شيعوں کا مزعومہ قرآن اب کہاں ہے؟ (حصہ اول)
کليني نے يہي اپني سند کے ساتھ سالم بن سلمہ سے روايت کي ہے کہ ايک شخص نے ابو عبداللہ عليہ السلام کے پاس قرآن سے عام لوگوں کي قرأٔت کے برخلاف پڑھا اور ميں سن رہا تھا۔ تو ابو عبداللہ عليہ السلام نے فرمايا: اس قرأت کے ساتھ پڑھنے سے رک جاو جيسے عام لوگ پڑھتے ہيں تو بھي اسي طرح پڑھ، جب قائم (مذعومہ امام) آئے گا تو وہ قرآن کو اس کي اصل صورت ميں پڑھے گا۔ پھر انہوں نے وہ مصحف (قرآن) نکالا جس کو علماء عليہ السلام نے لکھا تھا۔ اور اس کي کتابت سے فارغ ہونے کے بعد اس کو لوگوں کے سامنے پيش کيا اور فرمايا: يہ اللہ کي کتاب ہے جيسا کہ اس نے محمدﷺ پر نازل کي تھي ميں نے اس کو تختيوں سے جمع کيا ہے۔ تو لوگوں نے کہا ہمارے پاس مصحف ہے جس ميں قرآن جمع ہے ہميں تمہارے اس مصحف کي ضرورت نہيں۔ تو حضرت علي نے فرمايا: اللہ کي قسم! آج کے بعد تم اس مصحف کو کبھي نہيں ديکھ سکو گے۔ مجھ پر يہ لازم تھا کہ ميں نے جب اس کو جمع کيا تھا اس کي تم کو خبر دوں کہ تم اس کو پڑھو (ايضاً ج2 ص633)۔
يہ اور اس قسم کي بہت سي مثاليں شيعہ کي سب سے معتبر کتاب جس کو کليني نے اپنے امام غائب پر پيش کيا تھا تو اس نے اس کي توثيق کي تھي موجود ہيں ليکن ہم نے تکرار سے بچتے ہوئے ان کو يہاں ذکر کرنے سے اعراض کيا ہے اس ليے کہ وہ کتاب فصل الخطاب ميں آ گئي ہيں جس کے ليے ہم نے اپني اس کتاب کا چوتھا باب مختص کيا ہے۔
مقصود يہي ہے کہ ان روايات کو کليني نے اپنے ائمہ معصومين سے روايت کيا ہے کہ ان کا يہي عقيدہ تھا کہ يہ قرآن جو لوگوں کے ہاتھوں ميں ہے محرف شدہ ہے جيسا کہ وہ اس کي نسبت شيعہ حضرات کي طرف بھي کرتے ہيں کہان کا بھي تحريف قرآن کا عقيدہ ہے۔ ان آٹھ روايات ميں چار ائمہ علي بن ابي طالب، محمد باقر، جعفر (35) اور ابو الحسن کا عقيدہ بيان ہوا ہے کہ وہ تحريف قرآن کا (معاذ اللہ) عقيدہ رکھتے تھے(حاشيہ باقي؟) نيز الکافي ان کے ائمہ متأخرين کے عقيدہ تحريف کا بھي اثبات ہے۔ ليکن ہم ان کي روايات يہاں درج نہيں کريں گے کيونکہ ہم بيان کر رہے ہيں کہ ہم ان کي وہي روايات ذکر کريں گے جو ان کے ائمہ معصومين سے منقول ہيں۔
الکافي کے بعد ہم ان کي ايک اور قديمي کتاب تفسير قمي کا ذکر کرتے ہيں جو ان کے ہاں نہايت قابل اعتماد ہے اور وہ کتاب بھي ان کے معصوم ائمہ کے زمانہ ميں لکھي گئي ہے۔
علي بن ابراہيم قمي حديث اور تفسير ميں شيعوں کا شيخ المشائخ ہے کليني کي کتاب (الکافي) جو صحاح اربعہ ميں سے سب سے اہم کتاب ہے اس ميں بہت سي روايات قمي سے ہيں اور محمد بن يعقوب کليني اس کا شاگرد ہے۔ قمي کے بارہ ميں نجاشي کہتا ہے:۔
حديث ميں ثقفہ ثبت اور قابل اعتماد اور صحيح المذہب ہے اس نے حديث کا بہت زيادہ سماع کيا۔ اور بہت سي کتابيں تصنيف کيں التفسير بھي اسي کي کتاب ہے (رجال النجاشي ص183)۔
وہ ہمارے اصحاب کے رايوں ميں نہايت جليل القدر راوي ہے اس سے شيعہ کے محدثين کے مشائخ روايت ليتے ہيں ہميں اس کي تاريخ وفات کا تو علم نہيں ہوا ہاں البتہ وہ 307ھ ميں بقيدِ حيات تھا (الکني والالقاب ص68ج3)۔
’’وہ ابو الحسن محمد الامام العسکري کے دور کا ہے۔‘‘ (اذريعہ لاغا بزرک الطہراني ص302ج4)۔
اس کي تفسير کے بارہ ميں آرائ:۔
1- يہ تفسير بہت سي تفاسير کے ليے اصل الاصول ہے۔
2- اس کي روايات نہايت قليل وسائط سے دو صادقين: باقر وجعفر سے مروي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ ’’الذريعہ‘‘ ميں کہا ہے کہ قمي کي تفسير در قيقت صادقين کي تفسير ہے۔
3- اس کا مولف امام حسن عسکري کے زمانے کا ہے۔
4- قمي کا باپ جس نے اپنے بيٹے کے ليے اخبار روايت کي ہيں وہ امام رضا کا صحابي تھا۔
(36) 5- اس کي کتاب ميں اہل بيت کے فضائل کے بارہ ميں بہت بڑا علم ہے جس کو ان کے دشمنوں نے قرآن سے نکالنے کي پوري کوشش کي ہے۔
6- يہ بہت سي آيات قرآن کے بيان کرنے کي ضامن ہے جن کا کامل مفہوم صرف اھل بيت جو قرآن کے پڑھنے والے ہيں کي راہنمائي اور مدد کے بغيرسمجھنا ممکن نہيں (مقدمہ تفسير القمي سيد طيب موسوي الجزائري ص15)۔
قمي اپني تفسير کے مقدمہ ذکر کرتا ہے:۔
قرآن ميں سے ناسخ اور منسوخ بھي ہے محکم اور متشابہ بھي ہے۔ عام اور خاص بھي ہے۔ تقديم وتاخير بھي ہوئي ہے منقطع اور معطوف بھي ہے اور جس طرح اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اس کے برعکس اس ميں تغير وتبدل بھي ہوا ہے (تفسير القمي ص9ج1)۔
جس طرح اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اس کے برعکس تغير وتبدل کي يہ مثال ہے کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:۔
{كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} ابو عبداللہ عليہ السلام نے اس آيت کے قاري سے فرمايا: يہ امت بہتر کس طرح ہو سکتي ہے جنہوں نے امير المومنين (علي) اور حسين بن علي کو قتل کيا؟ ان سے پوچھا گيا اے ابن رسول! يہ کن الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي تو فرمايا: يہ آيت ان الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي: {كُنْتُمْ خَيْرَ آئِمَةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (امۃ کے بجائے ائمہ کا لفظ ہے) کيا تو ديکھتا نہيں کہ اللہ تعاليٰ نے آيت کے آخر ميں ائمہ کي مدح کي ہے کہ: {تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} اسي طرح آيت: {الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} ابو عبداللہ کے سامنے پڑھي گئي تو انہوں نے فرمايا: ايمان داروں نے اللہ تعاليٰ سے بہت بڑا سوال کيا کہ وہ ان کو لوگوں کا امام بنا دے۔ ان سے عرض کيا گيا اے ابن رسول! يہ آيت کن الفاظ سے نازل ہوئي تو انہوں نے فرمايا: {الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَّقِينَ إِمَامًا} کے الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي اور اسي طرح آيت {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ} ابو عبداللہ کے سامنے پڑھي گئي تو انہوں نے فرمايا: اللہ کے امر سے کسي چيز کي کيسے حفاظت کي جا سکتي ہے اور پيچھے رہنے والے سامنے کس طرح ہو سکتے ہيں۔ تو ان سے عرض کيا گيا اے ابن رسول! پھر يہ آيت کن الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي ہے تو انہوں نے فرمايا: يہ آيت ان الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي تھي کہ: {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيْبٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ يَحْفَظُونَهُ بِأَمْرِ اللَّهِ} اسي طرح تحريف کي بہت سي مثاليں ہيں (تفسير القمي ص10ج1)۔
(37) اس مطبوع کتاب کے ٹائيٹل پر لکھا ہوا ہے کہ: يہ تفاسير ميں سے قديم ترين کتاب ہے جس نے اہلِ بيت کے بارہ ميں نازل شدہ آيات سے پردہ ہٹايا ہے۔
کليني نے يہي اپني سند کے ساتھ سالم بن سلمہ سے روايت کي ہے کہ ايک شخص نے ابو عبداللہ عليہ السلام کے پاس قرآن سے عام لوگوں کي قرأٔت کے برخلاف پڑھا اور ميں سن رہا تھا۔ تو ابو عبداللہ عليہ السلام نے فرمايا: اس قرأت کے ساتھ پڑھنے سے رک جاو جيسے عام لوگ پڑھتے ہيں تو بھي اسي طرح پڑھ، جب قائم (مذعومہ امام) آئے گا تو وہ قرآن کو اس کي اصل صورت ميں پڑھے گا۔ پھر انہوں نے وہ مصحف (قرآن) نکالا جس کو علماء عليہ السلام نے لکھا تھا۔ اور اس کي کتابت سے فارغ ہونے کے بعد اس کو لوگوں کے سامنے پيش کيا اور فرمايا: يہ اللہ کي کتاب ہے جيسا کہ اس نے محمدﷺ پر نازل کي تھي ميں نے اس کو تختيوں سے جمع کيا ہے۔ تو لوگوں نے کہا ہمارے پاس مصحف ہے جس ميں قرآن جمع ہے ہميں تمہارے اس مصحف کي ضرورت نہيں۔ تو حضرت علي نے فرمايا: اللہ کي قسم! آج کے بعد تم اس مصحف کو کبھي نہيں ديکھ سکو گے۔ مجھ پر يہ لازم تھا کہ ميں نے جب اس کو جمع کيا تھا اس کي تم کو خبر دوں کہ تم اس کو پڑھو (ايضاً ج2 ص633)۔
يہ اور اس قسم کي بہت سي مثاليں شيعہ کي سب سے معتبر کتاب جس کو کليني نے اپنے امام غائب پر پيش کيا تھا تو اس نے اس کي توثيق کي تھي موجود ہيں ليکن ہم نے تکرار سے بچتے ہوئے ان کو يہاں ذکر کرنے سے اعراض کيا ہے اس ليے کہ وہ کتاب فصل الخطاب ميں آ گئي ہيں جس کے ليے ہم نے اپني اس کتاب کا چوتھا باب مختص کيا ہے۔
مقصود يہي ہے کہ ان روايات کو کليني نے اپنے ائمہ معصومين سے روايت کيا ہے کہ ان کا يہي عقيدہ تھا کہ يہ قرآن جو لوگوں کے ہاتھوں ميں ہے محرف شدہ ہے جيسا کہ وہ اس کي نسبت شيعہ حضرات کي طرف بھي کرتے ہيں کہان کا بھي تحريف قرآن کا عقيدہ ہے۔ ان آٹھ روايات ميں چار ائمہ علي بن ابي طالب، محمد باقر، جعفر (35) اور ابو الحسن کا عقيدہ بيان ہوا ہے کہ وہ تحريف قرآن کا (معاذ اللہ) عقيدہ رکھتے تھے(حاشيہ باقي؟) نيز الکافي ان کے ائمہ متأخرين کے عقيدہ تحريف کا بھي اثبات ہے۔ ليکن ہم ان کي روايات يہاں درج نہيں کريں گے کيونکہ ہم بيان کر رہے ہيں کہ ہم ان کي وہي روايات ذکر کريں گے جو ان کے ائمہ معصومين سے منقول ہيں۔
الکافي کے بعد ہم ان کي ايک اور قديمي کتاب تفسير قمي کا ذکر کرتے ہيں جو ان کے ہاں نہايت قابل اعتماد ہے اور وہ کتاب بھي ان کے معصوم ائمہ کے زمانہ ميں لکھي گئي ہے۔
علي بن ابراہيم قمي حديث اور تفسير ميں شيعوں کا شيخ المشائخ ہے کليني کي کتاب (الکافي) جو صحاح اربعہ ميں سے سب سے اہم کتاب ہے اس ميں بہت سي روايات قمي سے ہيں اور محمد بن يعقوب کليني اس کا شاگرد ہے۔ قمي کے بارہ ميں نجاشي کہتا ہے:۔
حديث ميں ثقفہ ثبت اور قابل اعتماد اور صحيح المذہب ہے اس نے حديث کا بہت زيادہ سماع کيا۔ اور بہت سي کتابيں تصنيف کيں التفسير بھي اسي کي کتاب ہے (رجال النجاشي ص183)۔
وہ ہمارے اصحاب کے رايوں ميں نہايت جليل القدر راوي ہے اس سے شيعہ کے محدثين کے مشائخ روايت ليتے ہيں ہميں اس کي تاريخ وفات کا تو علم نہيں ہوا ہاں البتہ وہ 307ھ ميں بقيدِ حيات تھا (الکني والالقاب ص68ج3)۔
’’وہ ابو الحسن محمد الامام العسکري کے دور کا ہے۔‘‘ (اذريعہ لاغا بزرک الطہراني ص302ج4)۔
اس کي تفسير کے بارہ ميں آرائ:۔
1- يہ تفسير بہت سي تفاسير کے ليے اصل الاصول ہے۔
2- اس کي روايات نہايت قليل وسائط سے دو صادقين: باقر وجعفر سے مروي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ ’’الذريعہ‘‘ ميں کہا ہے کہ قمي کي تفسير در قيقت صادقين کي تفسير ہے۔
3- اس کا مولف امام حسن عسکري کے زمانے کا ہے۔
4- قمي کا باپ جس نے اپنے بيٹے کے ليے اخبار روايت کي ہيں وہ امام رضا کا صحابي تھا۔
(36) 5- اس کي کتاب ميں اہل بيت کے فضائل کے بارہ ميں بہت بڑا علم ہے جس کو ان کے دشمنوں نے قرآن سے نکالنے کي پوري کوشش کي ہے۔
6- يہ بہت سي آيات قرآن کے بيان کرنے کي ضامن ہے جن کا کامل مفہوم صرف اھل بيت جو قرآن کے پڑھنے والے ہيں کي راہنمائي اور مدد کے بغيرسمجھنا ممکن نہيں (مقدمہ تفسير القمي سيد طيب موسوي الجزائري ص15)۔
قمي اپني تفسير کے مقدمہ ذکر کرتا ہے:۔
قرآن ميں سے ناسخ اور منسوخ بھي ہے محکم اور متشابہ بھي ہے۔ عام اور خاص بھي ہے۔ تقديم وتاخير بھي ہوئي ہے منقطع اور معطوف بھي ہے اور جس طرح اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اس کے برعکس اس ميں تغير وتبدل بھي ہوا ہے (تفسير القمي ص9ج1)۔
جس طرح اللہ تعاليٰ نے نازل کيا اس کے برعکس تغير وتبدل کي يہ مثال ہے کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:۔
{كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} ابو عبداللہ عليہ السلام نے اس آيت کے قاري سے فرمايا: يہ امت بہتر کس طرح ہو سکتي ہے جنہوں نے امير المومنين (علي) اور حسين بن علي کو قتل کيا؟ ان سے پوچھا گيا اے ابن رسول! يہ کن الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي تو فرمايا: يہ آيت ان الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي: {كُنْتُمْ خَيْرَ آئِمَةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (امۃ کے بجائے ائمہ کا لفظ ہے) کيا تو ديکھتا نہيں کہ اللہ تعاليٰ نے آيت کے آخر ميں ائمہ کي مدح کي ہے کہ: {تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} اسي طرح آيت: {الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} ابو عبداللہ کے سامنے پڑھي گئي تو انہوں نے فرمايا: ايمان داروں نے اللہ تعاليٰ سے بہت بڑا سوال کيا کہ وہ ان کو لوگوں کا امام بنا دے۔ ان سے عرض کيا گيا اے ابن رسول! يہ آيت کن الفاظ سے نازل ہوئي تو انہوں نے فرمايا: {الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَّقِينَ إِمَامًا} کے الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي اور اسي طرح آيت {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ} ابو عبداللہ کے سامنے پڑھي گئي تو انہوں نے فرمايا: اللہ کے امر سے کسي چيز کي کيسے حفاظت کي جا سکتي ہے اور پيچھے رہنے والے سامنے کس طرح ہو سکتے ہيں۔ تو ان سے عرض کيا گيا اے ابن رسول! پھر يہ آيت کن الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي ہے تو انہوں نے فرمايا: يہ آيت ان الفاظ کے ساتھ نازل ہوئي تھي کہ: {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيْبٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ يَحْفَظُونَهُ بِأَمْرِ اللَّهِ} اسي طرح تحريف کي بہت سي مثاليں ہيں (تفسير القمي ص10ج1)۔
(37) اس مطبوع کتاب کے ٹائيٹل پر لکھا ہوا ہے کہ: يہ تفاسير ميں سے قديم ترين کتاب ہے جس نے اہلِ بيت کے بارہ ميں نازل شدہ آيات سے پردہ ہٹايا ہے۔