رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
UK میں ایک بہت مشہور دیوبندی عالم ہے، لوگ اس کو شیخ الحدیث کہتے ہیں، فیس بک پے اس کے طلبا کا ایک گروپ اور یو ٹیوب پے اپنا ایک چینل ہے۔ اس کا نام عبدرحیم ہے۔ اس نے شیخ البانی کے رد میں ایک ویڈیو بنائی ہے، اس میں اس نے شیخ البانی پے بہت الزامات لگائے ہیں۔ برائے مہربانی ان کا جواب دیں تا کہ میں اس نام نہاد عالم کے طلبا کو دے سکوں، جو اس کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔
اس نے اپنے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
جزاک اللہ خیراً
اس نے اپنے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
براہ کرم اس کا مدلل جواب دیں۔ اس دیوبندی شیخ نے ہر جگہ اپنا فتنہ پھیلایا ہوا ہے، اس لیے اس کا جواب دیں کر نوازیں۔اگر آپ کو کسی شخص کی حقیقت معلوم کرنی ہے تو ان لوگوں کو دیکھو جو اس کے ساتھ اٹھے بیٹھے ہیں۔
اگر آپ شیخ عبدالفتاح الغدّہ کی تصانیف کو دیکھیں، اور اگر آپ شیخ رمضان البوتی کی تصانیف کو دیکھیں، یہ وہ لوگ ہیں جو البانی کے ساتھ بیٹھے، اور انہوں نے غور کیا کہ البانی کس طرف جا رہا ہے، اور انہوں نے اس کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن البانی نے انہیں سننے سے ہی انکار کر دیا، اور انہیں سننے کی بجائے اس نے الٹا شیخ ابو فتاح الغدہ پر ہی اپنے کئی رسائل میں حملہ کر دیا۔ شیخ عبدالفتاح الغدّہ اس سے اتنا تنگ آ گئے تھے کہ ان کو ایک رسالہ لکھنا پڑا، وہ ایسا کرنا تو نا چاہتے تھے لیکن ان سے کچھ سوال کیے گئے تو انہیں یہ لکھنا پڑا، اور ان کے طلبا نے انہیں نصیحت کی کہ شیخ آپ کو یہ رسالہ پبلش کرنا چاہیے، تو انہوں نے اسے پبلش کر دیا، اس کا نام ہے اباطيل وافتراءات الالبانی جو یہاں سے دیکھا جا سکتا ہے http://ia600409.us.archive.org/11/items/aslein4/kalemat.pdf
شیخ عبدالفتاح الغدّہ اس میں بتاتے ہیں کہ ناصر الدین البانی نے صحیحین کی احادیث پر محاقمہ کرنے کی عادت بنا لی تھی، جب وہ کوئی حدیث نقل کرتا تھا توایسے کہتا تھا کہ: رواہُ البخاری وھو صحیح، وراہ المسلم وھو صحیح، رواہ الابو داود وھو صحیح، وراہ النسائی وھو صحیح۔
تو شیخ عبدالفتاح الغدّہ نے اسے بتایا کہ آپ کا یہ طریقہ غلط ہے، آپ کا مطلب یہ ہے بخاری نے یہ حدیث نقل کی اور یہ صحیح ہے، یہ صحیح طریقہ نہیں ہے، بلکہ آپکو ایسا کہنا چاہیے کہ: ھذا حدیث صحیح رواہ البخاری، یہ طریقہ ہمارے اسلاف کا تھا، جب آپ لفظوں کو بدل دیں تو آپ لوگوں کے ذہن میں یہ شک ڈال رہیں ہیں کہ بخاری میں صحیح احادیث ہیں اور ضعیف احادیث بھی ہیں، اور بخاری احادیث تب صحیح ہوں گی جب آپ کہیں گے کہ یہ صحیح ہے، یہ تھا طریقہ البانی کا۔
اور اس نے کتابیں لکھنی شروع کیں، وہ ابن ماجہ سے شروع ہوا اور باقی کتابوں کی بھی تقسیم کر دی اور کہا، کہ یہ صحیح ترمذی ہے اور یہ ضعیف ترمذی ہے، یہ صحیح ابن ماجہ ہے اور یہ ضعیف ابن ماجہ ہے، اگر آپ پوری اسلامی تاریخ میں دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ابن ماجہ ایک کتاب ہے اور تمام احادیث اسی میں ہیں، ترمذی ایک ہی کتاب اور اس میں ساری احادیث ہیں، اگر کسی حدیث میں کہنے لائق بات ہو گی ہو گی تو محدثین اس کو اس حدیث کے footnote میں لکھ دیتے تھے، کہ اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا ہے، وغیرہ۔
لیکن یہ شخص (البانی) آیا اور اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، اور اس کی دو مختلف جلدیں پبلش کیں، ضعیف الترمذی، صحیح الترمذی۔ جب آپ کسی بک سٹور میں جائیں گے اور یہ دونوں کتابیں دیکھیں تو آپ تو بس صحیح الترمذی خریدیں گے اور ضعیف الترمذی کو سایڈ پر ہی رکھ دیں گے۔ اور آپ صرف وہ احادیث لیں گے جن کو البانی نے صحیح کہا ہے اور آپ باقی تامام حدیثوں کو رد کر دیں گے، یہ طریقہ بالکل غلط ہے، اور یہ انکار حدیث کے مترادف ہے، کیونکہ آپ ان احادیث کا انکار کر رہیں ہیں جن کو آپ نے رد کر دیا۔
بہت سے ایسے لوگ تھے جو حدیثوں کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حدیث حجت نہیں ہے، اور یہ بھی دوسرے الفاظ میں انکار حدیث ہی ہے، اور البانی نے یہ طریقہ رائج کیا ہے، اس نے یہ سب کچھ ابن ماجہ، نسائی، اور ابوداود کے ساتھ کیا ہے۔
اور بخاری و مسلم کے بارے میں اس نے کہا کہ مسلم میں ٥٣ ضعیف احادیث موجود ہیں، شیخ محمد سعید ممدوح آئے اور انہوں نے کتاب لکھی "تنبیہ المسلم علی تعاد الالبانی علی صحیح مسلم" اور اس میں انہوں نے ایک ایک حدیث کا دفاع کیا ہے اور ثابت کیا ہے جو کچھ بھی امام مسلم نے کہا وہ صحیح ہے اور جو کچھ بھی البانی نے کہا ہے وہ غلط ہے۔ جانتے ہوئے یا نا جانتے ہوئے اس نے صحیح مسلم پر ظلم کیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہی اس نے دوسری کتابوں کے ساتھ بھی کیا ہے اور اب وہ بخاری کی طرف اپنا رخ کر رہا ہے، اور میں نہیں جانتا کہ وہ اب بخاری کے ساتھ کیا کرنے والا ہے، اور انہوں نے کہ یہ وہ معاملات ہیں کہ جن پے ایک احمق شخص اس پر ھسے، لیکن ایک سمجھدار شخص اس پر روئے گا، کہ حدیث کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ اپنے سلسلہ الاحادیث الصحیحہ اور سلسلہ الاحادیث الضعیفہ میں اگر کوئی حدیث نقل کرے اور اسے ضعیف کہ دے، لیکن اسے پتا نہیں کہ شاید یہ حدیث بخاری میں موجود ہو، لیکن بعد میں محدثین نے آ کر اس کی غلطیوں کی اصلاح کی۔
شیخ حسن الثقاف نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے "البانی کے واضح تناقضات" (عربی میں ہے)، اس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح البانی کہ اپنے آپ سے تناقضات ہیں، وہ ایک حدیث کو کسی پیج میں صحیح کہے گا، اور چند صفحوں کے بعد وہ اسی حدیث کو ضعیف کہ دے گا۔ ایک پیج میں کسی راوی کو ثقہ کہے تو چند صفحوں بعد اسی راوی کو غیر ثقہ ٖ قرار دے گا
انہوں نے دو جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے اس کے ١٠٠٠ تناقضات صرف بخاری سے دکھائے، اور انہوں نے کہا کہ کیا آپ ایسے شخص پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
البانی ایک وہمی شخص تھا۔ اس کے ذہن میں بہت سا وہم تھا۔
حتی کہ اگر آپ البانی کے شاگردوں کے پاس جائیں اور پھوچھیں کہ کون کون سے شیوخ تھے تمہارے شیخ البانی کے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہم حجرہ اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوں اور قسم اٹھایں کہ ہم نے البانی جیسا کوئی نہیں دیکھا، تو ہماری قسم نہیں ٹوٹے گی۔ تو میں ( یعنی وہ دیوبندی عالم) کہوں گا کہ اس کا مطلب تم نے کوئی عالم ہی نہیں دیکھا، کیونکہ اگر تم نے کبھی کوئی عالم دیکھا ہوتا تو ایسا کبھی نا کہتے، اور یہ کہ اس کا کوئی شیخ یا استاد نہیں تھا۔
ہمارے پاس ہماری احادیث کی اسانید ہیں، الحمدللہ میں نے احادیث کو پڑھا ہے شیوخ سے، انہوں نے اپنے شیوخ سے، انہوں نے اپنے شیوخ سے، اس طرح کرتے کرتے میری اسناد اس کتاب کے مصنف تک جاتی ہے، میرے پاس میری تمام کتابوں کی اسانید ہیں مثلا سنن ابو داود، ابن ماجہ، بخاری، مسلم وغیرہ، میرے پاس تمام کتابوں کی سند ہے، آپ اس سند کے بغیر نہیں پڑھ سکتے، ہر سال جب بھی میں صحیح مسلم کا دورہ کرتا ہوں تو میں اپنے شاگردوں کو اپنی تمام اسناد بھی بتاتا ہوں، میں نے شیوخ سے پڑھا ہے، میں کوئی ایسا ایرہ غیرہ بندہ نہیں ہوں۔ میں نے شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی سے اجازہ لی ہے، میں نے کاری شریف دو مرتبہ پرحی ہے، ایک بار شیخ الحدیث اسلام الحق سے، اور ایک مرتبہ شیخ یونس محمد جونپوری۔ اور دوسری احادیث بھی میں اساتذا سے پڑھی ہے۔
اگر آپ البانی کی اسناد کا پتا کرنا چاہیں، تو آپ کو پتا لگے گا اس کے پاس کوی اسناد نہیں ہے، کیونکہ اس نے کبھی کسی شیخ سے پڑھا ہی نہیں، وہ مدینہ میں ایک دکان میں گھڑیوں کا کام کرتا تھا، اور پھر اچانک اس میں حدیث سیکھنے کا شوق پیدا ہوا، اور پھر وہ مدینہ کتب خانہ، جامعہ اسلامیہ میں گیا اور کتابوں کو پڑھنے لگا، اور پھر اس نے ایک چھوٹا سا کتابچہ لکھا، زفاف کے بارے میں۔ اور پھر ایک اور کتاب، اس کتاب بہت مشہور ہوئی اور لوگوں نے اسے قبول کیا اور پھر اس نے کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔ اور جب اسے پتا چل گیا کہ وہ اب بہت بڑا شخص بن گیا ہے تو اس نے امت میں یہ شک و شبہ پیدا کرنا شروع کر دیا۔
پچھلے حج کے موقع پر ہی ہم شیخ یونس کے ساتھ تھے اور احمد عاشور وہاں بیٹھے تھے، انہوں نے کہا کہ شیخ آپ کو پتا ہے کہ چند دن پہلے یہاں پے ایک شخص تھا جو کہتا تھا کہ صحیح بخاری میں کئی، مجھے نہیں پتا ١٠٠ یا ١٢٠ ضعیف احادیث ہیں۔
شیخ یونس صحیح بخاری پچھلے ٤٠ سالوں سے پڑھا رہیں ہیں، اور ان کے دل میں صحیح بخاری ک لیے بہت پیار ہے، اور جب انہوں نے یہ سنا تو ان کو اتنا شدید غصہ آیا کہ ہمیں لگا کہ جیسے ان کو کچھ ہو گیا ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ یہ سب وہ البانی کی شرارت ہے، اس خبیث نے یہ شروع کیا ہے، اسی نے یہ ساری احادیث کو ضعیف کہا۔
جب آپ حدیثوں کو اس طرح ضعیف ضعیف ضعیف قرار دیتے چلے جاتے ہیں تو آپ کی فطرت ہی ایسی بن جاتی ہے کہ جیسے ضعیف حدیث موضوع کی طرح ہے، اور ضعیف اور موضوع کے درمیان فرق ہی ختم کر دیا جاتا، جیسے آپ موضوع حدیث کو رد کرتے ہیں، اسی طرح ضعیف کو بھی پھینک دیتے ہیں۔ ضعیف حدیث کو آپ رد نہیں کر سکتے، حدیث ھدیث ہے آپ اسے پھینک تو نہیں سکتے۔ اور یہ رسول اللہ کی طرف سے ہے، ضعف تو اس کی اسناد میں کسی راوی کی کمزوری وجہ سے آتا ہے، ویسے تو یہ رسول اللہ کی طرف ایک حدیث ہے۔
شیخ یونس نے ایک دفع کہا کہ اگر آپ احادیث کے تمام مجموعہ کو دیکھیں تو ان میں ایک چوتھائی صحیح کے درجہ تک پہنچتی ہوں گی، اور تین چوتھائی اس میں سے ضعیف ہو گا، اس کی اسناد میں کسی نہ کسی ضعف کی وجہ سے، تو اس لیے ہمیں وہ تین چوتھائی احادیث بھی لینی چاہیے ورنہ ہم ان تمام تین چوتھائی احادیث کو بھی کچرے میں پھینک دیں گے۔ اس لیے آپ ان ٧٥ % احادیث کو پھینک نہیں سکتے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس پے البانی نے تمام مسلم امہ کو لگایا، اور اس نے سب کچھ بیڑہ غرق کر دیا ۔
ایک دفع ہم بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ یونس بھی وہاں تھے، اور ہم باتیں کر رہے تھے، تو شیخ استنجاء کے لیے گئے تو میں نے دوسرے شیخ سے پوچھا کہ آپ کو پتا ہے کہ شیخ ہمیں بتا رہے تھے کہ کس طرح البانی نے احادیث پر ظلم کیا ہے، اور ضعیف کو موضوع اور اسی طرح کرتے کرتے کتنی احادیث کو رد کر دیا۔ تو شیخ نے کہا کہ: میں جورڈن میں کچھ شیوخ سے ملا، جہاں پے البانی رہا کرتا تھا جب اس کو مدینہ سے نکال دیا گیا تھا، دو تین وجوہات کی بنا پر، پہلی یہ کہ اس نے کہا کے نقاب کرنا حجاب میں فرض نہیں ہے۔ اور عرب اس معاملے میں بہت سخت ہیں تو انہوں اسے پسند نہیں کیا، دوسری وجہ یہ تھی کہ اس نے کہا تھا گنبد حضرا، نبی کی قبر مسجد میں نہیں ہونی چاہیے، اس احمق کو کیا پتا کہ نبی کی قبر مسجد میں نہیں تھی، بلکہ مسجد کے باہر تھی، لیکن بعد میں مسجد کی وسعت کی گئی تھی۔ ورنہ تو مقبر مسجد سے باہر تھی، لیکن اس نے کہا کہ ان قبر مسجد میں نہیں ہونی چاہیے اس کو باہر نکال دینا چاہیے، اور یہ آجکل نیوز پیپرز میں بھی آ رہا ہے۔ اور ایک متشدد گروپ نے تو یہ بھی کہا تھا اگر ہمارے پاس قوت ہوتی تو ہم نبی کی قبر دوبارہ کھودتے اور انہیں بقیع الغرقد میں دفناتے، یہ سب اخبارات میں بھی آتا رہا ہے۔
اور ایک دفع ایک نورمل دن تھا اور چند لوگ گنبد حضرا پے کھڑے تھے اور اپنے اپنے سلام عرض کر رہے تھے، البانی ان کے پاس سے گذرا اور اس نے ان کا مذاق اڑایا، اور کہا کہ ابن عمر تو صرف سلام کہتے تھے اور چلے جاتے تھے، یہاں پر کھڑے ہونے کا کیا مطلب ہے، صرف سلام کہو اور چلے جاؤ، وہ دن کوئی حج یا عمرہ کے دنوں میں سے نہیں تھا، بس ایک نورمل سا دن تھا، اور جو لوگ وہاں کھڑے تھے وہ مدینہ کے مکین تھے۔ اور وہ وہاں کہ بڑے اور شیوخ تھے، انہوں نے یہ نا پسند کیا، انہوں نے شاہ فیصل کو خط لکھا اور کہا کہ یہ ملک آپ چلا رہے ہیں یہ کوئی اور، ہمیں تع لگتا ہے کہ کوئی اور ہی اس ملک کو چلا رہا ہے، ہمارے درمیان ایک شخص ہے جو ہمیں یہ یہ کہتا رہتا ہے، اس کو ایسا کہنے کی کیا جرت، ہم نے اپنے اسلاف کو ایسا کرتے دیکھا ہے، وہ یہاں پر کھڑے ہوتے تھے، سلام کرتے، روتے تھے، لیکن اب یہ شخص آ کر ہمیں کہ رہا ہے کہ یہ سب بدعت ہے، اور غلط ہے، اور تمہیں بس سلام کرنا چاہیے اور نکل جانا چاہیے۔
یہ خط جب شاہ فیصل کو ملا تو انہوں نے فوراً البانی کی جلا وطنی کا اورڈر جاری کر دیا، اور اسے وہاں سے نکال دیا گیا، اور اسے دوبارہ واپس آنے کی اجازت نہیں تھی۔
تو جب وہ جورڈن میں تھا، تو ان شیخ نے مجھے بتایا کہ ایک شیخ نے مجھے بتایا کہ ہمیں لگتا تھا کہ کہیں سے کوئی فتنہ آ گیا ہے، تو ہم وہاں پے خطاب کرتے اور حالات کو پہلے جیسے لے آتے، لیکن جب البانی وہاں پے آتا تو وہ فتنہ وہاں پے پھر شروع ہو جاتا، اور وہاں پے ارتداد پھیل گیا، اور لوگ مرتد ہونا شروع ہو گئے۔
تو جب آپ دھیان سے پڑھیں اور علما کے اقوال دیکھیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ کس قسم کا آدمی تھا البانی، لوگ کہتے ہیں کہ ہم (یعنی دیوبندی) اپنے مذہب کی آنکھ بند کر کے پروی کرتے ہیں تو میں کہوں گا کہ نہیں ہم آنکھ بند کر کے نہیں پیروی کرتے بلکہ تم لوگ آنکھ بند کر کے البانی کی تقلید کرتے ہو۔ البانی کو چھہوڑو اور مذہب کی طرف آؤ، آپ کو پتا چلے گا کہ ہمارے ہاں سب کچھ صاف ہے، ہمارے دلائل اور ہمارا مذہب بہت صاف ہے، اگر آپ پڑہیں گے تو آپ کو پتا چلے گا، ہمارے پاس سب دلائل ہیں لیکن جب آپ پڑہیں گے تو آپ کو پتا چلے گا۔ اور یہی بہتر راستہ ہے۔
اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فر مائے۔
جزاک اللہ خیراً