عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
شیخ سرہند
جمیل اطہر سرہندی
برصغیر پاک و ہند میں تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک روشن باب شیخ احمد سرہندی ملقب بہ مجدد الف ثانی (۱۵۶۴ئ… ۱۶۲۴ئ) سے منسوب ہے۔ مغل سلطنت نے جہاں برصغیر میں علوم و فنون اور بہت سے دوسرے ثقافتی اور تمدنی مظاہر کی بنا رکھی،وہاں علوم و افکار کے راستے اِلحاد و زندقہ کی راہ کو ہموار کرنے میں بھی اپنی سعی ٔ بد کو بروے کار لائے۔ نصیر الدین ہمایوں نے ایران سے واپسی پر مغل دربار میں ایک کشمکش کی بنا رکھی جو اس کے فرزند اکبر ؔکے عہد میں فتنہ و اِلحاد کے بامِ عروج تک پہنچ گئی۔ جلال الدین اکبر نے دین الٰہی کو ایجاد کیا۔ ملامبارک کے بیٹوں ابوالفضل اور فیضی نے توحید کے بعد نبوت کی ضرورت سے انکار کردیا۔ نبوت پر اعتراضات کی رو شِ بد کا آغاز کیا بلکہ مجلس میں ابوالفضل نے مجدد الف ِثانی کی موجودگی میں امام غزالی پر نامعقولیت کی پھبتی کسی۔ عبادات اور شعائر ِاسلام کو عقل کے خلاف ثابت کیا گیا۔ مساجدکو گرانے کا کام شروع ہوا اور عین شاہی محل میں ایک آتش خانہ تیار کرایا گیا جس میں خود اکبر بھی اپنے مخصوص عقائد کے مطابق عبادت کرتا تھا۔ اذان کی بجائے ناقو س اور صور پھونکے جانے لگے۔ ہندو علم الاصنام کے کرداروں برہما، مہاویر، شین، کشن وغیرہ کی تعظیم کی جانے لگی۔ سورج کی عبارت دن میں چار مرتبہ کی جانے لگی۔ اکبر خود سورج کے ایک ہزار ناموں کی مالا جپتا۔ اکبر کی تقلید میں تمام درباری داڑھی منڈانے کو خوبی تصور کرنے لگے۔ ماتھے میں قشقہ لگایا جاتا۔ آگ، پانی، درختوں اور دوسرے مظاہر فطرت کی پوجا ہونے لگی۔ خنزیر کے گوشت کو حلال اور کتوں کو متبرک سمجھا جانے لگا۔ گائے کا گوشت حرام اور اس کا پیشاب پوتر قرار پایا۔ سود، شراب اور قمار کی تمام شکلیں حلال تصور کی گئیں۔لے دے کے ایک کسر باقی رہ گئی اور اسے پورا کرنے کے لئے اکبر نے اپنی تعظیم میں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ لا إلہ الا إللہ أکبر خلیفۃ اللہ کا کلمہ دین الٰہی کی اساس اور بنیاد ٹھہرایا گیا۔ مختلف شعائر اسلام کی جس قدر توہین کی گئی، قلم اسے لکھتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ الغرض یہ وہ نازک دینی صورت حال تھی جس میں اکثر علمائِ سوء دین سے انحراف کو ذہنا قبول کرچکے تھے۔اس عالم میں اللہ تعالیٰ نے مجدد الف ِثانی کو اس فتنہ و الحاد کی سرکوبی کے لئے منتخب کیا، جن کی خدمات کے باعث علامہ اقبالؒ نے فرمایا : ؎