شیخ البانی کے قریبی شاگرد، اور اس دور کے ایک عظیم محدث، جو شیخ ربیع المدخلی کے بھی استاد ہیں، شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ کا فتوی بھی سن لیں!
ایک یمنی طالب علم نے شیخ عبد المحسن العباد سے بزریعہ فون موجودہ دور کی جرح وتعدیل کے بارے میں پوچھا، تو شیخ نے جواب دیا:
"۔۔۔ آج کل کے دور میں جرح و تعدیل کے جگھڑے میں پڑنا اور لوگوں کو چھانٹنا اور کہنا کہ فلان ایسا ہے یا فلان کے خلاف نصیحت کی گئی ہے یا فلان کو ترک کر دیا گیا ہے، یا فلان جس نے جرح و تعدیل کی ہے وہ اس کا اہل نہیں ہے اور وہ اہل الجرح والتعدیل میں سے نہیں ہے، یقینا یہ سب باتیں صحیح نہیں ہیں۔
ہر شخص کو علم میں مشغول ہونا چاہیے نہ کہ لوگوں کو ترک کرنے میں اور ان کے خلاف بولنے میں۔
ہاں، اگر کوئی شخص اپنے شر کی وجہ سے جانا جاتا ہو تو اس کے خلاف نصیحت کرنی چاہیے اور یہ کتاب سے ثابت ہے۔
لیکن ایسا شخص جو اہل السنہ میں سے ہے تو اس کی غلطیاں تلاش کرنا، اس کے خلاف نصیحت کرنا، اور اپنا سارا وقت اس پر کلام کرنے میں صرف کرنا، ایسا کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی یہ صحیح ہے۔
جرح و تعدیل تو اصل میں عدالتوں میں ہونی چاہیے کیونکہ وہاں شاہد اور داعی کو کسی نہ کسی کی توثیق کرنی ہوتی ہے اور دوسرا ان پر جرح کرتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ میں اس کی شہادت کو نہیں مانتا کیونکہ اس میں فلان خامی ہے۔ جرح و تعدیل عدالتوں میں ہوتی ہے۔
لیکن جہاں تک آج کل کے دور میں جرح و تعدیل میں پڑ کر لوگوں کو ترک کرنے اور ان کے خلاف بولنے کا معاملہ ہے تو یہ واپس اسی شخص کی طرف لوٹ جاتا ہے جس نے اسے شروع کیا ہو۔
بندہ کو تو اچھے اعمال کی ضرورت ہے اور اس کے اچھے اعمال کوئی ایسا بوجھ نہیں جسے دوسرے کی طرف منتقل کیا جا سکے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔" (صحیح مسلم: 6251)
آجکل کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے زریعے اللہ نے کہی لوگوں کو نفع پہنچایا اور وہ دن رات لوگوں کو دعوت میں مصروف رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض لوگ ان کے خلاف بُرا بھلا کہتے ہیں اور جرح و تعدیل کے سائے تلے ان کو مجروح کرتے ہیں۔ اصل میں ایسا شخص صرف اپنے آپ سے ہی ناانصافی کر رہا ہے اور اس کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچا رہا ہے۔۔۔
مکمل فتوی ۔۔۔
نیز دیکھیں: