ایک اور محدث و محقق چل بسے !
( شیخ محمد مصطفی اعظمی رحمہ اللہ )
سرزمین ہند کا علاقہ اعظم گڑھ علمی اعتبار سے ایک معروف خطہ شمار ہوتا ہے، اس نے کئی ایک سپوت ایسے پیدا کیے ہیں ، جو علمی و تحقیقی مہم جوئی میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں ، تحفۃ الاحوذی ، مرعاۃ المفاتیح ، سیرۃ البخاری اورالرحیق المختوم ، جیسے علمی شاہکار یہیں سے عالم اسلام کو میسر ہوئے ، معروف ادیب و مفکر مولانا شبلی نعمانی ، محقق شہیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور محدث جلیل شیخ ضیاء الرحمن اعظمی صاحب الجامع الکامل (حدیث انسائیکلوپیڈیا)بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ہمارے ممدوح ڈاکٹر محمد مصطفی بھی اسی علاقے کی طرف نسبت کی وجہ سے ’ اعظمی ‘ کا لاحقہ استعمال کیا کرتے تھے ۔ میرے لیے نسبتا خوشی کی بات یہ ہے کہ شیخ مصطفی اعظمی کے بارے میں ، میں ان کی وفات سے قبل ہی کچھ نہ کچھ جانتا تھا ، ورنہ عموما علما کےبارے میں تبھی معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے ، جب ان کی وفات کی خبر چلنے لگتی ہے ۔
محدثین کے ہاں منہج نقد کے حوالے سے کئی ایک معاصر مصنفین کی کتابیں پڑھنے کا عزم کیا ہوا ہے ، جن میں شیخ کی مشہور زمانہ کتاب منہج النقد عند المحدثین بھی ہے ۔
سر درست شیخ کے تعارف پر کچھ کلمات سپرد قلم کرنے کا ارادہ ہے ، جنہیں ’خبر‘ کی بجائے ’لازم خبر‘ سمجھنا زیادہ مناسب ہوگا ۔
نام و نسبت اور تعلیم :
شیخ کا کتابوں وغیرہ میں رسمی نام ’ محمد مصطفی الاعظمی ‘ لکھا ہوتا ہے ، کنیت ابو عقیل ہے ،آپ 1350ھ بمطابق 1930ء اعظم گڑھ اترپردیش کے ایک معروف شہر ’ مئو‘ میں پید ا ہوئے ۔
شیخ کا گھرانہ دینی ذوق و شوق رکھنے والا تھا ، ابتدا عصری تعلیم سے کی ، لیکن جلد ہی دینی مدارس کی طرف رخ کیا ، اور دار العلوم دیوبند جیسے بعض مشہور مدارس میں دینی تعلیم مکمل کی ، کچھ عرصہ علیگڑھ یونیورسٹی میں بھی پڑھے ، بعد ازاں جامعہ ازہر مصر میں داخلہ مل گیا ، جہاں کلیۃ اصول الدین سے آپ نے 1955ء میں عالمیہ کی سند حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری آپ نے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے حاصل کی ، آپ کے مقالے کا عنوان تھا : Studies in Early Hadith Literature، جو عربی زبان میں
"دراسات في تاريخ الحديث النبوي " کے عنوان سے مطبوع ہے ۔ اس مقالے میں آپ کے علمی نگران آربری اور سرجینٹ نامی دو معروف مستشرق تھے ۔
تدریسی مصروفیات:
جامعہ ازہر سے فراغت کےبعد آپ کچھ عرصہ اعظم گڑھ رہے ، پھر قطر میں عربی زبان کے ٹیچر منتخب ہوئے اور بعد میں یہیں پر قطری پبلک لائبریری کے نگران مقرر ہوئے۔ برطانیہ سے واپسی پرمکہ مکرمہ کلیۃ الشریعہ میں اصول حدیث پڑھانے لگے ،کچھ عرصہ بعد کنگ سعود یونیورسٹی میں تشریف لے آئے ، اور ایک طویل مدت یہاں استاذ حدیث کے فرائض سر انجام دیے ۔
آپ کی متنوع علمی صلاحیتوں کے پیش نظر بعض یورپی یونیورسٹیزنے بھی آپ کو تدریس کے لیے درخواست کی ، لہذا ہارورڈ ، آکسفورڈ وغیرہ کئی ایک عالمی تعلیمی اداروں میں آپ نے بطور ’مہمان پروفیسر‘ تدریسی خدمات سرانجام دیں۔
تصنیفی و تحقیقی خدمات :
آپ کی تصنیفات و تالیفات کی کوئی لمبی چوڑی فہرست نہیں ، لیکن درجن کے قریب آپ نے جو کتابیں تصنیف یا تحقیق فرمائی ہیں ، ان میں اکثریت اپنے اپنے موضوع پر شاہکار ہیں ، ذیل میں بعض کتب کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔
1۔ دراسات فی تاریخ الحدیث النبوی
شیخ کی یہ کتاب جیسا کہ اوپر گزرا ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ، اس کتاب میں گولڈ زیہر اور اس کے پیرو جوزف شاخت کے ان اعتراضات و شبہات کا محاکمہ کیا گیا ہے، جو انہوں نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پھیلانے کی کوشش کی تھی ۔
ایک عربی چینل ’ صفا‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے ، شیخ نے بتایا ، میں جب قطر میں مقیم تھا ، تو ایک معروف امریکی کمپنی نے کچھ مستشرقین کی کتابیں تقسیم کیں ، جن میں جوزف شاخت کی کتاب بھی تھی ، میں نے وہ کتاب پڑھی ، تو اس میں موجود سطحیت اور جہل مرکب کے نمونے دیکھ کر بہت حیران ہوا ، اور وہیں سے عزم کیا کہ مستشرقین کی اس علمیت کا پول انہیں کے گھر بیٹھ کر کھولوں گا ، یوں برطانیہ جامعہ کیمبرج آئے ، اور یہاں آکر تاریخ و تدوین حدیث پر یہ شاندار مقالہ تیار کیا ۔ سنن ابن ماجہ کی تحقیق کے مقدمے میں رقمطراز ہیں کہ یہاں میرا مقصد ڈگری کا حصول نہیں تھا ، کہ میرے نزدیک اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ، اصل مقصد یہی تھا کہ ان مستشرقین کو ان کی زبان میں ان کی اوقات یاد دلا دی جائے ، جو الحمدللہ پورا ہوا ۔
2۔ تاریخِ تدوینِ قرآن
شیخ رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ، جس کا نام کچھ اس طرح ہے :
The History of the Quranic text from Revelation to Compilation, A comparative
Study with the old and new Testments.
اس کتاب میں قرآن کریم کی تدوین سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ، وحی قرآن سے لیکر مصحف عثمان کی تدوین تک کے عرصے سے متعلق جتنے اعتراضات تھے ، سب کا شافی جواب دیاگیا ہے ، یہ کتاب بھی کسی مستشرق کے ایک مضمون کا جواب ہے ، جس میں اس نے تحریف قرآن کے اثبات کی سعی نا مسعود کی تھی ۔ کتاب کی پہلی اشاعت 2013 میں برطانیہ سے ہوئی ، اس کے بعد اب تک مختلف ممالک سے اس کے کئی ایڈیشنز چھپ چکے ہیں ، جبکہ اس کا ترکی وغیرہ زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔
3۔ کاتبینِ وحی
اس کتاب کا عربی نام
’ کُتّاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ہے ، اس میں کاتبین وحی کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ، پہلی قسم جو بہ کثرت کتابت کا فریضہ سر انجا م دیا کرتے تھے ، مثلا زید بن ثابت، ابی بن کعب ، معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم ۔ دوسری قسم جن سے کتابت مروی ہے ، لیکن وہ پہلی قسم کی طرح کتابت میں مشہور نہیں ، مثلا ابو بکر صدیق، عمر فاروق ، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم ۔ تیسری قسم ان ناموں پر مشتمل ہیں ، جنہیں ڈاکٹر حمید اللہ حیدرآبادی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی اور نے ذکر نہیں کیا ۔ اس قسم میں جعفر بن ابی طالب ، عباس بن عبد المطلب وغیرہما نام مذکور ہیں ، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
کتاب میں تراجم ذکر کرتے ہوئے حروف تہجی اور اختصار ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
4۔ منہج النقد عند المحدثین
اس کتاب کا موضوع نام سے ہی ظاہر ہے ، مستشرقین کا رد کرتے ہوئے ، اس طرح کے موضوع کا ذہن میں آنا ایک فطری سی بات ہے ، کہ جس منہج کو دشمنان اسلام نہیں سمجھ سکے ، وہ کیا منہج ہے ؟ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ’ خر دماغ ٹولہ ‘ میں سے ہر کوئی تنقید کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے ، وہ تحقیق و تنقید کے کن اعلی پیمانوں سے گزر کر ہم تک پہنچ چکی ہیں ، یہ باتیں اعداء اسلام اور ان کے چیلوں سے پہلے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے لوگوں کو پتہ ہونی چاہییں ۔
اس کتاب کے قدرے تفصیلی تعارف کے لیے الگ سے ایک تحریر لکھوں گا ، إن شاءاللہ ۔ البتہ اتنی بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ احادیث کی تحقیق و تفتیش ، اس کے اصول ، اور ائمہ کے اس حوالے سے مناہج یہ سب تفصیلات علوم حدیث ، فن جرح و تعدیل ، اور علم علل وغیرہ کی کتابوں میں پہلےسے موجود ہیں ، لیکن جب سے مستشرقین کے اعتراضات کا ظہور ہونا شروع ہوا ، اور مسلمانوں میں فتنہ انکار حدیث شروع ہوا ، اس بحث کے تناظر میں یہ موضوع ایک اور انداز سے شروع ہوا ہے ، شیخ اعظمی کی یہ کتاب اس موضوع پر لکھی جانے والی پہلی کتاب نہیں تو اوائل کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔
شیخ کی یہ کتاب در حقیقت امام مسلم کی کتاب ’ التمییز ‘ کی تحقیق کے ساتھ بطور مقدمہ نشر ہوئی ، جس نے بعد میں اضافہ جات کے ساتھ ایک مکمل کتاب کی شکل اختیار کرلی۔
علمی حلقوں میں شروع ہونے والی بحث ’ منہج متقدمین و منہج متاخرین ‘ کے تناظر میں اس کتاب کو دیکھا جائے ، تو محسوس ہوتا ہے ، ’ تفریقی سوچ ‘ کے راہ دکھانے والے اسباب میں سے ایک سبب یہ کتاب اور اس کے مصنفِ علام بھی ہیں ۔ منہج محدثین میں تفریقی سوچ کو پوری آب و تاب کے ساتھ پیش کرنے والے اوائل محققین میں ڈاکٹر حمزہ ملیباری ہیں ، جنہوں نے فن حدیث کا درس ڈاکٹر احمد نور سیف سے لیا ہے ، اور وہ شیخ مصطفی اعظمی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ۔
5۔ محدثینِ یمامہ
شیخ کی ایک کتاب ہے " المحدثون من اليمامة إلى 250ھ تقريبا " ، اس کتاب میں یمامہ سے تعلق رکھنے والے سو سے زائد محدثین و راویان حدیث کا تذکرہ کیا گیا ہے ، کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یمامہ اور اہل یمامہ کے متعلق اس انداز کی مستقل تصنیف پہلے موجود نہیں تھی ، باوجودیکہ یہ خیر القرون میں علم و فضل کا مرکز رہا ہے ، اور جلیل القدر محدثین یہاں موجود تھے ، یا محدثین یمامہ سے احادیث سننے کے لیے یہاں حاضر ہوا کرتے تھے۔
6۔مغازی عروہ بن زبیر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر رحمہ اللہ روایت حدیث کے ساتھ ساتھ سیرت و تاریخ میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں ،بعض علماء نے انہیں سیرت نبوی کا اول مصنف قرار دیا ہے، ان کی کتاب المغازی معروف ، لیکن مفقود ہے ، شیخ مرحوم نے عزم باندھا اور بطون کتب سے ان کی مرویاتِ سیر و مغازی کو مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا ، یوں پہلی بار 1401ھ بمطابق 1981ء میں مغازی عروہ بن زبیر کے عنوان سے کتاب منظر عام پر آئی ۔ اس کتاب کا اردو ، انگلش ترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔
7۔ موطا مالک
شیخ نے مستقل تصنیف و تالیف سے ہٹ کر کچھ کتب کی تحقیق بھی کی ہے، انہیں میں سے ایک تحقیق موطا امام مالک بروایۃ یحیی لیثی ہے ، جس کا مقدمہ تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے ، جو بذات خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے ،آٹھ جلدو ں میں مطبوع اس کتاب کی آخری دو جلدیں علمی فہارس پر مشتمل ہیں ۔
8۔ صحیح ابن خزیمہ
حدیث کی معروف کتاب ’ صحیح ابن خزیمہ‘ کے متعلق معروف ہے کہ ابن حجر وغیرہ حفاظ کے زمانے سے ہی اس کا اکثرحصہ مفقود ہے ، جو کچھ موجود تھا ، وہ بھی مکتبات میں شائقین کی پہنچ سے دور تھا ، شیخ مرحوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے صحیح ابن خزیمہ کے کچھ حصے کی تحقیق کی ، اور اسے منظر عام پر لائے ۔ شیخ نے اس کتاب پر کافی محنت کی ، کیونکہ اس کا صرف ایک ہی مخطوط تھا ، لہذا نص کی تصحیح و تقویم میں رہنمائی کے لیے دیگر مصادر حدیثیہ کی چھان پھٹک کرنا پڑی ، اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو احادیث صحیحین کے علاوہ ہیں ، ان پر حکم بھی لگایا گیا ہے ، اور ’ احکام ِحدیث ‘ پر باقاعدہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی نظرثانی بھی کروائی ، جہاں شیخین کا اختلاف ہوا ، وہاں شیخ البانی کی رائے کو ہی ترجیح دی گئی ہے ۔ البتہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن 1430ھ میں چھپا ، جس میں تخریج و تحقیق حدیث سے متعلق تعلیقات ختم کردی گئی ہیں ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ سے ’ خصوصی پیار و محبت ‘ رکھنے والے کچھ لوگوں نے اس بات کو عجب رنگ دیا ہے ، بلکہ بعض لوگوں نے تو اس سے شیخ اعظمی کا شیخ البانی سے تنفر بھی کشید کرنے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ بات بالکل سیدھی ہے ، اگر اس طرح کا کوئی معاملہ ہوتا ، تو البانی کی ’ نظرثانی ‘ ختم کرتے ، اپنی تعلیقات تو باقی رکھتے ؟!
مذکور تصنیفات و تحقیقات کے علاوہ شیخ کی مزید کچھ کتابیں مطبوع و میسر ہیں ، جیسا کہ سنن ابن ماجہ ، تمییز للإمام مسلم ، علل ابن المدینی کی تحقیق ، جوزف شاخت کی ہفوات کا تفصیلی رد ، اور انگلش زبان میں علوم حدیث کا مختصر تعارف ۔
خدمت حدیث کے لیے کمپیوٹر کا استعمال :
کیمبرج یونیورسٹی میں مقالہ کی تیاری کے دوران پہلی بار شیخ صاحب کی کمپیوٹر سے شناسائی ہوئی ، لیکن اس وقت آپ کا ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہواکہ خدمت حدیث کے لیے بھی اس سے کوئی پالا پڑنے والا ہے ۔ پھر تقریبا ایک دہائی بعد شگاکو یونیورسٹی میں امام بخاری کے متعلق ایک ندوہ میں شرکت کے لیے گئے ، وہاں ایک مستشرق نے آکر کمپیوٹر اور تحقیق حدیث کے موضوع پر گفتگو کی ، شیخ فرماتے ہیں ، مجھے محسوس ہوا یہ مزید اس انداز سے کوئی فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں ، لہذا میں نے وہیں یہ کمنٹ کردیا کہ ’ سنت نبوی ‘ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے ۔
انہیں دنوں کچھ مخلص اور جذبہ رکھنے والے لوگ بھی اس حوالے سے کافی جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے ، اتفاق سے دار الافتا ، ریاض کی طرف سے آپ سمیت کچھ اساتذہ کو گرمیوں کی چھٹیوں میں درس و تدریس کے لیے امریکہ بھیج دیا گیا ، وہاں موجود جمعیت کے پاس ایک کمپیوٹر تھا ، جو اس طرح کے کام کرنے کے لیے پر تول رہے تھے ، وہ جمعیت تو کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکی ، البتہ شیخ کو اس طرف کافی دلچسپی ہونے لگی ، اور آپ نے یہ عزم باندھ لیا : قبل اس کے کہ مستشرقین ’ خدمت حدیث ‘ یا ’ خدمت اسلام ‘ کے عنوان سے کوئی نیا فتنہ کھڑا کردیں ، ہمیں اس طرف بڑھنا چاہیے ۔ شیخ کے کمپیوٹر سے لگاؤ اور رجحان کو سن کر بعض لوگوں کے ذہن میں عجیب و غریب خیال بلکہ ’ القاب‘ آرہے ہوں گے ، لیکن حقیقت آج سے بہت مختلف تھی ۔
شیخ نے جب اس میدان میں قدم رکھا ، اس وقت شاملہ ، شیخ گوگل وغیرہ وغیرہ چیزوں کا کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ شاہ سعود یونیورسٹی میں باقاعدہ کمپیوٹر دیپارٹمنٹ موجود تھا ، لیکن ان میں عربی لکھنے کی کوئی صورت نہیں تھی ۔ تقریبا تیس ہزار ریال کی خطیر رقم خرچ کرکے سب سے پہلے آپ نے جو آلہ خریدا ، وہ کمپیوٹر کی بجائے صرف ’کی بورڈ ‘ تھا ، جس میں عربی زبان لکھنے کی ’ نعمت ‘ موجود تھی ، البتہ تمام حروف لکھنا اس کے بس کی بھی بات نہیں تھی ۔ پھر سال ڈیڑھ بعد تین لاکھ کا ایک ہلکا کمپیوٹر خریدا ، بعد میں کام کے بوجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے ، دس بارہ لاکھ کا ایک ہیوی کمپیوٹر خریدا ، اتنا مال ، وقت اور محنت صرف کرنے کے بعد ’ سنن ابن ماجہ ‘ کی تحقیق و فہرست سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ۔
شیخ کا ہدف یہ تھا کہ تمام کتب حدیث و رجال کمپیوٹر میں آجائیں ، اور یہ کام مسلمان محققین کی نگرانی میں ہو ، تاکہ اس میں عمدا سہوا کسی بھی قسم کی اغلاط کم سے کم ہوں ۔ لیکن کام چونکہ بالکل ابتدائی مراحل میں تھا ، کبھی عربی لکھنے میں مسئلہ ، کبھی اس پر اعراب کا مسئلہ ، کہیں الف نہیں لکھا جارہا ، کہیں ہمزہ لکھنے میں دقت ہے ، حتی کہ لکھے ہوئے کو محفوظ کرنا ، یا اسےایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپوٹر میں منتقل کرنے جیسے بے شمار مسائل تھے ، اور کام کرنے والے شیخ یا ان کے بیٹے عقیل صاحب تھے ، جو ان دنوں امریکہ میں کمپیوٹر کی تعلیم ہی حاصل کر رہے تھے ، اس لیے کام ہوتا رہا ، لیکن انتہائی سست رفتار سے۔
دوسری طرف شیخ کا معیار کافی اعلی دکھائی دیتا ہے ، کتابوں کی مطبوعات کی قلت یا ان میں بہ کثرت اغلاط کی وجہ سے انہوں نے مختلف کتابوں کے مخطوطات کو سامنے رکھ کر باقاعدہ تحقیق سے کمپیوٹر نسخے تیار کرنے کی کوشش کی ۔
1977 کے لگ بھگ شروع ہونے والے کام کا تعارف جب آپ نے 1990ء کے ایک ندوہ میں کروایا تو اس وقت کمپیوٹر میں حدیث ، رجال اور لغت وغیرہ کی تقریبا پچیس کتابیں ٹائپ کی جا سکی تھیں ، جن کی صورت حال یہ تھی کہ ہر کمپیوٹر میں کھلنے کی صلاحیت ان میں بھی نہیں تھی ۔
یہ سب تفصیلات شیخ کے اس مقالے ( 257۔272) میں دیکھی جاسکتی ہیں ، جو آپ نے ’ استخدام الحاسوب فی العلوم الشرعیۃ ‘ کے عنوان سے جدہ میں منعقد ہونے والے ایک ندوہ میں پیش کیا تھا ۔
شیخ کا یہ علمی پراجیکٹ کہاں گیا ؟ اس سوال کا جواب باوجود تلاش کرنے کے کہیں نہیں مل سکا ، البتہ یہ بات مسلم ہے کہ خدمت حدیث کے لیے کمپیوٹر کے استعمال کا اول تجربہ کرنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہے ۔
جو کچھ ذکر کیا گیا ہے ، اس کا مقصد یہ احساس کرنااور کروانا ہے کہ جس کمپیوٹر اور شاملہ وغیرہ کو ہم بڑی راحت سے استعمال کرتے ہیں ، اس کے ابتدائی مراحل کس قدر پیچیدہ ، اور اعصاب شکن تھے۔
شاہ فیصل عالمی ایوارڈ:
حدیث کے دفاع و تحقیق میں متنوع خدمات کے پیش نظر آپ کو 1400ھ بمطابق 1980ء میں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کے اس اعزاز و تکریم کی تین وجوہات ذکر کی گئی ہیں ، کتاب دراسات فی تاریخ الحدیث النبوی کی تصنیف، صحیح ابن خزیمہ کی تحقیق ، اور علوم سنت کی خدمت کے لیے کمپیوٹر کے استعمال کی طرح ڈالنا۔ شیخ نے اس مناسبت پر اپنی تقریر میں ہی اس ایوارڈ کی تمام رقم مدارس کے مستحق ذہین طلبہ کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا۔
اس حوالے سے تفصیل جائزۃ الملک فیصل کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔
تواضع اور انکساری :
اتنے بڑے عالم دین ، قدیم و جدید کے جامع ، اعلی انعامات حاصل کرنے کے باوجود ، شیخ مرحوم عاجزی و انکساری کا پیکر تھے ، نمود و نمائش سے کوسوں دور ،ذرا گوگل کرکے دیکھیں ، ایک دو ویڈیوز اور تین چار تصاویر کے علاوہ آپ کو ان کی کوئی تصویر نظر نہ آئے گی ۔ آج بعض نوجوانوں کو کسی یورپی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے ، تو وہ اس نعمت کے شکرانے کے طور پر داڑھی کا مذاق اڑانا فخر سمجھتا ہے ، لیکن اس مرد مجاہد نے مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھا بھی اور پڑھایا بھی ، لیکن اسلامی اقدار اور مشرقی روایات پر حرف نہیں آنے دیا ، ہمارے ایک پاکستانی محقق امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں قبول کر لیے گئے ، وہاں جاکر ایسا دماغ خراب ہوا ، علی الاعلان کہنا شروع ہوئے کہ ’ علم کے سمندر تو یہاں بہہ رہے ہیں ، ابھی تک ہم جہالت میں ہی رہے ‘ یہ مرعوبیت آپ کو شیخ مصطفی اعظمی کی تقریر و تحریر میں کہیں نظر نہیں آئے گی ، بلکہ ایک انٹرویو کے درمیان شیخ سے سوال کیا گیا : آپ کی مستشرقین کے بارے کیا رائے ؟ کہنے لگے میرے نزدیک علوم اسلامیہ میں مستشرقین کی تحقیق پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی ، انٹرویو نگار نے کہا : شیخ اس قدر صراحت کے ساتھ آپ اتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں ، لوگ آپ کو متشدد نہیں کہیں گے ؟شیخ نے مکمل اعتماد سے جواب دیا : کہتے رہے ہیں ۔ جو ہمیں متشدد اور دہشت گرد کہتا ہے ، حقیقت میں وہ خود علمی و فکری دہشت گردی میں مبتلا ہیں ۔
در حقیقت شیخ کی زندگی ہم نوجوانوں کے لیے نمونہ ہے ، جنہوں نے جدید وسائل و ذرائع کو استعمال کیا ہے ،مغرب کو پڑھا ، اس کا رد بھی کیا ، لیکن ان کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوئے ، اعتدال و تحقیق کے نام پر اپنی اقدار و روایات کا سودا نہیں کیا۔
وفات:
علمی و تحقیقی کوہ پیمائی سے بھرپور زندگی گزار نے والے یہ محقق و محدث یو م الاربعا 2 ربیع الثانی 1439ھ بمطابق 20 دسمبر 2017ءکے طلوع آفتاب کے ساتھ ، اگلے جہاں کو روانہ ہوئے ۔ قمری حساب سے آپ کی عمر تقریبا 90 سال بنتی ہے ۔ آپ کی وفات کی خبر آپ کے اقامتی وطن سعودیہ یا مسقط راس ہند میں ہی نہیں ، بلکہ پورے عالم اسلام میں علم و تحقیقی حلقوں میں رنج و ملال کے ساتھ سنی گئی ۔ مسلکا آپ ایک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، لیکن قرآن و حدیث کے دفاع میں آپ کی خدمات کے سبب تمام اہل علم و تحقیق کے ہاں آپ احترام و اکرام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
خلاف توقع شیخ کے حالات زندگی ، اور تصنیفات کے تعریف و تعارف پر کوئی خاطر خواہ کام ابھی تک نہیں ہوا ، البتہ
ایک قدرے تفصیلی مقالہ سید عبدالماجد غوری صاحب کا ہے ، جو نیٹ پر موجود ہے ، اس تحریر کی تیاری میں اسی سے مدد لی گئی ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ بشری لغزشوں سے در گزر کرتے ہوئے اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے ، اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ایسے اہل علم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، قرآن و حدیث کی خدمت کریں ، اور ان پر اعتراضات کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے پر توجہ دیں ۔ و رحم اللہ عبدا قال آمینا ۔
حافظ خضر حیات ، عزیزیہ ، مدینہ منورہ