السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا سوال بہت اہم اور بڑا ہے ،
اس کا جواب ایک پوسٹ میں دینا ناممکن ہے ،
شیطان مردود
وہ اولین اور سب سے بڑا دشمن ہے، کہ ہر قسم کی برائی اور خرابی کا تعلق اسی سے ہے، برائیاں وہیں پیدا ہوتی ہیں، اولاد آدم سے اس کی عداوت شدید ترین اور بالکل واضح ہے، اس جیسا دشمن نہ پہلے کبھی کوئی تھا اور نہ ہی بعد میں کوئی آئے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ}
بیشک شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔[يوسف: 5]
شیطان ایسا دشمن ہے جو تھکتا نہیں اور ہار بھی نہیں مانتا، شیطان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا مروت کام نہیں آتی، شیطان نے تمام بنی نوع آدم کو کسی بھی ذریعے سے گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ان کی وجہ سے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔[16]
پھر انسانوں کو آگے، پیچھے ، دائیں، بائیں الغرض ہر طرف سے گھیروں گا، اور توں ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ [الأعراف: 16، 17]
اس دشمنی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو شرف اور فضیلت سے نوازا، آدم کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا، انہیں جنت میں ٹھہرایا، انہیں تمام نام خود سکھائے اور مسجود ملائکہ بنایا، پھر ان کی نسل کو بھی معزز اور مکرم بنایا، اس پر ابلیس نے ان سے حسد کرنا شروع کر دیا اور تکبر سے بھر گیا، جو کہ ہر بیماری اور شر کی جڑ ہے پھر اسی تکبر کی بنا پر اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:
{ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ} میں اس سے بہتر ہوں، توں نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ۔[ص: 76]
پھر جب اسے جنت سے نکال دیا گیا تو اپنی دشمنی کا اظہار کرنے کے لیے اعلان کر دیا: {قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ} اس نے کہا: تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو ضرور بہ ضرور گمراہ کروں گا۔[ص: 82]
اس کے بعد آدم اور حوا کے خلاف سازشیں کرنے لگا اور انہیں جنت سے نکلوا دینے تک معصیت خوبصورت بنا کر دکھانے لگا، اور وہ اب تک اپنی انہی ریشہ دوانیوں پر قائم ہے، شیطان آج بھی لوگوں کو جسمانی اور روحانی ایذا پہنچاتا رہتا ہے، لوگوں کے عقائد و عبادات، جسم و روح، مال و اولاد، کھانے پینے، سونے جاگنے اور صحت و بیماری سمیت ہر حال میں تکلیف پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک شیطان تمہارے ہر معاملے دخل اندازی دیتا ہے) مسلم
چنانچہ عقائد کے متعلق اس کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کے نظریات تباہ ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَابَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ} اے بنی آدم! کیا تمہارے ساتھ یہ پختہ عہد نہیں ہوا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہیں کرو گے؛ بیشک وہ تمہارا واضح ترین دشمن ہے۔[يس: 60]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطان کی انسان دشمنی کی کوئی حد بندی نہیں، لہذا شیطان لوگوں کے کھانے، پینے اور ہمبستری تک میں شراکت بنا لیتا ہے،
[اللہ تعالی نے شیطان کو کھلی چھٹی دیتے ہوئے فرمایا]
{وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ} اور [ اے شیطان! توں چاہے] ان کے مال و اولاد میں ان کا شریک بن جا۔[الإسراء: 64] اس لیے اگر کھانے پینے سے پہلے اللہ کا نام نہ لیا جائے تو شیطان ابن آدم کے کھانے اور پینے میں شریک ہو جاتا ہے، بلکہ جو کھانا گر جائے اسے بھی کھا جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرے تو اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کر لے اور پھر اسے کھا لے، شیطان کیلیے مت چھوڑے ) مسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطان سے بچنے کے اسباب
(1)درست اور صحیح عقیدہ
قرآن و حدیث سے اپنا عقیدہ اخذ کریں،
(2) نماز اور تلاوت قرآن کی پابندی کریں ،
(3)ہر قسم کے گناہ سے پوری کوشش کرکے اپنے آپ کو بچائیں ،
(4) لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، کا ورد بکثرت کریں ،
(5) احادیث میں وارد اذکار کو اپنا وظیفہ بنالیں ،
(6) خاص طور پر صبح و شام قرآن مجید کی آخری تین (سورہ اخلاص ،سورۃ الفلق ،سورۃ الناس ) اہتمام سے پڑھیں :
سنن الترمذی ( 3575 ) میں حدیث شریف مروی ہے ؛
عن معاذ بن عبد الله بن خبيب، عن أبيه، قال: خرجنا في ليلة مطيرة وظلمة شديدة نطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي لنا، قال: فأدركته، فقال: «قل » فلم أقل شيئا، ثم قال: «قل»، فلم أقل شيئا، قال: «قل»، فقلت، ما أقول؟ قال: " قل: قل هو الله أحد، والمعوذتين حين تمسي وتصبح ثلاث مرات تكفيك من كل شيء ": هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه
ترجمہ :
عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے نکلے تا کہ آپ ہمیں صلاۃ پڑھادیں، چنانچہ میں آپ کو پاگیا، آپ نے کہا:
کہو، (پڑھو) تو میں نے کچھ نہ کہا: کہو آپ نے پھر کہامگرمیں نے کچھ نہ کہا، (کیونکہ معلوم نہیں تھا کیا کہوں؟) آپ نے پھر فرمایا:' کہو میں نے کہا: کیا کہوں؟ آپ نے کہا: ' قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ'اور ' الْمُعَوِّذَتَیْنِ' (قل اعوذ برب الفلق ، اور قل اعوذ برب الناس ) صبح وشام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ (سورتیں) تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
علامہ البانیؒ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔