- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کو شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کی تین درجات ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی نعمتوں کے نعمت ہونے کا احساس دل میں پیدا ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس احساس کے پیدا ہونے پر انسان اپنی زبان سے بھی اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ زبان کے علاوہ اپنے عمل سے بھی شکر ادا کرے۔ رستے میں کسی شاہراہ پر آپ اگر کسی سے بائیک یا کار والے سے لفٹ مانگیں اور وہ آپ کو لفٹ دے دے تو منزل مقصود پرپہنچنے کے بعد سب سے پہلے آپ کے دل میں اس شخص کے لیے شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرے درجہ میں آپ جزاک اللہ، شکریہ، Thanks وغیرہ جیسے الفاظ ادا کر کے اپنے محسن کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو صرف شکریہ ادا کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بائیک یا کار والے کو ساتھ میں دعائیں بھی دیتے ہیں مثلاً اللہ تمہیں خوش رکھے وغیرہ۔ تیسرے درجے میں یہ ہے کہ آپ کسی وقت اپنے اس محسن کو کسی مشکل میں گھرا ہوا دیکھیں تو اس سے نکلنے میں اس کے ساتھ تعاون کر دیں۔ اللہ تعالی کو ہمارے تعاون کی تو ہر گز ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ذات کسی کی محتاج ہے لیکن اللہ کے لیے عمل سے شکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اس کے سامنے جھکا دیں۔
انسان ہمیشہ دو حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں ہوتا ہے۔ یا تو نعمت اور آسائش میں ہے تو اللہ کا شکر ادا کرے یا تکلیف اور آزمائش میں ہے تو صبر کرے۔ جہاں تک اللہ کی نعمتوں کی بات ہے تو ہمارے ارد گرد اس قدر نعمتیں موجود ہوتی ہیں کہ کبھی ہم غور ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی اللہ کی نعمتیں ہیں لہذا ان نعمتوں پر اللہ کے لیے شکر کا جذبہ بھی دل میں بیدار نہیں ہوتا۔ تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی عادت اسی وقت پختہ ہو گی جب ہمیں مالک کی نعمتوں کے نعمت ہونے کا شعور اور احساس ہو گا۔ یعنی کسی شی ء کے بارے ذہن میں اللہ کی نعمت ہونے کا تصور ابھرے اور ساتھ ہی دل میں اس نعمت کے حوالے سے تشکر کے جذبات پیدا ہوں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انسانوں کو جو اپنی ذات اور ماحول میں بار بار غور کرنے کی دعوت دی ہے تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان اپنے پروردگار کی نعمتوں کو پہچان کا ان کا شکر ادا کرے۔
ایک دفعہ گورمے بیکری میں کچھ خریدنے کے لیے جانے کا اتفاق ہوا تو فورا یہ خیال اور احساس پیدا ہوا کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس قسم کے سپر اسٹورز اور بیکریوں کو باہر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں ۔ وہ شیشوں کے پیچھے سجائی گئی ایسی رنگا رنگ چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ جن کے خریدنے کی حسرت ان کے دلوں میں سالوں سے چھپی ہوتی ہے لیکن وہ اس خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ میں پچھلے سات سالوں سے گورمے بیکری سے خریداری کر رہا ہوں اور کبھی ایک بار بھی بیکری سے باہر نکلتے وقت اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا کہ اس نے مجھے اتنی استطاعت دی کہ میں اس کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکوں۔ شکر کا تعلق ہماری زندگی سے صرف اتنا رہ گیا ہے کہ کھانے کے بعد بس کھانے کی دعا پڑھ لی جائے تو اللہ کا شکر ادا ہو گیا جبکہ مالک کا ارشاد ہے:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ﴿٣٤﴾
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ انسان لازما بہت ہی ظالم اور بہت زیادہ ناشکری کرنے والا ہے۔
تو اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ ہر لمحے ہم اللہ کی نعمتوں میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان نعمتوں کا شعور اور احساس نہیں ہوتا لہذا ہم ان پر شکر ادا کرنے کے عادی بھی نہیں ہوتے۔ آپ بچوں کی مثال ہی لے لیں۔ والدین ان کا کمرہ کھلونوں سے بھر دیں لیکن اس کے باوجود وہ نئے کھلونے کے خواہشمند ہیں۔ چلیں، نئے کھلونے کی خواہش کر لیں لیکن یہ تو بد اخلاقی ہیں کہ ان بیس کھلونوں پر کوئی شکر ادا نہیں کیا جو والدین نے بغیر مطالبے کے خرید دیے اور اس ایک پر ناراضگی کا اظہار کیے بیٹھے ہیں جو والدین نے کسی سبب یا حکمت سے لے کر نہیں دیا۔ یہی معاملہ انسان کا بھی اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ ہم اللہ تعالی کی سینکڑوں نعمتوں کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں نہ تو ان کی قدر ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر مالک کے شکر گزار ہوتے ہیں لیکن ایک نعمت جو ہمارے پاس نہیں ہوتی اور جس کے ہم طلبگار ہوتے ہیں، اس کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پروردگار سے شکایت ضرور کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر وہ نعمت مل جائے تو پھر کون سا شکر گزار رہتے ہیں؟
ہم میں کسی کے پاس گاڑی کی نعمت نہیں تھی۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے کچھ عرصے بعد دے دی۔ تو اب کیا ایسا ہے کہ وہ صاحب جب بھی گاڑی میں بیٹھیں تو اللہ کے شکر گزار ہوں۔ ہم نے دین کی ہر عبادت کی طرح نعمت پر شکر کو بھی مشینی (mechanical) بنا لیا ہے۔ بس گاڑی میں بیٹھنے کی دعا پڑھ لی تو شکر ادا ہو گیا۔ کیا کبھی گاڑی میں بیٹھے ہماری آنکھیں اللہ کی اس نعمت پر تشکر کے جذبے سے نم ہوئی ہیں؟ شکر تووہ ہے جو پہلے دل میں پیدا ہو اور پھر زبان پر جاری ہو۔ صرف زبان پر جاری شکر تو ایک اخلاقی رسم (professional ethics)ہے اگرچہ کچھ نہ ہونے سے اس کا ہونا بھی بہتر ہے۔ اگر کسی شخص کو آپ گاڑی یا بائیک پر لفٹ دیں اور اترتے وقت وہ آپ کو شکریہ بھی ادا نہ کرے تو آپ اس کے بارے کیا خیال کریں گے؟ بالکل ایسا ہی حال اس شخص کا بھی ہے کہ جو اللہ کی نعمتوں کو تو خوب استعمال کرے لیکن ان پر اللہ کا شکر گزار نہ ہو۔
یہ واضح رہے کہ اللہ تعالی سے جب ہم کسی نعمت کی دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالی اس نعمت کو دنیا کے معروف طریقوں کے مطابق ہمیں عطا کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ نے رات گاڑی کی دعا کی اور صبح سویرے فرشتے آپ کے دروازے پر ایک نئی گاڑی چھوڑ گئے۔ اللہ عزوجل آپ کے دنیا میں ایسے حالات بناتے ہیں اور رستے کھلوتے ہیں کہ وہ نعمت آپ کو حاصل ہو۔ اس لیے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جو مجھے حاصل ہے وہ میری محنت کا نتیجہ ہے۔
صحت کی نعمت ہی کو لے لیں۔ کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر اس وقت محسوس ہوتی ہے جبکہ ہم کسی ہسپتال کا وزٹ کریں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر ہسپتال ہوتے ہیں تو آپ قبرستان کی طرح ان کی زیارت کا بھی حکم دیتے۔ آپ کسی دوست یا رشتہ دار کی عیادت کے ہسپتال گئے ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا بیمار ہے۔ اسی طرح کہیں کسی مسئلہ میں کورٹ کچہری کا چکر پڑ جائے تو لگتا ہے کہ ساری دنیا یہاں ہے۔ تو ہسپتال سے یا کورٹ کچہری کے سامنے سے گزر جانا اور اللہ کا شکر ادا نہ کرنا، صحت اور سکون کی نعمت کی ناشکری نہیں ہے؟ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فعن أبي ذر رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى» [البخاري ومسلم]
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم صبح کرتے ہو تو تم پر ایک ایک جوڑ کے بدلے )بطور شکر( صدقہ ادا کرنا واجب ہے۔ اور دیکھو، سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔ اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس دن میں چاشت کی دو رکعت ادا کر لے تو اس نے اس دن کے ہر جوڑ کا شکر ادا کردیا۔
اللہ نے انسان میں اس قدر خیر رکھی ہے کہ اگر یہ اللہ کی نعمتوں کو سوچنا شروع کر دے تو اسے پروردگار کا شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ نہ ملیں۔ ایک دفعہ صبح صبح کچن میں چائے بناتے ہوئے کچن، بیڈ روم، لاونج میں موجود اللہ کی نعمتوں پر نظر پڑی تو دل اس قدر تشکر کے جذبات سے بھر گیا کہ زبان سے شکر ادا کرنا مشکل ہو گیا۔ کبھی سبحان اللہ وبحمدہ کے کلمات پڑھے اور کبھی سبحان اللہ والحمد للہ کے لیکن دل کو اطمینان نہیں آیا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول شکر گزاری کے یہ کلمات پڑھنا شروع کیے:
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ. صحيح مسلم
پروردگار آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنی آپ کی مخلوق ہے۔ اور آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنی آپ کو پسند ہے۔ اور آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنا آپ کے عرش کا وزن ہے۔ اور آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنی آپ کے کلمات کو لکھنے کے لیے سیاہی درکار ہے۔
یہ کلمات ادا کرنے پر بھی دل کو تسلی نہیں ہوئی کہ شکر ادا ہو گیا لیکن یہ ذہن میں ضرور بات رہ گئی ہے کہ اس سے بہتر بھی کچھ کلمات آپ سے منقول ہوں گے ۔ خیر اس وقت تو ذہن میں وہ کلمات نہیں آئے لیکن بعد میں آپ کی سجدے کی ایک دعاء میں وہ مطلوبہ کلمات مل گئے جس کے الفاظ یہ ہیں:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَبِكَ مِنْكَ لاَ أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
پروردگار آپ کے غضب سے پناہ چاہتا ہوں آپ کی رضا کی۔ آپ کی سزا سے پناہ چاہتا ہوں آپ کے درگزر کی۔ آپ سے پناہ چاہتا ہوں آپ کی۔ )میں آپ کی کیا ثناء بیان کروں(، میں آپ کی ثناء بیان نہیں کر سکتا، آپ کی ثناء تو وہ ہے جو آپ خود کریں۔
انسان جو کہ ایک ٹشو پیپر مانگنے پر اس کے دینے والے کاشکرگزار ہو سکتا ہے، وہ اپنے خالق کا شکر گزار نہیں ہوگا؟ ضرور ہو گا بشرطیکہ وہ خالق کے احسانات کے بارے بھی ایسے ہی سوچنا شروع کر دے جیسے وہ انسانوں کے احسانات کے بارے فکر کرتا ہے۔ انسانوں میں تو یہ ہے کہ اگر کسی اچھے انسان سے کوئی چھوٹی سی بھلائی کر دیں تو ساری زندگی آپ کے احسان کے زیر باررہتا ہے اور اسے یہ غم گھلائے رہتا ہے کہ کسی طرح اپنے محسن کے کام آ سکے۔ لیکن یہ اچھے انسان بھی اچھے بندے نہیں ہیں یعنی اپنے پروردگار کے بارے ایسے جذبات نہیں رکھتے۔ شاید اس وجہ سےکہ وہ پروردگار کے احسانات کو اس کی ذمہ داری سمجھتے ہیں جیسا کہ بچے اپنے والدین کے احسانات کو ان کی ذمہ داری سمجھ لیتے ہیں اور عموماً اسی سوچ کے نتیجے میں ان کے شکر گزار نہیں ہوتے۔
بلاشبہ شکر اللہ کی نعمت ہے۔ تو اللہ سے اللہ کی اس نعمت کا سوال کریں کہ وہ ہمیں شکر گزار بنائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
اور جب تمہارے رب یہ اعلان فرما دیا کہ اگر تم احسان مانو گے تو میں تمہیں )نعمتوں میں( بڑھا دوں گا۔
انسان ہمیشہ دو حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں ہوتا ہے۔ یا تو نعمت اور آسائش میں ہے تو اللہ کا شکر ادا کرے یا تکلیف اور آزمائش میں ہے تو صبر کرے۔ جہاں تک اللہ کی نعمتوں کی بات ہے تو ہمارے ارد گرد اس قدر نعمتیں موجود ہوتی ہیں کہ کبھی ہم غور ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی اللہ کی نعمتیں ہیں لہذا ان نعمتوں پر اللہ کے لیے شکر کا جذبہ بھی دل میں بیدار نہیں ہوتا۔ تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی عادت اسی وقت پختہ ہو گی جب ہمیں مالک کی نعمتوں کے نعمت ہونے کا شعور اور احساس ہو گا۔ یعنی کسی شی ء کے بارے ذہن میں اللہ کی نعمت ہونے کا تصور ابھرے اور ساتھ ہی دل میں اس نعمت کے حوالے سے تشکر کے جذبات پیدا ہوں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انسانوں کو جو اپنی ذات اور ماحول میں بار بار غور کرنے کی دعوت دی ہے تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان اپنے پروردگار کی نعمتوں کو پہچان کا ان کا شکر ادا کرے۔
ایک دفعہ گورمے بیکری میں کچھ خریدنے کے لیے جانے کا اتفاق ہوا تو فورا یہ خیال اور احساس پیدا ہوا کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس قسم کے سپر اسٹورز اور بیکریوں کو باہر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں ۔ وہ شیشوں کے پیچھے سجائی گئی ایسی رنگا رنگ چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ جن کے خریدنے کی حسرت ان کے دلوں میں سالوں سے چھپی ہوتی ہے لیکن وہ اس خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ میں پچھلے سات سالوں سے گورمے بیکری سے خریداری کر رہا ہوں اور کبھی ایک بار بھی بیکری سے باہر نکلتے وقت اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا کہ اس نے مجھے اتنی استطاعت دی کہ میں اس کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکوں۔ شکر کا تعلق ہماری زندگی سے صرف اتنا رہ گیا ہے کہ کھانے کے بعد بس کھانے کی دعا پڑھ لی جائے تو اللہ کا شکر ادا ہو گیا جبکہ مالک کا ارشاد ہے:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ﴿٣٤﴾
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ انسان لازما بہت ہی ظالم اور بہت زیادہ ناشکری کرنے والا ہے۔
تو اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ ہر لمحے ہم اللہ کی نعمتوں میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان نعمتوں کا شعور اور احساس نہیں ہوتا لہذا ہم ان پر شکر ادا کرنے کے عادی بھی نہیں ہوتے۔ آپ بچوں کی مثال ہی لے لیں۔ والدین ان کا کمرہ کھلونوں سے بھر دیں لیکن اس کے باوجود وہ نئے کھلونے کے خواہشمند ہیں۔ چلیں، نئے کھلونے کی خواہش کر لیں لیکن یہ تو بد اخلاقی ہیں کہ ان بیس کھلونوں پر کوئی شکر ادا نہیں کیا جو والدین نے بغیر مطالبے کے خرید دیے اور اس ایک پر ناراضگی کا اظہار کیے بیٹھے ہیں جو والدین نے کسی سبب یا حکمت سے لے کر نہیں دیا۔ یہی معاملہ انسان کا بھی اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ ہم اللہ تعالی کی سینکڑوں نعمتوں کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں نہ تو ان کی قدر ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر مالک کے شکر گزار ہوتے ہیں لیکن ایک نعمت جو ہمارے پاس نہیں ہوتی اور جس کے ہم طلبگار ہوتے ہیں، اس کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پروردگار سے شکایت ضرور کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر وہ نعمت مل جائے تو پھر کون سا شکر گزار رہتے ہیں؟
ہم میں کسی کے پاس گاڑی کی نعمت نہیں تھی۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے کچھ عرصے بعد دے دی۔ تو اب کیا ایسا ہے کہ وہ صاحب جب بھی گاڑی میں بیٹھیں تو اللہ کے شکر گزار ہوں۔ ہم نے دین کی ہر عبادت کی طرح نعمت پر شکر کو بھی مشینی (mechanical) بنا لیا ہے۔ بس گاڑی میں بیٹھنے کی دعا پڑھ لی تو شکر ادا ہو گیا۔ کیا کبھی گاڑی میں بیٹھے ہماری آنکھیں اللہ کی اس نعمت پر تشکر کے جذبے سے نم ہوئی ہیں؟ شکر تووہ ہے جو پہلے دل میں پیدا ہو اور پھر زبان پر جاری ہو۔ صرف زبان پر جاری شکر تو ایک اخلاقی رسم (professional ethics)ہے اگرچہ کچھ نہ ہونے سے اس کا ہونا بھی بہتر ہے۔ اگر کسی شخص کو آپ گاڑی یا بائیک پر لفٹ دیں اور اترتے وقت وہ آپ کو شکریہ بھی ادا نہ کرے تو آپ اس کے بارے کیا خیال کریں گے؟ بالکل ایسا ہی حال اس شخص کا بھی ہے کہ جو اللہ کی نعمتوں کو تو خوب استعمال کرے لیکن ان پر اللہ کا شکر گزار نہ ہو۔
یہ واضح رہے کہ اللہ تعالی سے جب ہم کسی نعمت کی دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالی اس نعمت کو دنیا کے معروف طریقوں کے مطابق ہمیں عطا کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ نے رات گاڑی کی دعا کی اور صبح سویرے فرشتے آپ کے دروازے پر ایک نئی گاڑی چھوڑ گئے۔ اللہ عزوجل آپ کے دنیا میں ایسے حالات بناتے ہیں اور رستے کھلوتے ہیں کہ وہ نعمت آپ کو حاصل ہو۔ اس لیے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جو مجھے حاصل ہے وہ میری محنت کا نتیجہ ہے۔
صحت کی نعمت ہی کو لے لیں۔ کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر اس وقت محسوس ہوتی ہے جبکہ ہم کسی ہسپتال کا وزٹ کریں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر ہسپتال ہوتے ہیں تو آپ قبرستان کی طرح ان کی زیارت کا بھی حکم دیتے۔ آپ کسی دوست یا رشتہ دار کی عیادت کے ہسپتال گئے ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا بیمار ہے۔ اسی طرح کہیں کسی مسئلہ میں کورٹ کچہری کا چکر پڑ جائے تو لگتا ہے کہ ساری دنیا یہاں ہے۔ تو ہسپتال سے یا کورٹ کچہری کے سامنے سے گزر جانا اور اللہ کا شکر ادا نہ کرنا، صحت اور سکون کی نعمت کی ناشکری نہیں ہے؟ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فعن أبي ذر رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى» [البخاري ومسلم]
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم صبح کرتے ہو تو تم پر ایک ایک جوڑ کے بدلے )بطور شکر( صدقہ ادا کرنا واجب ہے۔ اور دیکھو، سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔ اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس دن میں چاشت کی دو رکعت ادا کر لے تو اس نے اس دن کے ہر جوڑ کا شکر ادا کردیا۔
اللہ نے انسان میں اس قدر خیر رکھی ہے کہ اگر یہ اللہ کی نعمتوں کو سوچنا شروع کر دے تو اسے پروردگار کا شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ نہ ملیں۔ ایک دفعہ صبح صبح کچن میں چائے بناتے ہوئے کچن، بیڈ روم، لاونج میں موجود اللہ کی نعمتوں پر نظر پڑی تو دل اس قدر تشکر کے جذبات سے بھر گیا کہ زبان سے شکر ادا کرنا مشکل ہو گیا۔ کبھی سبحان اللہ وبحمدہ کے کلمات پڑھے اور کبھی سبحان اللہ والحمد للہ کے لیکن دل کو اطمینان نہیں آیا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول شکر گزاری کے یہ کلمات پڑھنا شروع کیے:
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ. صحيح مسلم
پروردگار آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنی آپ کی مخلوق ہے۔ اور آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنی آپ کو پسند ہے۔ اور آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنا آپ کے عرش کا وزن ہے۔ اور آپ کی اتنی تسبیح اور اتنی حمد وثناء کہ جتنی آپ کے کلمات کو لکھنے کے لیے سیاہی درکار ہے۔
یہ کلمات ادا کرنے پر بھی دل کو تسلی نہیں ہوئی کہ شکر ادا ہو گیا لیکن یہ ذہن میں ضرور بات رہ گئی ہے کہ اس سے بہتر بھی کچھ کلمات آپ سے منقول ہوں گے ۔ خیر اس وقت تو ذہن میں وہ کلمات نہیں آئے لیکن بعد میں آپ کی سجدے کی ایک دعاء میں وہ مطلوبہ کلمات مل گئے جس کے الفاظ یہ ہیں:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَبِكَ مِنْكَ لاَ أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
پروردگار آپ کے غضب سے پناہ چاہتا ہوں آپ کی رضا کی۔ آپ کی سزا سے پناہ چاہتا ہوں آپ کے درگزر کی۔ آپ سے پناہ چاہتا ہوں آپ کی۔ )میں آپ کی کیا ثناء بیان کروں(، میں آپ کی ثناء بیان نہیں کر سکتا، آپ کی ثناء تو وہ ہے جو آپ خود کریں۔
انسان جو کہ ایک ٹشو پیپر مانگنے پر اس کے دینے والے کاشکرگزار ہو سکتا ہے، وہ اپنے خالق کا شکر گزار نہیں ہوگا؟ ضرور ہو گا بشرطیکہ وہ خالق کے احسانات کے بارے بھی ایسے ہی سوچنا شروع کر دے جیسے وہ انسانوں کے احسانات کے بارے فکر کرتا ہے۔ انسانوں میں تو یہ ہے کہ اگر کسی اچھے انسان سے کوئی چھوٹی سی بھلائی کر دیں تو ساری زندگی آپ کے احسان کے زیر باررہتا ہے اور اسے یہ غم گھلائے رہتا ہے کہ کسی طرح اپنے محسن کے کام آ سکے۔ لیکن یہ اچھے انسان بھی اچھے بندے نہیں ہیں یعنی اپنے پروردگار کے بارے ایسے جذبات نہیں رکھتے۔ شاید اس وجہ سےکہ وہ پروردگار کے احسانات کو اس کی ذمہ داری سمجھتے ہیں جیسا کہ بچے اپنے والدین کے احسانات کو ان کی ذمہ داری سمجھ لیتے ہیں اور عموماً اسی سوچ کے نتیجے میں ان کے شکر گزار نہیں ہوتے۔
بلاشبہ شکر اللہ کی نعمت ہے۔ تو اللہ سے اللہ کی اس نعمت کا سوال کریں کہ وہ ہمیں شکر گزار بنائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
اور جب تمہارے رب یہ اعلان فرما دیا کہ اگر تم احسان مانو گے تو میں تمہیں )نعمتوں میں( بڑھا دوں گا۔