محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ۰ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ۰ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۲۱
یہودی ہمیشہ ضدی رہے ہیں۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے پیہم اور مسلسل نبی بھیجے، تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں مگر وہ وہیں رہے اور ان کے جمود وتساہل میں ذرہ برابر تحریک پیدا نہیں ہوئی بلکہ تمرد وسرکشی کی حدیہ ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام سے لڑنے کے لیے تیار ہوگیے اور بعض کو شہید ہی کرڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے تمام اعمال ضائع ہوگیے اور وہ ایک زبردست عذاب کے لیے تیار رہیں۔ وَمَالَھُمْ مِنْ نّٰصِرِیْنَ۔ چنانچہ خدا کی غیرت حرکت میں آئی۔ اس کا غضب وجلال بھڑکا اور طے ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اس قساوت قلبی کی بدترین سزادی جائے ۔ بخت نصر آیا اور کشت وخون کا بازار گرم ہوگیایہودی بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے گیے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ تورات کے اوراق الاؤ کا ایندھن بنے اور قتل وسفک کا وہ طوفان اٹھا کہ دنیا چلا اٹھی۔ اکثر یہودی مارے گیے ۔ جو بچ گیے انھیں بابل ونینوا کے جیل خانوں میں بند کردیا گیا اور مدت تک قید وبند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ یہ کیوں ہوا؟ اس لیے کہ وہ خدا کی طاقت کے سامنے جھکیں اور عبرت حاصل کریں۔بعض لوگوں نے یہ حرمت نبوت کے منافی خیال کیا ہے کہ نبی شہید ہوجائے اس لیے ان کے خیال میں یقتلون کے معنی باہمی آویزش وتصادم کے ہیں مگر یہ صحیح نہیں۔ ایک تو قرآن کے الفاظ صاف ہیں۔ دوسرے تورات میں قتل انبیاء علیہم السلام کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ تیسرے یہ کوئی ضروری نہیں کہ انبیاء علیہم السلام طبعی موت سے ہی دوچارہوں اور شہادت سے محروم رہیں۔یہ درست ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے مگر حق کو سربلند رکھنے کے لیے کبھی کبھی جان تک کو پیش کرنا پڑتا ہے ۔ شہید ہوجانا اس وقت وظیفۂ نبوت کے منافی ہوتا ہے جب نبی اپنے مشن کو پیش کرنے سے قاصر رہے اور اس سے پیشتر کہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے، زندگی سے محروم کردیاجائے اور اگر وہ سب کچھ پہنچا چکاہو، ضرورت صرف اس بات کی رہ جائے کہ وہ اس باغ کی آبیاری اپنے خون سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت اس کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی جان پر کھیل جائے ۔ جب بستر مرگ پر جان دینا منصب نبوت کے منافی نہیں تو میدان جنگ میں شہادت سے سرفراز ہونا کیوں منافی ہو؟
اصل شبہ عصمت انبیاء علیہم السلام کی وجہ سے پیداہوتا ہے مگر یہ یاد رہے کہ ''مجرد نبوت'' اس کے لیے کافی نہیں۔ وہ انبیاء علیہم السلام جنھیں اس کا وعدہ دیا گیا ہے ، وہی دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے کوئی ضروری نہیں کہ محفوظ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کی ایک خصوصیت بخشی ورنہ کہہ دینا کافی تھا کہ آپ نبی ہیں اور انبیاء علیہم السلام دشمنوں سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔
جو خدا کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے اور لوگوں میں سے ان کو قتل کرتے ہیں جو انصاف کرنے کو کہتے ہیں۔ ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنادے۔۱؎ (۲۱)
۱؎ قساوت قلبی اور شومئی قسمت کی بدترین صورت ہے کہ کوئی شخص اپنے محسن سے دشمن کا ساسلوک کرے۔انبیاء علیہم السلام نسل انسانی کے سب سے بڑے محسن ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ روح وجسم کی تربیت واصلاح کے لیے آتے ہیں اور ہرمصیبت کوبرداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ مگرحق وصداقت اورفلاح وبہبود انسانی سے دستبردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتے۔شہید انبیاء علیہم السلام
یہودی ہمیشہ ضدی رہے ہیں۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے پیہم اور مسلسل نبی بھیجے، تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں مگر وہ وہیں رہے اور ان کے جمود وتساہل میں ذرہ برابر تحریک پیدا نہیں ہوئی بلکہ تمرد وسرکشی کی حدیہ ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام سے لڑنے کے لیے تیار ہوگیے اور بعض کو شہید ہی کرڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے تمام اعمال ضائع ہوگیے اور وہ ایک زبردست عذاب کے لیے تیار رہیں۔ وَمَالَھُمْ مِنْ نّٰصِرِیْنَ۔ چنانچہ خدا کی غیرت حرکت میں آئی۔ اس کا غضب وجلال بھڑکا اور طے ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اس قساوت قلبی کی بدترین سزادی جائے ۔ بخت نصر آیا اور کشت وخون کا بازار گرم ہوگیایہودی بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے گیے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ تورات کے اوراق الاؤ کا ایندھن بنے اور قتل وسفک کا وہ طوفان اٹھا کہ دنیا چلا اٹھی۔ اکثر یہودی مارے گیے ۔ جو بچ گیے انھیں بابل ونینوا کے جیل خانوں میں بند کردیا گیا اور مدت تک قید وبند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ یہ کیوں ہوا؟ اس لیے کہ وہ خدا کی طاقت کے سامنے جھکیں اور عبرت حاصل کریں۔بعض لوگوں نے یہ حرمت نبوت کے منافی خیال کیا ہے کہ نبی شہید ہوجائے اس لیے ان کے خیال میں یقتلون کے معنی باہمی آویزش وتصادم کے ہیں مگر یہ صحیح نہیں۔ ایک تو قرآن کے الفاظ صاف ہیں۔ دوسرے تورات میں قتل انبیاء علیہم السلام کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ تیسرے یہ کوئی ضروری نہیں کہ انبیاء علیہم السلام طبعی موت سے ہی دوچارہوں اور شہادت سے محروم رہیں۔یہ درست ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے مگر حق کو سربلند رکھنے کے لیے کبھی کبھی جان تک کو پیش کرنا پڑتا ہے ۔ شہید ہوجانا اس وقت وظیفۂ نبوت کے منافی ہوتا ہے جب نبی اپنے مشن کو پیش کرنے سے قاصر رہے اور اس سے پیشتر کہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے، زندگی سے محروم کردیاجائے اور اگر وہ سب کچھ پہنچا چکاہو، ضرورت صرف اس بات کی رہ جائے کہ وہ اس باغ کی آبیاری اپنے خون سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت اس کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی جان پر کھیل جائے ۔ جب بستر مرگ پر جان دینا منصب نبوت کے منافی نہیں تو میدان جنگ میں شہادت سے سرفراز ہونا کیوں منافی ہو؟
اصل شبہ عصمت انبیاء علیہم السلام کی وجہ سے پیداہوتا ہے مگر یہ یاد رہے کہ ''مجرد نبوت'' اس کے لیے کافی نہیں۔ وہ انبیاء علیہم السلام جنھیں اس کا وعدہ دیا گیا ہے ، وہی دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے کوئی ضروری نہیں کہ محفوظ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کی ایک خصوصیت بخشی ورنہ کہہ دینا کافی تھا کہ آپ نبی ہیں اور انبیاء علیہم السلام دشمنوں سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔
{بَشِّرْھُمْ} خوشخبری سنا۔ بطورطنز کے ہے۔حل لغات