tanveer ahmad awan
مبتدی
- شمولیت
- اگست 23، 2016
- پیغامات
- 10
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 7
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید شخصیت و کردار
مولاناتنویراحمداعوان
علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور دینی اقدار وروایات کے امین ہیں ، ایک عالم کی موت عالم کی موت ہوتی ہے ،خیر وبرکت کا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے ،اعلیٰ صفات وکمالات سے متصف ،نڈر وحق گو،عالم ربانی، پیکر اخلاص ،متبع سنت ،ہردلعزیز شخصیت مولانا عبداللہ شہید کی شہادت سے ایسا ہی ناقابل تلافی نقصان ہوا،جن کواللہ لریم نے سعادت کی زندگی اورشہادت کی موت عطا فرمائی ، آپ کی قبر تجلیات و انوارات کامرکز بنی اورآپ کے مرقد سے اٹھنے والی خوشبو نے ہر عام و خاص کے قلوب و اذھان کو معطر کیا۔
ضلع راجن پورکے علاقہ روجھان کی بستی عبداللہ میں آباد مزاری قبیلہ کی معروف شخصیت غازی محمد کے گھر میں یکم جون 1935 ء میں ایک بچے نے آنکھ کھولی ،جس کا نام عبداللہ رکھا گیا ،سیلم الفطرت اس بچے کا میلان و رجحان دینی تعلیم کی طرف تھا ،سات سال کی عمر میں ضلع رحیم یار خان کی مشہور درسگاہ خدام القرآن ،بھونگ سے حفظ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی ،استاد محترم مولانا عثمان صاحب ؒ فاضل دارالعلوم دیوبند کی صحبت اور تربیت میں رہنے کی وجہ سے آپ کی خداداد صلاحیتوں کو نکھار ملا، محدث کبیر علامہ محمد یوسف بنوریؒ ایک دفعہ مدرسہ خدام القرآن تشریف لائے،طالب علم عبداللہ نے جس کی مادری زبان بلوچی تھی ،فی البدیہ اردو زبان میں تقریر کی، علامہ بنوری ؒ کی نظرانتخاب آپ پر ٹھہر گئی اور مولانا عثمان صاحب ؒ سے ارشاد فرمایا کہ "جب یہ بچہ اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرلے تو اسے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بھیج دینا ان شا ء اللہ یہ اپنے وقت کا عظیم خطیب بنے گا۔"
ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے عظیم دینی درسگا ہ جامعہ قاسمیہ ملتان تشریف لے گئے،مفتی محمود ؒ کی زیر تربیت و نگرانی خامسہ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آخری تین سال جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی میں رہے،دوران طالب علمی آپ انتہائی ذوق و شوق سے تقریر کرتے تھے،�آپ کے حسن خطابت کا مدارس اوردینی حلقوں میں بہت شہرہ ہوگیا تھا، 1957 ء میںآپ نے دورہ حدیث شریف مکمل کرکے جامعہ بنوری ٹاؤن سے سند فراغت حاصل کی ،آپ کے اساتذہ می محدث کبیرعلامہ محمد یوسف بنوریؒ ،مولانا عبدالرحمن امروہیؒ ،مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا سید مصباح اللہ شاہؒ ،مولانا مفتی محمد شفیعؒ ،مولانا عبدالرشید نعمانیؒ ،مولانا عبدالغفورؒ ،مولانا لطف اللہؒ ، مولانا نور محمدؒ ،مولانافضل محمدؒ اور مولانا عثمان ؒ شامل ہیں۔
دوران تعلیم ہی آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہو چکے تھے ، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے آبائی علاقے روجھان میںآکر طب کے پیشہ سے منسلک ہوئے ،والدہ کی تحریک پر دوبارہ کراچی کا رخ کیا اور تدریس و خطابت کے لیے کوششیں شروع کیں،علامہ محمد یوسف بنوریؒ کے حکم پر جامع مسجد رشیدیہ ملیرسے امامت وخطابت کی ابتداء کی ،پھر تین ہٹی کی جامع مسجدمبارک میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔مولانا عبداللہ شہیدؒ کا 1966 ء میں عالمی معیار کے مطابق نو تعمیر شدہ شہردارالحکومت پاکستان" اسلام آباد "کی مرکزی جامع مسجد (لال مسجد) کے پہلے امام وخطیب کی حیثیت سے تقرر ی ہوئی،آپ نے اخلاص وللہیت ،تقویٰ و پر ہیز گاری، خدمت واحسان توضع و اپنائیت اور حسن اخلاق کے ذریعے اہلیان اسلام کے دل جیت لیے،لوگ دور دراز سے سفر کرکے آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے اور جمعہ کا خطاب سننے آتے تھے، آپ کی پرسوز اور دلنشین آواز قلوب کو مسخر کردیتی تھی۔دروس قرآن پاک کا مربوط سلسلہ مرکزی جامع مسجد کے علاوہ اسلام آباداور دیگر شہروں میں مختلف مقامات پر شروع کیا ،جس سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوئیں اورمعاشرے سے قائم جاہلانہ رسومات و بدعات کو ختم کرنے میں مدد ملی۔
مولانا عبداللہ شہید ؒ علوم قرآنیہ و اسلامیہ کی تعلیم و تبلیغ ،ترویج و اشاعت کے لیے ایک عظیم جامعہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے،1977 ء میں الحاج اختر حسین نے F.6/4میں مدرسہ قائم کیا جس کو بعدازاں مولانا عبداللہ شہید کے حوالے کرکے خود کراچی چلے گئے، آپ کی شبانہ روز کوششوں کی بدولت یہ مدرسہ چند ہی سالوں میں ملک کی بڑی جامعات میں شمار کیا جانے لگا،جس میں شعبہ حفظ اورعلوم اسلامیہ میں دورہ حدیث تک تعلیمی دی جانے لگی،طلبہ کی طرح طالبات کی دینی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جامعہ سیدہ حفضہؓ کے نام سے لال مسجد سے متصل ایک ادارے کی بنیاد رکھی ، جس کو عالم اسلام کی سب سے بڑی (وومن اسلامک یونیورسٹی )جامعہ للبنات ہونے کا اعزاز حاصل ہوا،آپ نے جوڑوان شہروں میں ان دونوں اداروں کے درجنوں ذیلی ادارے،مساجد ومکاتب قائم کئے ،جو عنداللہ آپ کی جدوجہد کی مقبولیت کی علامت ہے۔
حضرت مولانا عبداللہ شہید ؒ کو اللہ کریم نے عظیم صفات سے نوازا ہوا تھا، آپ نے ہمیشہ دینی ضروریات کو ترجیح دی ،ساری زندگی مسجد کے مکان میں گزار دی اور ذاتی مکان یا جائیداد کی خواہش بھی زبان پر نہ لائی،تمام وسائل ، مال و دولت ضرورت مندوں ،محتاجوں اور مساکین کی مدد میں صرف کر دیتے تھے،ہندو ،مسلم ،عیسائی بلا تفریق مذہب جو بھی آپ کے پاس اپنی حاجت وضرورت لے کر آیا ،آپ اس کی مدد کے لیے خود متعلقہ ادارے یا شخصیت کے پاس جاتے اور اس کی مشکل حل فرماتے تھے۔درویش منش یہ عظیم شخصیت اپنے ذات سے دوسروں کو نفع پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی تھی، اپنا کام خود کرنے کے عادی تھی، طلبہ علوم اسلامیہ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، طلبہ کابچا ہوا کھانا آپ کی پسندیدہ غذا تھی،اتباع سنت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔
مولانا عبداللہ شہیدؒ وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے سچے محافظ تھے، حکومت کے کسی بھی اسلام مخالف اقدام کی واضح الفاظ میں مذمت کرتے تھے،آپ نے لال مسجد کے منبر و محراب سے ہمیشہ حق کی تائید اور باطل کے خلاف آواز کو بلند کیا ،جس کی پاداش میں کئی بارآپ کو لاپتہ اور اغواء کیا گیا ،مسجد کی خطابت سے معزولی کے حکم نامے جاری کئے گے،آپ نے قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا اوراستقامت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔سیاسی و مذہبی قائدین ،علماء کرام اور دینی تحاریک کے راہنماآپ کو اپنا سرپرست اور مقتدیٰ مانتے تھے اور لال مسجد کو تمام ملکی و ملی معاملات میں مرکزیت حاصل تھی، صدر پاکستان جنرل (ر)ضیاء الحق آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔
شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید ؒ نے ملک کے طول وعرض کے علاوہ بیرون ممالک سعودی عرب، کویت،عراق،مصر،برطانیہ،انڈونیشیا،متحدہ عرب امارات،امارت اسلامیہ افغانستان،انڈیا،فلسطین اور اردن کے تبلیغی اسفار کئے۔1997 ء میں آپ کو رؤیت ہلال کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا،آپ نے بحیثیت چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی کے حوالے سے درپیش بہت سے مسائل کو حل کیا۔17اکتوبر 1998 ء جامعہ فریدیہ میں مشکوٰۃ شریف کا سبق پڑھاتے ہوئے یوں دعا کی "اے اللہ !صرف ایک ہی آرزو ہے کہ شہادت کی موت دے "۔جامعہ سے لال مسجد واپس پہنچے ،گھر کے باہر فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے، ہسپتال پہنچنے سے پہلے شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر حیات جاودانی کو پالیا،اللہ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرمایا اورآپ کی تدفین جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں کی گئی۔ہزاروں طلبہ ،لاکھوں متبعین و محبین کے علاوہ ایک بیوہ، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ ا، آپ کی شہادت کے بعد آپ کے دونوں صاحبزادوں مولانا عبدالعزیز غازی اور علامہ غازی عبدالرشید شہید ؒ نے آپ کے تمام خیر کے کاموں کو مزید ترقی اور استحکام دیا،جو گزرتے دنوں کے ساتھ مزید پھیل رہا ہے۔
شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید شخصیت و کردار
مولاناتنویراحمداعوان
علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور دینی اقدار وروایات کے امین ہیں ، ایک عالم کی موت عالم کی موت ہوتی ہے ،خیر وبرکت کا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے ،اعلیٰ صفات وکمالات سے متصف ،نڈر وحق گو،عالم ربانی، پیکر اخلاص ،متبع سنت ،ہردلعزیز شخصیت مولانا عبداللہ شہید کی شہادت سے ایسا ہی ناقابل تلافی نقصان ہوا،جن کواللہ لریم نے سعادت کی زندگی اورشہادت کی موت عطا فرمائی ، آپ کی قبر تجلیات و انوارات کامرکز بنی اورآپ کے مرقد سے اٹھنے والی خوشبو نے ہر عام و خاص کے قلوب و اذھان کو معطر کیا۔
ضلع راجن پورکے علاقہ روجھان کی بستی عبداللہ میں آباد مزاری قبیلہ کی معروف شخصیت غازی محمد کے گھر میں یکم جون 1935 ء میں ایک بچے نے آنکھ کھولی ،جس کا نام عبداللہ رکھا گیا ،سیلم الفطرت اس بچے کا میلان و رجحان دینی تعلیم کی طرف تھا ،سات سال کی عمر میں ضلع رحیم یار خان کی مشہور درسگاہ خدام القرآن ،بھونگ سے حفظ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی ،استاد محترم مولانا عثمان صاحب ؒ فاضل دارالعلوم دیوبند کی صحبت اور تربیت میں رہنے کی وجہ سے آپ کی خداداد صلاحیتوں کو نکھار ملا، محدث کبیر علامہ محمد یوسف بنوریؒ ایک دفعہ مدرسہ خدام القرآن تشریف لائے،طالب علم عبداللہ نے جس کی مادری زبان بلوچی تھی ،فی البدیہ اردو زبان میں تقریر کی، علامہ بنوری ؒ کی نظرانتخاب آپ پر ٹھہر گئی اور مولانا عثمان صاحب ؒ سے ارشاد فرمایا کہ "جب یہ بچہ اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرلے تو اسے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بھیج دینا ان شا ء اللہ یہ اپنے وقت کا عظیم خطیب بنے گا۔"
ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے عظیم دینی درسگا ہ جامعہ قاسمیہ ملتان تشریف لے گئے،مفتی محمود ؒ کی زیر تربیت و نگرانی خامسہ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آخری تین سال جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی میں رہے،دوران طالب علمی آپ انتہائی ذوق و شوق سے تقریر کرتے تھے،�آپ کے حسن خطابت کا مدارس اوردینی حلقوں میں بہت شہرہ ہوگیا تھا، 1957 ء میںآپ نے دورہ حدیث شریف مکمل کرکے جامعہ بنوری ٹاؤن سے سند فراغت حاصل کی ،آپ کے اساتذہ می محدث کبیرعلامہ محمد یوسف بنوریؒ ،مولانا عبدالرحمن امروہیؒ ،مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا سید مصباح اللہ شاہؒ ،مولانا مفتی محمد شفیعؒ ،مولانا عبدالرشید نعمانیؒ ،مولانا عبدالغفورؒ ،مولانا لطف اللہؒ ، مولانا نور محمدؒ ،مولانافضل محمدؒ اور مولانا عثمان ؒ شامل ہیں۔
دوران تعلیم ہی آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہو چکے تھے ، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے آبائی علاقے روجھان میںآکر طب کے پیشہ سے منسلک ہوئے ،والدہ کی تحریک پر دوبارہ کراچی کا رخ کیا اور تدریس و خطابت کے لیے کوششیں شروع کیں،علامہ محمد یوسف بنوریؒ کے حکم پر جامع مسجد رشیدیہ ملیرسے امامت وخطابت کی ابتداء کی ،پھر تین ہٹی کی جامع مسجدمبارک میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔مولانا عبداللہ شہیدؒ کا 1966 ء میں عالمی معیار کے مطابق نو تعمیر شدہ شہردارالحکومت پاکستان" اسلام آباد "کی مرکزی جامع مسجد (لال مسجد) کے پہلے امام وخطیب کی حیثیت سے تقرر ی ہوئی،آپ نے اخلاص وللہیت ،تقویٰ و پر ہیز گاری، خدمت واحسان توضع و اپنائیت اور حسن اخلاق کے ذریعے اہلیان اسلام کے دل جیت لیے،لوگ دور دراز سے سفر کرکے آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے اور جمعہ کا خطاب سننے آتے تھے، آپ کی پرسوز اور دلنشین آواز قلوب کو مسخر کردیتی تھی۔دروس قرآن پاک کا مربوط سلسلہ مرکزی جامع مسجد کے علاوہ اسلام آباداور دیگر شہروں میں مختلف مقامات پر شروع کیا ،جس سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوئیں اورمعاشرے سے قائم جاہلانہ رسومات و بدعات کو ختم کرنے میں مدد ملی۔
مولانا عبداللہ شہید ؒ علوم قرآنیہ و اسلامیہ کی تعلیم و تبلیغ ،ترویج و اشاعت کے لیے ایک عظیم جامعہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے،1977 ء میں الحاج اختر حسین نے F.6/4میں مدرسہ قائم کیا جس کو بعدازاں مولانا عبداللہ شہید کے حوالے کرکے خود کراچی چلے گئے، آپ کی شبانہ روز کوششوں کی بدولت یہ مدرسہ چند ہی سالوں میں ملک کی بڑی جامعات میں شمار کیا جانے لگا،جس میں شعبہ حفظ اورعلوم اسلامیہ میں دورہ حدیث تک تعلیمی دی جانے لگی،طلبہ کی طرح طالبات کی دینی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جامعہ سیدہ حفضہؓ کے نام سے لال مسجد سے متصل ایک ادارے کی بنیاد رکھی ، جس کو عالم اسلام کی سب سے بڑی (وومن اسلامک یونیورسٹی )جامعہ للبنات ہونے کا اعزاز حاصل ہوا،آپ نے جوڑوان شہروں میں ان دونوں اداروں کے درجنوں ذیلی ادارے،مساجد ومکاتب قائم کئے ،جو عنداللہ آپ کی جدوجہد کی مقبولیت کی علامت ہے۔
حضرت مولانا عبداللہ شہید ؒ کو اللہ کریم نے عظیم صفات سے نوازا ہوا تھا، آپ نے ہمیشہ دینی ضروریات کو ترجیح دی ،ساری زندگی مسجد کے مکان میں گزار دی اور ذاتی مکان یا جائیداد کی خواہش بھی زبان پر نہ لائی،تمام وسائل ، مال و دولت ضرورت مندوں ،محتاجوں اور مساکین کی مدد میں صرف کر دیتے تھے،ہندو ،مسلم ،عیسائی بلا تفریق مذہب جو بھی آپ کے پاس اپنی حاجت وضرورت لے کر آیا ،آپ اس کی مدد کے لیے خود متعلقہ ادارے یا شخصیت کے پاس جاتے اور اس کی مشکل حل فرماتے تھے۔درویش منش یہ عظیم شخصیت اپنے ذات سے دوسروں کو نفع پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی تھی، اپنا کام خود کرنے کے عادی تھی، طلبہ علوم اسلامیہ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، طلبہ کابچا ہوا کھانا آپ کی پسندیدہ غذا تھی،اتباع سنت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔
مولانا عبداللہ شہیدؒ وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے سچے محافظ تھے، حکومت کے کسی بھی اسلام مخالف اقدام کی واضح الفاظ میں مذمت کرتے تھے،آپ نے لال مسجد کے منبر و محراب سے ہمیشہ حق کی تائید اور باطل کے خلاف آواز کو بلند کیا ،جس کی پاداش میں کئی بارآپ کو لاپتہ اور اغواء کیا گیا ،مسجد کی خطابت سے معزولی کے حکم نامے جاری کئے گے،آپ نے قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا اوراستقامت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔سیاسی و مذہبی قائدین ،علماء کرام اور دینی تحاریک کے راہنماآپ کو اپنا سرپرست اور مقتدیٰ مانتے تھے اور لال مسجد کو تمام ملکی و ملی معاملات میں مرکزیت حاصل تھی، صدر پاکستان جنرل (ر)ضیاء الحق آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔
شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید ؒ نے ملک کے طول وعرض کے علاوہ بیرون ممالک سعودی عرب، کویت،عراق،مصر،برطانیہ،انڈونیشیا،متحدہ عرب امارات،امارت اسلامیہ افغانستان،انڈیا،فلسطین اور اردن کے تبلیغی اسفار کئے۔1997 ء میں آپ کو رؤیت ہلال کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا،آپ نے بحیثیت چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی کے حوالے سے درپیش بہت سے مسائل کو حل کیا۔17اکتوبر 1998 ء جامعہ فریدیہ میں مشکوٰۃ شریف کا سبق پڑھاتے ہوئے یوں دعا کی "اے اللہ !صرف ایک ہی آرزو ہے کہ شہادت کی موت دے "۔جامعہ سے لال مسجد واپس پہنچے ،گھر کے باہر فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے، ہسپتال پہنچنے سے پہلے شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر حیات جاودانی کو پالیا،اللہ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرمایا اورآپ کی تدفین جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں کی گئی۔ہزاروں طلبہ ،لاکھوں متبعین و محبین کے علاوہ ایک بیوہ، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ ا، آپ کی شہادت کے بعد آپ کے دونوں صاحبزادوں مولانا عبدالعزیز غازی اور علامہ غازی عبدالرشید شہید ؒ نے آپ کے تمام خیر کے کاموں کو مزید ترقی اور استحکام دیا،جو گزرتے دنوں کے ساتھ مزید پھیل رہا ہے۔