کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نور پوری
ابومسعود عبدالجبار سلفی
عادات وشمائل26 فروری 2012ء کومحبانِ علم وفضل پر خصوصاً اور جماعتِ اہل حدیث پر عموماً یہ خبر بجلی کی طرح گری کہ اُستاذ العلماء حافظ عبدالمنان محدث نور پوری عالم فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ إنا لله وإنا إلیه راجعون، إن لله ما أعطیٰ ولله ما أخذ ولکل عنده بأجل مسمی اللهم ارفع درجته في المهدیین واخلفه في عقبه في الغابرین
راقم الحروف کو اپنے رُفقاے کرام: حافظ محمد شریف ،حافظ عبدالغفار ریحان ، حافظ عبدالجبار مدنی اور حافظ محمد امین کے ہمراہ 1977ء سے 1979ء کے دوران ان کے ہاں زیرِ تعلیم رہنے کا موقع ملا اور ہم نے ان کو گونا گوں خوبیوں سے متصف پایا۔ والدین نے ان کا نام خوشی محمد رکھا تھا، جوبعدمیں حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی کے نام عبدالمنان میں تبدیل ہوگیا اور دونوں ناموں کی خوبیاں آپ کے اَندر جمع ہوگئیں۔
جس دور میں راقم الحروف حافظ گوندلوی کے ہاں بخاری شریف پڑھتا تھا، اس دور میں حضرت محدث نور پوری کے گھر سے فتح الباری کی پہلی تاآخری جلد لانے اور واپس دینے کی ذمہ داری راقم پر تھی۔ چنانچہ میں جب بھی آپ کے گھر جاتا، آپ کچھ کھلائےپلائے بغیر واپس نہ آنے دیتے ۔چنانچہ برادرِ عزیز عبدالرحمن ثانی بن حضرت محدث نور پوری کو سکھایاگیاتھا کہ جب بھی کوئی مہمان بیٹھک میں آئے تو بغیر پوچھے گھر میں جو پھل ،مشروب یا کھاناموجود ہو حاضر کردینا ہے۔ چنانچہ برادرِ عزیز فوراً گھر جاتے اور گھر میں موجود مشروب یا پھل لے آتے۔ جب کوئی مہمان آپ کو یہ کہتا کہ حضرت میں تو اِسی مدرسہ یا اسی کالونی سے ہر چوتھے یا آٹھویں دن آتا ہوں تو آپ یہ تکلف کیوں فرماتے ہیں،تو آپ فرماتے: دیکھو یہ ناسمجھ بچہ ہے، اب یہ لے ہی آیا ہے تو آپ تناول فرما لیں ، آپ ایک دو گلاس پی لیں گے یادو چار لقمے کھالیں گے تو اس بہانے ہمیں اللہ سےاَجر مل جائے گا۔ اکرام الضیوف کی ایسی مثال آپ کو معدودے چند علما کے، کہیں نہ ملے گی ۔ایسے علما میں سرفہرست میرے اُستاذ مولانا محمد یوسف آف راجووال﷾بھی ہیں، ان کو اللہ نے اس نیکی کا وافر حصہ عطا فرمایا ہوا ہے۔چنانچہ آپ حد درجہ خوش اخلاق ،خوش پوش ، خوش اطوار اور خوش خصال ثابت ہوئے جب کسی سے حال احوال پوچھتے تو فرماتے:’خو ش ہو‘....اللہ نے آپ کو ہر کام خوش اُسلوبی سے سرانجام دینے کی خوبی عطا فرمائی تھی۔ لکھنے بیٹھتے تو خوش نویسی کی حدیں چھونے لگتے ، پڑھانے بیٹھتے تو امام مالک کی مجلس کی جھلک دکھا دیتے ، لباس سلائی کرنے بیٹھتے تو درزیوں کو حیران کردیتے۔ درسِ حدیث دیتے تو ترمذی دوراں معلوم ہونے لگتے اور زہد و ورع اور علم وفضل اور استدلال میں امام ابوسلمان داؤد بن علی اصفہانی کا نقش ثانی معلوم ہوتے۔دیانت داری او رایفائے عہد میں تو کوئی آدمی آپ کا ثانی نہ تھا۔
لوگوں کی آپ کی ذات پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اُس دور میں ایک دیوبندی گھرانے نے اپنے لیے شاندار کوٹھی بنوانی شروع کی۔ جونہی وہ کوٹھی مکمل ہوئی تو ان کا سعودی عرب سے دو سال کا ویزا آگیا اور اس گھرانے کو سعودی عرب جانا پڑگیا۔ ادھر اس دور کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حکم جاری کردیاکہ جو شخص جس کسی مکان میں بھی بیٹھا ہے وہ اس کا مالک ہے۔ اب اس گھرانے نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کوئی ہماری کوٹھی پر قبضہ نہ کرلے، حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ ہماری کوٹھی میں عارضی رہائش اختیار کرلیں اور ہمارے واپس آنے سے ایک دن قبل خالی کردیں۔آپ نے فرمایا: دیکھو بھائی !میرے پاس حافظ محمد شریف سیالکوٹی کے بیٹوں کا مکان ہے او راُنہوں نے مجھے کہا ہے کہ حافظ صاحب آپ ہمارا مکان کرایہ پر لے لیں اور تیس روپے کرایہ دیتے رہیں۔ آپ ساری عمر اس میں رہائش رکھیں تو ہم تیس روپے سے اکتیس روپے تک بھی کرایہ نہ بڑھائیں گے اور جس دن آپ نے ہمارا مکان خالی کردیا، ہم اسے ایک دن بھی اپنے پاس نہ رکھیں گے اور اسے فروخت کردیں گے۔ کرایہ معمولی ہے اور میں آرام سے رہ رہا ہوں او رکرایہ بھی ادا کررہا ہوں۔ لہٰذا آپ مہربانی فرما کر کوٹھی کسی اور شخص کو دے دیں او رمجھے یہیں گزارا کرنے دیں ۔اس کنبے کے سربراہ نے کہا : نہیں حافظ صاحب ہم آپ کے علاوہ کسی کو نہیں دیں گے اور آپ سے کرایہ بھی نہیں لیں گے۔ آپ نے فرمایا: برادر من اگر خدانخواستہ آپ کا وہاں دل نہ لگا اور آپ دو ماہ بعد واپس آجائیں تو پہلا مکان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا اور مجھے آپ کی کوٹھی سے نکل کر کوئی او رمکان تلاش کرنا پڑے گا۔ اس نے عرض کیاکہ حافظ صاحب کم از کم دو سال تک تو ہم وہاں رہیں گے، خواہ دل لگے یا نہ لگے۔ لہٰذا آپ مہربانی فرمائیں اور بغیر کرایہ کے ہی ہماری کوٹھی میں تشریف لے آئیں۔ چنانچہ میں اس دور میں دو سال تک اسی کوٹھی میں حاضری دیتا رہا۔ آپ نے اس کوٹھی سے متصل ان کے پلاٹ میں باغیچہ بنا دیا اور صبح و شام اسے پانی دیتے اور وہیں مہمانوں کو وقت دیتے تھے۔
چنانچہ آپ دوبارہ اس کوٹھی میں رہائش لے آئے اور چھ سال تک اس میں رہائش رکھی ۔ چھٹے سال بعد مالکان واپس آئے تو آپ اپنے مکان میں تشریف لے گئے اور اُن کی کوٹھی ان کے حوالے کردی۔ آپ کے حسن اخلاق،ایفائے عہد او رعمدہ برتاؤ سے متاثر ہوکر وہ گھرانہ اہلحدیث ہوگیا اور اُنہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ آپ کے برادرِنسبتی حافظ عبدالوحید کو دے دیا ۔ میں نے یہ قصہ اس لیے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ دیگر علماء کوبھی اسی طرح کا اخلاق اور کردار اپنانا چاہیےتا کہ لوگ ان کے حسن کردا رسے متاثر ہوکر خالص اور باعمل مسلمان بن جائیں۔چنانچہ دو سال بعد اُنہوں نے آپ کو کوٹھی خالی کرنے کی اطلاع دی تو آپ نے اس کوٹھی کو رنگ وروغن کروایا اور خود حافظ عبدالسلام بھٹوی﷾ کے مکان پر رہائش لے گئے۔ چنانچہ کوٹھی کا مالک اپنے کنبے سمیت رات بارہ ایک بجے کوٹھی پر آیا تو آپ نے چابی اُن کے حوالے کی اور اپنے نئے کرائے کے مکان پر چلے گئے۔ صبح ہوئی تو کوٹھی کا مالک اور اس کا کنبہ کوٹھی کی آرائش اور ساتھ والے پلاٹ میں پھولوں بھرا باغیچہ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ چنانچہ کوٹھی کا مالک دو ماہ ٹھہر کر پھر واپس سعودی عرب جانے لگا تو چابیاں لے کر پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا او راپنی کوٹھی میں رہائش رکھنے کی پیشکش کردی۔ آپ نے فرمایا:کہ اب میرا اپنا مکان بن گیا ہے لہٰذا اب میں وہاں رہائش کرنے کا ارادہ کرچکا ہوں۔ آپ کسی او رمسلمان پراحسان کردیں، وہ کہنے لگے کہ ہمیں آپ کے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں ہے او رپھر آپ نے اپنا مکان بھی تو کسی سے قرض لےکر بنایا ہے لہٰذا آپ اپنا مکان کرایہ پر دے کر اپنا قرض اُتار لیں اور ہماری کوٹھی بغیر کرائے کے لے لیں ۔