کي ہے اور وہ کشي کے مشائخ ميں سے اورثقۃ الاسلام کليني کے طبقہ سے تھا (الذريعہ ص295ج4)۔

يہي عياشي اپني اس تفسير کے مقدمہ ميں اصبغ بن نباتۃ سے بيان کرتا ہے کہ:

ميں نے امير المؤمنين (علي) عليہ السلام سے سنا وہ فرماتے تھے: قرآن تين حصوں ميں نازل ہوا ايک تہائي حصہ ہمارے اور ہمارے دشمنوں کے بارہ ميں، ايک تہائي سنن اور امثال ميں اور ايک تہائي فرائض اور احکام ميں (مقدمہ التفسير ص؟؟؟ج1)۔ اسي روايت کو مجلسي نے البحار ص30ج19 ميں اور صافي نے اپني تفسير ص14ج1ميں اور بحراني نے البرھان ص19ج1 ميں ذکر کيا ہے۔

داود بن فرقد نے اس شخص سے جس نے اس کو خبر دي ہے اور اس نے ابو عبداللہ عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ: اگر قرآن اسي طرح پڑھا جاتا جيسا کہ نازل ہوا تھا تو تو اس ميں ضرور ہمارے ناموں کو پاتا (العياشي ص13ج1 اور مقدمۃ البرھان ص37)۔

مير ابوجعفر عليہ السلام سے روايت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمايا: اگر کتاب اللہ ميں کمي وبيشي نہ کي جاتي تو کسي بھي عقل مند پر ہمارا حق مخفي اور پوشيدہ نہ رہتا (البرھان، مقدمہ ص13، اور يہي روايت البحار ص30ج19 اور اثبات الھدي ص43-44 ج3 ميں بھي موجود ہے)۔

ان کے علاوہ اس بارہ ميں بہت سي روايات ہيں جن کا ذکر ان کے محل اور مقام پر آئے گا۔ شيعہ کا چوتھا مولف محمد بن حسن الصفار ہے جس کے بارہ ميں نجاشي نے کہا: ہمارے قم کے اصحاب ميں بڑے مرتے والے، ثقہ، عظيم القدر، راجح اور روايت ميں قليل السقط تھے۔ ان کي بہت سي تصانيف ہيں جن ميں بصائر الدرجات بھي ہے 290ھ؁ ميں فوت ہوئے (رجال النجاشي ص251)۔ اس روايت کي مثل الکني والالقاب ص379ج2 ميں بھي ہے وہ شيعوں کے گيارھويں امام حسن عسکري کے شاگرد تھے (الذريعہ ص125ج2)۔

(39) يہي صفار اپني کتاب ميں قرآن کے بارہ ميں اپنے معصوم امام سے متصل سند کے ساتھ اپنا عقيدہ بيان کرتا ہوا کہتا ہے ہم سے علي بن محمد نے بيان کيا۔ اس نے قاسم بن محمد سے اس نے سليمان بن داود سے اس نے يحيي بن اديم سے اس نے شريک سے اس نے جابر سے روايت کي کہ ابو جعفر عليہ السلام نے فرمايا: رسول اللہﷺ نے صحابہ کو منٰي ميں بلايا اور فرمايا: ’’اے لوگو! ميں تم ميں اللہ تعاليٰ کي حرمات، اپني عترت اور کعبہ بيت الحرام چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ پھر ابو جعفر نے کہا: انہوں (صحابہ) نے کتاب اللہ کو بدل ديا۔ کعبہ کو گرا ديا اور عترت کو قتل کر ديا۔ اور اللہ تعاليٰ کي ہر وديت کو چھوڑ ديا (بصائر الدرجات ص17 ج8 طبع ايران)۔

نيز وہ اپني سند سے جابر سے روايت کرتا ہے کہ ميں نے ابو جعفر عليہ السلام سے سنا وہ فرماتے تھے: جس شخص نے دعوي کيا کہ اس نے تمام قرآن اسي طرح جمع کيا ہے جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے نازل کيا ہے تو اس نے جھوٹ بولا ہے۔ اس کو نہ کسي نے جمع کيا ہے اور نہ ياد کيا ہے جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے نازل کيا ہے سوائے علي بن ابي طالب اور ان کے بعد ائمہ کے (نقلاء عن البرھان ص15ج1)۔

نيز اس نے اپني سند کے ساتھ ابراہيم بن عمر سے روايت کي ہے کہ انہوں نے فرمايا: قرآن ميں گزرے واقعات، حاليہ حادثات اور آئندہ ہونے والے واقعات ہيں۔ اس ميں چند مردوں کے نام تھے جنکو حذف کر ديا گيا۔ ايک نام لا تعداد وجوہ کے ساتھ تھا جس سے وصي پہچانے جاتے تھے (ايضاً)۔

ان کا پانچواں مولف فرات بن ابراہيم بن فرات الکوفي ہے ہم اس کے اور اس کي تفسير کے تعارف ميں طہراني پر اکتفا کرتے ہيں جو اس نے اپني کتاب الذريعہ ميں کرايا ہے۔ وہ کہتا ہے:

فرات بن ابراہيم بن فرات الکوفي کي تفسير جس ميں صرف ائمہ ھدي کي روايات ہيں فرات نے اس ميں حسين بن سعيد الکوفي الاہوازي سے کثرت کے ساتھ روايات کي ہيں اس نے قم ميں سکونت اختيار کر لي تھي اور وہيں فوت ہوا۔ (40) اور وہ امام رضا، جواد اور الہادي کے اصحاب ميں تھا۔ يہ اپنے بھائي حسن کے ساتھ تيس کتابوں کي روايت ميں شريک ہے جيسا کہ اس کا بيٹا احمد بن حسن اپنے باپ کے تمام شيوخ کے ساتھ شريک تھا۔ اس طرح فرات نے جعفر بن محمد بن مالک البزار الفرازي الکوفي سے بھي کثرت کے ساتھ روايات لي ہيں جو 300ھ؁ کي حدود ميں فوت ہوا۔ اور وہ ابوغالب زراري المولود 285؁ھ کا مربي اور استاذ تھا۔ اور ابوغالب نے اس کو بزازين ميں شمار کيا ہے جيسا کہ اس نے اپنے بيٹے کے نام ايک خط ميں اس کا ذکر کيا ہے۔ اسي طرح اس نے عبيد بن کثير عامري کوفي المتوفي 214ھ؁ مولف کتاب التخريج سے بھي بکثرت روايات لي ہيں جس کا ہم نے اس جزء کے ص1 ميں ذکر کيا ہے اس نے ان ميں سے ہر ايک کے بہت سے مشائخ اور متعدد اسناد ذکر کي ہيں۔ اسي طرح وہ اپنے تمام مشائخ سے روايت کرتا ہے جن کي تعداد سو سے اوپر ہے اور وہ تمام ہي اپنے مسند طرق سے ائمہ اطہار سے حديثوں کے راوي ہيں۔ جن ميں اکثر کا ذکر اور ترجمہ ہماري رجال کي اصول کي کتابوں ميں موجود نہيں ہے۔ ليکن يہ بات افسوسناک ہے کہ اس نے اکثر اسناد ميں سے عمداً بعض کو ساقط کر ديا ہے اور صرف معنعن روايات پر اکتفا کيا ہے مثلاً وہ: (فرات عن حسين بن سعيد معنعنا عن فلان) کہہ ديتا ہے اسي طرح وہ اکثر اسانيد ميں معنعن کہہ کر اشارہ کرديتا ہے کہ فرات نے جو روايت کي ہے وہ مسند ومعنعن ہے۔ اس نے اسناد کو اختصار کي بنا پر ترک کيا ہے۔ فرات سے تفسير والد الشيخ الصدوق ابو الحسن علي بن حسين بن بابويہ المتوفي 329 نے روايت کي ہے جيسا کہ والد الصدوق علي بن ابراہيم المفسر القمي (جو 307 کے بعد فوت ہوا) سے روايت کرتا ہے ممکن ہے کہ فرات اس سن تک زندہ رہا ہو۔ شيخ الصدوق نے اپني کتابوں ميں فرات سے بکثرت روايات کي ہيں۔ وہ روايات اس نے يا تو اپنے والد کے واسطہ سے يا پھر اپنے شيخ حسن بن محمد بن سعيد ہاشمي کے واسطہ سے کي ہيں۔ جس طرح ہاشمي نے فرات سے روايت کي ہے اسي طرح اس نے ابي قيراط کے والد جعفر بن محمد (المتوفي 308) سے بھي روايت کي ہے۔ جس سے يہ احتمال قوي ہو جاتا ہيکہ ابي قيراط کے والد لوح فرات نے بھي چوتھي صدي ہجري کا اوائل اورابتدائي زمانہ پايا ہے اس کي تفسير کے تبريز، کاظميہ، نجف اور شرف ميں بہت سارے نسخے ہيں۔ اس تفسير کا ابتدائيہ: ’’الحمد للہ عافر الذنوب وکاشف الحروف وعالم الغيوب، والمطلع علي اسرار القلوب‘‘ کے الفاظ سے ہے۔ (41) صدوقين کے بعد قدماء حضرات نے اس تفسير پر اعتماد کيا ہے۔ شيخ حاکم ابوالقاسم الحکاني نے اپني کتاب (شواھد التنزيل) ميں اس تفسير سے روايات نقل کي ہيں اور اس سے غياث بن ابراہيم نے اپني تفسير ميں روايات لي ہيں اور اس کي يہ تفسير کتاب (البحار) کا ماخذ ہے۔ علامہ مجلسي نے اس کے ابتدائيہ ميں تحرير کيا ہے کہ فرات کي تفسير کے مولف کے بارہ ميں اگرچہ ہمارے اصحاب نے اس کي مدح اور قدح (عيب جوئي) ميں تعرض نہيں کيا اس ليے کہ اس کي روايات ان معتبر احاديث کے موافق ہيں جو ہم تک پہنچي ہيں۔ روايات کے نقل ميں حسن ضبط اس کے مولف کو ثقہ قرار ديتا ہے اور اس کے بارہ ميں حسن ظن عطاء کرتا ہے (الذريعہ الي تصانيف الشيعہ ص489-499 ج4)۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟ (حصہ سوم)
آغا طہراني کے مذکورہ اقتباس سے فرات کي اور اس کي کتاب کي قيمت ظاہر ہوتي ہے سيد صدر نے اس کے بارہ ميں کہا ہے وہ امام جواد بن اضا عليہ السلام کا ہمعصر تھا۔

اورد باري نے کہا: اس کتاب کے زمانہ تاليف سے ليکر ہمارے زمانہ تک کے علماء اس کتاب پر اعتماد کرتے چلے آ رہے ہيں جيسا کہ اس کے مترجمين حضرات سے ظاہر ہے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اس کي ثقاسيت کے ليے ابي الحق علي بن حسين بن موسيٰ بن بابويہ القمي کي روايت ہي کافي ہے جس کے فتويٰ پر جو اس نے اپنے بيٹے کي طرف ايک رسالہ ميں لکھا ہے علماء نے اس پر عمل کرنا لازم قرار ديا ہے اس ليے کہ اس رسالہ ميں ثقہ راويوں کي روايات سے ائمہ ھدي کے ہي الفاظ ذکر کيے ہيں۔

في الجملہ اس تفسير کو انہوں نے بالروايۃ ترجيح دي ہے جيسا کہ اس پر اس کے والد رئيس المحدثين الشيخ صدوق کي کتاب (الامالي) ميں اور کتاب احبار الزھراء وغيرہ روايت کرتي ہيں جو اس نے کبھي تو اپنے باپ سے اور کبھي اپنے شيخ حسن بن محمد بن سعيد الھاشمي کے واسطہ سے فرات سے روايت کي ہيں۔

صدوق کا اپنے باپ کے بعد اس پر اعتماد جيسا کہ اس سے مذکورہ دونہوں واسطوں ميں سے ايک کے ساتھ اس سے باکثرت روايت سے واضح ہے کہ اس کے ہاں يہ قابل اعتماد شواھد اور عمل کے ليے بہت بڑي ترجيح ہے اور ايسي ہي روايات پر صحيح اور سقيم کے درميان تميز کرنے کا مدار ہوتا ہے۔

(42) خو انساري کہتا ہے: فرات بن ابراہيم قابل اعتماد محدث اور قابل تعريف مفسر ہے۔ وہ تفسير کبير کا مولف ہے جو (اخبار) روايات کي زبان ميں ہے اور اس کي اکثر اخبار روايات ائمہ اطہار عليھم السلام کي شان ميں ہيں اس کي تفسير عياشي، اور قمي کي تفسير کے شمار ميں ہے۔ وہاس سے (الوسائل) اور (البحار) ميں اعتماد اور اعتبار کے طريق پر روايت کرتا ہے۔ محدث نيشاپوري نے اس کا ذکر اسماء الرجال ميں کيا ہے جبکہ رجال پر لکھنے والے تمام حضرات نے اس کا ذکر نہيں کيا۔ نيشاپوري نے کہا ہے اس کي کتاب تفسير معروف ہے جو اس نے محمد بن احمد بن علي ھمداني سے روايت کي ہے۔ ہمارے شيخ مجلسي نے اپني کتاب (بحارالانوار) ميں کہا ہے کہ فرات کي تفسير کے بارہ ميں اگرچہ ہمارے اس کے مولف کي مدح اور قدح کا ذکر نہيں کيا ليکن اس نے جو روايات نقل کي ہيں وہ ان معتبر احاديث کے موافق ہيں جو ہم تک پہنچي ہيں۔ روايت کے نقل ميں حسن ضبط اس کے مولف کو ثقہ قرار ديتا ہے اور اس کے ساتھ حسن ظن عطا کرتا ہے۔

صدوق رحمہ اللہ نے اس سے بواسطہ حسن بن محمد بن سعيد ہاشمي اخبار روايت کي ہيں۔ اور اس سے حاکم ابوالقاسم الحسکاني نے روايت کي ہے (روضات الجنات ص353-354ج5)۔ اسي فرات نے بہت سي روايات بيان کي ہيں جو بلاشبہ واضح طور پر دلالت کرتي ہيں کہ قرآن ميں تغير وتبدل ہوا ہے جيسا کہ اس نے اپني تفسير کے مقدمہ ميں يہي حضرت علي بن ابي طالب سے يہ روايت نقل کي ہے کہ: قرآن چار حصوں ميں نازل ہوا (مقدمہ الکتاب ص1)۔

باقي احاديث اپنے محل اور مقام پر آئيں گي۔

اسي طرح سليم بن قيس عامري ہے جس کو شيعہ اصحاب عليؓ سے شمار کرتے ہيں اس نے بھي اپني کتاب ميں اس جيسي بہت سي روايات ذکر کي ہيں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہيں۔

(43) يہ ہيں ان کے محدث اور مفسر اور قرون اوليٰ کے ان کے بڑے راوي جو اپنے ائمہ کو ملے اور ان سے بلا واسطہ اور بالواسطہ احاديث روايت کيں۔ يہ تمام ہي اس جيسي روايات کرتے ہيں اور ان پر قرآن کي تحريف وتغير کا عقيدہ رکھتے ہيں۔ اور يہ حضرات ان کے مذہب کے عمدہ ہيں اور ان کي ہي کتابيں ہيں جن پر شيعہ عقائد کا دار ومدار ہے اگر يہ حضرات اور ان کي کتابيں نہ ہوتيں تو شيعہ کے ثبوت ميں کچھ بھي نہ ہوتا۔ يہي وجہ ہے کہ نوري طبرسي نے کہا ہے کہ:

معلوم ہونا چاہيے کہ وہ اخبار جو معتبر کتابوں سے نقل کي جاتي ہيں ہمارے اصحاب کا شريعت کے احکام کے ثبوت ميں ان ميں ہي اعتماد ہے (فصل الخطاب في اثبات تحريف کتاب رب الارباب ص252)۔ پھر ان حضرات کے بعد ان کے محدثين اور مفسرين ميں سے جو حضرات آئے تمام کے تمام انہيں کے طريقہ اور مسلک پر چلے۔ انہوں نے اپني کتابوں ميں بہت سي احاديث ذکر کيں جو اپنے مدلوں ميں بڑي واضح اور اپنے معني ومفہوم ميں بڑي ظاہر ہيں جو تواتر کي حد تک پہنچي ہوئي ہيں۔ حتي کہ سيد نعمت اللہ الجزائري نے اقرار کيا ہے کہ: شيعہ علماء کا اتفاق ہے کہ وہ تمام احاديث جن سے تحريف قرآن کا اثبات ہوتا ہے وہ مشہور بلکہ متواتر ہيں جو بڑي صراحت کے ساتھ دلالت کرتي ہيں کہ قرآن ميں کلام، مادہ اور اعراب کے اعتبار سے تحريف ہوئي ہے (ايضاً ص31)۔

شيعہ کے محدث نوري طربري نے اپني کتاب (فصل الخطاب) ميں ان پر ’’في ذکر اقوال علمائنا في تغيير القرآن وعدمہ‘‘ کے عنوان کے تحت ان احاديث کے راويوں اور ان پر اعتماد اور يقين رکھنے والوں کا ايک ايک کرکے ذکر کيا ہے اور وہ کہتا ہے: ان کے اس بارہ ميں بہت سے اقوال ہيں جن ميں زيادہ مشہور دو قول ہيں:

(1) قرآن ميں تغير اور کمي واقع ہوئي ہے يہ جليل القدر شيخ علي بن ابراہيم قمي کا جو کليني کے استاذ تھے تفسير ميں شيخ ہيں۔ (44) کليني نے کتاب کے شروع ميں اس کي وضاحت کي ہے اور ان کي روايات سے اپني کتاب کو بھر ديا ہے حالانکہ انہوں نے اول ميں ہي اس بات کا التزام کيا تھا کہ وہ اپني اس کتاب ميں اپنے مشائخ اور ثقہ راويوں کا ہي ذکر کرے گا۔ اور يہي مذہب اس کے تلميذ ثقۃ الاسلام کليني رحمہ اللہ کا ہے جيسا کہ اس کي نسبت اس کي طرف ايک جماعت نے کي ہے اس ليے کہ اس نے اس معني ميں کتاب الحجم ميں بہت ہي صريح اور واضح روايات نقل کي ہيں خصوصاً ’’انکت وانتف من التنزيل‘‘ کے باب ميں اسي طرح: الروضۃ ميں بغير کسي ترديد اور تاويل کے ان کو ذکر کيا ہے۔ اس کے اس مذہب کو محقق سيد محسن کاظمي نے شرح الوافيہ کے باب ’’انہ لم يجمع القرآن کلہ الا الائمۃ عليہم السلام‘‘ ميں بيان کيا ہے۔ اس کے اسلوب اور طريقے سے ظاہر ہے کہ وہ اپني کتاب ميں باب کا وہي عنوان قائم کرتا ہے جو اس کا پسنديدہ ہوتا ہے۔ ميں کہتا ہوں مذکورہ بالا بات درست ہے اس ليے کہ قدماء حضرات کا مذہب ان کے ابواب کے عنوانوں سے ہي معلوم کيا جاتا ہے۔ علامہ مجلسي نے بھي مراۃ العقول ميں اس کي وضاحت کي ہے اسي سے ہي کتاب البصائر سے ثقہ جليل محمد بن حسن صغار کا بھي مذہب معلوم کيا جا سکتا ہے کہ اس نے بھي ’’باب في الائمہ عليہم السلام ان عندھم لجمع القرآن الذي انزل علي رسول اللہ‘‘ کا عنوان قائم کيا ہے اور يہ الکافي سے بھي زيادہ وضاحت والا ہے۔ اور اس باب سے بھي ہے: ’’باب ان الائمۃ عليھم السلام محدثون‘‘ کليني کے شاگرد اور کتاب ’’الغيبۃ‘‘ کے مولف محمد بن ابراہيم نعماني کا ہے جو ثقہ ہے کا مذہب اس کي تفسير صغير ميں واضح ہے جس ميں اس نے صرف آيات اور اس کي اقسام کے ذکر پر اختصار کيا ہے اور يہ علي بن ابراہيم کي تفسير کي شرح کے متزلہ اور درجہ پر ہے اور يہي مذہب ثقہ جليل سعيد سعد بن عبداللہ قمي کا اس کي کتاب ’’ناسخ القرآن ومنسوخہ‘‘ ميں واضح ہے جيسا کہ ’’البحار‘‘ کي انيسويں جلد ميں ہے۔ اس نے اس ميں يہ ايک باب ’’باب التحريف في الآيات التي ہي خلاف ما انزل اللہ عز وجل مما رواہ مشائخنا رحمہ اللہ عليہم حق العلماء من آل محمد عليہم السلام‘‘ کے عنوان سے قائم کيا ہے پھر اس نے اس کے تحت بہت سي روايات ذکر کي ہيں جو بارھويں دليل کے تحت آ رہي ہيں۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟ (حصہ چہارم)

سيد علي بن احمد کوفي نے اپني کتاب بدع المحدثۃ ميں وضاحت کي ہے اور اس ميں اس کے ہم معني ذکر کيا ہے اس نے بدع عثمان ميں بھي ذکر کيا ہے اس کے الفاظ ہيں: ہر خاص وعام اہل نقل اور آثار کا اجماع ہے کہ وہ قرآن جو لوگوں کے ہاتھوں ميں ہے يہ مکمل قرآن نہيں ہے اس قران کا کچھ حصہ ختم ہوگيا ہے جو اب لوگوں کے پاس نہيں ہے۔‘‘ (45) تيرا اسي کو ان کے جليل القدر مفسرين اور ائمہ شيخ جليل محمد بن مسعود عياشي شيخ فرات بن ابراہيم کوفي اور ثقہ ناقد محمد بن عباس الماھيار نے بيان کيا ہے اور انہوں نے تحريف کے متعلقہ واضح اور صريح روايات سے اپني تفسيروں کو بھرا ہے بلکہ عياشي نے اپني کتاب کے ابتدا ميں ہي اس بارہ ميں صريح روايات ذکر کي ہيں۔ تو ان کي طرف تحريف کے قول کي نسبت ايسے ہي ہے جيسا کہ علي بن ابراہيم کي طرف ہے ايک بڑي جماعت نے عياشي کي طرف تحريف کے قول کي نسبت کي ہے ان حضرات سے جنہوں نے اس قول کي نسبت اور اس کي تائيد کي ہے الشيخ الاعظم محمد بن محمد بن نعمان المفيد ہے جس نے (المسائل المسروبہ) ميں کہا ہے جيسا کہ علامہ مجلسي نے ’’مراۃ العقول‘‘ ميں اور محدث بحراني نے ’’الدرر النجفيہ‘‘ ميں کہا ہے جس کے الفاظ يہ ہيں کہ: جو لوحين کے درميان قرآن ہے تمام اللہ تعاليٰ کا کلام اور اس کا نازل کردہ ہے اور اس ميں بشر کا کوئي کلام نہيں اور جو نازل ہوا تھا اس کا بڑا حصہ ہے اور باقي حصہ جس کو اللہ تعاليٰ نے نازل کيا تھا وہ شريعت کے محافظ کے پاس ہے جو احکام کے محفوظ ہونے کي جگہ ہے اس سے کوئي چيز ضائع نہيں ہوئي۔ اگرچہ آج جو دو لوحوں کے درميان جمع ہے يہ کامل نہيں ہے جو جمع کيا گيا تھا اس کے چند اسباب ہيں جن کي وجہ سے ايسے ہوا ہے۔

(1) اس کے بعض کي معرفت سے نہي دامن اور کوتائي۔

(2) بعض ميں شک۔

(3) اور بعض حصے کو اس سے عمداً نکال دينا۔

امير المؤمنين (علي) عليہ السلام نے اول تا آخر مکمل قرآن جمع کيا تھا۔ اور اس کو اسي طرح تحرير فرمايا تھا جس طرح کہ اس کي تاليف تھي۔ مکي سورتوں کو مدني سورتوں پر۔ منسوخ کو ناسخ پر مقدم کيا اور ہر ايک کو اس کي جگہ پر رکھا۔ يہي وجہ ہے کہ جعفر بن محمد الصادق عليہ السلام نے فرمايا:

اللہ کي قسم! اگر قرآن کو اس طرح پڑھا جاتا جيسا کہ وہ نازل ہوا تھا تو اس ميں تم ضرور پاتے کہ ہمارے نام ذکر کيے گئے ہيں جيسا کہ ہم سے پہلے لوگوں کے نام ہيں۔

نيز فرمايا: قرآن چار حصوں ميں نازل ہوا تھا ايک چوتھائي حصہ ہمارے بارے اور ايک چوتھائي ہمارے دشمنوں کے بارے اور ايک چوتھائي ميں قصص اور امثال تھيں اور ايک چوتھائي ميں قضايا اور احکام کے بارہ ميں تھا۔ ہم اہل بيت کے قرآن ميں فضائل ہيں۔

پھر فرمايا: ہمارے ائمہ سے يہ خبر صحيح ہے کہ انہوں نے اس قرآن کي قرأت کا حکم ديا ہے جو دو لوحوں کے درميان ہے ہم نہ اس ميں زيادتي کريں اور نہ کمي کريں حتي کہ آنے والا (ان کا بارھواں امام) آجائے تو وہ لوگوں کو وہ قرآن پڑھائے گا جس کو اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اور امير المؤمنين (علي) عليہ السلام نے کيا تھا۔ حسب روايات جو قرآن ميں منقول ہے اس سے زيادہ کي قرأت سے منع کيا گيا ہے اس ليے کہ زائد متواتر نہيں بلکہ خبر آحاد سے ہے اور اکيلا نقل کرنے والا کبھي اپني نقل ميں غلطي کر جاتا ہے (46) اور يہ اس ليے بھي کہ جو دو لوحوں کے درميان ہے اس کے خلاف کوئي شخص پڑھے گا وہ اہل خلاف سے اپنے آپ کو دھوکے ميں رکھے گا اور زبر دستي مسلط (اہل سنت) ہونے والوں کو برائي پر بھڑکائے گا اور اپنے آپ کو ھلاکت کے ليے پيش کرے گا۔ تو اس بنا پر ائمہ نے جو قرآن ميں دو تختيوں کے درميان ثابت نہيں اس کے پڑھنے سے منع کيا ہے وانتہي۔

اور کتاب المقالات ميں ايک جگہ لکھتا ہے: تمام اماميوں کا اتفاق ہے کہ گمراہ ائمہ نے تاليف قرآن ميں بہت سي مخالفت کي ہے اور جمع کرنے ميں انہوں نے اس ميں جس طرح وہ نازل ہوا تھا اور سنت نبوي سے عدول اور اعراض کيا ہے۔

دوسرے مقام پر لکھتا ہے: تاليف قرآن کے بارے ميں قول، جو قرآن ميں موجود ہے وہ اپنے ميں تأخر کے تقدم کا اور تقدم کے تأخر کا تقاضا کرتا ہے۔ اور جو شخص ناسخ اور منسوخ اور مکي سورتوں اور مدني سورتوں کو جانتا ہے جو ہم نے ذکر کيا ہے وہ اس ميں کوئي فرق نہيں ديکھتا۔ اس کو نجاشي نے اپني کتاب: ’’کتاب البيان في تاليف القرآن‘‘ ميں شمار کيا ہے۔ ظاہر يہي ہے کہ اس کتاب کے لکھنے کا يہي مطلب تھا کہ وہ صرف تحريف کے موقف کو ثابت کرے۔ اور اللہ جاننے والا ہے۔

اس کي کتاب ’’الارشاد‘‘ ميں يہ بحث آئے گي جہاں اس نے تغيير کے اثبات ميں بہت سي صريح اخبار روايات کي ہيں ہاں اس نے مذکورہ کتاب ميں قرآن کے اختلاف اور جو بعض ظالموں نے اس ميں حذف، اور نقصان کيا ہے کے بارہ ميں بہت سي مشہور روايات ذکر کرنے کے بعد يہ ميلان ظاہر کيا ہے کہ عدم نقصان کے دعوي ميں کوئي حجت نہيں جس پر مذکورہ روايات کي تاويل ميں اعتماد کيا جائے۔ حذف اور نقصان سے مراد يہ ہے کہ وہ امير المؤمنين عليہ السلام کے مصحف سے جو بطور تاويل اور تفسير تھا کو حذف کيا گيا ہے۔ ليکن يہ چند وجوہ نقص اور کمي کے ان دلائل کے خلاف اور متعارض ہے جس کو اس نے ’’المسائل السرويۃ‘‘ ميں ذکر کيا ہے پھر اس نے کہ آيات ميں شقيقہ کمي ہوئي ہے بلکہ ايک يا دو کلمے کي زيادتي ہوئي جو حد الحجاز تک نہيں پہنچتے کے قول کي نسبت بنو نو بخت رحمھم اللہ اور اماميہ کے متکلمين اور اہل فقہ والاعتبار کي طرف کي ہے۔ بنو نوبخت متکلمين شيعہ ميں ايک جليل القدر جماعت ہے جن کا ذکر ان کي رجال کي کتابوں ميں موجود ہے ان کتابوں کے مولفين نے ان کے اقوال نقل کرنے کا التزام کيا ہے۔

(47) ان ميں سے متکلمين کے شيخ اور نو نجتين کے سردار ابو سھل اسماعيل بن علي بن اسحاق بن ابي سھل بن نوبخت ہيں جو بہت سي کتابوں کے مولف ہيں جن ميں ايک کتاب: ’’التنبيہ في الامانۃ‘‘ ہے اس سے صراط مسقيم کے مولف نے نقل کيا ہے۔ اور اس کے بھانجے الشيخ المتکلم الفيلسوف ابومحمد حسن بن موسيٰ ہيں جو بہت سي عمدہ کتابوں کے مولف ہيں جن ميں ايک کتاب: ’’الفرق والديانات‘‘ ہے اس کا ايک نسخہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اور شيخ جليل ابو اسحاق ابراہيم بن نوبخت ہيں جو کتاب ’’الياقوت‘‘ کے مولف ہيں جس کي شرح علامہ نے کي ہے اور اپني شرح کے شروع ميں ان کا تعارف ’’شيخ الاقدم وامامنا الاعظم‘‘ کے الفاظ سے کرايا ہے ان ميں سے ايک اسحاق الکاتب ہے جس نے حجۃ اللہ کا ديدار کيا ہے۔

اور ان ميں اس طائفہ کے رئيس ابوالقاسم حسين بن روح بن ابي کرنوبختي ہيں جو شيعہ اور حجۃ اللہ کے درميان تيسرے سفير ہيں اور بسا اوقات ان کے بارہ ميں عصمت کا عقيدہ بھي ظاہر کيا جاتا ہے اسي طرح تحريف قرآن کے عقيدے کا اظہار ان کے عالم فاضل اور متکلم حاجب بن ليث بن سراج نے بھي ظاہر کيا ہے جيسا کہ رياض العلماء ميں ہے۔ اور يہ وہي ہيں جن سے مفيد نے معروف مسائل دريافت کيے تھے۔ اس نے اپني بعض عبارتوں ميں کہا ہے کہ ہم نے ديکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد لوگوں نے دين کے بعض اصولوں ميں اور فروعي مسائل ميں بہت بڑا اختلاف کيا ہے حتي کہ وہ کسي ايک مسئلہ پر بھي متفق نہيں ہو سکے۔ انہوں نے کتاب کو بھي بدل ديا اور ہر ايک نے اپنا اپنا مصحف جمع کيا اور پھراس کے بارہ ميں يہي گمان کيا کہ جو ميں نے جمع کيا ہے وہي حق ہے۔

تحريف کے اس قول کے الشيخ ثقہ جليل الاقدم فصل بن شاذان کے اپني کتاب ’’الايضاح‘‘ کے بہت سے مقامات پر تصريح کي ہے۔

قدماء ميں سے شيخ جليل محمد بن حسن الشيباني مولف تفسير ’’نہج البيان عن کشف معاني القرآن‘‘ نے اس کے مقدمہ ميں وضاحت کي ہے۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟ (حصہ پنجم)

شيعہ کے راويوں کے حالات اور تراجم سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحريف کا يہ مذہب ان ميں عام تھا حتي کہ ان ميں سے ايک جماعت نے اس مسئلہ پر مستقل کتابيں لکھي ہيں تحريف کے قائلين ميں سے الشيخ الثقہ احمد بن محمد بن خالد برقي مولف کتاب ’’المحاسن‘‘ جو بہت سي کتابوں کا مجموعہ ہے ميں شيخ طوسي نے ’’الفہرست’’ اور نجاشي نے اس کي کتابوں ميں سے ’’کتاب التحريف‘‘ کو بھي شمار کيا ہے۔

اس نظريہ کے قائلين ميں سے احمد مذکور کے والد ثقہ محمد بن خالد ہے نجاشي نے اس کي کتابوں ميں کتاب ’’التنزيل والتغيير‘‘ کو بھي شمار کيا ہے۔

ان حضرات ميں الشيخ ثقہ علي بن حسن بن فضال ہے جس کے بارہ ميں يہ مذکور ہے کہ ان کي حديث ميں کوئي لغزش اور غلطي معلوم نہيں ہوئي۔ اس کي کتابوں ميں سے کتاب ’’التنزيل من القرآن والتحريف‘‘ ہے۔

انہي حضرات ميں محمد بن حسن صيرفي نے ’’الفہرست‘‘ ميں اس کي کتاب ’’کتاب التحريف والتبديل‘‘ کا ذکر ہے۔

ان ميں سے احمد بن محمد بن سيار ہيں نجاشي نے اس کي کتابوں ميں ’’کتاب القرآن‘‘ کو بھي شمار کيا ہے اور اس سے ثقہ ابن ماھيار نے اپني تفسير ميں بہت کچھ نقل کيا ہے اسي طرح الشيخ حسن بن سليمان الحلي تلميذ الشھيد نے مختصر البصائر ميں جس کا نام اس نے ’’التنزيل والتحريف‘‘ رکھا ہے ميں نقل کيا ہے۔ اور استاذ الاکبر نے حاشيۃ المدارک ميں بحث القرأت ميں اس کو نقل کيا ہے اور اس کا ايک نسخہ ہمارے پاس بھي ہے۔

ان حضرات ميں سے ثقہ جليل محمد بن عباس بن علي بن مروان الماھيار المعرف بابن الحجام ہے جو ’’التغير‘‘ کا مولف ہے جس ميں اس نے وہي آيات ذکر کي ہيں جو اہل بيت عليھم السلام کے بارہ ميں نازل ہوئي ہيں۔ ہمارے اصحاب ميں اس جيسي کوئي کتاب نہيں لکھي گئي جو ہزار اوراق پر مشتمل ہے ’’الفہرست‘‘ ميں اس کي کتاب: ’’کتاب قرأۃ امير المؤمنين‘‘ وکتاب ’’قرأۃ اھل البيت‘‘ کا تذکرہ بھي ہے اس نے اپني کتاب ميں تحريف کے بارہ ميں بہت سي روايات نقل کي ہيں۔

قائلين تحريف ميں سے ابو طاہر عبدالواحد بن عمر قمي ہے ابن شھر آشوب نے اپني کتاب ’’معالم العلماء‘‘ ميں اس کي کتاب ’’في قرأۃ امير المؤمنين عليہ السلام وحروفہ‘‘ کا ذکر کيا ہے۔

اخبار اور قدماء کے کلام ميں حرف کا اطلاق کلمے پر ہوتا تھا جيساکہ باقر اور صادق عليہما السلام کا آل محمد کے بدلہ ميں آل عمران سے تبديلي کے بارہ ميں قول ہے کہ ايک حرف کي جگہ دو حرف بدل ديا ہے۔ اور حرف کا اطلاق آيت پر بھي ہوتا ہے جيسا کہ بعض صحابہ کا قول ہے کہ مجھے فلاں سورت سے ايک حرف يا دو حرف: {يا ايہا الذين آمنوا} سے ليکر آخر تک ياد ہيں۔ اسي رطح امير المؤمنين عليہ السلام کا قول:

’’واللہ ما حرف نزل علي محمدﷺ اِلاَّّ وانا اعرف فيمن نزل وفي موضع نزل‘‘۔

اللہ کي قسم! محمد ﷺ پر کوئي حرف (آيت) نازل نہيں ہوئي مگر ميں جانتا ہوں کہ وہ کس بارہ ميں اور کس مقام پر نازل ہوئي۔ حروف ھجا پر بولا جاتا ہے اور ھجا پو اس کا اطلاق بہت زيادہ ہے۔ حرف کا اور بھي معاني ميں اطلاق ہوتا ہے جن کا ہمارے اس مقام سے کوئي تعلق اور ربط نہيں ہے۔

ان حضرات ميں ايک صاحب ہيں جو ’’تفسير القرآن وتاويلہ وتنزيلہ وناسخہ ومنسوخہ، محکمۃ ومتشابہۃ وزيادات حروفہ وقضائہ وثوابہ روايات الثقات عن الصادقين من آل رسول اللہ صلوات اللہ عليہم اجمعين‘‘ کے مولف ہيں۔ جيسا کہ سعد السعود للسيد الجليل علي بن طاوؤس ميں ہے۔

(49) ان ميں سے کتاب کے مولف جس کا سيد علي بن طاؤوس نے اپني مذکورہ کتاب ’’سعد السعود‘‘ ميں ذکر کيا ہے کہ اس ميں رسول اللہﷺ، علي بن ابي طالب، حسن، حسين، علي بن حسين، محمد وزير ابتاء علي بن حسين، جعفر بن محمد، موسيٰ بن جعفر صلوات اللہ عليہم اجمعين کي قرأت کردہ کتاب مکتوب ہے اور اسنے ان سے ايک حديث نقل کي ہے جو سورت آل عمران ميں آ رہي ہے۔

ان حضرات ميں کتاب ’’الرد علي اہل التبديل‘‘ کا مولف ہے جس کا ابن شھر آشوب نے ’’المناقب‘‘ ميں ذکر کيا ہے جيسا کہ ’’البحار‘‘ ميں ہے اور اس سے بعض روايات نقل کي ہيں جو دلالت کرتي ہيں کہ اہل تبديل سے مراد عام لوگ ہيں اور اس کي غرض ان کا رد اور ان پر طعن کرنا تھا اس ليے کہ اس ميں ان کے اسلاف کو اسکے حفاظت کرنے والے سے اعراض تھا۔

فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ * ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ

ذرا دوبارہ ديکھو، کيا تمہيں اس ميں کوئي خلل نظر آتا ہے؟ پھراسے باربار ديکھو۔ تمہاري نگاہ تھک کر ناکام پلٹ آئے گي۔

يہي شيعوں کے باني مباني اور اصل شيعہ ہيں, اور يہ ان کي کتابيں ہيں جنہيں طبرسي نے يکے بعد ديگرے تيار کيا ہے ۔

اور ان ناموں پر سيد طيب موسوى الجزائري نے تفسير قمي کے مقدمہ ميں " تحريف قرآن" کے عنوان کے تحت "سيد نعمت اللہ الجزائري , حر العاملي, علامہ فتوي اور سيد بحراني کا اضافہ کيا ہے اور ان کے بعد کہا ہے :

انہوں نے اپنے مذہب کو ثابت کرنے ميں ايسي آيات اور روايات کو دليل بنايا ہے کہ جن سے اغماض ممکن نہيں ہے۔

اور دنيائے شيعيت ميں کوئي ايک بھي يہ ثابت نہيں کرسکتا کہ انکے ابتدائي قرون ثلاثہ کے ائمہ , علماء , محدثين , مفسرين , اور رواۃ نے اسکے علاوہ کو ئي اور اعتقاد رکھا ہو۔ چہ جائيکہ کہ وہ ان متواتر روايات کا دعوى کريں جو اس قرآن ميں عدم تحريف کا منہ بولتا ثبوت ہيں جو لوگوں کے ہاتھوں بين الدفتين (دو گتوں کے درميان) ميں موجود ہے۔

ہے کوئي جواب دينے والا!!!!!!؟؟؟؟؟؟؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یاد رہے کہ [LINK=www.deenekhalis.net]ادارہ دین خالص [/LINK]علامہ شہید کی یہ کتاب یعنی الشیعہ والقرآن مکمل طور پر اپنی ویب پر لگانے کا ارادہ رکھتا ہے
لہذا
دل کھول کر وہاں سے کاپی پیسٹ کریں تمام تر مضامین
لیکن کی تحریر کو اپنی تحریر ظاہر نہ کریں
بلکہ
اسکے اصل مصنف کا نام ضرور تحریر کریں
اور ہو سکیں تو جہاں سے کاپی کیا ہے اسکا لنک بھی بطور حوالہ دے دیں
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ تھریڈ کو اپنا ظاہر کروں بلکہ میں نے صرف کاپی اور پیسٹ کیا ہے، اکثر تحاریر تو کتب میں بھی درج ہیں تو وہاں سے بھی تو کسی نے پڑھا ھوگا،اگر میرا مقصد ہوتا ان کو اپنی تحاریر بتاوں،کسی تحریر میں میں نے نہیں لکھا کہ یہ میری تحریر ہے، ایک بات یہ کے سورس کا حوالہ نہیں دیا،، میں نے صرف کاپی اور پیسٹ کیا،، آئیندہ حوالہ دوں گا،،
رہنمائی کا شکریہ۔
جزاک اللہ
 
Top