- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
شیخ محمد صبحی حسن حلاق بھی چل بسے !
شیخ صبحی حسن حلاق کا نام پہلی بار پتہ نہیں کب سنا ؟ یا ان کی پہلی علمی کاوش کب نظر نواز ہوئی ؟ البتہ اتنا یاد ہے کہ آج سے تقریبا 6 سال پہلے جامعہ اسلامیہ میں پاکستانی طلبہ کے ایک اجتماع میں ، میرے ہم کمرہ محترم شفقت الرحمن صاحب کو ایک اردو کتاب بطور انعام ملی تھی ، دار السلام سے اردو ترجمہ کے بعد مطبوع اس کتاب کا نام تھا ’ فقہ کتاب وسنت ‘ ، کتاب پر جب مصنف کا نام دیکھا ، تو اجنبی محسوس نہیں ہوا ، بلکہ ایسے لگا کہ یہ کوئی معروف عالم دیں ہیں ، جن کا تعارف پہلے سے ہی ہے ۔
تعارف کیا تھا ؟ کیسے ہوا ؟ اس حوالے سے بہر صورت ذہن پر زور دینے کے باوجود کوئی بات یاد نہیں آئی ۔
ابھی کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے علم ہوا کہ شیخ صبحی وفات پا چکے ہیں۔
علماء کے ساتھ اظہار محبت ، اور ان کی خدمات پر تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے حالات زندگی لکھے جائیں ، ان کی حسنات کا تذکرہ کیا جائے ، علوم و فنون کے لیے ان کی کوشش و کاوشوں سے دیگر لوگوں کو متعارف کروایا جائے ۔
قریبا تین سال پہلے اہل حدیث کے نامور محقق و عالم دین حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ وفات پاگئے ، نوجوان ان سے بڑی محبت کرتے تھے ، کئی علماء بھی ان کی خدمات کے بہت معترف نظر آتے تھے ، کئی اہل علم کو ان سے کچھ شکوے بھی تھے ، بہر صورت یہ بات مسلم ہے کہ ان کے رسالہ الحدیث اور دیگر تحقیقی کتب نے بے زبانوں کو زبان دے دی تھی ، ان کا اندازہ خالص تحقیقی اور علمی ہوتا تھا ، لمبی چوڑی عبارت آرائی کرنے کی بجائے ، مختصر مگر جامع رقم فرمایا کرتے تھے ۔ طبیعت میں ذرا سختی تھی ، صاف گو تھے ، اور ہر مسئلہ میں اپنی ایک ’ تحقیق ‘ رکھتے تھے ، اس لیے بہت سارے لوگ ان سے حق یا ناحق نالاں بھی رہا کرتے تھے ، زندگی کا اکثر حصہ اسلام اور مسلک اہل حدیث کی خدمت اور باطل افکار و نظریات کی تردید میں گزرا ، وفات ہوئی ، گنتی کی چند تحریریں ان کے حوالے سے لکھی گئیں ، جس طرح اس محقق عالم دین کو خراج تحسین متوقع تھا ، وہ منظر عام پر نہ آسکا ۔ خیر یہ الگ موضوع ہے ۔
شیخ صبحی حسن حلاق پر بھی ہمارے اردو دان طبقہ کی طرف سے خاموشی ہی نظر آئی ، اس میں زیادہ کوتاہی ہمارے جیسوں کی طرف سے ہی ہے ، جو عربی ممالک میں رہتے ہیں ، جہاں شیخ کے متعلق معلومات کا حصول زیادہ آسان ہے ۔
اسی کمی و کوتاہی کا احساس ، شیخ کے متعلق لکھی گئی کچھ عربی تحریروں کو اردو پیرائے میں منتقل کرنے کا سبب بنا ، جو کہ ذیل میں پیش خدمت ہے :
مولد و مسکن :تعارف کیا تھا ؟ کیسے ہوا ؟ اس حوالے سے بہر صورت ذہن پر زور دینے کے باوجود کوئی بات یاد نہیں آئی ۔
ابھی کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے علم ہوا کہ شیخ صبحی وفات پا چکے ہیں۔
علماء کے ساتھ اظہار محبت ، اور ان کی خدمات پر تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے حالات زندگی لکھے جائیں ، ان کی حسنات کا تذکرہ کیا جائے ، علوم و فنون کے لیے ان کی کوشش و کاوشوں سے دیگر لوگوں کو متعارف کروایا جائے ۔
قریبا تین سال پہلے اہل حدیث کے نامور محقق و عالم دین حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ وفات پاگئے ، نوجوان ان سے بڑی محبت کرتے تھے ، کئی علماء بھی ان کی خدمات کے بہت معترف نظر آتے تھے ، کئی اہل علم کو ان سے کچھ شکوے بھی تھے ، بہر صورت یہ بات مسلم ہے کہ ان کے رسالہ الحدیث اور دیگر تحقیقی کتب نے بے زبانوں کو زبان دے دی تھی ، ان کا اندازہ خالص تحقیقی اور علمی ہوتا تھا ، لمبی چوڑی عبارت آرائی کرنے کی بجائے ، مختصر مگر جامع رقم فرمایا کرتے تھے ۔ طبیعت میں ذرا سختی تھی ، صاف گو تھے ، اور ہر مسئلہ میں اپنی ایک ’ تحقیق ‘ رکھتے تھے ، اس لیے بہت سارے لوگ ان سے حق یا ناحق نالاں بھی رہا کرتے تھے ، زندگی کا اکثر حصہ اسلام اور مسلک اہل حدیث کی خدمت اور باطل افکار و نظریات کی تردید میں گزرا ، وفات ہوئی ، گنتی کی چند تحریریں ان کے حوالے سے لکھی گئیں ، جس طرح اس محقق عالم دین کو خراج تحسین متوقع تھا ، وہ منظر عام پر نہ آسکا ۔ خیر یہ الگ موضوع ہے ۔
شیخ صبحی حسن حلاق پر بھی ہمارے اردو دان طبقہ کی طرف سے خاموشی ہی نظر آئی ، اس میں زیادہ کوتاہی ہمارے جیسوں کی طرف سے ہی ہے ، جو عربی ممالک میں رہتے ہیں ، جہاں شیخ کے متعلق معلومات کا حصول زیادہ آسان ہے ۔
اسی کمی و کوتاہی کا احساس ، شیخ کے متعلق لکھی گئی کچھ عربی تحریروں کو اردو پیرائے میں منتقل کرنے کا سبب بنا ، جو کہ ذیل میں پیش خدمت ہے :
شیخ شام ( سوریا ) کے علاقے ’ حلب ‘ میں 1372ہ بمطابق 1954ء کو پیدا ہوئے ، گھریلو ماحول اسلامی تھا ، بچپن سے شرعی تعلیم و تربیت میسر آئی ، قرآن مجید کی تعلیم مستند قراء کرام سے حاصل کی ، اسی طرح عقیدہ ، حدیث ، تفسیر فقہ وغیرہ کی تعلیم بھی حاصل کی ، اور اس وقت شام کے شہروں ، حلب ، حماۃ اور دمشق وغیرہ میں موجود کئی ایک اہل علم سے استفادہ کیا ۔ بعد میں سن 1981ء میں عمرہ و حج کی غرض سے بلاد حرمین آئے ، اور ہاں سے واپس شام جانے کی بجائے ، یمن کو اپنا مستقر بنالیا اور تادم حيات یہیں رہے ۔
اہل علم سے کسب فیض :اہل شام میں سے جن معروف شخصیات سے آپ نے علم حاصل کیا ، ان میں محقق شہیر دکتور نور الدین عتر، معروف حنفی عالم دین شیخ ابو غدہ ، محمد رمضان البوطی ( صاحب فقہ السیرۃ ) ، اور علامہ محمد ہاشم مجذوب ( جو کہ شافعی صغیر کے لقب سے معروف تھے ) کے نام نمایاں ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی کئی ایک حنفی ، شافعی ، اور عقیدہ میں اشعری علماء سے انہوں نے مختلف علوم و فنون میں کسب فیض کیا ، لیکن خود خالص سلفی ، اور متبع کتاب وسنت تھے ، اس لیے اپنے ان اساتذہ کرام سے بصد ادب اختلاف کرتے رہے ، اور کسی بھی عالم دین کے غلط عقیدہ یا منحرف فکر سے متاثر نہیں ہوئے ۔
وقت کے کئی ایک معروف اہل علم سے ملاقاتیں بھی کیں ، اور ان سے مسائل کی تحقیق میں استفادہ کیا ، شیخ البانی رحمہ اللہ سے ان کی کئی بار ملاقات ہوئی ، ایک بار اردن میں ان سے ملے ، شیخ نے ان کی الروضۃ الندیۃ کی تحقیق کی تعریف کی ، اور انہیں اس مبارک سلسلے کو جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی ۔
شیخ صبحی کی داڑھی بمطابق سنت طویل تھی ، جبکہ شیخ البانی کا موقف ایک قبضہ سے زائد کاٹنے کا رہا ، اس موضوع پر دونوں کے درمیان علمی نشست بھی ہوئی ۔
یمن میں علامہ مقبل بن ہادی الوادعی کے ساتھ چند ملاقاتیں ہوئیں ، جن میں شیخ مقبل کی بعض کتب زیر بحث آئیں ، اسی طرح مدینہ میں شیخ عبد المحسن عباد صاحب سے ملے ، اور ان کی بعض کتابوں کے متعلق رہنمائی لی ۔ محدث مدینہ شیخ حماد انصاری رحمہ اللہ سے بھی انہیں شرف ملاقات حاصل ہوا ، جس میں اسلامی کتب کی تحقیق کا منہج اور اسلوب زیر بحث رہا ۔
دعوتی ، تبلیغی و تدریسی سر گرمیاں :اس کے علاوہ بھی کئی ایک حنفی ، شافعی ، اور عقیدہ میں اشعری علماء سے انہوں نے مختلف علوم و فنون میں کسب فیض کیا ، لیکن خود خالص سلفی ، اور متبع کتاب وسنت تھے ، اس لیے اپنے ان اساتذہ کرام سے بصد ادب اختلاف کرتے رہے ، اور کسی بھی عالم دین کے غلط عقیدہ یا منحرف فکر سے متاثر نہیں ہوئے ۔
وقت کے کئی ایک معروف اہل علم سے ملاقاتیں بھی کیں ، اور ان سے مسائل کی تحقیق میں استفادہ کیا ، شیخ البانی رحمہ اللہ سے ان کی کئی بار ملاقات ہوئی ، ایک بار اردن میں ان سے ملے ، شیخ نے ان کی الروضۃ الندیۃ کی تحقیق کی تعریف کی ، اور انہیں اس مبارک سلسلے کو جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی ۔
شیخ صبحی کی داڑھی بمطابق سنت طویل تھی ، جبکہ شیخ البانی کا موقف ایک قبضہ سے زائد کاٹنے کا رہا ، اس موضوع پر دونوں کے درمیان علمی نشست بھی ہوئی ۔
یمن میں علامہ مقبل بن ہادی الوادعی کے ساتھ چند ملاقاتیں ہوئیں ، جن میں شیخ مقبل کی بعض کتب زیر بحث آئیں ، اسی طرح مدینہ میں شیخ عبد المحسن عباد صاحب سے ملے ، اور ان کی بعض کتابوں کے متعلق رہنمائی لی ۔ محدث مدینہ شیخ حماد انصاری رحمہ اللہ سے بھی انہیں شرف ملاقات حاصل ہوا ، جس میں اسلامی کتب کی تحقیق کا منہج اور اسلوب زیر بحث رہا ۔
عرصہ چار سال تک دمشق میں ، اور چھ سال تک ادلب میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیے ، بعد میں یمن کے دار الخلافہ صنعا میں یہی ذمہ داری سنبھال لی ۔
اور وہیں مختلف مساجد و مدارس میں سالہا سال تک حدیث ، اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ کی کتابیں پڑھاتے رہے ۔ یمن کی معروف یونیورسٹی جامعہ ایمان کے نصاب کی تیاری میں بھی شرکت کا موقعہ ملا ، اسی طرح وزارت تعلیم و تربیت یمن کے ایک ذیلی ثقافتی ادارے سے بھی بطور رہنما ( ایڈوائزر ) پانچ سال تک منسلک رہے ۔
تصنیف و تحقیق :اور وہیں مختلف مساجد و مدارس میں سالہا سال تک حدیث ، اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ کی کتابیں پڑھاتے رہے ۔ یمن کی معروف یونیورسٹی جامعہ ایمان کے نصاب کی تیاری میں بھی شرکت کا موقعہ ملا ، اسی طرح وزارت تعلیم و تربیت یمن کے ایک ذیلی ثقافتی ادارے سے بھی بطور رہنما ( ایڈوائزر ) پانچ سال تک منسلک رہے ۔
شیخ بطور محقق مشہور ہوئے ، لیکن ان کی اپنی تصنیفات و تالیفات بھی درجن سے زائد ہیں ، جن میں اللباب فی فقہ السنۃ و الکتاب ( جس کے اردو ترجمے کا اوبر تذکرہ ہوا ہے ) ، ادلۃ مرضیۃ شرح الدرر البہیۃ ، رجال تفسیر طبری جرحا و تعدیلا ، الایضاحت العصریۃ للأوزان و المقاییس الشرعیۃ ، اللباب لتخریج المبارکفوری لقول الترمذی : و فی الباب . وغیرہ نمایاں ہیں ۔
جبکہ وہ کتب جن کی آپ نے تحقیق و تخریج کی ، ان کی ایک لمبی فہرست ہے ، جن میں سے بعض یہ ہیں :
1) تيسير العلام شرح عمدة الأحكام / عبد الله البسام : مكتبة الصحابة القاهرة، ومكتبة الإرشاد بصنعاء.
2) الباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث / ابن كثير : دار الجيل الجديد بصنعاء .
3) إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم / أبو السعود : دار الفكر بيروت .
4) معارج القبول بشرح سلم الأصول / للحكمي : دار ابن الجوزي بالدمام .
5) بداية المجتهد ونهاية المقتصد / ابن رشد الحفيد : مكتبة ابن تيمية بالقاهرة .
6) العقيدة الواسطية / ابن تيمية : مؤسسة الريان بيروت .
7) الإنصاف في بيان الاختلاف / ولي الله الدهلوي ، دار ابن حزم بيروت .
8) شرح الصدور في ذكر ليلة القدر / الحافظ العراقي : مؤسسة الريان بيروت .
9) استخراج الجدال من القرآن الكريم / ابن الحنبلي : مؤسسة الريان بيروت .
10) النبذة في أصول الفقه / ابن حزم : دار ابن حزم بيروت .
11) رسالة في السماع والرقص / محمد المنبجي الحلبي : دار ابن حزم بيروت .
12) إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث ومقدار المنسوخ من الحديث / ابن الجوزي : دار ابن حزم بيروت .
13) شرح وبيان لحديث ما ذئبان جائعان / ابن رجب الحنبلي : مؤسسة الريان بيروت .
14) الروضة الندية شرح الدرر البهية لصديق حسن خان / دار ابن تيمية القاهرة .
15) بلوغ المرام من جمع أدلة الأحكام للحافظ ابن حجر / دار ابن تيمية القاهرة .
16) فتح العلام شرح بلوغ المرام لأبي الخير بن صديق حسن خان / مكتبة المعارف بيروت .
17) رد المحتار على الدر المختار ، المعروف بحاشية ابن عابدين ( بالاشتراك ) دار إحياء التراث بيروت .
18 ) أنوار التنزيل وأسرار التأويل للبيضاوي ( بالاشتراك ) داار الرشيد دمشق .
19) مختصر سنن أبي داود للمنذري (1-2) تحيقيق وتعليق وتخريج . مكتبة المعارف بالرياض .
20) مختصر سنن أبي داود للمنذري مع معالم السنن للخطابي (1-3 ) تحقيق وتخريج وتعليق .
اس کے علاوہ یمن کے دو معروف علماء ، علامہ شوکانی اور علامہ صنعانی کی اکثر کتابیں آپ کی تحقیق شدہ ہیں ۔ جس قدر توجہ اور اہتمام شیخ نے ان دونوں علماء کی تراث کو دیا ہے ، کسی اور کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی ، شیخ انہیں علماء یمن میں مجددین کی حیثیت سے دیکھتے تھے ، بلکہ علامہ شوکانی سے تو انہیں اتنی عقیدت اور لگاؤ تھا کہ ان کے مطابق وہ انہیں خواب میں بھی ملے ، اور اپنی کتب کی تحقیقات پر رضامندی کا اظہار کیا ۔ الفتح الربانی کی تحقیق و طباعت کے سلسلے میں ان کے ایک شاگرد نے واقعہ لکھا ہے کہ اس کتاب کے اجزاء انہوں نے بڑی محنت و مشقت سے حاصل کیے ، بلکہ اس کی چوتھی جلد انہیں ایک شخص سے منہ مانگے دام یعنی اسی ہزار یمنی ريال(پاکستان کے تقریبا تیس پینتیس ہزار روپے) كے عوض حاصل کی ۔
شیخ کا عقیدہ و منہج :جبکہ وہ کتب جن کی آپ نے تحقیق و تخریج کی ، ان کی ایک لمبی فہرست ہے ، جن میں سے بعض یہ ہیں :
1) تيسير العلام شرح عمدة الأحكام / عبد الله البسام : مكتبة الصحابة القاهرة، ومكتبة الإرشاد بصنعاء.
2) الباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث / ابن كثير : دار الجيل الجديد بصنعاء .
3) إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم / أبو السعود : دار الفكر بيروت .
4) معارج القبول بشرح سلم الأصول / للحكمي : دار ابن الجوزي بالدمام .
5) بداية المجتهد ونهاية المقتصد / ابن رشد الحفيد : مكتبة ابن تيمية بالقاهرة .
6) العقيدة الواسطية / ابن تيمية : مؤسسة الريان بيروت .
7) الإنصاف في بيان الاختلاف / ولي الله الدهلوي ، دار ابن حزم بيروت .
8) شرح الصدور في ذكر ليلة القدر / الحافظ العراقي : مؤسسة الريان بيروت .
9) استخراج الجدال من القرآن الكريم / ابن الحنبلي : مؤسسة الريان بيروت .
10) النبذة في أصول الفقه / ابن حزم : دار ابن حزم بيروت .
11) رسالة في السماع والرقص / محمد المنبجي الحلبي : دار ابن حزم بيروت .
12) إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث ومقدار المنسوخ من الحديث / ابن الجوزي : دار ابن حزم بيروت .
13) شرح وبيان لحديث ما ذئبان جائعان / ابن رجب الحنبلي : مؤسسة الريان بيروت .
14) الروضة الندية شرح الدرر البهية لصديق حسن خان / دار ابن تيمية القاهرة .
15) بلوغ المرام من جمع أدلة الأحكام للحافظ ابن حجر / دار ابن تيمية القاهرة .
16) فتح العلام شرح بلوغ المرام لأبي الخير بن صديق حسن خان / مكتبة المعارف بيروت .
17) رد المحتار على الدر المختار ، المعروف بحاشية ابن عابدين ( بالاشتراك ) دار إحياء التراث بيروت .
18 ) أنوار التنزيل وأسرار التأويل للبيضاوي ( بالاشتراك ) داار الرشيد دمشق .
19) مختصر سنن أبي داود للمنذري (1-2) تحيقيق وتعليق وتخريج . مكتبة المعارف بالرياض .
20) مختصر سنن أبي داود للمنذري مع معالم السنن للخطابي (1-3 ) تحقيق وتخريج وتعليق .
اس کے علاوہ یمن کے دو معروف علماء ، علامہ شوکانی اور علامہ صنعانی کی اکثر کتابیں آپ کی تحقیق شدہ ہیں ۔ جس قدر توجہ اور اہتمام شیخ نے ان دونوں علماء کی تراث کو دیا ہے ، کسی اور کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی ، شیخ انہیں علماء یمن میں مجددین کی حیثیت سے دیکھتے تھے ، بلکہ علامہ شوکانی سے تو انہیں اتنی عقیدت اور لگاؤ تھا کہ ان کے مطابق وہ انہیں خواب میں بھی ملے ، اور اپنی کتب کی تحقیقات پر رضامندی کا اظہار کیا ۔ الفتح الربانی کی تحقیق و طباعت کے سلسلے میں ان کے ایک شاگرد نے واقعہ لکھا ہے کہ اس کتاب کے اجزاء انہوں نے بڑی محنت و مشقت سے حاصل کیے ، بلکہ اس کی چوتھی جلد انہیں ایک شخص سے منہ مانگے دام یعنی اسی ہزار یمنی ريال(پاکستان کے تقریبا تیس پینتیس ہزار روپے) كے عوض حاصل کی ۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، شیخ منہج و عقیدہ سلف پر کار بند ، اور براہ راست اتباع سنت کے طریق پر گامزن تھے ، ان کی تصنیفات و تحقیقات کو ایک نظردیکھنے سے یہ بات بالکل واضح اور نمایاں ہوجاتی ہے ، ذیل میں ان کی بعض عبارات پیش کی جاتی ہیں :
امام شوکانی کی کتاب ’ التحف فی مذاہب السلف ‘ کے مقدمۃ التحقیق ( ص 7 ، 8 ) میں لکھتے ہیں :
’ صاحب عقل انسان اورباشعور شخص ذات و صفات باری تعالی کے سلسلہ میں اہل کلام کے فلسفہ و جدل سے دور ہی رہتا ہے ، کیونکہ اس اسلوب کو اختیار کرنے کے سبب بعض دفعہ انسان خود شکوک و شبہات اورضلالت و گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے ، توحید کا فائدہ تبھی ہے جب انسان قلب سلیم کا مالک ہو ، جس میں کلامی شبہات داخل ہوجائیں ، وہ قلب سلیم نہیں رہتا ۔ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کی ذات ، صفات اور افعال کسی بھی اعتبار سے اللہ سے کسی کی کوئی مشابہت نہیں ہے ... اللہ کی صفات کے منکرین یا انہیں مخلوق کے مشابہ سمجھنے والے دونوں گروہ گمراہی کی حدوں پر کھڑے ہیں ۔ اور قرآن مجید میں ان دونوں کا رد ہے ۔‘
اپنی کتاب ’ ادلۃ مرضیۃ ‘ کے انتساب میں لکھتے ہیں :
’ شیدایان حق ، طالبان ہدایت ، متلاشیان صراط مستقیم ، ہر مسئلہ میں دلیل و برہان اور قوی حجت ڈھونڈنے والوں کے نام ، ان کے نام جو تقلید سے آزادی کے ترانے گاتے ہیں ، جو اصلاح و تجدید کے لیے کوشاں ہیں ، میں اپنی یہ کاوش ان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔‘
پھر آگے کتاب کے مقدمہ میں جا کر ، طلب دلیل اور مذمت تعصب و جمود کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’ علماء کے حفظ مراتب ، ان سے محبت و عقیدت کا تعلق ، دین کے لیے ان کی کوششوں اور محنتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے ، اس سوچ کے ساتھ کہ ان سے جوبھی لغزش ہوئی ، جان بوجھ کر یا بری نیت سے نہ تھی ( ادلۃ مرضیہ ص 8 )
امام شوکانی کے فتاوی مسمی ’ الفتح الربانی ‘ کے انتساب میں بھی انہوں نے اسی قسم کے خیالات و جذبات کا مزید واشگاف الفاظ میں اظہار کیا ہے ۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء و فقہاء ، اور ائمہ دین کے ادب و احترام کے ساتھ ، وہ دلیل و برہان کو ہی ترجیح دیتے تھے ، اور اس سلسلے میں منہج اہل حدیث پر گامزن تھے -
شیخ کے ایک شاگرد نے ’ تحفۃ المشتاق بأسانید محمد صبحی حلاق ‘ کے عنوان سے کتاب بھی مرتب کی ہے ، اسی طرح ان کی رفیقہ حیات نے بھی ان کے متعلق ایک مستقل تصنیف میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ، کتاب کانام ہے ’ زوجي العالم الذي عرفته ‘ ۔
منهج حق کا یہ راہی بلکہ حدی خواں 9 ربیع الآخر 1438 بمطابق 7 جنوری 2017 کو صنعاء ، یمن میں صبح 10 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ، اور ان کی علمی کوششوں اور کاوشوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔
امام شوکانی کی کتاب ’ التحف فی مذاہب السلف ‘ کے مقدمۃ التحقیق ( ص 7 ، 8 ) میں لکھتے ہیں :
’ صاحب عقل انسان اورباشعور شخص ذات و صفات باری تعالی کے سلسلہ میں اہل کلام کے فلسفہ و جدل سے دور ہی رہتا ہے ، کیونکہ اس اسلوب کو اختیار کرنے کے سبب بعض دفعہ انسان خود شکوک و شبہات اورضلالت و گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے ، توحید کا فائدہ تبھی ہے جب انسان قلب سلیم کا مالک ہو ، جس میں کلامی شبہات داخل ہوجائیں ، وہ قلب سلیم نہیں رہتا ۔ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کی ذات ، صفات اور افعال کسی بھی اعتبار سے اللہ سے کسی کی کوئی مشابہت نہیں ہے ... اللہ کی صفات کے منکرین یا انہیں مخلوق کے مشابہ سمجھنے والے دونوں گروہ گمراہی کی حدوں پر کھڑے ہیں ۔ اور قرآن مجید میں ان دونوں کا رد ہے ۔‘
اپنی کتاب ’ ادلۃ مرضیۃ ‘ کے انتساب میں لکھتے ہیں :
’ شیدایان حق ، طالبان ہدایت ، متلاشیان صراط مستقیم ، ہر مسئلہ میں دلیل و برہان اور قوی حجت ڈھونڈنے والوں کے نام ، ان کے نام جو تقلید سے آزادی کے ترانے گاتے ہیں ، جو اصلاح و تجدید کے لیے کوشاں ہیں ، میں اپنی یہ کاوش ان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔‘
پھر آگے کتاب کے مقدمہ میں جا کر ، طلب دلیل اور مذمت تعصب و جمود کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’ علماء کے حفظ مراتب ، ان سے محبت و عقیدت کا تعلق ، دین کے لیے ان کی کوششوں اور محنتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے ، اس سوچ کے ساتھ کہ ان سے جوبھی لغزش ہوئی ، جان بوجھ کر یا بری نیت سے نہ تھی ( ادلۃ مرضیہ ص 8 )
امام شوکانی کے فتاوی مسمی ’ الفتح الربانی ‘ کے انتساب میں بھی انہوں نے اسی قسم کے خیالات و جذبات کا مزید واشگاف الفاظ میں اظہار کیا ہے ۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء و فقہاء ، اور ائمہ دین کے ادب و احترام کے ساتھ ، وہ دلیل و برہان کو ہی ترجیح دیتے تھے ، اور اس سلسلے میں منہج اہل حدیث پر گامزن تھے -
شیخ کے ایک شاگرد نے ’ تحفۃ المشتاق بأسانید محمد صبحی حلاق ‘ کے عنوان سے کتاب بھی مرتب کی ہے ، اسی طرح ان کی رفیقہ حیات نے بھی ان کے متعلق ایک مستقل تصنیف میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ، کتاب کانام ہے ’ زوجي العالم الذي عرفته ‘ ۔
منهج حق کا یہ راہی بلکہ حدی خواں 9 ربیع الآخر 1438 بمطابق 7 جنوری 2017 کو صنعاء ، یمن میں صبح 10 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ، اور ان کی علمی کوششوں اور کاوشوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔
Last edited: