- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
مضمون نگار: پروفیسر زاہدہ شبنم
عورت کو بحیثیت ِماں جن فرائض کی بجاآوری میں نہایت مشقت اور تندہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، ان میں سے ولادت کے بعد سب سے اہم ’عرصۂ رضاعت‘ ہے۔جب بچہ صرف دودھ پر گزارا کر رہا ہوتا ہے ، نہ تو وہ کھانا جانتا ہے اور نہ ہی اس کا کمزور نظامِ انہضام ٹھوس غذاؤں کو ہضم کر سکتا ہے، لہٰذا اسے گہری حکمتوں اور رحمتوں کے ساتھ صرف دودھ پینے کی فطری معرفت دی گئی۔اس عرصہ میں ماں کے لیے پاکیزگی اور طہارت کا اُصول جہاں بہت ضروری ہوتا ہے، وہاں نہایت مشکل بھی۔ کیو نکہ بچہ ما ئع غذا پر بھروسہ کرنے کی بنا پر باربار پیشاب کرتا ہے اور چونکہ اس وقت قوت ِگویائی سے محروم ہوتا ہے لہٰذا بتا بھی نہیں پاتا،اس لیے ماں کے کپڑے وغیرہ باربار خراب ہوتے ہیں۔ اگرچہ فی زمانہ پَیمپرز Pampers کا استعمال بڑھ گیا ہے لیکن کسی حد تک Pampersکے باوجود پیشاب سے بچے کے کپڑے تر ہو جاتے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی پسماندگی اور سادہ طرز بود و باش کی بنا پر بے شمار خواتین آج بھی روز مرہ استعمال میں Pampersکا دخل کم رکھتی ہیں۔
ان مسلم خواتین میں عام مسلمانوں کی طرح طہارت کے اسلامی معیار کے حصول کی حرص اگرچہ ہر حالت میں فزوں تر رہتی ہے لیکن ایسے میں شریعت ِاسلامیہ میں شیر خوار بچے کے پیشاب کے بارے میں کوئی نرمی موجود ہے؟ یہ سوال ہر مسلم خاتون کے ذہن میں اُٹھتا ہے۔
موضوع سے متعلقہ احادیث
حضرت اُمّ قیس بنت محصنؓ کی زیر حدیث کے علاوہ متعدد احادیث اپنی استنادی صحت کے ساتھ کتب حدیث میں وارد ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے بچے اوربچی کے پیشاب کے بارے میں مختلف حکم ہے جو ابھی ٹھوس غذا نہ کھاتے ہوں۔بچی کے بارے میں احادیث سے حکم ملتا ہے کہ اس کا پیشاب ابتدائے ولادت سے ہی دھویا جائے جبکہ بچے کا پیشاب ٹھوس غذا کھانے سے پہلے صرف چھینٹے مار کر پھیلا spreadکر دیا جائے ۔
اس سلسلہ میں حضرت اُمّ قیس ؓ کے علاوہ حضرت عائشہ،حضرت اُمّ کرزؓ ، حضرت امّ فضلؓ اور حضرت علی ؓ سےبھی احادیث مروی ہیں۔ ان احادیث میں سے حضرت زینب بنت جحش ؓ والی روایت کی علامہ عینی نے تضعیف کی ہے کیونکہ اس کے رواۃ میں سے لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے۔اس کے علاوہ سب احادیث صحیح ہیں جبکہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت امّ قیس ؓکی احادیث تو صحیحین میں مذکور ہیں، مزید برآں حضرت اُمّ فضل ؓ کی حدیث بھی صحیح ہے۔
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث کے الفاظ ہیں :
3۔ حضرت علی ؓ کی روایت ( جس کو موضوع قرار دیا گیا ہے ) یہ ہے :
یغسل من بول الجاریۃ ویُنَضَح من بول الغلام ما لم یَطعم
4۔ حضرت اُمّ فضل ؓ کی روایت میں مذکر و مؤنث ہر دو بچوں کا تذکرہ ہے :
إنما یُنضح من بول الذکر ویغسل من بول الأنـثٰی
اس موضوع پر یہ اور دیگر متعدد احادیث اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیر خوار بچے کے پیشاب کو محض چھینٹے مارتے تھے اور شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا کرتے تھے۔
روایات میں یہ صراحت سے موجو د ہے کہ ایسا فرق صرف عرصۂ رضا عت میں روا رکھا جاتا ہے۔یہاںلم یطعم طعامًا سے مراد دودھ ،کھجور اورشہد ،جس سے گھٹی دی جاتی ہے، کے علاوہ دیگر غذائیں ہیں۔ظاہری بات ہے کہ ان غذاؤں کا استعمال عرصۂ رضاعت کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ہوتا ہے۔
اَحادیث میں وارد الفاظ کے معانی
نَضَحَ کا معنی کپڑے پر پانی یا خوشبو چھڑکنا ہے۔ اس کا معنی ٹپکنا بھی آیا ہے۔
اور رَشَّ کا معنی پانی کا چھڑکنا یا آسمان سے بوندیں آنا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ ان دونوں الفاظ کے باہم مخالف فی المعنی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ان کے نزدیک (رش) تنقیط المآء اور (نضح) صبّ الماء کو کہتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ مختلف احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں صب الماء کے الفاظ لم یغسل کی تصریح کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔
فقہی اختلاف
مذکورہ بالا مرویات اور معاشرتی مسا وات نیز خوراک میں فرق نہ ہونے کی بنا پر بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست کے حکم پر اختلاف ہوا اور فقہا کے تین موقف سامنے آئے :
1۔ شیر خوار بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا کافی ہے جب کہ بچی کا پیشاب اس عرصہ میں دھویا جائے گا۔ یہ موقف حضرت علی ؓ،حسن بصری ، امام زہری اورعطا ء کا ہے۔
2۔ بچے اور بچی دونوں کے پیشاب کو عرصۂ رضاعت کے ابتدائی مہینوں میں دھونے کی ضرورت نہیں، صرف نضح اور رشّ کے عمل سے گزارنا کافی ہے۔یہ مؤقف امام مالک،امام شافعی،امام اوزاعی ،اور ابن العربی کاہے ۔
3۔ بچے اور بچی خواہ شیر خوار ہوں، دو نوں کا پیشاب مکمل نجس ہے اور دونوں کو دھونا ہی لازم ہو گا ،دونوں یا کسی ایک کو نضح یا رشّ کے عمل سے گزارنا کافی نہ ہوگا۔یہ موقف احناف کا ہے اور مالکیہ میں سے بھی بہت سے یہی رائے رکھتے ہیں۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضح کا لفظ غسل کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔لیکن اس کا جواب ’طفل رضیع‘ والی حدیث سے اپنے آپ مل جاتا ہے کہ کسی بھی لفظ کو قریب تر معنی کے لیے یا غیرموضوع لہ کے لیے استعارۃً استعمال کیا جاسکتا ہے ، البتہ اگر اس کی تصریح یا تفسیر اسی جملے میں موجود ہو تو اسے قیاس کے ذریعے متعین کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ سیدہ اُمّ قیس اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی احادیث میں لم یغسل کے الفاظ نے نضح یا رش کے معنی خود متعین کردیے ہیں اور یہ راوی یعنی متکلم کے ہی الفاظ ہیں جبکہ فقہ حنفی میں اسے ہی ’مفسر‘ کہا جاتا ہے اور اس پر بغیر کسی احتمال کے عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔
ایسے ہی حضرت علی اور حضرت اُمّ الفضل رضی اللہ عنہما کا عمل بمقابلہ بیان ہو رہا ہے اور جب ایک لفظ کسی دوسرے لفظ کے مقابلہ میں ہو تو بھی یہ معنوی تصریح کے لیے کافی ہوتا ہے، لہٰذا حنفیہ کا یہ موقف انتہائی کمزور ہے اور ان کی دلیل جو کہ نضخ یا رش کے معنی میں دی گئی ہے، وہ ناقابل اعتبار ہے۔ ان احادیث میں ہی واردہ کلمات سے ہی اس بات کی توضیح ہو رہی ہے کہ یہاں نضخ اور رش سے مراد غسل نہیں ہے ۔
اسی طرح جن لوگو ں نے بچے یا بچی ہر دو کے پیشاب کے لیے نضح اور رش کو کافی قرار دیا ہے، ان کی دلیل بھی کمزور ہے اور اوپر کے اُصول کے تحت یہ موقف بھی مردود ہے۔ البتہ پہلا موقف کہ بچہ اور بچی کے پیشاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرق کیا ہے،حدیث کے موافق ہے اور حافظ ابن حجرؒ کا بیان کردہ نضخ اور رش کا فرق حدیث کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ درا صل رش اور نضح غسل کی ہی قسم ہے لیکن غسل نہیں ہے۔
شیر خوار بچے کے پیشاب کی طہارت اور طبی حکمت
عورت کو بحیثیت ِماں جن فرائض کی بجاآوری میں نہایت مشقت اور تندہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، ان میں سے ولادت کے بعد سب سے اہم ’عرصۂ رضاعت‘ ہے۔جب بچہ صرف دودھ پر گزارا کر رہا ہوتا ہے ، نہ تو وہ کھانا جانتا ہے اور نہ ہی اس کا کمزور نظامِ انہضام ٹھوس غذاؤں کو ہضم کر سکتا ہے، لہٰذا اسے گہری حکمتوں اور رحمتوں کے ساتھ صرف دودھ پینے کی فطری معرفت دی گئی۔اس عرصہ میں ماں کے لیے پاکیزگی اور طہارت کا اُصول جہاں بہت ضروری ہوتا ہے، وہاں نہایت مشکل بھی۔ کیو نکہ بچہ ما ئع غذا پر بھروسہ کرنے کی بنا پر باربار پیشاب کرتا ہے اور چونکہ اس وقت قوت ِگویائی سے محروم ہوتا ہے لہٰذا بتا بھی نہیں پاتا،اس لیے ماں کے کپڑے وغیرہ باربار خراب ہوتے ہیں۔ اگرچہ فی زمانہ پَیمپرز Pampers کا استعمال بڑھ گیا ہے لیکن کسی حد تک Pampersکے باوجود پیشاب سے بچے کے کپڑے تر ہو جاتے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی پسماندگی اور سادہ طرز بود و باش کی بنا پر بے شمار خواتین آج بھی روز مرہ استعمال میں Pampersکا دخل کم رکھتی ہیں۔
ان مسلم خواتین میں عام مسلمانوں کی طرح طہارت کے اسلامی معیار کے حصول کی حرص اگرچہ ہر حالت میں فزوں تر رہتی ہے لیکن ایسے میں شریعت ِاسلامیہ میں شیر خوار بچے کے پیشاب کے بارے میں کوئی نرمی موجود ہے؟ یہ سوال ہر مسلم خاتون کے ذہن میں اُٹھتا ہے۔
موضوع سے متعلقہ احادیث
حضرت اُمّ قیس بنت محصنؓ کی زیر حدیث کے علاوہ متعدد احادیث اپنی استنادی صحت کے ساتھ کتب حدیث میں وارد ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے بچے اوربچی کے پیشاب کے بارے میں مختلف حکم ہے جو ابھی ٹھوس غذا نہ کھاتے ہوں۔بچی کے بارے میں احادیث سے حکم ملتا ہے کہ اس کا پیشاب ابتدائے ولادت سے ہی دھویا جائے جبکہ بچے کا پیشاب ٹھوس غذا کھانے سے پہلے صرف چھینٹے مار کر پھیلا spreadکر دیا جائے ۔
اس سلسلہ میں حضرت اُمّ قیس ؓ کے علاوہ حضرت عائشہ،حضرت اُمّ کرزؓ ، حضرت امّ فضلؓ اور حضرت علی ؓ سےبھی احادیث مروی ہیں۔ ان احادیث میں سے حضرت زینب بنت جحش ؓ والی روایت کی علامہ عینی نے تضعیف کی ہے کیونکہ اس کے رواۃ میں سے لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے۔اس کے علاوہ سب احادیث صحیح ہیں جبکہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت امّ قیس ؓکی احادیث تو صحیحین میں مذکور ہیں، مزید برآں حضرت اُمّ فضل ؓ کی حدیث بھی صحیح ہے۔
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث کے الفاظ ہیں :
2۔ اُمّ قیس ؓ کی حدیث میں لفظ فأتبعہ کی بجائے فنضحَہ مذکور ہے۔إن رسول اﷲ ﷺ کان یُـؤتٰی بالصبیان فیبرک علیھم ویحنکھم فأُتي بصبي فبال علیہ فدعا بماء فأتبعہ بولہ ولم یغسلہ
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارکباد دیتے اور گھٹی دیتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، اس پر ڈال ؍ چھڑک دیالیکن اسے دھویا نہیں۔‘‘
3۔ حضرت علی ؓ کی روایت ( جس کو موضوع قرار دیا گیا ہے ) یہ ہے :
یغسل من بول الجاریۃ ویُنَضَح من بول الغلام ما لم یَطعم
4۔ حضرت اُمّ فضل ؓ کی روایت میں مذکر و مؤنث ہر دو بچوں کا تذکرہ ہے :
إنما یُنضح من بول الذکر ویغسل من بول الأنـثٰی
اس موضوع پر یہ اور دیگر متعدد احادیث اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیر خوار بچے کے پیشاب کو محض چھینٹے مارتے تھے اور شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا کرتے تھے۔
روایات میں یہ صراحت سے موجو د ہے کہ ایسا فرق صرف عرصۂ رضا عت میں روا رکھا جاتا ہے۔یہاںلم یطعم طعامًا سے مراد دودھ ،کھجور اورشہد ،جس سے گھٹی دی جاتی ہے، کے علاوہ دیگر غذائیں ہیں۔ظاہری بات ہے کہ ان غذاؤں کا استعمال عرصۂ رضاعت کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ہوتا ہے۔
اَحادیث میں وارد الفاظ کے معانی
نَضَحَ کا معنی کپڑے پر پانی یا خوشبو چھڑکنا ہے۔ اس کا معنی ٹپکنا بھی آیا ہے۔
اور رَشَّ کا معنی پانی کا چھڑکنا یا آسمان سے بوندیں آنا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ ان دونوں الفاظ کے باہم مخالف فی المعنی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ان کے نزدیک (رش) تنقیط المآء اور (نضح) صبّ الماء کو کہتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ مختلف احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں صب الماء کے الفاظ لم یغسل کی تصریح کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔
فقہی اختلاف
مذکورہ بالا مرویات اور معاشرتی مسا وات نیز خوراک میں فرق نہ ہونے کی بنا پر بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست کے حکم پر اختلاف ہوا اور فقہا کے تین موقف سامنے آئے :
1۔ شیر خوار بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا کافی ہے جب کہ بچی کا پیشاب اس عرصہ میں دھویا جائے گا۔ یہ موقف حضرت علی ؓ،حسن بصری ، امام زہری اورعطا ء کا ہے۔
2۔ بچے اور بچی دونوں کے پیشاب کو عرصۂ رضاعت کے ابتدائی مہینوں میں دھونے کی ضرورت نہیں، صرف نضح اور رشّ کے عمل سے گزارنا کافی ہے۔یہ مؤقف امام مالک،امام شافعی،امام اوزاعی ،اور ابن العربی کاہے ۔
3۔ بچے اور بچی خواہ شیر خوار ہوں، دو نوں کا پیشاب مکمل نجس ہے اور دونوں کو دھونا ہی لازم ہو گا ،دونوں یا کسی ایک کو نضح یا رشّ کے عمل سے گزارنا کافی نہ ہوگا۔یہ موقف احناف کا ہے اور مالکیہ میں سے بھی بہت سے یہی رائے رکھتے ہیں۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضح کا لفظ غسل کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔لیکن اس کا جواب ’طفل رضیع‘ والی حدیث سے اپنے آپ مل جاتا ہے کہ کسی بھی لفظ کو قریب تر معنی کے لیے یا غیرموضوع لہ کے لیے استعارۃً استعمال کیا جاسکتا ہے ، البتہ اگر اس کی تصریح یا تفسیر اسی جملے میں موجود ہو تو اسے قیاس کے ذریعے متعین کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ سیدہ اُمّ قیس اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی احادیث میں لم یغسل کے الفاظ نے نضح یا رش کے معنی خود متعین کردیے ہیں اور یہ راوی یعنی متکلم کے ہی الفاظ ہیں جبکہ فقہ حنفی میں اسے ہی ’مفسر‘ کہا جاتا ہے اور اس پر بغیر کسی احتمال کے عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔
ایسے ہی حضرت علی اور حضرت اُمّ الفضل رضی اللہ عنہما کا عمل بمقابلہ بیان ہو رہا ہے اور جب ایک لفظ کسی دوسرے لفظ کے مقابلہ میں ہو تو بھی یہ معنوی تصریح کے لیے کافی ہوتا ہے، لہٰذا حنفیہ کا یہ موقف انتہائی کمزور ہے اور ان کی دلیل جو کہ نضخ یا رش کے معنی میں دی گئی ہے، وہ ناقابل اعتبار ہے۔ ان احادیث میں ہی واردہ کلمات سے ہی اس بات کی توضیح ہو رہی ہے کہ یہاں نضخ اور رش سے مراد غسل نہیں ہے ۔
اسی طرح جن لوگو ں نے بچے یا بچی ہر دو کے پیشاب کے لیے نضح اور رش کو کافی قرار دیا ہے، ان کی دلیل بھی کمزور ہے اور اوپر کے اُصول کے تحت یہ موقف بھی مردود ہے۔ البتہ پہلا موقف کہ بچہ اور بچی کے پیشاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرق کیا ہے،حدیث کے موافق ہے اور حافظ ابن حجرؒ کا بیان کردہ نضخ اور رش کا فرق حدیث کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ درا صل رش اور نضح غسل کی ہی قسم ہے لیکن غسل نہیں ہے۔