یاسر اسعد
رکن
- شمولیت
- اپریل 24، 2014
- پیغامات
- 158
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 77
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی رواداری
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔مولاناصحافی بھی تھے،مؤلف بھی،مترجم بھی،مناظربھی،داعی اسلام بھی،ہرطریقے اورہرذریعے سے آپ نے اسلام کی خوب خدمت کی۔دفاع عن الاسلام کے محاذ پرآپ خوب ڈٹے رہے۔عیسائیوں ،نیچریوں،قادیانیوں،آریوں وغیرہ سے آپ کے تقریری وتحریری مناظرے ہوئے تو متعدداسلامی فرقوں اور گروہوں کے یہاں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کابھی آپ نے بھرپورردکیا۔لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی تردیدی اوردفاعی تقریروں اورتحریروں میں بڑی متانت اور سنجیدگی ہوتی ہے۔آپ نے مخالفین کی سخت ترین اورحددرجہ اشتعال انگیزباتوں کے جواب میں بھی کبھی وقار اورشائستگی کادامن نہیں چھوڑا۔سب وشتم یاطعن وتشنیع کے بجائے ہمیشہ پیارومحبت سے اورٹھوس علمی وعقلی دلائل سے اپنی بات پیش کی،اورایسے ہی اسلوب کی ہمیشہ تلقین وتبلیغ بھی کرتے رہے۔اختلاف کوبرتنے اورمخالف کی عزت نفس کوملحوظ رکھنے کے معاملے میں آپ نے جس فراخدلی اوروسیع القلبی کاثبوت دیا ہے وہ ہماری نئی نسل کے لیے قابل عبرت اورلائق اتباع ہے۔
مولانا کی تحریروں سے اس نوعیت کے کچھ نمونے جمع کرکے ’’مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کاتعامل غیروںکے ساتھ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون آج سے تقریباً پانچ سال قبل ماہنامہ البلاغ ممبئی میں فروری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں ہم نے شائع کرایاتھا۔اسی طرح مولاناکی تفسیرکی کتاب ’’برہان التفاسیر‘‘کے پیش لفظ میں بھی کچھ مثالیں ہم نے پیش کی ہیں جواس کتاب کے مقدمے کے علاوہ ماہنامہ محدث بنارس کے مارچ۲۰۱۲ء کے شمارے میں بھی شائع ہواہے۔دسمبر ۲۰۱۰ء کے صوت الامہ کے شمارے کاافتتاحیہ بھی اسی تعلق سے ہے۔
گزشتہ دنوں ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے اکتوبر۲۰۱۴ء کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان ’’تفسیرثنائی کااجمالی جائزہ‘‘نظرسے گذرا۔مضمون نگار ڈاکٹرحافظ محمدشکیل اوج تھے جو کراچی یونیورسٹی میں اسلامیات کے صدر شعبہ اور سیرت چیئر کے ڈائرکٹر تھے۔افسوس کہ معارف کے اسی شمارے میں موصوف مضمون نگار کے ۱۸؍ستمبر۲۰۱۴ء کوقتل کردیے جانے کی خبر بھی چھپی تھی۔اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔
اوج صاحب کا یہ وقیع مقالہ مجلہ کے(۲۰)صفحات پرمحیط تھا۔ہم نے مقالے کے سرسری مطالعے کے دوران پایاکہ فاضل مقالہ نگار نے اپنے اس مضمون میںہمارے متذکرہ بالا گوشے سے متعلق بھی متعددمثالیں اورنمونے ذکرکیے ہیں جن سے مناظراسلام مولانا امرتسری کے مثبت ومعتدل موقف کو سمجھنے اوراس سے استفادہ کرنے میں مزیدمددملے گی ۔موصوف نے تفسیرثنائی کی جلدوں اوراس کے مقدمے سے یہ مثالیں با حوالہ پیش کی ہیں ،جنہیں ہم نے ان کے مقالے سے منتخب کرکے الگ کرلیاہے اوراوج صاحب ہی کے الفاظ میں انہیں ہدیہ قارئین کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔آگے کی سطورمیں جوکچھ ہے وہ مولانا امرتسری کی تحریریں ہیں اور ان کے رجحانات کابیان ہے اوراوج صاحب کی جانب سے سیاق وسباق کی وضاحت اورتحسین وآفرین ہے۔حوالوںکے جونمبرہیں وہ تفسیرثنائی کے ہیں۔اگرہمارے غیوراور جوشیلے مقررین واصحاب قلم نظرعنایت فرمائیں توہم احسان مندہوں گے۔واضح رہے کہ درج ذیل اقتباسات محولہ مضمون سے الگ الگ مقامات سے اخذ کیے گئے ہیں۔اس لیے ان کے بیچ ربط وتسلسل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہر اقتباس پر الگ الگ نمبر لگا دیا ہے تاکہ اس کی استقلالی حیثیت واضح رہے۔
اب یہاں سے مقالہ نگار (اوج صاحب) کی تحریر کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
۱- ’’مولانا امرتسری نے سورہ آل عمران کی ابتداء میں شان نزول کے عنوان سے نجران کے عیسائیوں کاوہ واقعہ قلم بندکیاہے جب انہوں نے اپنے طریق پر مسجدنبوی میں ہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نمازاداکی تھی۔اس پرمولانا کا تبصرہ ان کے فکرونظر بلکہ ان کی فکری صالحیت کاآئینہ دارہے۔اپنی اس تحریر میں وہ ہمیں ایک مصلح امت نظرآتے ہیں۔ارقام فرماتے ہیں:
’’عیسائی لوگ مسجدنبوی میں ہی نمازاپنے طریق پرپڑھیں اورآں حضرت(فداہ روحی)خاموش رہیں اورباوجود قدرت کے کچھ نہ کہیں۔وائے برحال ماکہ ہم ایسے نبی کی امت ہیںجوغیروں کو بھی اپنی مسجدسے منع نہ کرے ،ہم ایک فریق دوسرے کو بایں جرم کہ ہمارے طریق کے خلاف نمازکیوں پڑھتاہے گو مسلمان ہے مسجدسے باہر نکال دیتے ہیں۔اتنی ہی بات پرقناعت نہیں، بلکہ کچہریوںمیں غیرمسلموں سے اس امرکافیصلہ کراتے ہیں کہ کون سا فریق مسجدمیں رہنے کاحقدار ہے۔‘‘ (تفسیر ثنائی :جلددوم،ص:۱)
۲- ’’قرأۃ خلف الامام پرمولاناامرتسری نے نہایت دقیق علمی بحث کی ہے۔گواس بحث سے قبل انہوں نے معذرت طلب کرتے ہوئے لکھاہے:
’’ہماراطریق عمل تفسیرکے متعلق ہم کواس تحریرکی اجازت نہ دیتاتھا مگرچونکہ ایک ہی کام کے لیے مختلف نیتیں ہوسکتی ہیں جواپنااپناالگ الگ اثردکھاتی ہیں۔اس لیے بہ نیت نیک اپنے نزدیک راجح مذہب کااظہارکرنا کچھ معیوب نہیں۔‘‘ (جلد۳،ص:۱۷۷)
یہ بحث {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَہُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون}والی آیت کی روشنی میں کی گئی ہے۔اس بحث میں مولانا امرتسری کاانداز استدلال خالصتاًفنی وعلمی ہے ،جسے اصول فقہ کی فنی بحثوں کے واقف ہی سمجھ سکتے ہیں۔اس لیے وہ اردوخوانوں سے معافی کے خواستگاربھی ہوئے ہیں۔آٹھ صفحات پر مشتمل یہ بحث علماء کے پڑھنے کے لائق ہے۔اس اختلافی بحث میں مخالفت وعنادکاپہلوتوکجاکہیں شوشہ بھی نظرنہیں آتا۔علمی موضوعات میں علماء کاباہم اختلاف ہوتاہی رہتاہے مگراختلاف رائے کرناکوئی مولاناسے سیکھے۔مولاناکواپنے دلائل اوراسلوب بیان کی صحت پر اعتمادہی توتھا جویہ لکھ گئے:
’’جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اپنے مدعاکے اثبات میں کسی مغالطے یا سفسطے سے کام نہیں لیا،امیدہے ناظرین ہماری معروضہ بالاتقریر کوبغورپڑھیں گے۔مذہب میں متفق اللفظ نہ ہوں گے توتقریر کے طرزاستدلال کے محسن ضرورہوں گے۔‘‘(جلد۳،ص:۱۸۳)
۳- ’’مولانامناظراسلام مانے جاتے تھے مگروہ روایتی اسلوب سے مختلف تھے۔بالعموم مناظروں کے ہاں علمی گہرائی نہیں ہوتی،اس لیے وہ اپنے لفظوں میں جوش پیداکرنے کے لیے عامیانہ بلکہ سوقیانہ سطح پرآجاتے ہیں ۔اس کاسبب دراصل ان کا غیرعلمی پس منظرہوتاہے۔مگرمولانا امرتسری کے مناظرے اعلیٰ پایہ کے علمی اورتہذیبی الفاظ ودلائل سے مالامال ہوتے تھے۔اس ضمن میں ان کا موقف تھا:
’’یہ ایک نہایت پاکیزہ اصول ہے کہ مناظرہ میں فریق ثانی کے بزرگوں کو انہی لفظوں سے یادکرناچاہیے جن لفظوں سے ہم اپنے بزرگوںکا نام سننا چاہیں۔افسوس ہے کہ زمانہ حال میں اس طریق کی گفتگوبہت کم ہوتی ہے جس کا نتیجہ بھی ظاہرہے۔‘‘ (جلد۳،ص:۸۸)
۴- ’’واضح رہے کہ تفسیرثنائی جلددوم جب لکھی جارہی تھی تب مرزاغلام احمدقادیانی کاانتقال ہوچکاتھا۔ان کے انتقال کا ذکر تفسیرثنائی کے ایک حاشیہ میں اس طرح کیاگیاہے:’’یہ فقرہ مرزاصاحب کی زندگی میں لکھاگیاتھا افسوس کہ آج ہم ان کوزندہ نہیں پاتے۔‘‘ (جلد۲،ص:۸۴)
۵- ’’مولانانے اپنی تفسیرمیں نیچریت کارد بیشترمقامات پرکیاہے اورشروع کی جلدوں میں توکچھ زیادہ ہی کیاہے۔اس ضمن میں انہوںنے سرسیداحمدخان کاحوالہ بھی کثرت سے دیاہے، مگرہرجگہ ان کے ادب واحترام کوملحوظ رکھاہے۔کہیں ’’سیداحمد خاں مرحوم‘‘ لکھا (جلد۱،ص:۱۳۴) کہیں ’’سیدصاحب مرحوم‘‘ (جلد۳،ص:۱۴۶)کہیں’’ معززمخاطب سرسیداحمدخاں مرحوم‘‘(جلد۴،ص:۱۱۰)اورکہیں ’’سرسیداحمدخاں عفی اللہ عنہ‘‘(جلد۱،ص:۱۲۰)وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔شایدیہی سبب رہاہوکہ جب مولاناامرتسری کامولانا احمدرضاخان بریلوی نے کسی مسئلے میں رد لکھا توانہوں نے بھی مولانا امرتسری کا اکرام کرتے ہوئے انہیں نہ صرف مولانا لکھابلکہ مولانا سے پہلے گرامی منش بھی لکھا۔پھران کانام لکھا ،یعنی’’گرامی منش مولانا ثناء اللہ امرتسری ‘‘(فتاوی رضویہ: جلد ۱۵،رضافاؤنڈیشن ،جامعہ رضویہ،اندرون لوہاری دروازہ لاہور،ص:۸۸،اشاعت ۱۹۹۹ء) گرامی منش کا مطلب ہے ’’بزرگ طبیعت‘‘(علمی اردولغت(جامع)وارث سرہندی،علمی کتب خانہ،کبیراسٹریٹ روڈ اردوبازار ،لاہور طبع ۲۰۰۰ء) حالانکہ مولانابریلوی بڑے بڑے علماء کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور جنہیں پسند نہیں کرتے تھے انہیں کبھی بھی لفظ مولانا سے یادنہیں کرتے تھے ۔
۶- آخر میں ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے جو اس موضوع سے متعلق تونہیں ہے مگر ایک علمی فائدہ کو متضمن ہے ۔اوج صاحب لکھتے ہیں:
’’وجوہ تفسیرنقل کرنے کے بعد(مولاناامرتسری)فرماتے ہیں کہ قرآن مجیدکو بزبان اردو،ایک بیان مسلسل کی شکل میں لکھاگیاہے۔ہمارے مفسرین نے آج تک اس طرف توجہ نہیں کی تھی اس لیے مجھے اس کاخیال آیا۔مولانانے دعویٰ کیاہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے انہیں کی اتباع کرتے ہوئے اپنے ترجمہ میں یہ طرزبیان اختیارکیاہے۔واضح رہے کہ انہوںنے یہ دعویٰ خودمولانا تھانوی کی زندگی میں کیاتھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ تفسیربیان القرآن مع ترجمہ کے مولانا امرتسری کی زندگی میں شائع ہوچکی تھی اور وہ اسے ملاحظہ فرماچکے تھے۔ ‘‘ (تفسیر ثنائی :ص:۳،زیرعنوان :التماس مصنف) ××××××× ۱۰؍۲؍۲۰۱۵ء
—
اسعداعظمی؍جامعہ سلفیہ بنارس
http://aetedaal.com/شیخ-الاسلام-مولانا-ثناء-اللہ-امرتسری-ر/
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔مولاناصحافی بھی تھے،مؤلف بھی،مترجم بھی،مناظربھی،داعی اسلام بھی،ہرطریقے اورہرذریعے سے آپ نے اسلام کی خوب خدمت کی۔دفاع عن الاسلام کے محاذ پرآپ خوب ڈٹے رہے۔عیسائیوں ،نیچریوں،قادیانیوں،آریوں وغیرہ سے آپ کے تقریری وتحریری مناظرے ہوئے تو متعدداسلامی فرقوں اور گروہوں کے یہاں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کابھی آپ نے بھرپورردکیا۔لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی تردیدی اوردفاعی تقریروں اورتحریروں میں بڑی متانت اور سنجیدگی ہوتی ہے۔آپ نے مخالفین کی سخت ترین اورحددرجہ اشتعال انگیزباتوں کے جواب میں بھی کبھی وقار اورشائستگی کادامن نہیں چھوڑا۔سب وشتم یاطعن وتشنیع کے بجائے ہمیشہ پیارومحبت سے اورٹھوس علمی وعقلی دلائل سے اپنی بات پیش کی،اورایسے ہی اسلوب کی ہمیشہ تلقین وتبلیغ بھی کرتے رہے۔اختلاف کوبرتنے اورمخالف کی عزت نفس کوملحوظ رکھنے کے معاملے میں آپ نے جس فراخدلی اوروسیع القلبی کاثبوت دیا ہے وہ ہماری نئی نسل کے لیے قابل عبرت اورلائق اتباع ہے۔
مولانا کی تحریروں سے اس نوعیت کے کچھ نمونے جمع کرکے ’’مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کاتعامل غیروںکے ساتھ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون آج سے تقریباً پانچ سال قبل ماہنامہ البلاغ ممبئی میں فروری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں ہم نے شائع کرایاتھا۔اسی طرح مولاناکی تفسیرکی کتاب ’’برہان التفاسیر‘‘کے پیش لفظ میں بھی کچھ مثالیں ہم نے پیش کی ہیں جواس کتاب کے مقدمے کے علاوہ ماہنامہ محدث بنارس کے مارچ۲۰۱۲ء کے شمارے میں بھی شائع ہواہے۔دسمبر ۲۰۱۰ء کے صوت الامہ کے شمارے کاافتتاحیہ بھی اسی تعلق سے ہے۔
گزشتہ دنوں ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے اکتوبر۲۰۱۴ء کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان ’’تفسیرثنائی کااجمالی جائزہ‘‘نظرسے گذرا۔مضمون نگار ڈاکٹرحافظ محمدشکیل اوج تھے جو کراچی یونیورسٹی میں اسلامیات کے صدر شعبہ اور سیرت چیئر کے ڈائرکٹر تھے۔افسوس کہ معارف کے اسی شمارے میں موصوف مضمون نگار کے ۱۸؍ستمبر۲۰۱۴ء کوقتل کردیے جانے کی خبر بھی چھپی تھی۔اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔
اوج صاحب کا یہ وقیع مقالہ مجلہ کے(۲۰)صفحات پرمحیط تھا۔ہم نے مقالے کے سرسری مطالعے کے دوران پایاکہ فاضل مقالہ نگار نے اپنے اس مضمون میںہمارے متذکرہ بالا گوشے سے متعلق بھی متعددمثالیں اورنمونے ذکرکیے ہیں جن سے مناظراسلام مولانا امرتسری کے مثبت ومعتدل موقف کو سمجھنے اوراس سے استفادہ کرنے میں مزیدمددملے گی ۔موصوف نے تفسیرثنائی کی جلدوں اوراس کے مقدمے سے یہ مثالیں با حوالہ پیش کی ہیں ،جنہیں ہم نے ان کے مقالے سے منتخب کرکے الگ کرلیاہے اوراوج صاحب ہی کے الفاظ میں انہیں ہدیہ قارئین کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔آگے کی سطورمیں جوکچھ ہے وہ مولانا امرتسری کی تحریریں ہیں اور ان کے رجحانات کابیان ہے اوراوج صاحب کی جانب سے سیاق وسباق کی وضاحت اورتحسین وآفرین ہے۔حوالوںکے جونمبرہیں وہ تفسیرثنائی کے ہیں۔اگرہمارے غیوراور جوشیلے مقررین واصحاب قلم نظرعنایت فرمائیں توہم احسان مندہوں گے۔واضح رہے کہ درج ذیل اقتباسات محولہ مضمون سے الگ الگ مقامات سے اخذ کیے گئے ہیں۔اس لیے ان کے بیچ ربط وتسلسل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہر اقتباس پر الگ الگ نمبر لگا دیا ہے تاکہ اس کی استقلالی حیثیت واضح رہے۔
اب یہاں سے مقالہ نگار (اوج صاحب) کی تحریر کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
۱- ’’مولانا امرتسری نے سورہ آل عمران کی ابتداء میں شان نزول کے عنوان سے نجران کے عیسائیوں کاوہ واقعہ قلم بندکیاہے جب انہوں نے اپنے طریق پر مسجدنبوی میں ہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نمازاداکی تھی۔اس پرمولانا کا تبصرہ ان کے فکرونظر بلکہ ان کی فکری صالحیت کاآئینہ دارہے۔اپنی اس تحریر میں وہ ہمیں ایک مصلح امت نظرآتے ہیں۔ارقام فرماتے ہیں:
’’عیسائی لوگ مسجدنبوی میں ہی نمازاپنے طریق پرپڑھیں اورآں حضرت(فداہ روحی)خاموش رہیں اورباوجود قدرت کے کچھ نہ کہیں۔وائے برحال ماکہ ہم ایسے نبی کی امت ہیںجوغیروں کو بھی اپنی مسجدسے منع نہ کرے ،ہم ایک فریق دوسرے کو بایں جرم کہ ہمارے طریق کے خلاف نمازکیوں پڑھتاہے گو مسلمان ہے مسجدسے باہر نکال دیتے ہیں۔اتنی ہی بات پرقناعت نہیں، بلکہ کچہریوںمیں غیرمسلموں سے اس امرکافیصلہ کراتے ہیں کہ کون سا فریق مسجدمیں رہنے کاحقدار ہے۔‘‘ (تفسیر ثنائی :جلددوم،ص:۱)
۲- ’’قرأۃ خلف الامام پرمولاناامرتسری نے نہایت دقیق علمی بحث کی ہے۔گواس بحث سے قبل انہوں نے معذرت طلب کرتے ہوئے لکھاہے:
’’ہماراطریق عمل تفسیرکے متعلق ہم کواس تحریرکی اجازت نہ دیتاتھا مگرچونکہ ایک ہی کام کے لیے مختلف نیتیں ہوسکتی ہیں جواپنااپناالگ الگ اثردکھاتی ہیں۔اس لیے بہ نیت نیک اپنے نزدیک راجح مذہب کااظہارکرنا کچھ معیوب نہیں۔‘‘ (جلد۳،ص:۱۷۷)
یہ بحث {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَہُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون}والی آیت کی روشنی میں کی گئی ہے۔اس بحث میں مولانا امرتسری کاانداز استدلال خالصتاًفنی وعلمی ہے ،جسے اصول فقہ کی فنی بحثوں کے واقف ہی سمجھ سکتے ہیں۔اس لیے وہ اردوخوانوں سے معافی کے خواستگاربھی ہوئے ہیں۔آٹھ صفحات پر مشتمل یہ بحث علماء کے پڑھنے کے لائق ہے۔اس اختلافی بحث میں مخالفت وعنادکاپہلوتوکجاکہیں شوشہ بھی نظرنہیں آتا۔علمی موضوعات میں علماء کاباہم اختلاف ہوتاہی رہتاہے مگراختلاف رائے کرناکوئی مولاناسے سیکھے۔مولاناکواپنے دلائل اوراسلوب بیان کی صحت پر اعتمادہی توتھا جویہ لکھ گئے:
’’جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اپنے مدعاکے اثبات میں کسی مغالطے یا سفسطے سے کام نہیں لیا،امیدہے ناظرین ہماری معروضہ بالاتقریر کوبغورپڑھیں گے۔مذہب میں متفق اللفظ نہ ہوں گے توتقریر کے طرزاستدلال کے محسن ضرورہوں گے۔‘‘(جلد۳،ص:۱۸۳)
۳- ’’مولانامناظراسلام مانے جاتے تھے مگروہ روایتی اسلوب سے مختلف تھے۔بالعموم مناظروں کے ہاں علمی گہرائی نہیں ہوتی،اس لیے وہ اپنے لفظوں میں جوش پیداکرنے کے لیے عامیانہ بلکہ سوقیانہ سطح پرآجاتے ہیں ۔اس کاسبب دراصل ان کا غیرعلمی پس منظرہوتاہے۔مگرمولانا امرتسری کے مناظرے اعلیٰ پایہ کے علمی اورتہذیبی الفاظ ودلائل سے مالامال ہوتے تھے۔اس ضمن میں ان کا موقف تھا:
’’یہ ایک نہایت پاکیزہ اصول ہے کہ مناظرہ میں فریق ثانی کے بزرگوں کو انہی لفظوں سے یادکرناچاہیے جن لفظوں سے ہم اپنے بزرگوںکا نام سننا چاہیں۔افسوس ہے کہ زمانہ حال میں اس طریق کی گفتگوبہت کم ہوتی ہے جس کا نتیجہ بھی ظاہرہے۔‘‘ (جلد۳،ص:۸۸)
۴- ’’واضح رہے کہ تفسیرثنائی جلددوم جب لکھی جارہی تھی تب مرزاغلام احمدقادیانی کاانتقال ہوچکاتھا۔ان کے انتقال کا ذکر تفسیرثنائی کے ایک حاشیہ میں اس طرح کیاگیاہے:’’یہ فقرہ مرزاصاحب کی زندگی میں لکھاگیاتھا افسوس کہ آج ہم ان کوزندہ نہیں پاتے۔‘‘ (جلد۲،ص:۸۴)
۵- ’’مولانانے اپنی تفسیرمیں نیچریت کارد بیشترمقامات پرکیاہے اورشروع کی جلدوں میں توکچھ زیادہ ہی کیاہے۔اس ضمن میں انہوںنے سرسیداحمدخان کاحوالہ بھی کثرت سے دیاہے، مگرہرجگہ ان کے ادب واحترام کوملحوظ رکھاہے۔کہیں ’’سیداحمد خاں مرحوم‘‘ لکھا (جلد۱،ص:۱۳۴) کہیں ’’سیدصاحب مرحوم‘‘ (جلد۳،ص:۱۴۶)کہیں’’ معززمخاطب سرسیداحمدخاں مرحوم‘‘(جلد۴،ص:۱۱۰)اورکہیں ’’سرسیداحمدخاں عفی اللہ عنہ‘‘(جلد۱،ص:۱۲۰)وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔شایدیہی سبب رہاہوکہ جب مولاناامرتسری کامولانا احمدرضاخان بریلوی نے کسی مسئلے میں رد لکھا توانہوں نے بھی مولانا امرتسری کا اکرام کرتے ہوئے انہیں نہ صرف مولانا لکھابلکہ مولانا سے پہلے گرامی منش بھی لکھا۔پھران کانام لکھا ،یعنی’’گرامی منش مولانا ثناء اللہ امرتسری ‘‘(فتاوی رضویہ: جلد ۱۵،رضافاؤنڈیشن ،جامعہ رضویہ،اندرون لوہاری دروازہ لاہور،ص:۸۸،اشاعت ۱۹۹۹ء) گرامی منش کا مطلب ہے ’’بزرگ طبیعت‘‘(علمی اردولغت(جامع)وارث سرہندی،علمی کتب خانہ،کبیراسٹریٹ روڈ اردوبازار ،لاہور طبع ۲۰۰۰ء) حالانکہ مولانابریلوی بڑے بڑے علماء کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور جنہیں پسند نہیں کرتے تھے انہیں کبھی بھی لفظ مولانا سے یادنہیں کرتے تھے ۔
۶- آخر میں ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے جو اس موضوع سے متعلق تونہیں ہے مگر ایک علمی فائدہ کو متضمن ہے ۔اوج صاحب لکھتے ہیں:
’’وجوہ تفسیرنقل کرنے کے بعد(مولاناامرتسری)فرماتے ہیں کہ قرآن مجیدکو بزبان اردو،ایک بیان مسلسل کی شکل میں لکھاگیاہے۔ہمارے مفسرین نے آج تک اس طرف توجہ نہیں کی تھی اس لیے مجھے اس کاخیال آیا۔مولانانے دعویٰ کیاہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے انہیں کی اتباع کرتے ہوئے اپنے ترجمہ میں یہ طرزبیان اختیارکیاہے۔واضح رہے کہ انہوںنے یہ دعویٰ خودمولانا تھانوی کی زندگی میں کیاتھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ تفسیربیان القرآن مع ترجمہ کے مولانا امرتسری کی زندگی میں شائع ہوچکی تھی اور وہ اسے ملاحظہ فرماچکے تھے۔ ‘‘ (تفسیر ثنائی :ص:۳،زیرعنوان :التماس مصنف) ××××××× ۱۰؍۲؍۲۰۱۵ء
—
اسعداعظمی؍جامعہ سلفیہ بنارس
http://aetedaal.com/شیخ-الاسلام-مولانا-ثناء-اللہ-امرتسری-ر/