• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ علی حسین صاحب سلفی شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ بنارس انتقال کر گئے..

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
*ستارہ جو ٹوٹ گیا: استاد محترم شیخ علی حسین سلفی کا انتقال پر ملال.*

بقلم:مامون رشید ہارون رشید سلفی .

مجھے سیر و سوانح نگاری کا تجربہ تو نہیں ہے مگر دل رنجور کے ہاتھوں مجبور جذبات سے لبریز اپنے قلم کو روک نہ سکا اور یہ چند سطور آپ قارئین کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوا کیونکہ آج 23 جولائی 2020 کو 2:30 کو جب استاذ الاساتذہ مفتی جامعہ سلفیہ بنارس شیخ علی حسین صاحب سلفی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر کانوں سے ٹکرائی تو ایسا لگا جیسے غم و اندوہ کا پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑا ہو مصائب و آلام کا بادل آسمان سے چھوٹ پڑا ہو اور دنیا تاریک ہو گئی ہو اللہ شاہد ہے یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں اچھے اور مخلص اساتذہ کا ملنا بہت نادر امر ہے مگر جب کسی کو ایسے مخلص اساتذہ ملیں اور پھر وہ ان سے جدا ہو جائیں تو اس درد والم کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس طرح کی تکلیف سے دو چار ہوا ہے....

موت ایک اٹل اور کڑوی حقیقت ہے، ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے، جو بھی اس ارض زوال پذیر میں قدم رنجہ ہوا ہے اسے ایک دن یہاں سے کوچ بھی کرنا ہے، چاہے دنیا میں اس کی ضرورت شدید سے شدید اور اس کے چاہنے والے لا محدود ہی کیوں نہ ہوں مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی موت ایک امت کی موت تصور کی جاتی ہے اور جن کی کمی ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد بھی مل کر پوری نہیں کر سکتے...

ان یگانہ روزگار شخصیات میں سے ایک ہمارے استاذ عالی مقام مفتی جامعہ سلفیہ شیخ علی حسین صاحب کی ذات گرامی ہے.آپ رحمہ کی ولادت 23 جنوری 1952 عیسوی کو جھاڑ کھنڈ پاکوڑ کے گاؤں بڑا سرشاہ میں ہوئی ..

آپ رحمہ اللہ نے اپنی ابتدائی تعلیم 9 سال کی عمر میں دار العلوم سلفیہ بیر بھوم میں شروع کی اور وہیں مولوی تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عالمیت و فضیلت کی تعلیم تبلیغی مرکز کے مدرسہ کاشف العلوم میں حاصل کی مزید اکتساب فیض کے لیے سلفیت کے حصن حصین مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف رخت سفر باندھا اور وہاں کے اکابر علمائے اسلام سے کسب ضوء کرتے ہوئے سنہ 1981 میں فضیلت کی سند سے سرفراز ہوئے...

آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا اظہار الحسن کاندھلوی، مولانا عبید اللہ بلیاوی، مفتی جامعہ سلفیہ مولانا شمس الحق سلفی، مولانا ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبد الوحید رحمانی، مولانا عابد حسن رحمانی، مولانا، صفی الرحمن مبارک پوری، مولانا عبد السلام مدنی وغیرہم کے اسما قابل ذکر ہیں.

آپ رحمہ اللہ فراغت کے بعد 1981 عیسوی سے ہی جامعہ سلفیہ کی لائبریری میں رہتے تھے منتظیمن جامعہ نے آپ کی صلاحیت وصالحیت کو دیکھتے ہوئے 1985ء میں تدریسی خدمات انجام دینے کی پیشکش کی آپ نے اس پر لبیک کہا اور تب سے آج تک جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے آپ کے زیر تدریس عموما بخاری جلد ثانی فتح القدیر اور فتح المغیث وغیرہا کتابیں رہیں...

اپ انتہائی نیک،ملنسار، متواضع، علم دوست، علم حدیث وفقہ میں مہارت رکھنے والے خوش گفتار وصاف کردار شریف النفس انسان تھے علوم عقلیہ بالخصوص علم نحو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بارہا ایسا ہوتا تھا کہ عبارت خوانی میں طلبہ سے کسی قسم کی کوئی غلطی ہو جاتی تھی اور آپ اس کی تصحیح اور اس کے سلسلے میں معلومات فراہم کرنے میں پوری پوری گھنٹی ختم کر دیتے تھے آپ ہمیشہ ہم طلبہ کو "مغنی اللبیب" نامی نحو کی عظیم کتاب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے اور یہ افسوس ظاہر کرتے تھے کہ بالعموم طلبہ جامعہ اس فن میں کمزور ہیں...

شیخ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مدنی صاحب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد جامعہ تشریف لائے موصوف کو اپنی عربی دانی اور قواعد نحو میں دسترس رکھنے کا بڑا گمان تھا جب انہوں نے شیخ کو لائبریری میں دیکھا تو آپ پر اپنا دھونس جمانے لگے اور کسی نحوی مسئلے میں آپ سے الجھ بیٹھے شیخ نے انہیں حقیقی علم سے آگاہ کیا تو وہ دعوے پر دعوے کرنے لگے تب آپ نے شرح ملا جامی کھول کر اپنی بات کی دلیل فراہم کیا پھر کیا تھا موصوف پسپا ہو گئے...

شیخ کے تواضع کا ثبوت اس چیز سے بھی ملتا ہے کہ آپ سے جب کسی مسئلے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو اس کو سننے کے لیے طلبہ کی طرف جھک کر سائل کے منھ کے پاس اپنا کان لے جاتے اور سوال سننے کے بعد تشفی بخش جواب دے کر سائل کی علمی پیاس بجھاتے ...

شیخ ہمیشہ معمولی قسم کا سادہ لباس زیب تن کرتے تھے ہمارے ایک ساتھی نے ذکر کیا کہ جب وہ پہلی مرتبہ جامعہ پہنچے تو شیخ کو اول وہلہ میں دیکھ کر ایسا محسوس کیا کہ آپ جامعہ کا کوئی ملازم ہیں....

شیخ خیر کے کاموں میں ہمیشہ آگے رہتے تھے جامعہ میں ابھی "الجمعیۃ الخیریۃ" کے نام سے بالخصوص بہار وجھارکھنڈ، بنگال وآسام اور بالعموم کل ہند کے طلبہ کی جو تعاونی تنظیم ہے جس کے تحت جامعہ میں پڑھنے والے غریب قسم کے طلبہ کی مدد رسانی کا کام کیا جاتا ہے یہ تنظیم بھی آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے... اس تنظیم کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والے سالانہ پروگراموں میں آپ بالاہتمام شرکت فرماتے اور طلبہ کو مالی وفکری ہر طرح کے تعاون سے نوازتے...

مطلالعہ میں اس قدر انہماک تھا کہ گرد وپیش کے ماحول سے منقطع ہو کر لائبریری میں مکمل یکسوئی کے ساتھ مختلف کتب کی ورق گردانی میں مصروف رہتے اذان ہو جاتی لائبریری بند ہونے کا وقت ہو جاتا سارے طلبہ چلے جاتے لائٹیں آف دی جاتیں پھر بھی آپ کو احساس تک نہیں ہوتا اور آپ بدستور مطالعہ کتب میں مصروف رہتے... بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ ناشتے کے وقت جب سارے اساتذہ ناشتہ کرنے جاتے تو آپ اس وقت بھی دار الافتا میں بیٹھ کر مطالعہ میں مصروف رہتے...رات کا بھی یہی معمول ہوتا تھا دار الافتا یا اس سے متصل کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر اکیلے ہی رات دو بجے تین بجے تک مطالعہ کرتے رہتے کبھی کبھار ان کے صاحبزادے آکر دار الاقامہ لے جاتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہیں فرش پر لیٹے ہوئے فجر کی اذان ہو جاتی اور پھر نماز ادا کرنے کے بعد ہی دار الاقامۃ تشریف لے جاتے....

آپ کے صاحبزادے عبد الحلیم صاحب نے ایک مرتبہ اپنے والد کے سلسلے میں دیر رات تک گفتگو کرتے ہوئے ہم لوگوں سے کہا تھا کہ آپ دار الاقامۃ میں بھی اسی طرح مطالعہ میں مصروف رہتے تھے لیکن میں لائٹ آف کر کے ان سے کتاب لے لیتا اور سونے کی گزارش کرتا مگر آپ کہتے کہ نہیں تھوڑا رکو یہ مبحث ختم ہو جانے دو یہ مسئلہ ختم ہو جانے دو...مطلب یہ ہے کہ اگر ایسا کہیں کہ آپ کی مکمل زندگی ہی مطالعے میں گزری تو مبالغہ نہ ہوگا....

میں نے شیخ سے آپ کی تصانیف کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے متعدد کتابوں کا ذکر کیا جن میں تحقیق وتعلیق علی فتح المغیث، الربا وحرمتہ ، ترجمۃ النواب صدیق حسن خاں، رسالہ رفع الیدین، رسالہ آمین بالجہر، رسالہ نماز جنازہ کے اسما بروقت میرے ذہن میں موجود ہیں اس وقت ان چیزوں کو میں نے نوٹ کر لیا تھا مگر بد قسمتی سے وہ کاپی جامعہ میں رہ گئی...اس سلسلے میں بات کرتے دوران جب فتح المغیث کی تحقیق کا ذکر آیا تو میں نے کہا شیخ آپ کی اس تحقیق کو علمائے عرب نے بہت سراہا ہے شیخ عبد العزیز بن ابراہیم بن قاسم نے اپنی کتاب "الدلیل الی المتون العلمیۃ"صفحہ 241) کے اندر آپ کی تحقیق کو سب سے بہترین تحقیق قرار دیا ہے، اسی طرح موقع الدرر السنیہ کے رئیس عام شیخ علوی بن عبد القادر السقاف نے بھی آپ کی تحقیق کو سب سے معیاری تحقيق قرار دیا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ دیکھئے اللہ کو ایک نیک کام کروانا تھا سو میرے ذریعے اس کو انجام دیا اب تو کچھ نہیں کر پا رہا ہوں بخاری ہدایہ اور فتح القدیر جیسی کتابوں کی تدریس میرے سپرد کر دی گئی ہے اس وجہ سے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ ہی نہیں دے پاتا ہوں اوپر سے افتا کی ذمہ داری بھی میرے ہی سر ہے....


شیخ رحمہ اللہ کم گو انسان تھے مگر پھر بھی ہر ایک سے آپ کے مراسم خوش گوار تھے .... جامعہ سلفیہ میں مختلف اقسام کی فقہ رائج ہے مبارکپوری فقہ، البانی فقہ، سعودی نجدی جدید حنبلی فقہ اور قدیم اہل حدیث نذیر حسین محدث دہلوی وشمس الحق عظیم آبادی فقہ جس کے علم بردار شیخ رحمہ اللہ تھے اور بسا اوقات اساتذہ کی اپنی اپنی تحقیقات کی بنا پر اختلاف رائے پیدا ہونے کی وجہ سے جو اپسی تنازع پیدا ہو جاتا تھا اس میں آپ کبھی حصہ نہیں لیتے تھے... نہ آپ کلاس میں کسی استاد کے بارے میں کبھی کچھ کہتے تھے بلکہ ہمیشہ کتاب کا حق ادا کرنے اور طلبہ کو مطمئن کرنے میں لگے رہتے تھے...

قارئین علم وہنر کا یہ روشن سورج غروب ہو گیا مگر تلامذہ وکتب کی شکل میں آپ کے آثار اب بھی باقی ہیں اور تا دیر باقی رہیں گے شیخ کے بارے میں باتیں بہت پہلو دار ہیں کیونکہ آپ کی شخصیت ہی تہ دار اور گوں ناگوں اوصاف کا حامل ہے جس کے لیے مستقل تصانیف کی ضرورت ہے جس کی ذمہ داری آپ کے شاگران ضرور پوری کریں گے مگر اس جلد بازی میں میں انہیں باتوں پر اکتفا کرتا ہوں ...

اخیر میں دعا ہے کہ اللہ شیخ محترم کو جنۃ الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین.

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

آہ علم کا ایک اور آفتاب ڈوب گیا ۔

بہت ہی افسوس کے ساتھ اطلاع دی جا رہی ہے کہ آج بروز جمعرات 23 / جولائی بعد نماز ظہر سوا دو بجے دار الضیافہ کے فیملی کوارٹر میں جامعہ سلفیہ کے مفتی، نحو کے امام اور بخاری شریف کے استاذ ،میرے محسن ،مشفق و مربی، استاد محترم، شیخ الحديث جامعہ سلفیہ بنارس مولانا علی حسین سلفی بنغالی محقق کتاب" فتح المغیث للسخاوی رحمہ اللہ" کا انتقال ہوگیا ہے۔
انا لله وانا اليه راجعون
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه ووسع مدخله واكرم نزله وأدخله جنات النعيم

ستارے زمین کے بجھے جارہے ہیں
ہمارے اکابر اٹھے جا رہے ہیں

شیخ واقعی بہت ہی فاضل استاذ تھے آپ سے ہمیں بلا مبالغہ و بلا ناغہ بہت کچھ نحو ،حدیث،تاریخ،منطق ،اصول حدیث،فقہ و فتاوی' ،عربی نظم و نثر کی ترجمانی،عبارت کی تصحیح،بلاغت بہت کچھ سیکھنے کو ملا،یقین ہی نہیں ہوتا کہ استاد محترم کا انتقال ہوگیا ہے لیکن اللہ کے فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
مجھے ابھی بھی لگ رہا ہے کہ ابھی آپ سے "مجموعۃ من النظم والنثر " کتاب عالم اول (ب) کلاس میں بیٹھ کر پڑھ رہا ہوں یا آپ سے فضیلت اول کی کلاس میں بیٹھ کر موطا امام مالک رحمہ اللہ پڑھ رہا ہوں ،اور کبھی سوچتا ہوں کہ فضلیت ثالث کے روم میں آپ سے پہلی ہی گھنٹی میں صحیح بخاری جلد ثانی پڑھ رہا ہوں یا فضیلت ثالث ہی کی گھنٹیوں میں سے آخری گھنٹے میں آپ سے تاریخ التشریع الاسلامی اور"رحمۃ للعالمین پڑھ کر آخری گھنٹی میں بیٹھ کر آپ سے کچھ علمی باتیں کررہا ہوں۔
شیخ رحمہ اللہ نے "رحمۃ للعالمین" جو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر معروف و مشہور کتاب ہے،جس کے مؤلف قاضی سید سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ہیں آپ کی کتاب فضیلت ثالث میں ہم لوگوں کے زیر مطالعہ تھی ،آپ نے ہمیں سو میں پورے سو نمبر دیے جو کہ میرے لیے فضیلت ثالث میں میرے لیے ایک امتیازی نمبر تھا اس فن میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی کے گوشہ سے تعلق رکھتا تھا۔
شیخ کبھی ناراض نہیں ہوتے میں نے ایک مضمون لیا تھا اسی دوران تو شیخ نے میری کافی مدد کی تھی " صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین تفسیری اختلافات اور اس کی حقیقت" جو میرے نام سے 2014ء جامعہ سلفیہ بنارس کے سالانہ مجلہ "المنار" کے بالکل شروع ہی میں چھپا ہوا ہے اس پر شیخ نے نظر ثانی کا فریضہ انجام دیا تھا۔
ہم اس نظر ثانی پر بھی استاد محترم شیخ علی حسین سلفی رحمہ اللہ کے ممنون ہیں ۔
شیخ نے عالمیت ثانی کے مقالے میں بھی میرا علمی تعاون کیا جسے میں بھلا نہیں سکتا، میرے مقالے کا عنوان تھا "خدمت حدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی پندرہویں صدی ہجری میں" اس مقالے کی تکمیل پر میں ابھی بھی شیخ کے علمی،وقلمی تعاون کو بھول نہیں سکتا جہاں بھی مجھے عربی عبارت وکے سمجھنے میں دشواریاں ہوئیں میں نے آپ سے بلا جھجک پوچھا اور آپ نے اپنی مصروفیات کے باوجود بھی ہمیں پورا پورا وقت دیا اور کبھی ناراض نہیں ہوئے کیونکہ آپ کی صلاحیت کا مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ جو آپ بتا سکتے اور رہنمائی کرسکتے ہیں شاید دوسرے اساتذہ اتنی بہتر جانکاری نہ دے سکیں ۔
آپ سے میں کبھی لائیبریری ہی میں کسی بہانے سے گھنٹی چھوڑ کر بھی مل لیتا بھلے ایک دن کسی اور درس سے غائب ہوجاؤں وہ مجھے منظور رہتا تھا مگر پوچھنے کا موقع تفصیل سے آج کے اس دور میں گھر میں تو ملے گا نہیں تو پھر وہی لائیبریری یا کلاس ہی تھا ۔
آپ کی عادت تھی کہ آپ فضیلت ثالث کے طلبہ کی حاضری لینے اور رجسٹر مینٹین کرنے کے لیے کہتے رہتے جس میں ہم طلبہ اپنی حاضری درج کراتے اور کبھی کوئی طالب علم تاخیر کرجائے تب بھی شیخ اسے کلاس میں بیٹھنے دیتے ،شاید کہ ایسا فضیلت ثالث کی کلاس میں دیکھا ورنہ عالم اول میں تو شیخ کلاس میں اور سخت رہتے تھے،اچھے اچھوں کی عبارت خوانی داؤں پر لگ جاتی تھی،ہم پہلے پہلے کے طلبہ بتاتے ہیں کہ شیخ کے یہاں نحوی غلطی معاف نہیں ہوتی ،غلط عبارت خوانی پر مرغا بننا تو طے رہتا تھا۔

شیخ طلبہ کے لیے بہت فکر مند بھی رہتے تھے کہ عالم اول میں پہونچ گیے اور عبارت میں بھی غلطیاں یعنی ایسا ابتدائی درجات میں ہو تو چلے مگر عالمیت کے مرحلہ میں کچھ تو ذہن نحو اور عبارت کا ترجمہ،یا نحوی ترکیب تو آنی ہی چاہیے۔

لھذا ہم آپ کے لئے دعاگو ہیں اور آپ کی موت پر ہمیں یقین ہے یقین اب کیوں نہ کروں کیونکہ ہمیں موت پر یقین ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہر نفس کو قبر میں داخل ہونا ہی ہے ،جب اس موت نے انبیاء ورسل کی جماعت کو نہیں چھوڑا تو ائمہ و صلحاء کی جماعت کب اور کیوں اس موت سے محفوظ اور بچ پائے گی ۔؟
تاہم کیا لکھوں مجھ سے تو ابھی اس وقت لکھا بھی نہیں جارہا ہے سوائے" إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا شيخنا لمحزونون"

پھر بھی لکھنے کی کوشش کررہا ہوں ۔
آپ کی پیدائش 23/جنوری 1952ء بمطابق 20/07/1371 ہجری میں پاکوڑ ضلع کے ایک گاؤں بڑشرشاہ میں ہوئی تھی ،ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ سلفیہ کا قصد کیا اور اپنی محنت کی وجہ سے جامعہ میں شہرت پائی اور فراغت کے بعد سے تاحال تدریس کے منصب پر فائز رہے اور اس کے علاوہ جامعہ کے تعلیمی کمیٹی کے رکن بھی تھے اور افتاء کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

آپ کی وفات نہ صرف جماعت وجامعہ سلفیہ بنارس بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے ۔
آپ کی تالیفات یہ ہیں:

(1) آپ کی تحقیق شدہ کتاب "فتح المغیث للسخاوی " کافی معروف ومتداول ہے اور اس کے کئی ایڈیشن عرب ممالک سے چھپے ہوئے ہیں جو آپ نے اپنی محنت شاقہ اور لگن سے دس سالوں کے عرصہ میں تیار کیا تھا اس کتاب کی تحقیق وتعلیق چار جلدوں میں آپ نے کی جو کم و بیش دو ہزار صفحات پر مشتمل ہیں اور فتح المغیث للسخاوی کے تمام نسخوں میں شیخ کی تحقیق وتعلیق سب سے معتبر ومستند ہے ۔
اس کے علاوہ شیخ کی اور بھی تالیفیات ہیں :

(2)العلامہ نواب صدیق حسن خان البھوفالی حیاتہ وآثارہ عربی میں تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے جو ابھی غیر مطبوع ہے۔
(3) نقض المنطق ،مولانا ابوالعاص وحیدی حفظہ اللہ کا مقالہ اس کی تعریب ،یہ کتاب چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔
(4) عنایۃ علماء اہل الحدیث بمسئلۃ التوحید،یہ کتاب در اصل ہدایۃ المستفید شرح کتاب التوحید کے اردو مقدمہ کی تعریب ہے جو طبع شدہ ہے۔
(5) اعجاز القرآن مؤلف مولانا مجیب الرحمٰن بنگلہ دیشی بزبان بنگلہ کا اردو ترجمہ جو جامعہ سلفیہ کے طلبہ کے تعاون اور شیخ کی تصحیح سے مطبوع ہے۔
(6) رسالہ رفع الیدین
(7) رسالہ آمین بالجہر
(8) رسالہ نماز جنازہ
(9) منہج سلف
(10) اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے یا عرش و فرش دونوں پر،یہ کتاب ایک ماتریدی،بدعتی کا جواب ہے۔
(11) سود اسلام کی نظر میں
(12) فتاویٰ جو جامعہ سلفیہ کے دار الافتاء کے رجسٹر میں محفوظ ہیں۔

استاد محترم نے اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے
جن کے اسماء یہ ہیں :
جمیلہ خاتون ،نبیلہ خاتون،فضیلۃ خاتون،سعدیہ خاتون،حلیمہ خاتون ،علیمہ خاتون اور دو بیٹے حافظ عبدالحلیم و عبدالعلیم کو چھوڑا،جن میں بالترتیب چار لڑکیاں شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

واقعی اس سال کو "عام الحزن" غم کا سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ،کیونکہ یکے بعد دیگرے معتبر علماء کرام کی وفات،اکابر و علمی شخصیات کا دنیا سے رخصت ہوجانا،ایک طرف علمی خسارہ وہیں دوسری طرف کرونا کیسی مصیبت سے جانی و مالی خسارہ ،یقینا غم و اداسی کے بادل ہم پر ہر وقت منڈلا رہے ہیں۔

پھر بھی جب ہزاروں غم پر صبر کرلیے ہیں تو اس غم کو بھی ہمیں کو برداشت کرنا پڑے گا واقعی یہ ایسا غم ہے کہ پورے ملک و جماعتی حلقوں میں سناٹا سا چھا ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے تعزیتی کلمات آنے لگے ،شیخ علی حسین سلفی رحمہ اللہ کی وفات پر جہاں پورا ملک رنج و الم میں ہے وہیں ہم سب فارغین جامعہ سلفیہ بنارس قدیم وجدید سبھی آپ کے لئے دعاگو بھی ہیں کہ اللہ آپ کی بشری خطاؤں کو درگزر فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے،اور آپ کی قبر کو نور سے بھر دے اور ہم سب فارغین جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم اور آپ کے قدیم وجدید شاگردوں و جملہ مستفیدین کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے،اور آپ کی دینی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور جامعہ سلفیہ بنارس کو آپ کا نعم البدل عطاء فرمائے آمین یارب العالمین

غمزدہ : افروز عالم ذکراللہ سلفی،گلری،ممبئی
7379499848
23/07/2020

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

ترجمة مختصرة لشيخنا علي حسين السلفي رحمه الله تعالى

بقلم ___________ هلال النيبالي

اسمه و نسبه

هو الشيخ العلامة، النحوي، اللغوي، الأصولي، أبو جملية علي حسين بن علي جان بن عالم ميان بن بوجن ميان الكاشفي السلفي، شيخ الحديث والفقه و الفتوى بالجامعة السلفية ببنارس الهند، أحد أعلام الحديث والفقه والنحو في شبه القارة الهندية. رحمه الله تعالى

ولادته ونشأته وتعليمه

ولد شيخنا بقرية أجداده " بَرا سر شاه" مديرية " باكَوْر" ولاية " جهاركهند" بتاريخ ٢٣ من شهر يناير عام ١٩٥٢م ، نشأ وترعرع في قريته، وأخذ علمه الابتدائي في مدارس قريته، ثم ذهب إلى مدرسة كاشف العلوم بدهلي الهند، وتخرج فيها عام ١٩٧٦م.
ثم ارتحل إلى قلعة العلم و بستان المعرفة " الجامعة السلفية بنارس الهند " والتحق بها عام ١٩٧٦م، مكث متعلما في رحابها ٥ سنوات دراسية وتشرف بحصول شهادة التخرج عام ١٩٨١م.

تدريسه

التحق شيخنا كمدرس بالجامعة السلفية بعد تخرجه منها عام ١٩٨١م و قضى حياته كلها في رحاب الجامعة قائما بالمسؤوليات التعليمية والتدريسية و التحقيقية والدعوية إلى أن وافته المنية. رحمه الله تعالى

مشايخه

لقد تلقى العلم على أيدي الكبار من اهل العلم والفضل، هذه أسماء أبرز مشايخه ممن درس عليه.

١. الشيخ علاء الدين، استاذه في الابتدائية.

٢. الشيخ عبيد الله البلياوي
٣. الشيخ إظهار الحق الكاندهلوي
٤. الشيخ محمد الياس باره بنكوي
هؤلاء مشايخه في دهلي بمدرسة كاشف العلوم.

٥. شيخ الحديث شمس الحق السلفي
٦. المحدث رئيس الأحرار الندوي
٧. جامع المعقول والمنقول العلامة محمد إدريس آزاد الرحماني
٨. الأديب الاريب العلامة مقتدى حسن الأزهري
٩. شيخ الحديث عبد السلام المدني

رحمهم الله هؤلاء مشايخه في الجامعة السلفية.

تلاميذه
لقد درس على الشيخ عدد كبير وخلق كثير من طلبة العلم، عددهم يفوق الحصر، لكن من ابرزهم:

١. د. عبدالحليم المدني، أستاذ بالجامعة السلفية.
٢. د. عبدالصبور المدني ، مدرس بالجامعة السلفية.
٣. د. حشر الدين المدني
٤. د. فوزان الأزهري
٥. الشيخ المؤرخ عبدالحكيم عبدالمعبود المدني
٦. عبدالمتين المدني
٧. الأخ الفاضل محفوظ الرحمن السلفي ( امين المكتبة المركزية بالجامعة)
٨. هلال أحمد النيبالي (العبد الفقير كاتب هذه السطور)

صفاته وأخلاقه

كان متوسط القامة، خفيف اللحية ، و لون بشرته وجهه كان ابيضا مائلا إلى الحمرة.

وكان رجلا خلوقا فاضلا نبيلا، رقيق القلب و رفيقا على تلاميذه و نعم المربي ونعم الأستاذ.
ويمتاز بالتواضع الجم مع طلابه و قاصديه، لا يمل جليسه من حديثه،
ومجالسه مع طلابه كانت ممتلئة بالدرر والفوائد في الحديث والفقه واللغة والنحو.

جهوده التأليف

شيخنا علي حسين كان له دور بارز في مجال التحقيق والتاليف و التعريب، فقد خلف تراثا علميا ضخمة ومن أبرزها:

١. فتح المغيث بشرح ألفية الحديث ، تحقيق وتعليق
الكتاب مطبوع ومتدوال، لقد تجشم شيخنا مشاقا كثيرا في سبيل تحقيقه وقد أخبرني في لقاء معه في مؤتمر الخريجين " انه عصارة حياتي"
وقد أثنى عليه غير واحد من اهل العلم.

٢. العلامة نواب صديق حسن خان البهوفالي حياته وآثاره ( باللغة العربية غير مطبوع)
٣. نقض المنطق للشيخ ابو العاص الوحيدي حفظه الله، (تعريب)
٤. عناية علماء أهل الحديث بمسئلة التوحيد ( تعريب مطبوع)
ه. اعجاز القرآن للشيخ مجيب الرحمن البنجلاديشي ( باللغة الأردية ،تصحيح و تعليق)
٦. جائزة الأخوي في التعليقات على سنن الترمذي : تأليف الشيخ ثناء الله المدني. ( تحقيق وتعليق وتصحيح بمشاركة مع الشيخ عبدالوهاب الحجازي حفظه الله)

للشيخ مقالات أخرى وفتاوى كثيرة في مجالات مختلفة و موضوعات شتى في الحديث والفقه.....نشرت في مجلة الجامعة السلفية وغيرها من المجلات

وفاته
تؤفي شيخنا يوم الخميس الساعة إثنين ظهرا بتوقيت الهند، في مدينة بنارس، بتاريخ اليوم ٢ ذو الحجة ١٤٤١هـ - ٢٣ يوليو ٢٠٢٠م.

انا لله وانا اليه راجعون

صلتي بالشيخ

تشرفت بملازمة شيخنا و الاستفادة من علمه الغزير أثناء التلمذة عليه في الجامعة السلفية، وقد قرأت عليه كتاب " مجموعة من النظم والنثر" وكما من الله علي بالحضور في مجالسه الحديثية والفقهية بحيث اخذت عنه من الكتب الحديث: صحيح البخاري جزء ثاني، ومؤطا امام مالك، ومن كتب الفقه: " بداية المجتهد".

لقد تأثرت بالشيخ بخلقه الكريم و تواضعه في المسكن والملبس، و علمه الغزير واطلاعه الواسع.

ان وفاته تعتبر خسارة فادحة لعالم العلم وأهله و لاسيما لجماعة السلفية وأهل الحديث بشبه القارة الهندية.

فرحمه الله رحمة واسعة

كتبه تلميذه
هلال النيبالي
٢ ذو الحجة ١٤٤١هـ
مكة المكرمة

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

آہ حضرۃ الأستاذ شیخ علی حسین صاحب سلفی رحمہ اللہ! (1952-2020ء)

____________________

تحریر : عبدالغفار سلفی، بنارس

اس دنیائے آب وگل میں بھلا کس کو دوام ہے، یہاں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے، یہاں سب کو فنا ہے، ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے، اور جب موت کا پروانہ آتا ہے تو یہ پوچھ کر نہیں آتا کہ مرنے والے سے دنیا کو کیا فیض پہنچ رہا تھا اور دنیا کو کس قدر اس کی ضرورت واحتیاج تھی، موت آتی ہے اور ہم سے ہمارے جگر پارے چھین لیتی ہے ، یہی دنیائے فانی کی حقیقت ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہے.

دل ودماغ اس خبر کو سننے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے کہ استاذ محترم شیخ علی حسین صاحب سلفی رحمہ اللہ اب ہمارے بیچ نہیں رہے، کل (23 جولائی 2020) کو جب دوپہر میں یہ خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تو ایک لمحے کو لگا کہ یہ افواہ ہے، شیخ بیمار تو رہتے ہی تھے، مختلف عوارض مدت سے ان کی جان کو لگے تھے مگر وفات ہو جائے گی ایسا گمان بھی نہیں تھا، ابھی ہفتہ عشرہ قبل شیخ سے فون پر گفتگو ہوئی تھی، گفتگو میں وہی ملائمت، وہی مشفقانہ رویہ، وہی مربیانہ انداز، افسوس آج ہم تمام شاگرد ایک عظیم استاذ ومربی سے محروم ہو گئے. انا للہ وانا الیہ راجعون، اللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله.

ہماری جماعتی زندگی کا یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے درمیان جب عظیم علمی ہستیاں موجود ہوتی ہیں تو ہم ان کی قدر نہیں کرتے، ان کی زندگیوں میں نہ تو ہم ان سے کما حقہ استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے مسائل وکوائف سے کبھی کوئی واسطہ رکھتے ہیں، البتہ موت کے بعد ان کی عظمت میں خوب قصیدے پڑھتے ہیں، ان کی خوبیوں کے ڈنکے بجاتے ہیں، ان کی خدمات کو خوب خراج تحسین پیش کرتے ہیں. بات کڑوی ہے پر سچ ہے اور اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں. کتنے قیمتی گوہر پارے ہیں جو پوری زندگی کسمپرسی میں گزار دیتے ہیں اور جب وہ اس سرائے فانی سے کوچ کر جاتے ہیں تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیسے نگینے کھو دیے .

استاذ محترم رحمہ اللہ کو رب تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ افہام وتفہیم کی اعلیٰ ترین صلاحیت سے نوازا تھا بلکہ آپ اپنی مستقل مزاجی، فرض شناسی، تقوی شعاری، اخلاق کریمانہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے. درسگاہوں میں پڑھانے والے ہزاروں ہوتے ہیں، مگر ان میں کچھ ہی وہ ہوتے ہیں جو تدریس کو محض ایک پیشہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک فرض اور خدمت کی حیثیت سے نبھاتے ہیں، وہ شاگردوں کے ساتھ اولاد جیسا رویہ رکھتے ہیں، وہ طلبہ کے سوال پر برافروختہ نہیں ہوتے بلکہ ان کی مشکلات کے حل کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں. ہمارے یہ استاذِ جلیل بھی انہیں مثالی اساتذہ میں سے ایک تھے.

کسے خبر تھی کہ جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی یہ شخصیت ایک دن سلفیان ہند کی مرکزی درسگاہ میں افتا کے وقیع منصب پر فائز ہوگی، ایک کمسن نوجوان اپنی جوانی کے ایام میں "فتح المغيث بشرح الفیۃ الحدیث" کی شکل میں ایسی داد تحقیق دے گا کہ عرب وعجم اس کے قائل ہو جائیں گے. اور ان سب پر مستزاد یہ کہ عظیم علمی رتبے پر فائز ہونے کے باوجود طبیعت میں ذرہ برابر کوئی تکبر و غرور کا شائبہ نہیں، وہی انکساری، وہی تواضع، وہی ملنساری جو اہل علم کا شیوہ ہوا کرتی ہے.

تدریس بجائے خود بہت بڑی ذمہ داری ہے، بالخصوص جب آپ حدیث، فقہ، ادب جیسے اہم فنون پڑھا رہے ہوں. استاذ محترم نے چالیس سال کا طویل تدریسی دورانیہ جامعہ میں گزارا ، اس دوران ہزاروں شاگردوں نے آپ سے کسبِ فیض کیا اور آج بحمد اللہ ان میں سے ہر ایک اس بات کا قائل ہے کہ آپ نے جس کتاب کی بھی تدریس فرمائی اس کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا. ثانویہ ثانیہ میں استاذ محترم نے ہمیں منطق جیسا مشکل مادہ پڑھایا مگر اپنے مخصوص افہامی انداز میں اسے بالکل سہل کر ڈالا. بعد میں فضیلت میں حدیث کی اہم کتاب موطا امام مالک آپ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا. گھنٹوں آپ لائبریری میں بیٹھے رہتے اور ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ کلاس میں حاضر ہوتے، کبھی کوئی مبحث اگر شاگردوں کو نہیں سمجھ میں آیا تو جب تک اسے حل نہ فرما دیتے آگے نہ بڑھتے.. یہی وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے آپ کو ایک مثالی استاذ بنایا.

تدریس کے علاوہ لکھنے پڑھنے کے مشاغل ہمیشہ جاری رہے، آنکھیں کمزور ہو گئیں، جسم بیماریوں کا گھر بن گیا مگر جب کبھی استاذ محترم سے ملنے جانا ہوا ہمیشہ ان کو کتابوں کے درمیان پایا. علامہ رئیس احمد ندوی، شیخ عبدالسلام مدنی رحمہما اللہ کے بعد جامعہ میں بساطِ علم حدیث کو آپ ہی نے سنبھالا. افتا کے امور کی بھی نگرانی فرماتے، جامعہ کے تمام فتاوے آپ کی نظر ثانی کے بعد ہی صادر ہوتے، ان میں سے ایک بڑی تعداد میں ایسے فتاوے بھی تھے جنہیں آپ نے خود قلمبند کیا، ممکن ہے بعد میں ان کی اشاعت کی کوئی صورت بنے.

کورونا کے اس وبائی دور میں ہم روز بروز اپنے اکابر علماء کو کھو رہے ہیں، برصغیر میں بڑے پیمانے پر علماء ربانی ہم سے جدا ہوئے ہیں اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، اس اعتبار سے یہ ہوری امت کے لیے بڑا آزمائشی دور ہے، اس دور قحط الرجال میں یہی وہ ہستیاں تھیں جن سے علم کا وقار اور شان باقی تھی، اب وہ بھی ایک ایک کر کے ہمیں داغ مفارقت دے رہے ہیں، اس مصیبت پر ہم اس کے علاوہ اور کیا دعا کر سکتے ہیں کہ رب العالمين اپنے ان نیک بندوں کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے. ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین

.
 
Top