محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
از القاسم حفظہ اللہ
" شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے"
از القاسم حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے27-رجب-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں" شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے" کے عنوان پر ارشاد فرمایا:،
جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، اللہ تعالی نے اس کی دشمنی کے حوالے سے تمام تر تفصیلات واضح طور پر بتلا دیں ہیں-
- اس کی دشمنی کی ابتدا آدم علیہ السلام سے حسد کی بنا پر ہوئی اور اب تک یہ دشمنی جاری ہے،
- شیطان انسان کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے ضائع نہیں جانے دیتا،
- وہ اپنے اہداف کی تکمیل میں تھکتا ہے اور نہ ہی ہار مانتا ہے،
- اس کی کوشش ہے کہ لوگوں کے عقائد اور نظریات تباہ ہو جائیں،
- لوگوں میں شرک پھیلے،
- اور زیادہ سے زیادہ لوگ جہنمی بنیں،
- اس کے لیے وہ لوگوں کو جادو بھی سکھاتا ہے،
- دجال کے ساتھ بھی اس کے چیلے ہوں گے،
- قرب قیامت کے وقت لوگوں کو بت پرستی پر لگا دے گا،
- عبادات میں رخنے ڈالنے کیلیے پہلے انسان کی طہارت میں شکوک پیدا کرتا ہے پھر نماز کے دوران بھی خیالات پیدا کرتا ہے،
- صفوں میں گھس کر وسوسے ڈالتا ہے،
- نمازیوں کی نظروں پر جھپٹتا ہے،
- انسان کے کھانے پینے ، ہمبستری اور گھر بار میں بھی شریک بن جاتا ہے،
- دوران نیند بھی انسان پر غفلت کی گرہیں لگاتا ہے، اور اگر نماز فجر سے سویا رہے تو کان میں پیشاب بھی کر جاتا ہے،
- پھر ڈراؤنے خواب دکھلا کر انسان کو مرعوب کرتا ہے،
- شیطان جزیرہ عرب کے لوگوں کو بکھیرنے کی کوشش میں لگا رہے گا،
- یہ ہر نومولود کو بھی تکلیف دیتا ہے،
- انسان موت کے منہ میں ہو تب بھی تکلیف دینے سے باز نہیں آتا،
- یہ لوگوں کو بہکانے کیلیے بدی کو نیکی کا نام دے کر پیش کرتا ہے، اور جھوٹے وعدے دیتا ہے،
- جہاں قلبی میلان پہلے سے موجود ہو وہاں پر شیطان کا وار زیادہ کارگر ہوتا ہے،
- لوگوں کو راہ الہی میں خرچ کرنے سے روکتا ہے،
- اس کی خواہش ہے حیا اور پردہ داری ختم ہو جائے،
- موسیقی اور گانا بجانا عام ہو،
- کل قیامت کے دن تمام تر شیطانوں کو جمع کر کے جہنم کے ارد گرد حاضر کر دیا جائے گا،
- شیطان کے ہتھکنڈوں سے انبیاء کی اولاد اور اجداد بھی نہ بچ سکے،
- اس سے وہی بچ سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں اللہ پر توکل کرے،
پھر دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ:
- شیطان سے بچنے کا راستہ تقوی ہے،
- اللہ کے مخلص بندے اس کے چنگل سے بچ سکتے ہیں،
- شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنا،
- سوتے وقت آیت الکرسی پڑھنا،
- کھاتے پیتے، جماع کے وقت، گھر داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر شیطان سے تحفظ کا ضامن ہے،
- اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل، اچھی بات، اور انفرادیت چھوڑ کر اجتماعیت اپنانا بھی شیطان سے تحفظ کا باعث بنتا ہے،
عربی خطبہ کی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں
پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -ﷺ-اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقّہ ڈور اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان جانو۔
مسلمانو!
دنیا مصیبتوں اور امتحان کا گھر ہے، جو مصیبت خلقت کو رب سے جدا کر دے وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔ انسان دوست اور دشمن میں تفریق کرنا سمجھ جائے یہ دانش اور عقل مندی کی علامت ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں واضح ترین دشمن کے بارے میں بتلا دیا ہے، اس سے بڑا فتنے میں ڈالنے والا کوئی نہیں، وہ اولین اور سب سے بڑا دشمن ہے، ہر قسم کی برائی اور خرابی کا تعلق اسی سے ہے، برائیاں وہیں پیدا ہوتی ہیں، اولاد آدم سے اس کی عداوت شدید ترین اور بالکل واضح ہے، اس جیسا دشمن نہ پہلے کبھی کوئی تھا اور نہ ہی بعد میں کوئی آئے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ}
بیشک شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔[يوسف: 5]
شیطان ایسا دشمن ہے جو تھکتا نہیں اور ہار بھی نہیں مانتا، شیطان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا مروت کام نہیں آتی، شیطان نے تمام بنی نوع آدم کو کسی بھی ذریعے سے گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ان کی وجہ سے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔[16] پھر انسانوں کو آگے، پیچھے ، دائیں، بائیں الغرض ہر طرف سے گھیروں گا، اور توں ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ [الأعراف: 16، 17]
اس دشمنی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو شرف اور فضیلت سے نوازا، آدم کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا، انہیں جنت میں ٹھہرایا، انہیں تمام نام خود سکھائے اور مسجود ملائکہ بنایا، پھر ان کی نسل کو بھی معزز اور مکرم بنایا، اس پر ابلیس نے ان سے حسد کرنا شروع کر دیا اور تکبر سے بھر گیا، جو کہ ہر بیماری اور شر کی جڑ ہے پھر اسی تکبر کی بنا پر اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:
{ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ}
میں اس سے بہتر ہوں، توں نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ۔[ص: 76]
پھر جب اسے جنت سے نکال دیا گیا تو اپنی دشمنی کا اظہار کرنے کے لیے اعلان کر دیا:
{قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ}
اس نے کہا: تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو ضرور بہ ضرور گمراہ کروں گا۔[ص: 82]
اس کے بعد آدم اور حوا کے خلاف سازشیں کرنے لگا اور انہیں جنت سے نکلوا دینے تک معصیت خوبصورت بنا کر دکھانے لگا، اور وہ اب تک اپنی انہی ریشہ دوانیوں پر قائم ہے، شیطان آج بھی لوگوں کو جسمانی اور روحانی ایذا پہنچاتا رہتا ہے، لوگوں کے عقائد و عبادات، جسم و روح، مال و اولاد، کھانے پینے، سونے جاگنے اور صحت و بیماری سمیت ہر حال میں تکلیف پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے،
نبی ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک شیطان تمہارے ہر معاملے دخل اندازی دیتا ہے) مسلم
چنانچہ عقائد کے متعلق اس کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کے نظریات تباہ ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَابَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ}
اے بنی آدم! کیا تمہارے ساتھ یہ پختہ عہد نہیں ہوا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہیں کرو گے؛ بیشک وہ تمہارا واضح ترین دشمن ہے۔[يس: 60] اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (صبح ہونے پر ابلیس اپنے لشکروں کی تشکیل کرتا ہے اور کہتا ہے: جو آج کسی مسلمان کو گمراہ کر دے اس میں تاج پہناؤں گا) ابن حبان
اللہ تعالی کی طرف سے ملا ہوا فطری عقیدہ توحید سب سے قیمتی متاعِ دنیا ہے، شیطان اسے تباہ کرنے کے در پے رہتا ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے:
(میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہیں دین سے پھیر دیا، جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں انہیں حرام ٹھہرا دیا، نیز انہیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی)مسلم
کوئی بھی غیر اللہ کی بندگی کرنے والا شخص در حقیقت شیطان کو پکارتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا}
وہ اللہ کو چھوڑ کر زنانہ بتوں کو پکارتے ہیں اور وہ صرف سرکش شیطان کو پکارتے ہیں۔[النساء: 117]
شیطان عقائد خراب کرنے کیلیے جادو سکھاتا ہے، تا کہ جادو کرنے والا اور جادو گر سے جادو کا مطالبہ کرنے والا دونوں کافر ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ}
اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو سیدنا سلیمان کے دور حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ سیدنا سلیمان نے کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو شیاطین کرتے تھے وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ [البقرة: 102]
آخری زمانے میں دجال رونما ہو گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اس کے ساتھ اللہ تعالی شیاطین بھی بھیجے گا جو لوگوں سے بات کریں گے) احمد
قیامت صرف برے لوگوں پر ہی قائم ہو گی، شیطان انہیں بتوں کی پوجا کرنے کا حکم دے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(پھر برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جو جلد باز، بےعقل اور درندہ صفت ہوں گے وہ کسی نیکی کو نیکی نہیں کہیں گے اور نہ برائی کو برائی تصور کریں گے، شیطان ان کے پاس کسی بھیس میں آ کر کہے گا: کیا تم میری بات نہیں مانو گے؟، تو وہ کہیں گے: توں ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ تو شیطان انہیں بتوں کی پوجا کرنے کا حکم دے گا) مسلم
عبادات کے متعلق اس کی سازش یہ ہے کہ عبادت گزار کی جب تک عبادت تباہ نہ کر دے وہ اس کے پیچھے پڑا رہتا ہے، پہلے بندے کو طہارت کے متعلق شک میں ڈالتا ہے، آپ ﷺ کافر مان ہے:
(جب کسی کے پاس شیطان آ کر [اس کے دل میں] کہے: تمہارا وضو تو ٹوٹ گیا ہے! تو وہ کہے: توں جھوٹا ہے) احمد
نماز میں خشوع اللہ کے ساتھ ہم کلامی کی لذت کا باعث ہے، چنانچہ جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہو تو وسوسے پیدا کرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(بیشک جب تم میں سے کوئی نماز کیلیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعات پڑھ لی ہیں!؟) متفق علیہ
اگر شیطان کو صفوں میں خلل نظر آئے تو صف میں بھی گھس جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(خالی جگہ پر کر دو، ؛کیونکہ شیطان تمہارے درمیان [خالی جگہ میں]گھس جاتا ہے) احمد
اللہ تعالی نمازی کے سامنے ہوتا ہے اور نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا بھی شیطان کی چال بازی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(یہ جھپٹّا ہے جو شیطان بندے کی نماز پر لگاتا ہے) مسلم
نماز توڑنے کیلیے شیطان پوری طاقت صرف کرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترے کی طرف منہ کر کے پڑھے اور سترے سے قریب ہو کر کھڑا ہو، تا کہ شیطان اس کی نماز نہ توڑ سکے) حاکم، اور اسی طرح فرمایا: (کسی بھی بستی یا خانہ بدوش جگہ کے تین افراد میں [با جماعت]نماز قائم نہیں کی جاتی تو ان پر شیطان قابض ہے) ابو داود
شیطان کی انسان دشمنی کی کوئی حد بندی نہیں، لہذا شیطان لوگوں کے کھانے، پینے اور ہمبستری تک میں شراکت بنا لیتا ہے،[اللہ تعالی نے شیطان کو کھلی چھٹی دیتے ہوئے فرمایا]
{وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ}
اور [ اے شیطان! توں چاہے] ان کے مال و اولاد میں ان کا شریک بن جا۔[الإسراء: 64]
اس لیے اگر کھانے پینے سے پہلے اللہ کا نام نہ لیا جائے تو شیطان ابن آدم کے کھانے اور پینے میں شریک ہو جاتا ہے، بلکہ جو کھانا گر جائے اسے بھی کھا جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرے تو اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کر لے اور پھر اسے کھا لے، شیطان کیلیے مت چھوڑے ) مسلم
جب انسان اپنی اہلیہ کے پاس جائے تو تب بھی شیطان کو خدشہ ہوتا ہے کہ انہیں نیک اولاد نہ مل جائے، اس پر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں ہمبستری کی دعا ہی بھلا دے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(اگر تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جاتے ہوئے کہے: "بِسْمِ اللهِ اَللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا" [مجھے شیطان سے بچا اور جو توں مجھے عطا کرے اسے بھی شیطان سے محفوظ فرما] تو اگر انہیں بچے کی امید لگ گئی تو اسے شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا) متفق علیہ
اسی طرح اگر گھر میں اللہ کا ذکر نہ کیا جائے تو شیطان گھر میں بھی شریک بن جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کر لے تو شیطان [اپنے چیلوں سے]کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں نہ سونے کی جگہ ہے نہ رات کا کھانا۔ اور جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں سونے کی جگہ ہے، اور پھر کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر نہ کرے تو کہتا ہے: تمہارے لیے سونے کی جگہ اور رات کے کھانے کا انتظام ہو گیا ہے۔) مسلم
پھر جب رات کی ابتدا ہوتی ہے تو شیطان لوگوں کو تکلیف پہنچانے کیلیے پھیل جاتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(جب رات کی ابتدا ہو یا جب تمہیں شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو گھروں میں روک لو؛ کیونکہ شیاطین اس وقت منتشر ہوتے ہیں) بخاری
رات کی نیند آرام اور سکون حاصل کرنے کیلیے ہے تا کہ انسان صبح سویرے چست اور چاق و چوبند بیدار ہو، لیکن شیطان سوئے ہوئے شخص کو بھی اذیت دینے سے باز نہیں آتا لہذا:
(تم میں سے کوئی جب سویا ہوا ہو تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر کہتا ہے: ابھی رات بہت لمبی ہے، اس لیے ابھی نیند کر، تا کہ جب وہ بیدار ہو تو بہت تنگ ہو اور کاہلی سے بھر پور ہو، لیکن اگر بندہ بیدار ہونے کے بعد اللہ کا ذکر کر لے اور وضو بنا کر نماز پڑھ لے تو اللہ اس کی یہ گرہیں کھول دیتا ہے ) متفق علیہ
پھر جب فجر کی نماز سے سویا رہ جائے تو شیطان اس کو مزید ذلیل کرنے کیلیے اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے، نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا کہ وہ رات سے فجر کے بعد تک سویا رہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ وہ شخص ہے جس کے دونوں کانوں میں [یا آپ نے فرمایا] ایک کان میں شیطان پیشاب کر گیا ہے) مسلم
شیطان سوئے ہوئے شخص کے نتھنوں میں رات گزارتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو وضو کرتے ہوئے تین بار اپنی ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان اس کے نتھنوں میں رات گزارتا ہے) متفق علیہ
نیند سے انسان ذہنی اور جسمانی آرام حاصل کرتا ہے، لیکن شیطان انسان کو نیند میں بھی تنگ کرتا ہے اور خواب میں اسے ڈراتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(رؤیا [اچھا خواب]: اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور حُلم[برا خواب]: شیطان کی جانب سے)متفق علیہ
لوگوں کے درمیان باہمی الفت اور محبت افراد اور معاشرے سب کیلیے مفید ہے، لیکن شیطان لوگوں میں جدائی اور ان کے تعلقات خراب کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(شیطان جزیرۃ العرب میں اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی بندگی کریں گے، لیکن ان کی آپسی چپقلش رہے گی) مسلم
شیطان کے شر سے کوئی بھی نہیں بچ پایا، جیسے ہی انسان پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے دونوں پہلوؤں میں تکلیف دیتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(شیطان ہر نو مولود کو پیدائش کے وقت تکلیف پہنچاتا ہے تو نو مولود شیطان کے تکلیف دینے پر چلا اٹھتا ہے، سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے) متفق علیہ
شیطان انسان کو گمراہ کرنے کیلیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے، چنانچہ (شیطان انسان کے جسم میں خون کی مانند دوڑتا ہے، اور تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے ایک قرین مقرر ہے) مسلم
شیطان جسم میں داخل ہو کر انسان کو خبطی بنا دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ}
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ [البقرة: 275]
شیطان انسان کو موت کے منہ تک تکلیف دینے پر تلا رہتا ہے، اسی لیے آپ ﷺ نے امت کو یہ دعا سکھلائی کہ:
( "وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ يَّتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ" [اور [یا اللہ!]میں تیری اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی کر دے]) نسائی
اولادِ آدم کے خلاف اس کی مکاریوں اور چالبازیوں کے کئی طریقے ہیں، وہ کبھی باطل کو اچھا بنا کر دکھاتا ہے اور یہ شبہ ڈالتا ہے کہ یہی حق ہے، اسی لیے بدر کے موقع پر مشرکوں کو ان کی منصوبہ بندی خوبصورت بنا کر دکھائی، اسی کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا:
{وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ}
اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقیناً میں تمہارا حمایتی ہوں۔[الأنفال: 48]
شیطان گناہ کا نام بدل کر بھی پیش کرتا ہے، جیسے کہ شیطان نے آدم علیہ السلام کو کہا تھا:
{هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى}
کیا میں تجھے دائمی زندگی اور نہ کمزور ہونے والی بادشاہت کا درخت بتلاؤں ؟[طہ: 120]
اسی طرح شیطان وہیں سے وار کرتا ہے جہاں قلبی میلان پہلے سے موجود ہو، اس کیلیے شیطان ظاہر یہی کرتا ہے کہ وہ بڑا خیر خواہ ہے، جیسے کہ آدم اور حواء علیہما السلام سے کہا:
{مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ}
تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جاؤ [الأعراف: 20]
پھر اس پر قسمیں بھی اٹھا لیتا ہے، جیسے کہ اس کی حرکت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
{وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ}
اور ان دونوں کے رو برو قسم کھا لی کہ یقین جانیے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں [الأعراف: 21]
شیطان جھوٹے وعدے اور تسلیاں بھی دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا}
انہیں شیطان وعدے اور آرزوئیں دلاتا ہے، شیطان کا وعدہ دھوکا ہی ہوتا ہے۔ [النساء: 120]
لوگوں کو جھوٹی امیدوں سے دھوکے میں ڈالتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ}
بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز [شیطان] تمہیں دھوکا دے۔[لقمان: 33]
اسی طرح نیک لوگوں کو اپنے کمزور لشکروں سے بھی ڈرانے کی کوشش کرتا ہے:
{إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ}
بیشک یہ شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں کے ذریعے تمہیں ڈراتا ہے۔[آل عمران: 175]
انہیں رضائے الہی کیلیے خرچ کرنے سے بھی روکتا ہے، ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خرچ کرنے پر وہ خود کنگال ہو جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ}
شیطان تمہیں غربت کے وعدے دیتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ [البقرة: 268]
شیطان لوگوں پر پریشانیوں کے انبار لگا دیتا ہے اور پھر انہیں ماضی پر حسرت دلاتا ہے، جیسے عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ: "اگر "میں یوں کر لیتا تو ایسے ہو جاتا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ("اگر"شیطانی عمل کی ابتدا کرتا ہے۔)مسلم
شیطان شہوت کے راستے اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، چنانچہ (کوئی بھی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرے تو تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے) ترمذی
شیطان حیا، پردہ داری اور عفت کو مرد و زن دونوں سے ختم کرنے کے در پے ہے، حالانکہ پردہ برہنہ ہو جائے تو سزا نازل ہوتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا}
پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے۔ [الأعراف: 20]
لوگوں کو حرام آوازوں اور موسیقی وغیرہ کے ذریعے گمراہ کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ}
ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے؛ بہکا لے [الإسراء: 64]
شرک بھی انسان کو گمراہ کرنے اور اپنے مقاصد پانے کیلیے شیطان کا ہتھکنڈا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ}
اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بیشک وہ تمہارے لیے واضح دشمن ہے۔[البقرة: 168]
تمام تر چالبازیوں کے لیے شیطان کے معاونین بھی موجود ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ }
اور یقیناً شیاطین اپنے چیلوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ [الأنعام: 121]
شیطان کی مکاریوں اور چالبازیوں کے اہداف ہیں، شیطان ان کی تکمیل کیلیے ہر انتہا تک جاتا ہے، ان اہداف میں بنیادی ترین ہدف یہ ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت سے روک دے اور لوگوں کو گمراہ کر دے، شیطان نے بذات خود کہا تھا:
{رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ}
میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے؛ تو مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا ۔ [الحجر: 39]
اس لیے شیطان غفلت کے موقعے تلاش کر کے انہیں اللہ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ}
شیطان ان پر مسلط ہو گیا ہے اور انہیں ذکر الہی سے غافل کر دیا ۔[المجادلة: 19]
شیطان ہر قسم کی بری خصلت کی ترغیب دیتا ہے اور ہر اچھے کام سے روکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ}
بیشک وہ تمہیں برائی، بے حیائی اور اللہ تعالی پر ایسی باتیں کرنے کا حکم دیتا ہے جن کے بارے میں تمہارے پاس علم نہیں ہے۔[البقرة: 169]
لوگوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا اور خالق سے دوری بھی شیطان کا مقصد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ}
شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے ۔[المائدة: 91]
شیطان کا انتہائی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی رحمت سے دور کر دے اور نہیں جہنم میں دھکیل دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ}
بیشک وہ اپنے گروہ کو دعوت دیتا ہے تا کہ وہ جہنمی بن جائیں۔[فاطر: 6]
شیطان کی پیروی کا انجام آخر کار بدبختی اور وبال ہو گا، دنیا یا آخرت میں کسی بھی قسم کی بدبختی کا سبب شیطان کی پیروی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى}
بیشک یہ تیرا اور تیری اہلیہ کا دشمن ہے، مبادا تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے، تو تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔[طہ: 117]
شیطان کے پیچھے چلنے والا شخص شدید قسم کی پریشانی اور گمراہی میں ہو گا، اور شیطان کی دوستی سراپا گھاٹے کا سودا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا}
اور جو شخص شیطان کو اللہ کے سوا اپنا دوست بنا لے تو وہ واضح گھاٹے میں پڑ گیا۔ [النساء: 119]
جب قیامت قائم ہو گی تو سب شیطانوں کو بھی جمع کیا جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا}
آپ کے پروردگار کی قسم ! ہم انہیں اور ان کے ساتھ شیطانوں کو ضرور جمع کر لائیں گے۔ پھر ان سب کو گھٹنوں کے بل جہنم کے ارد گرد حاضر کر دیں گے۔ [مريم: 68]
جب شیطان اپنے مریدوں سے اظہار براءت کرے گا تو ان کی پشیمانی میں مزید اضافہ ہو جائے گا، وہ کہے گا:
{إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ}
بیشک اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے بھی تمہیں وعدہ دیا تھا تو وہ میں نے پورا نہیں کہا۔[إبراهيم: 22]
پھر شیطان اور اس کے مرید سب کے سب جہنم میں جائیں گے اور وہ انتہائی برا ٹھکانا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَدْحُورًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ}
اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ [الأعراف: 18]
ان تر تفصیلات کے بعد، مسلمانو!
شیطان نے تو رسولوں کی اولاد اور ان کے والدین تک کو گمراہ کر دیا تھا، جیسے کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا اور ابراہیم علیہ السلام کا والد شیطان کے شکنجے میں آ گیا، بلکہ شیطان پوری کی پوری قوم کی تباہی کا باعث بھی بنا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ}
اور ہم نے قوم عاد اور ثمود کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ وہ سمجھدار تھے۔ [العنكبوت: 38]
شیطانی تباہ کاریوں سے اللہ پر توکل کرنے والے مومن کے علاوہ کوئی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ}
اس[شیطان] کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں [النحل: 99]
اللہ سے تعلق بنانے والا شیطان سے دشمنی رکھتا ہے، اور جو اللہ سے رو گردانی کر لے تو وہ شیطان کا یار بن جاتا ہے، اللہ تعالی اپنے دوستوں کا والی وارث ہے، جبکہ شیطان اپنے تعلق داروں کو ذلیل و رسوا کرے گا؛ اس لیے ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں، احکامات الہیہ کی تعمیل کریں، اس کی نافرمانی سے بچیں؛ کیونکہ عزت و شرف اللہ کی اطاعت، احکامات الہیہ کی عملی صورت پیش کرنے سے ملے گا۔ جبکہ رسوائی شیطانی جال میں پھنسنے پر ہمارا مقدر بن جائے گی، اگر کوئی شیطانی جال میں پھنس گیا تو اللہ تعالی اس پر ایسا عذاب مسلط کر دے گا جس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ}
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اس کو اپنا دشمن سمجھو، بیشک وہ اپنی جماعت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ جہنمیوں میں شامل ہو جائیں۔ [فاطر: 6]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر، ان کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
مسلمانو!
شیطان سے بچنے کا رستہ صرف تقوی ہے، شیطان کیلیے سب سے سخت گیر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کے چنیدہ ہوں اور اپنی عبادت صرف ایک اللہ کیلیے کریں، اس چیز کا اقرار شیطان نے خود کیا اور کہا:
{قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (82) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ}
کہنے لگا تو پھر تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا۔ [82] سوائے ان لوگوں کے جو تیرے چنیدہ ہیں۔[ص: 82، 83]
شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرنا بہترین ذریعہ ہے، اللہ کا ذکر رحمتِ الہی کو کھینچتا ہے اور شیطان کو دھتکارتا ہے (بیشک شیطان اس گھر سے فرار ہوتا ہے جہاں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہے) بخاری
بستر پر لیٹتے وقت آیت الکرسی پڑھنے سے ساری رات کیلیے اللہ تعالی کی جانب سے ایک محافظ مقرر ہو جاتا ہے اور شیطان صبح تک اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔
جو شخص ایک دن میں سو بار "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" پڑھے تو یہ ورد اس کیلیے شام تک شیطان سے تحفظ کا باعث بن جاتا ہے۔ جس وقت انسان اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان کہتا ہے کہ : تمہارے لیے یہاں نہ رات کا پڑاؤ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔
اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل، حدود اللہ سے عدم تجاوز دونوں شیطان کی اذیت سے بچنے کیلیے بہترین معاون ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ}
بلاشبہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی وسوسہ چھو بھی جاتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور فوراً صحیح صورت حال دیکھنے لگتے ہیں [الأعراف: 201]
اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے، اور شیطان بھی جماعت سے دور رہتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص جنت کی بہاریں چاہتا ہے تو وہ ملت کے ساتھ رہے؛ کیونکہ شیطان تنہا شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور رہتا ہے) احمد
اچھی بات بھی شیطانی وسوسوں کو دور بھگانے کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ}
آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے : کہ وہی بات زبان سے نکالیں جو بہتر ہو کیونکہ شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ [الإسراء: 53]
شیطان کو اپنا دشمن بنا لینے والا شیطان سے لا تعلق رہتا ہے، خود کی اس کی مشابہت سے بھی دور رکھتا ہے۔
یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا ہمارے ملک کے بارے میں برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا قوی ! یا عزیز!
یا اللہ! ہماری فوج کی مدد فرما، ان کے قدموں کو ثابت فرما، اور دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرما، یا ذالجلال والا کرام!
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ / پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں۔
Last edited: