• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علمائے سلف سے محبت
مصلحین اُمت میں امام احمدبن حنبل، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، شاہ ولی اللہ، سید احمدشہید،مولانا شاہ اسمٰعیل شہید اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہم اللہ اجمعین سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ ان حضرات کی تصانیف کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کرتے تھے اور اپنے تلامذہ کوبھی ان کی تصانیف کے مطالعہ کی ترغیب دیتے تھے۔
علمائے اہلحدیث میں شیخ الکل مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا سید نواب صدیق حسن خان، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا قاضی احمد سلیمان منصورپوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری، مولانا سید عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی،مولانا حافظ عبداللہ روپڑی اور مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہم اللہ اجمعین سے انہیں والہانہ عقیدت تھی اوران کے علم و فضل کے معترف تھے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کتب خانہ
مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کاکتب خانہ انفرادی کتب خانوں میں بہت بڑا کتب خانہ تھا اور ہر موضوع سے متعلق عمدہ کتابوں کا ذخیرہ ان کے کتب خانہ میں موجود تھا۔ ان کے پاس تفسیر، حدیث، شروح، فقہ، اُصولِ فقہ، اُصولِ حدیث، تاریخ و سیر، اسماء الرجال اور فنون کی تمام کتابیں موجود تھیں۔ اُردو کتابوں کا بھی کافی ذخیرہ تھا۔ اردو کے علمی رسائل واخبارات کے کئی فائل ان کے کتب خانہ میں موجود تھے۔ علم حدیث اور علم فقہ سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ حدیث کی کتابوں کی کافی شروح ان کے کتب خانہ میں موجود تھیں اور اس کے علاوہ چاروں فقہ (حنفی، مالکی، شافعی،حنبلی) اور فقہ جعفریہ کی کتابیں بھی ان کے پاس موجود تھیں۔ فتاویٰ پر بھی ان کے پاس کافی کتابیں تھیں۔ وہ ہر موضوع سے متعلق تمام کتابوں کاباقاعدہ مطالعہ کرتے تھے اور اہم مقامات پر نوٹ لکھتے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سوانح حیات
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ۱۸۹۵ء میں تحصیل وزیرآباد کے قصبہ ’ڈھونیکی‘ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام مولانا حکیم محمدابراہیم تھا۔ جو جید عالم دین، حاذق طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پایہ کے خوشنویس بھی تھے۔ آپ عرصہ تک مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی کا رسالہ ’اشاعة السنة‘ کتابت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے امام حدیث مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری کی مشہور کتاب ’تحفة الاحوذی شرح جامع ترمذی‘ جو چار جلدوں میں ہیکی کتابت بھی کی۔ تحفة الاحوذی کے ٹائٹیل پر یہ عبارت درج ہے: کتبہ محمد ابراہیم : موضع ڈھونیکی، تحصیل وزیرآباد، ضلع گوجرانوالہ
مولانا محمد اسمٰعیل نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا حکیم محمد ابراہیم سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ دارالحدیث وزیرآباد تشریف لے آئے۔ دارالحدیث وزیرآباد میں استادِ پنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی توحید و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل تھے۔ استادِ پنجاب کے علاوہ اس مدرسہ میں مولوی عمر الدین وزیرآبادی اور استادِ پنجاب کے صاحبزادہ مولوی عبدالستارمرحوم بھی مدرّ س تھے اور ایک مدرّس مولوی تاج الدین بھی تھے۔
مولانا محمد اسمٰعیل نے صرف و نحو کی کتابیں مولوی تاج الدین سے پڑھیں۔ مولوی عمر الدین سے فارسی کتابیں گلستان، بوستان وغیرہ پڑھیں اور مولوی عبدالستار صاحب سے سنن نسائی کا رُبع اوّل پڑھا اور استادِ پنجاب سے جملہ علوم و فنون، قرآن و حدیث، فقہ و اصول فقہ، عربی ادب، منطق و فلسفہ اور عقائد وکلام میں استفادہ کیا۔
وزیرآباد میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا محمد اسمٰعیل دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی ان دنوں علم وفن کا مرکز تھا۔ یہاں پر شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کی تحریک ِعلمی کے گہرے نقوش تھے۔ آپ نے مدرسہ امینیہ، دہلی میں داخلہ لیا اورمولانا محمد قاسم سے فقہ کے اسباق پڑھے، لیکن عامل بالحدیث ہونے کی وجہ سے جلدہی مدرسہ سے خارج کردیئے گئے۔ اس کے بعد آپ نے مدرسہ دارالکتاب والسنة، صدر بازار دہلی کا رخ کیا،جہاں مولانا عبدالوہاب ملتانی صدر مدرّس تھے اور مولانا عبدالرحمن ولایتی مدرّس تھے۔ مولانا عبدالرحمن ولایتی بلند پایہ عالم دین، محدث اور فقیہ تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ان سے مولانا محمد اسمٰعیل نے حدیث اور معقولات کی کتابیں پڑھیں اور اس کے بعد مولانا عبدالجبار عمرپوری (جد ِامجد مولانا عبد الغفار حسن)سے تفسیر ابن کثیر اور تفسیر فتح البیان کے بعض اجزا پڑھے۔ مولانا عبدالجبار ان دنوں مکفوف البصر (نابینا) ہوگئے تھے۔
اس کے بعد مولانا محمداسمٰعیل واپس وطن وزیرآباد تشریف لے آئے اور دوبارہ استادِ پنجاب کی خدمت میں حاضر ہوکر تفسیر و حدیث کی سند حاصل کی۔ اور اس کے بعد دوبارہ دہلی تشریف لے گئے۔اس زمانہ میں عالمی جنگ زوروں پر تھی۔ دہلی کے حالات کافی حد تک خراب تھے، جس کی وجہ سے مولانا محمد اسمٰعیل اپنے سبق صحیح طور پر شروع نہ کرسکے۔ ان دنوں استاذالاساتذہ مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری دہلی میں قیام فرما تھے۔ مولانا محمد اسمٰعیل ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران کے درسِ قرآن سے مستفیض ہوتے رہے۔
دہلی میں حالات چونکہ خراب تھے۔ اس لئے مولانا محمد اسمٰعیل دہلی سے امرتسر تشریف لے آئے۔ امرتسر بھی ان دنوں علم و فن کا مرکز تھا۔ حضرت مولانا عبداللہ غزنوی  نے مدرسہٴ غزنویہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی تھی جس میں مولانا سید عبداللہ غزنوی اپنی زندگی میں قرآن و حدیث کا درس دیتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادگان مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی، مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی اور مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہم اللہ اجمعین اس مدرسہ میں قرآن و حدیث کا در س دیتے رہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولانا محمد اسمٰعیل جب امرتسر تشریف لائے تو اس وقت مولانا عبدالرحیم بن مولانا سید عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالغفور بن مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی اور مولانا محمد حسین ہزاروی داماد مولانا عبدالجبار غزنوی مدرسہٴ غزنویہ کے روحِ رواں تھے۔ مولانا محمد اسمٰعیل نے ان ہر سہ علما سے جملہ علومِ اسلامیہ میں استفادہ کیا۔ منطق و فلسفہ کی کتابیں مولانا مفتی محمد حسن امرتسری بانی جامعہ اشرفیہ، لاہورسے پڑھیں۔طب کی تعلیم امرتسر میں مولوی حکیم محمد عالم امرتسری سے حاصل کی۔ مولوی حکیم محمد عالم اسلامیہ ہائی سکول میں عربی کے استاد تھے۔ مسلکا بریلوی تھے لیکن بڑے وسیع الظّرف تھے۔
امرتسر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا محمد اسمٰعیل واپس وزیرآباد تشریف لائے اور اس کے بعد مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اپنے وقت کے مشہور مناظر، مفسر قرآن اور کامیاب مصنف تھے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے دست ِراست تھے۔ مولانا محمد اسمٰعیل نے مولانا سیالکوٹی سے تفسیر قرآن میں استفادہ کیا۔مولانا محمد اسمٰعیل فرمایا کرتے تھے کہ
”مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا درسِ قرآن مناظرانہ انداز سے بہت مفید ہوتا تھا۔ میں نے تفسیر بیضاوی مولانا سیالکوٹی سے شروع کی مگر مقامی مشاغل کی وجہ سے چند اسباق ہی پڑھ سکا۔ اس کے بعد چھٹی ہوگئی۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
۱۹۲۱ء میں مولانا محمد اسمٰعیل نے جملہ علومِ اسلامیہ سے فراغت پائی۔۱۹۲۱ء میں ملک میں آزادی کا آغاز ہوچکا تھا اور رواٹ ایکٹ نافذ ہوچکا تھا۔ مجلس خلافت نے ترکی خلافت کے لئے تحریک ِخلافت شروع کردی تھی۔ ۱۹۲۱ء میں مولانا محمد اسمٰعیل کو مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی نے گوجرانوالہ میں رہائش اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ مسجد ِاہلحدیث حاجی پورہ میں خطیب مقرر ہوئے۔ چوک نیائیں گوجرانوالہ میں بھی ایک مسجد ِاہلحدیث تھی جو اب مرکزی مسجداہلحدیث کہلاتی ہے۔ اس مسجد کے خطیب مولانا علاؤ الدین مرحوم تھے۔مولانا علاؤ الدین ضلع ملتان کے ایک گاؤں ’اوج بھٹیاں‘ کے رہنے والے تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے۔ ۱۸۷۴ء/۱۲۹۰ھ میں گوجرانوالہ میں اقامت اختیار کی۔ ۱۹۲۱ء/۱۲۳۹ھ میں انتقال ہوا۔
مولانامحمد اسمٰعیل چند ماہ مسجد اہلحدیث حاجی پورہ کے خطیب رہے۔مولانا علاؤ الدین کے انتقال کے بعد آپ کو مسجد اہلحدیث چوک نیائیں کا خطیب مقرر کیا گیا۔ آپ اپنی وفات ۱۹۶۸ء تک اس مسجدمیں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مسجد اہلحدیث چوک نیائیں کا خطیب مقرر ہوتے ہی آپ نے اس مسجد میں مدرسہٴ محمدیہ کی بنیاد رکھی اور اس میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مدرسہ آپ کی یادگار ہے اور آج بھی اسلام کی نشرواشاعت ، توحید و سنت کی ترقی و ترویج اور شرک و بدعت کی تردید وتوبیخ میں کوشاں ہے۔ مولانا محمد اسمٰعیل کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے۔ مشہور تلامذہ جنہوں نے کسی نہ کسی حیثیت سے علمی دنیا میں اپنا ایک مقام پیدا کیا، ان میں چند ایک یہ ہیں :
۱۔ مولانا محمد حنیف ندوی: مفسر قرآن اور مشہور فلسفی، فلسفہ اسلام کو اپنا موضوع بنایا اور اس پر بہت کچھ لکھا۔
۲۔ مولانا محمد اسحق بھٹی: مشہور صحافی اور مصنف
۳۔ مولانا محمد خالد گھرجاکھی: صاحب ِتصانیف کثیرہ اور بیشتر عربی کتابوں کے ناشر
۴۔ مولانا حکیم محمود سلفی: مشہور طبیب، جید عالم دین
۵۔ مولانا حافظ اسمٰعیل ذبیح: مشہور عالم، واعظ اور مدرس
۶۔ مولانا محمد سلیمان کیلانی: مشہور عالم اور مصنف (مولانا عبد الرحمن کیلانی کے برادرِ کبیر)
۷۔ حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی: مشہور طبیب، پروفیسر طبیہ کالج دہلی
۸۔ مولانامعین الدین لکھوی: مشہور عالم، واعظ اور سیاسی رہنما
مولانامحمد اسمٰعیل نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تحریک ِآزادی میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ تحریک ِاستخلاصِ وطن کے سلسلہ میں کئی بار قید ہوئے اورحرمت ِختم نبوت کے سلسلہ میں بھی آپ اسیر زنداں رہے۔مولانا محمد اسمٰعیل علم و فضل کے اعتبار سے بلند پایہ عالم دین تھے۔ آپ اکابر علمائے اہلحدیث کی جملہ صفات کے حامل اور ایک مثالی شخصیت تھے۔
مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری کا ورع اور تقویٰ، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری کی تواضع، مولانا عبدالواحد غزنوی کا ذوقِ قرآن فہمی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی انگریز دشمنی، مولانا ابوالکلام آزاد کا جوہر خطابت،مولانا عبدالوہاب دہلوی کی شیفتگی ٴسنت، مولانا ابوالوفاثناء اللہ امرتسری کا ذوقِ تالیف، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا محمد حسین بٹالوی کا وسعت ِعلم، مولانا عبدالقادر قصوری کی متانت اور عمق فکر، مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی شرافت اور تبحر علمی، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی کا ملکہ افتا اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی معاملہ فہمی اور وسعت ِقلبی… یہ صفات ایک مولانا محمد اسمٰعیل میں موجود تھیں۔
مولانا محمد اسمٰعیل کئی بار حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوئے، قیامِ مکہ کے دوران آپ نے شیخ ابوبکر توقیر سے تدریس و افتا میں ’اجازہ‘ حاصل کی۔
جماعت ِاہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں۔ حدیث ِنبوی ا سے آپ کو والہانہ محبت تھی اور حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ گوجرانوالہ میں تعمیر مساجد میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ نے جس وقت اس دنیا کو خیر باد کہا، اس وقت آپ نے اس شہر میں اہلحدیث کی ۲۵ ویں مسجد کی تاسیس فرمائی۔ (اس وقت گوجرانوالہ میں اہلحدیث مساجد کی تعداد ۶۰ کے قریب ہے۔)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
وفات
مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے نصف صدی تک مسند ِدرس و تدریس اور خطابت و افتاکو زینت دینے کے بعد ۲۰/ فروری ۱۹۶۸ء مطابق ۲۰/ ذی قعدہ ۱۳۸۷ھ بروز منگل بعد نمازِ عصر انتقال کیا۔ انا لله وانا اليه راجعون
بدھ کے روز بعد نمازِ ظہر گوجرانوالہ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی مرحوم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ راقم کو بھی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔جنازہ پر بے پناہ ہجوم تھا شورش کاشمیری مرحوم بھی جنازہ میں شریک تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار ہفت روزہ چٹان،لاہور میں لکھا:
”ایسا جنازہ تو بادشاہوں کوبھی نصیب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور علیین میں مقام عطا فرمائے۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اساتذہ
مولانا سلفی نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم و فنون میں استفادہ کیا، ان کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔مولانا حکیم محمد ابراہیم
۲۔مولانا عمر الدین وزیرآبادی 
۳۔مولانا تاج الدین
۴۔مولوی عبدالستار بن شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی
۵۔مولانا عبدالرحمن ولایتی 
۶۔استاد پنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی
۷۔مولانا محمد قاسم مدرس مدرسہ امینیہ دہلی
۸۔مولانا عبدالجبار عمرپوری
۹۔مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری
۱۰۔مولانا عبدالرحیم غزنوی 
۱۱۔مولانا عبدالغفور غزنوی
۱۲۔مولانا محمد حسین ہزاروی
۱۳۔ مولانا مفتی محمدحسن امرتسری 
۱۴۔مولوی حکیم محمد عالم امرتسری 
۱۵۔مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی 
۱۶۔شیخ ابوبکر توقیر مکی (جاری ہے)
 
Top