• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیطان کی کہانی شیطان کی زبانی

منصور

مبتدی
شمولیت
جولائی 21، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
0
انسانوں کی ایک محفل میں گناہوں کا ذکر چھڑ گیا ایک بولا اگر دنیا میں شیطان کا وجود نہ ہوتا تو کوئی شخص گناہ نہ کرتا ۔ دوسرے نے کہا ۔ شیطان کو کیوں بدنام کرتے ہو ، گناہ خود انسان کرتا ہے شیطان کا اس مین کیا قصور ۔؟
بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی سوال اٹھا یہ شیطان ہے کیا بلا کسی نے کہا فرشتہ تھا ، کسی نے کہا جن تھا کوئی بولا فرشتوں کا استاد ہے ، آدم کو جنت سے نکلوادیا اور اب دنیا میں لوگوں سے گناہ کرا رہا ہے ۔یقین کے ساتھ شیطان کے متعلق کوئی کچھ نہ بتا سکا۔ دوستوں میں سے ایک بولا یار دنیا میں ہزارون انسانوں نے اپنی سوانح عمریاں شایع کیں ، فرشتون کی دنیا میں کسی کو یہ جرت نہ ہوئی ۔ کم سے کم یہ معلوم تو ہوتا یہ لوگ کون ہیں اور یہ جو ان کا استاد مشہور ہے آخر ایسی کیا بپتا پڑی کہ بیچارا اتنا بدنام ہو رہا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دنیا اپنے اعمال نامے انسانوں کے سامنے بھیجتے شرماتی ہے ضرور کوئی نہ کوئی خامی ہوگی ۔
انسانوں کی زبانی یہ کلام سن کر شیطان کو بڑا غصہ آیا اور غصے میں اس نے اپنی کہانی خود اپنی زبانی ہی سنانی شروع کردی تاکہ انسانوں میں اسکی سبکی نہ ہو ۔شیطان نے خود اپنی زبان میں اپنی سوانح عمری کچھ اس طرح شروع کی ۔
گزارش
کیوں صاحب ! جب ہمارے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مٹی کے کھلونے دنیا میں آکر اپنی اپنی سوانح عمریاں شائع کرتے ہیں تو فرشتوں اور ان کے ساتھیوں نے کسی کا بیل تھوڑی مارا ہے کہ زبان اور قلم پر تالا لگائے بیٹھے رہیں ہم کیون نہ اپنی زندگی کے حالات لکھیں اور کیوں نہ اسے شائع کریں۔
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی کیون نہی کی یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے ۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں سمجھ سکتے خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی رہی ہیں یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلو ں سے پہلے کھانا سیکھا ہے پہلے بولنا سیکھا ہے اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے ۔شیطان نے اور نہ جانے کیا کیا کہا نادان جاہل ظالم کمتر انسان ، خاکی عقل والا کوتاہ عقل نا سمجھ بڑا طول بھری داستان تھی جو اس کی اندر کی آگ کی غمازی کر رہی تھی لیکن میں وہ سب کچھ حذف کر رہا ہوں کیوں کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اس لئے میں صرف قیمتی باتیں آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔
میں اپنی سوانح عمری لکھنے سے پہلے یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ میرے پاس فی الحال کوئی ایسا نیشی نہیں ہے جو میرے بتائے ہوئے واقعات سلسلہ وار درج کر سکے اور ظاہر ہے کہ میں بیک وقت یہ دونو ں کام انجام نہیں دے سکوں گا نہ میرے پاس اتنا وقت ہے اور نہ بظاہر اسکی کوئی ضرورت ہے ، میرا مقصد زندگی کے واقعات اور سوانح حیات کو روشنی میں لانا ہے اور اسکے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ تقدیم اور تاخیر کا خیال رکھا جاے پس میری زندگی کے واقعات پڑہنے والوں کو یہ خیال نظر انداز کر دینا پڑیگا کہ میں نے سلسلہ کیوں نہ قائم رکھا ۔
(ابلیس)
[/COLOR][/COLOR]
پیدائش
میری پیدائش کا زمانہ او ر اسکے قبل کے حالات کچھ ایسے پیچیدہ ہیں کہ مو جودہ زمانہ کے انسان کی ادھوری عقل ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی ۔
اس واسطے مجھے اپنے نادان مخاطب کو سمجھانے کے لئے انکی تفصیل بھی لکھنی پڑے گی کیوںکہ انسان بیچارا بہت ہی محدود عقل کا پتلا ہے اور جہاں تک اسکی عقل کام کرتی ہے اس سے زیادہ یقین کرنے کے لئے یہ کبھی تیار نہیں ہوتا چنانچہ اس نا سمجھ کو سمجھانے کے لئے مجھے وہ تمام واقعات با التفصیل لکھنے پڑیں گے جو میری پیدائش سے پہلے تشکیل عالم کے لئے ظہور پذیر ہوئے اور دنیا موجود ہ شکل میں آئی ۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتانا ہے کہ دنیا کس طرح اور کیوں بنی ؟
کس طرح بنی یہ تو میں خوب جانتا ہوں اور مجھے خوب بتایا گیا ہے ۔ لیکن کس لئے ؟ اسکا جواب میرے پاس صرف ایک ہے اور اس میں اعتراض کرنے کی کسی کی مجال ہی نہیں ۔
خدا سے پوچھا گیا کہ پر ور دگار تخلیق کائنات سے تیرا کیا منشا ہے یہ سب کھیل کیوں کھیلا ہے ؟جواب ملا
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا مجھے اچھا معلوم ہوا کہ میں پہچانا جاؤں لہذا میں نے کائنات بناڈالی۔
اب بتائیے اس میں کون دم مار سکتا ہے اور اس کے بعد سوال ہی کیا رہ جاتاہے ۔ جب بتانے والا خود یہ کہ دے کہ مجھے اچھا معلوم ہوا کہ پہچانا جاؤں اس لئے دنیا بنادی ۔ تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے بعد دوسرا سوال کر سکے ۔ خیر چلا کہ اچھا ہوا کہ دنیا بنانے کا جواب انہوں نے خود ہی دے دیا ۔
اب رہا یہ سوال کہ دنیا کس طرح بنی یہ مجھ سے سن لیجئے مجھے بھی نہایت معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اور صاف ہی کیوں کہ دوں کہ مجھے خود میرے پروردگار نے مختلف اوقات میں سمجھا یا ہے کچھ تو خود بغیر دریافت کئے اور کچھ مختلف فرشتوں کی معرفت مجھے یہ تعلیم ملی ہے پس ضرورت ہے کہ اپنے حالات کی ابتدا ء کرنے سے پہلے یہ سمجھاؤں کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی۔
ایک نور تھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کا نور ہے مجھے خود بھی بار ہا انکی زیارت نصیب ہوئی ہے ا س وقت جب میں آسمان پر گرفتار کر کے لایا گیا تھا ،ہاں تو واقعات یہ ہیں کہ اس وقت جبکہ کائنات میں کچھ بھی نہ تھا صرف نور خدا وندی ہر طرف جلوہ افروز تھا کہ پر وردگار نے اپنے پہچاننے کے لئے تخلیق کائنات کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے اس نور کو دو حصو ں میں تقسیم فرمایا پہلا حصہ جس میں ایک راز تھا اور جسے صرف پرور دگار ہی جانتا تھا دوسرے حصہ سے زیادہ روشن اور کثیر الضیاء تھا اس تقسیم کے بعد صانع مطلق نے پہلے حصہ کا نام نور رکھا اور بقیہ نصف جو صفات نور یہ سے کم درجہ پر تھا اور جسمیں سے ضیائے خاص علیحدہ کر لی گئی تھی اس کو بھی دو حصوں پر تقسیم فرمادیا پہلے حصہ کو دوسرے پر فضیلت دینے کے لئے اس میں مخصوص ترمیم فرمائی گئی ۔ چنانچہ پہلے حصہ سے جس کا نام نا ر تجویز ہوا تھا قوم جن کی تخلیق ہوئی اور بقیہ دوسرا حصہ ( جس میں صفاتِ نور یہ معدوم ہوچکی تھی ) ارواح شیاطین اور ارواح خبیثہ کے لئے رہ گیا ۔
Qچنانچہ اب یہ تقسیم اس طرح ہوئی کہ حصہ اول جو خالص نور تھا اور جس میں ضیائے خاص موجود تھی اس کو ارواحِ مقدسہ اور ملائکہ نیز اطباق و سماوات وغیرہ کے لئے مخصو ص فرمایا چنانچہ سب سے پہلے روح پاک پیغمبر آخر الزمان تخلیق فرمائی گئی اس کے بعد لوح و قلم اور عقل اور کل اجسام کی تخلیق عمل میں آئی زمین و آسمان پیدا کئے گئے اور اس نور خاص کے بقیہ نصف سے جس میں سے ضیائے خاص علیحدہ ہونے کے بعد دو حصے ہوئے ان میں سے پہلے حصہ کو جو اپنے دوسرے نصف سے ممتاز تھا قوم جن کی تخلیق کے واسطے رکھا گیا اور اس کے بقیہ دوسرے حصہ کو ارواح شیاطین کے لئے مخصوص کر دیا گیا ۔
سب سے پہلے جو تقسیم عمل میں آئی اس کے نصف بہترسے جو مخلوق عالم وجود میں آئی اس کا فرضِ منصبی عبادت قرار پایا گیا کیوںکہ وہ نور خاص سے پیدا کی گئی تھی اس لئے اس کی سرشت میں عبادات داخل ہوئی اور معصوم رہی اور چونکہ خالص نور سے تخلیق ہوئی تھی اس واسطے اس مخلوق کا سایہ تک نہ پڑتا تھا اس کے بعد حصہ دوم جو ضیائے خاص سے محروم تھا لیکن ایک حصہ نور تھا قوم جن کے لئے مخصوص ہوا ۔ چنانچہ قوم جن کا سایہ بھی زمین پر نہیں پڑتا لیکن چونکہ اس کی تخلیق میں نا ر کا جز غالب ہے اور حصہ نور یہ کم ۔ اس لئے زیادہ تر یہ قوم تباہی کی طرف دوڑتی رہی کبھی کبھی اس قوم کے بعض افراد مائل بے دین ہوئے اور اس کی وہی وجہ تھی کہ انکی تخلیق میں کچھ کچھ نور کی جھلک ضرور تھی لیکن نار غالب تھی اس لئے تباہی و بربادی زیادہ میسر آئی ۔
خیر ! تو یہ تشکیل دنیا کی کیفیت تھی جسے میں نے ضرور تاً بہت ہی مختصر بیان کیا اب میں باقی تمام صحیفے چھوڑ کر وہ حالات بیان کرتا ہون جہاں سے میری زندگی کی ابتداء ہوئی دنیا کے بہت سے نا سمجھ انسان مجھے فرشتہ سمجھتے ہیں بڑے بڑے پڑھے لکھے میرے متعلق یہی رائے رکھتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ میں ہیڈ فرشتہ ہوں اس لئے فرشتوں کا استاد مشہور ہوں بہر حال یہ طے شدہ امر ہے کہ میرے متعلق دنیاوالے بہت کم جانتے ہیں کہ میں کون ہوں اس حالت میں کیسے آیا چنانچہ میں انسان کی محدود معلومات اور ناقص عقل کا مر ثیہ پڑھنے اور اسکی مخصوص فطرت اور مفسد ذہنیت کی قسم کھا کر صحیح واقعات لکھتا ہوں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو کائنات کو عالم وجود میں آئے ہوئے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال گزر چکے تھے ۔

دنیا کی ابتداء

جاری ہے ۔
[/COLOR]
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
شیطان کی اس سوانح حیات کا ماخذ کیا ہے؟؟؟

کیونکہ اس میں بہت سی باتیں قرآن وسنت کے مخالف ہیں، مثلاً

بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی سوال اٹھا یہ شیطان ہے کیا بلا کسی نے کہا فرشتہ تھا ، کسی نے کہا جن تھا کوئی بولا فرشتوں کا استاد ہے ، آدم کو جنت سے نکلوادیا اور اب دنیا میں لوگوں سے گناہ کرا رہا ہے ۔یقین کے ساتھ شیطان کے متعلق کوئی کچھ نہ بتا سکا۔
حالانکہ یہ بات طے ہے کہ شیطان جنّوں میں سے ہے، جیسا کہ سورۃ الکہف میں موجود ہے۔

سب سے پہلے تو مجھے یہ بتانا ہے کہ دنیا کس طرح اور کیوں بنی ؟
کس طرح بنی یہ تو میں خوب جانتا ہوں اور مجھے خوب بتایا گیا ہے ۔ لیکن کس لئے ؟ اسکا جواب میرے پاس صرف ایک ہے اور اس میں اعتراض کرنے کی کسی کی مجال ہی نہیں ۔
خدا سے پوچھا گیا کہ پر ور دگار تخلیق کائنات سے تیرا کیا منشا ہے یہ سب کھیل کیوں کھیلا ہے ؟جواب ملا
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا مجھے اچھا معلوم ہوا کہ میں پہچانا جاؤں لہذا میں نے کائنات بناڈالی۔
اب بتائیے اس میں کون دم مار سکتا ہے اور اس کے بعد سوال ہی کیا رہ جاتاہے ۔ جب بتانے والا خود یہ کہ دے کہ مجھے اچھا معلوم ہوا کہ پہچانا جاؤں اس لئے دنیا بنادی ۔ تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے بعد دوسرا سوال کر سکے ۔ خیر چلا کہ اچھا ہوا کہ دنیا بنانے کا جواب انہوں نے خود ہی دے دیا ۔
اس حدیث کی کتبِ حدیث میں کوئی اصل ہی نہیں ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ دنیا کس طرح بنی یہ مجھ سے سن لیجئے مجھے بھی نہایت معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اور صاف ہی کیوں کہ دوں کہ مجھے خود میرے پروردگار نے مختلف اوقات میں سمجھا یا ہے کچھ تو خود بغیر دریافت کئے اور کچھ مختلف فرشتوں کی معرفت مجھے یہ تعلیم ملی ہے پس ضرورت ہے کہ اپنے حالات کی ابتدا ء کرنے سے پہلے یہ سمجھاؤں کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی۔
ایک نور تھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کا نور ہے مجھے خود بھی بار ہا انکی زیارت نصیب ہوئی ہے ا س وقت جب میں آسمان پر گرفتار کر کے لایا گیا تھا ،ہاں تو واقعات یہ ہیں کہ اس وقت جبکہ کائنات میں کچھ بھی نہ تھا صرف نور خدا وندی ہر طرف جلوہ افروز تھا کہ پر وردگار نے اپنے پہچاننے کے لئے تخلیق کائنات کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے اس نور کو دو حصو ں میں تقسیم فرمایا پہلا حصہ جس میں ایک راز تھا اور جسے صرف پرور دگار ہی جانتا تھا دوسرے حصہ سے زیادہ روشن اور کثیر الضیاء تھا اس تقسیم کے بعد صانع مطلق نے پہلے حصہ کا نام نور رکھا اور بقیہ نصف جو صفات نور یہ سے کم درجہ پر تھا اور جسمیں سے ضیائے خاص علیحدہ کر لی گئی تھی اس کو بھی دو حصوں پر تقسیم فرمادیا پہلے حصہ کو دوسرے پر فضیلت دینے کے لئے اس میں مخصوص ترمیم فرمائی گئی ۔ چنانچہ پہلے حصہ سے جس کا نام نا ر تجویز ہوا تھا قوم جن کی تخلیق ہوئی اور بقیہ دوسرا حصہ ( جس میں صفاتِ نور یہ معدوم ہوچکی تھی ) ارواح شیاطین اور ارواح خبیثہ کے لئے رہ گیا ۔
Qچنانچہ اب یہ تقسیم اس طرح ہوئی کہ حصہ اول جو خالص نور تھا اور جس میں ضیائے خاص موجود تھی اس کو ارواحِ مقدسہ اور ملائکہ نیز اطباق و سماوات وغیرہ کے لئے مخصو ص فرمایا چنانچہ سب سے پہلے روح پاک پیغمبر آخر الزمان تخلیق فرمائی گئی اس کے بعد لوح و قلم اور عقل اور کل اجسام کی تخلیق عمل میں آئی زمین و آسمان پیدا کئے گئے اور اس نور خاص کے بقیہ نصف سے جس میں سے ضیائے خاص علیحدہ ہونے کے بعد دو حصے ہوئے ان میں سے پہلے حصہ کو جو اپنے دوسرے نصف سے ممتاز تھا قوم جن کی تخلیق کے واسطے رکھا گیا اور اس کے بقیہ دوسرے حصہ کو ارواح شیاطین کے لئے مخصوص کر دیا گیا ۔
سب سے پہلے جو تقسیم عمل میں آئی اس کے نصف بہترسے جو مخلوق عالم وجود میں آئی اس کا فرضِ منصبی عبادت قرار پایا گیا کیوں کہ وہ نور خاص سے پیدا کی گئی تھی اس لئے اس کی سرشت میں عبادات داخل ہوئی اور معصوم رہی اور چونکہ خالص نور سے تخلیق ہوئی تھی اس واسطے اس مخلوق کا سایہ تک نہ پڑتا تھا اس کے بعد حصہ دوم جو ضیائے خاص سے محروم تھا لیکن ایک حصہ نور تھا قوم جن کے لئے مخصوص ہوا ۔ چنانچہ قوم جن کا سایہ بھی زمین پر نہیں پڑتا لیکن چونکہ اس کی تخلیق میں نا ر کا جز غالب ہے اور حصہ نور یہ کم ۔ اس لئے زیادہ تر یہ قوم تباہی کی طرف دوڑتی رہی کبھی کبھی اس قوم کے بعض افراد مائل بے دین ہوئے اور اس کی وہی وجہ تھی کہ انکی تخلیق میں کچھ کچھ نور کی جھلک ضرور تھی لیکن نار غالب تھی اس لئے تباہی و بربادی زیادہ میسر آئی ۔
کتب وسنت کے صریح مخالف اس سارے خیالی فلسفے کی کوئی دلیل؟؟؟!
 

منصور

مبتدی
شمولیت
جولائی 21، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
0
دنیا کی ابتداء

چونکہ مجھے دنیا کی مکمل تاریخ نہیں لکھنی بلکہ صرف اپنی زندگی کے حالات شائع کرنا ہیں اس واسطے میں تمام واقعات چھوڑ کر صرف اپنی قوم کا ذکر کروں گا اور اس سے میرے حسب و نسب کے متعلق بھی معلومات ہوسکے گی سب سے پہلے یہ معلوم کیجئے کہ میں فرشتہ نہیں ہوں بلکہ قوم اجنا میں سے ہوں میرے جد امجد دنیا کے سب سے پہلے جن ہیں جنکو تخلیق کائنات کی ابتدا میں پیدا کیا گیا تھا اور مجھ سے کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار سال قبل پیدا ہوئے تھے ان کا نام طارانوس تھا اور لقب جان تھا مگر عام طور سے ابوالجن کہلاتے تھے بعض دنیاوی مور خوں نے میر ے جد امجد طارہ نوس کا نام سوما لکھا ہے لیکن جہاں تک میری معلومات کام کرتی ہے انکا نام طارہ نوس تھا ممکن ہے کہ کسی مناسبت سے وہ کچھ عرصہ کے لئے سوما کے نام سے بھی مشہور ہوئے ہیوں لیکن ہمارے خاندانی معاملات میں انکا نام طارہ نوس ہی لیا جاتا تھا سنا ہے کہ تاریخی کتابوں میں انسان ضعیف البیان نے طارہ نوس کا نام مارج بھی لکھا ہے بہر حال ان سب اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ان کا نام طارہ نوس ماننا چاہئے ۔
جس طرح آ ج حضرت انسان اپنی نسل حضرت ابو البشر آدم علیہ السلام سے ملاتے ہیں بالکل یہی کیفیت قوم اجنہ کی بھی ہے ان کا سلسلہ تو الد تناسل ابو الجن طارہ نوس (جان ) سے ملتا ہے اور جس طرح عورت اور مرد انسانوں میں پیدا ہوئے ہیں اسی طرح قوم اجنہ میں بھی رواج تھا اور اب بھی ہے ۔
میرے جد امجد طارہ نوس کو پیدا ہوئے کافی عرصہ گزر گیا تھا وہ اپنی قولم اور اپنی جنسیت کے لحاظ سے تنہا زندگی بسر کر تے تھے کہ یکایک غیر محسوس طور پر انہیںقوم اجنہ میں سے ایک عورت نظر آئی ۔ اول تو انہیںبہت تعجب ہوا لیکن بعد میں وہ اس عورت سے مانوس ہوگئے رفتہ رفتہ اس ایک جانی نے انکو شوہر اور بیوی کے رشتہ میں منسلک کر دیا اس زمانہ میں رواجی موت کا دستور نہ تھا ۔یعنی کوئی مخلوق بلا وجہ نہیں مرتی تھی چنانچہ اسکا یہ اثر ہوا کہ تھوڑے ہی زمانہ میں طارہ نوس کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی مرتا کوئی نہ تھا پیدا ہزاروں ہوتے تھے اس سود در سود کے قصے نے اچھا خاصا عالم آباد کر دیا آج کل کی زبان میں جس چیز کو مردم شماری کہا جاتا ہے وہ طارہ نوس کے زمانہ میں رائج نہ تھی اگر ہوتی تو شاید آج کی دنیا سے پچاس ہزار گنا زیادہ نفوس اس دنیا میںنظر آتے ۔ مگر اس وقت کوئی شمار کرنے والا نہ تھا اور نہ شمار کرنے کی کوئی ضرورت تھی تمام روئے زمین پر میرے جد امجد طارہ نوس جان کی حکومت تھی ۔ساری دنیا عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی کہ ناگاہ پر ور دگار عالم نے ابو الجن پر ایک شریعت نازل فرمائی جسے ابو الجن اور انکی تمام اولاد نے اپنے لئے قابل عمل ٹہرا یا ۔
اس آسمانی شریعت پر عمل ہوئے طارہ نوس اور اس کی تمام اولاد نے آج کل کے حساب سے تقریبا چھتیس ہزار سال گزار دئیے اور سوائے چند مفسد جنوں کے کسی طرف سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہوئی جو شریعت آسمانی کی خلاف ہوتی یا اس قوم کی تباہی کا سبب بنتی لیکن اس کا کیا علاج کہ سرشت میں ،،نار ،، تھی یہ کب چین سے بیٹھنے دیتی آخر کار یہ نا ر رنگ لائی اور مخلوق شریعت حقہ سے پھر نے لگی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ تباہی کی طرف دوڑنے لگی آخر تا بکے ایک وقت وہ آگیا کہ عالم میں ہر طرف گناہ ہی گناہ تھا سیاہ کاریاں پورے طور پر غالب آگئیں مخلوق اپنی زبان سے تباہی اور بربادی کو پکار نے لگی ۔حالات نے پلٹا کھایا اور آخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا قہر خداوندی نازل ہوا اور تمام سیاہ کاروں کو ہمیشہ کی نیند سلادیا گیا ۔کیا لکھوں شرم آتی ہے لکھتے ہوئے کہ خود طارہ نوس بھی اس تباہی سے نہ بچ سکا ان پر پوری طرح عصیاں اپنا قبضہ جما چکا تھا چنانچہ اس تباہی میں وہ بھی اپنے سب ساتھیوں کے ساتھا عالم فنا میں پہنچا دئے گئے ۔
اب تمام عالم میں سناٹا تھا وہ چلہ پہل نہ تھی وہ گنجان آبادی نہ تھی کہیں کہیں چند نیک عمل ہستیاں سربسجود تھیں انکی ہدایت و رہنمائی کے لئے پر ور دگار عالم نے پھر کسی رہبر کی ضرورت محسوس کی اور آخر کار اسی قوم میں سے ایک فرد کو جن کا نام چلپانیس تھا بحکم خداوندی بجائے طارہ نوس کے سر برائے سلطنت کر دیا گیا اور سابقہ شریعت کو تر میم و تنسیخ کے ساتھ ان کے حوالے کر دیا گیا یہ بھی آخر اپنے باپ کے بیٹے تھے ۔ باپ سے دو ر کیسے جا سکتے تھے ہر چند کہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ عبادت گزا ر تھے شرما حضوری میں کچھ روز کے لئے عبادت بڑھادی پہلے سے زیادہ عابد و زاہد مشہور ہوگئے لیکن صرف اسی وقت تک جب تک کہ اپنی فطرت سے مقابلہ کر سکنے کی ان میں طاقت تھی آخر کار خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کر بیٹھے عبادت اور ریاضت نے اپنی توہین گوارہ نہ کی ۔ آہستہ آہستہ اس نے کنارہ کشی شروع کر دی تھوڑا ہی زمانہ گزرنے کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ طارہ نوس کے جانشین ہز ہولی نس چلپانیس وہی بزرگ ہیں جو حصول پیغمبری سے پہلے تھے اور اپنی قوم میں کسی قدر عبادت و ریاضت کے باعث ممتاز نظر آتے تھے اب نہ وہ انہماک ِعبادت تھانہ وہ مشغلہ ہدایت ۔ سب اپنے اپنے راستے پر تھے بظاہر کوئی کسی کا راہبر نہ تھا اور سب سب کے راہبر تھے ۔ایک دوسرے کے عمل سے کوئی متاثر نہ ہوتا تھا چلپانیس کی پیغمبری برائے نام رہ گئی تھی خود انہیں یاد نہیں رہا تھا کہ وہ پیغمبر ہیں یا قوم کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں دی گئی ہے ۔
زمانہ نے ایک اور پلٹا کھایا اور حالات کہیں سے کہیں پہنچ گئے رہی سہی عبادتیں اور نیکیاں بھی یہ حال دیکھ کر اپنی عزت و آبرو کی حفاظت میں مصروف ہوگئیں اور مخلوق سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔مقدس چلپانیس یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے مگر اس طرح کہ گویا نہیں دیکھ رہے تھے گناہ کا دیوتا ان کے سامنے رقص کر رہا تھا اور وہ دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے ساری قوم ظلمت کی چادر میںسما گئی تھی مگر ان کی سیاہ کا ر آنکھیں قومی وجود کا اب بھی احساس کر سکتی تھیں ۔
ستاری کی شان آگے بڑہی اور اس نے چلپانیس کو مخاطب کر کے کہا چلپانیس ! تم دامن شریعت کو تار تار کر چکے ہو آؤ پھر تمہیں ویسا ہی کر دیں تم راستہ بھول گئے ہو پھر تمہیں راہ پر لگادیں ۔
چلپانیس پھر جھک گئے قدرت نے انہیںپھر ویسا ہی کر دیا ساری قوم پھر اعتدال پر آئی لیکن ناری فطرت مسلسل اپنا کام کر رہی تھی ۔ قدرت نے بار بار فرمائش کی متعدد بار ہدائتیں کیں مگر نار بہر حال نار تھی آخر کار اس نے قومی عقل و ہوش کا گھر پھونک ڈالا تمام قوم کو خانما ں برباد کر کے چھوڑا اور ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ان سے پہلے سر کشوں کے ساتھ ہوا تھا ۔ ابھی چلپانیس کی حکومت اور پیغمبری کو پورے چھتیس ہزار سال بھی میسر نہ آئے تھے کہ وہ انما کو پہنچا دئے گئے اور اپنے ہمراہ تمام ایسے ہم عصروں کو جو انکے ساتھ بد کاری میں مصرو ف ہوگئے تھے گم نامی اور بربادی کی دنیا میں لے گئے اور اس طرح دنیا کا یہ دوسرا دور ہز لیٹ ہائینس چلپانیس کے ہاتھوں تاریخ کی گم نامیوںمیںکھو گیا اور بعد کی آنے والی نسلیں ڈھونڈتی رہ گئیں کہ ان کے دادا چلپانیس نے ان کے لئے کیا چھوڑا ۔
اب دنیا پھر خالی تھی چند رہے سہے عبادت گزار کہیں کہیں نظر آرہے تھے مگر قہر خدا وندی سے لرزاں او ر اپنے نا معلوم انجام کے منتظر ۔ قدرت نے پھرایک ضرورت محسوس کی ہر طرف دیکھا ۔ ایک مقدس صورت بزرگ اپنی قوم کی کھوئی ہوئی عظمت ڈھونڈ تے پھر رہے تھے کہ قدرت کی نگاہ انتخاب میں آگئے کیا ڈھونڈ رہے تھے اور کیا مل گیا ۔
) ان بزرگ کا نام بلیقا تھا ان کی اولاد کے متعلق بعض روائتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بہت بد افعال تھی اور یہ اسی غم میں دن رات رویا کر تے تھے ۔ ضرورت سے زیادہ عبادتیں کر تے تھے ان کا خیال تھا کہ میری عبادت دے خوش ہو کر پر وردگار میری اولاد کے گناہ معاف کر دے گا ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ خود انہیں انکی صحیح تعداد کا حال معلو م نہ تھا نہ سب کے نام یاد رکھ سکتے تھے سنا ہے کہ ایک بار انہوں نے اپنی اولاد کو ایک جگہ جمع کر کے شمار کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن شمار کے بعد معلوم ہواکہ ان کے کئی بیٹے تعداد میں نہ آسکے کیونکہ وہ اس وقت موجود نہ تھے اور ماں باپ کو خیال تک نہ تھا کہ حاضرین کے علاوہ ان کی کوئی اور بھی اولاد ہے لیکن جب سامنے آئے تو ماں باپ کو یاد آگیا کہ وہ بھی ان ہی کے بچے ہیں جس وقت قدرت کی انتخابی نگاہیں بلیقا پر پڑیں ان کی عمر دو ہزار سال سے کچھ زیادہ تھی اور خدمت قوم کا جذبہ ان کے دل میں شباب کی منزلیں طے کر رہا تھا اس نئی تققیر سے ان کا دل باغ باغ ہو گیا قدرت نے انہیں انکی قوم کا پیغمبر بھی بنا دیا اور بادشاہ بھی ۔ اس اعزاز کے بعد انکی ریاضت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بلیقا نے بڑی جانفشانی اور ایمانداری سے اپنے عہدہ کے فرائض انجام دئیے اور ایسی عابدانہ زندگی کا نمونہ پیش کیا کہ انکی قوم سر تاپا عبادت بن گئی ۔
تقریبا چھتیس ہزار سال تک یہی کیفیت رہی دنیا کے ذرہ ذرہ پر بلیقا کی حکومت تھی ہر طرف شریعت آسمانی کا ڈنکہ بج رہا تھا لیکن وائے بد نصیبی کہ ناری ذہنیت پھر بیدار ہوگئی اور حالات دیکھ کر بھڑک اٹھی اسے کب گوارہ تھا کہ خار دار دنیا میںنیکیوں کی حکومت ہو ۔ اس کے خیال میں شاید نیک اعمال کا وجود اس فانی دنیا کے لئے موزوں نہیں تھا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کا رخ پھر گیا ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے نرم نرم جھونکے آندھیاں بن کر سنسنانے لگے حالات بے قابو ہوئے اور ظلمات کی طرف کا پر چم لہرانے لگا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگیا یا دوسرے لفظوں میںیوں کہوں کہ سیاہ کاروں کی قوت باصرہ منہ موڑ بیٹھی اور انہیں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی کا احساس ہونے لگا۔
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھتی ہے ساری قوم سیاہ کاروں کی موجد بن گئی اور وہ گناہ گاریاں تراشی گئیں کہ زمین و آسمان لرز گئے ،انجام کار قدرت نے نار کو نار میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور سر کشانِ شریعت کو اتمام حجت کے بعد فنا کی گود میں پہنچا دیا ۔
=دنیا اب پھر خالی تھی سالار کارواں کی ضرورت نے قدرت کو پھر متوجہ کیا اور باقی ماندہ افراد میںسے ہاموس جنی کے نام پر وانہ پیغمبری جاری ہوا ۔ یہ بزرگ اپنی قوم میں مقابلۃ نیک طینت اور ممتاز تھے حکومت اور پیغمبری کے بعد ان کے مراتب میںاور بھی اضافہ ہو گیا ۔ ساتھ ہی قدرت کی طرف سے مختلف ہدائتوں کے علاوہ یہ نوٹس بھی ملا کہ اگر تم نے پچھلے جیسوں کی بغاوت کی اور شریعت آسمانی کی توہین کے مر تکب ہوئے تو تمہیں ان سب سے زیادہ سخت سزا دی جائے گی اور وہ ایسی سز ا ہوگی کہ اگر تم آج اسے معلوم کر لو تو خوف و دہشت کے مارے تمہارے کلیجے کے ٹکڑے اڑ جائیں ۔
ہاموس نے خلوص قلب سے وعدہ کیاکہ میں شریعت کی پوری طرح حفاظت کروں گا اور کوشش کروں گا کہ میں اور میری قوم پوری طرح قواعد آسمانی کی پابند ہو کر رہے ۔وعدہ کرنے والا ناری تھا اور وعدہ بھی ناری تھا کب تک رہتا رفتہ رفتہ ناری فطرت رنگ جمانے لگی اور اپنے اسلاف کی طرح پورے چھتیس ہزار سال گزرنے کے بعد آخر کار اسی مر کز پر آگئی جہاں سے عالم فنا کا راستہ بالکل سیدھا اور تباہی کا زینہ قریب تر ہے اور جہاں پہنچ کر پچھلی قومیں شریعت کی قید و بند سے اپنی ذات کو آزاد سمجھنے لگی تھیں شروع شروع میں تو ہاموس جنی نے اپنی قوم کو بہت سمجھا یا لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ سیاہ کاریوں کے دیوتا کے سامنے ایک دن ہاموس بھی سر بسجود نظر آیا پھر کیا تھا سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا ۔ جب پیغمبر اور راہبر ہی گناہوں کا پجاری بن جائے تو اسکی قوم کیسے بچ سکتی ہے ،وہ جو ایک روک تھی ہاموس کی غداری سے جاتی رہی ۔ کچھ افراد ایسے بھی تھے جو عرصہ تک گناہوں کی دنیا سے اپنا دامن بچاتے رہے لیکن راہبر کو مصروف گناہ دیکھ کر ان کا جی بھی للچایا اور انہوں نے بھی اپنا تقدس کا لبادہ سیاہ کاری کی بھٹی میںپھونک دیا۔
9ان سے پہلے جو تین دو ر گزرے ان میں بھی یہ ہولناک سیاہ کاریاں نہ تھیں کہیں کہیں زاہد و تقوی کے دم توڑتے نظر آہی جاتے تھے لیکن اس چوتھے دور میں تو ذرہ ذرہ انجام سے بے خبر ہوکرشریعت کی دھجیاں اڑا رہا تھا ۔قدرت نے پہلے ہی دن فیصلہ سنا دیا تھا کہ اگر تم نے اپنے اسلاف کی طرح غداری کی تو تمہیں ان سے زیادہ لرزہ خیز سزادی جائے گی چنانچہ باری تعالی نے فرشتوں کی ایک فوج کو حکم دیا کہ وہ زمین پر جائے اور ہاموس جنی کی قوم کو انتہائی سختیوں کے ساتھ تباہ کر دے اور ایسا قتل عام ہو کہ شریعت سے غداری کرنے والوں کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک مثال بن جائے ۔
ملائکہ کی فوج مقابلہ کے لئے زمین پر آئی اور ادائے فرض میں مصروف ہوگئی قوم جنات نے بھی بڑی بہادری سے مقابلہ کیا لیکن فرشتے بہر حال فرشتے تھے آخر کار غالب آگئے قتل عام سے جو چند افراد بچ سکے و ہ ادھر ادھر جزیروں میںبھاگ گئے اوربے شمار چھوٹی عمر کے بچے فرشتوں کی حراست میں آگئے ان ہی کم سن قیدیوں میں اپنی کم عمری کے سبب میں بھی تھا ہر چند کہ میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن گرفتار کرنے والے زیادہ طاقت ور تھے اور میں ان کے چنگل سے بچ نہ سکا ۔
میں بچپن میں بے حد حسین تھا میری ذہانت اور قابلیت سے میرے والدین کو بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں میرے خاندان کے بہت سے لوگ میرے ماں باپ سے محض اسی وجہ سے عداوت رکھتے تھے کہ اتنا حسین و جمیل اور ذہین بیٹا ان کو کیوں نہ ملا۔ بہر حال اس قید کے بعد بھی میری ذہانت اور حسن بے کار نہیں گئے مجھے دیکھ کر فرشتوں کو رحم آگیا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے پر ور دگار عالم سے التجا کی کہ اگر اجازت ہو تو اس کم سن بچے کو ہم آسمان پر لے آئیں یہ بہت ذہین ہے اور ہمارا خیال ہے کہ اسکی اصلاح ہوسکتی ہے فرشتوں کے کہا ،
پر ور دگار ! تو عالم الغیب ہے آئندہ کے بھید تو ہی جان سکتا ہے لیکن بظاہر یہ لڑکا اگر اچھی تعلیم ملے تو ہمارے خیال میں ٹھیک ہوجائے گا۔
قدرت کو تو منظو ر ہی کچھ اور تھا حکم ہوا اچھا اس بچے کو آسمان پر لے آؤ اور باقی بچوں کو وہیںدنیا میں چھوڑ دو چنانچہ حکم باری تعالی کے ما تحت فرشتے مجھے آسمان پر لے گئے ،۔
آسمانی دنیا کا دھوکا
جاری ہے
 

منصور

مبتدی
شمولیت
جولائی 21، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
0
آسمانی دنیا کا دھوکا
سنتا ہوں کہ انسانی دنیا کے بعض تاریخ دان اصحاب میرے متعلق ایک نہایت ہی دلچسپ رائے رکھتے ہیں انکا خیال ہے کہ مجھے فرشتوں نے قید نہیں کیا تھا بلکہ ان کی رائے میں واقعہ یوں تھا کہ قوم اجنہ کی بد افعالی اور گناہوں کو دیکھ کر عزازیل یعنی میں نے گوشہ تنہائی کو اپنے لئے پسند کیا اور فساد کی دنیا سے دور کسی سنسان مقام پر خدا کی عبادت میں مصروف ہو گیا جب فرشتے مفسدوں کا سر کچل کر فارغ ہوئے اور عزازیل کو مصروف عبادت دیکھا تو انہیں بہت تعجب ہوا اور پر ور دگار سے عرض کی کہ اگر حکم ہو تو اس زاہد و متقی کو ہم اپنے ساتھ رکھ لیں کیونکہ یہ اس گناہ آلودہ دنیا کے لائق نہیں ہے اور ہمارے ساتھ اس کا نباہ خوب ہوجائے گا پر ور دگار کو تو منظور ہی یہ تھا لہذا اس نے فرشتوں کی التجاء منظور کی اور عزازیل کو اآسمان پر فرشتوں کے ساتھ رکھنا منظور کر لیا ۔
خیر اس طرح بھی میری کوئی توہین نہیں ہے اگر ایسا مشہور ہوا تو کچھ حرج نہیں بہر حال مجھے صحیح واقعہ لکھنا تھا اور وہ وہی ہے جو میں نے پہلے لکھا ہے یعنی میں لڑائی کے وقت بصورت فریق مخالف قید کیا گیا تھا اور فرشتوں نے میری عبادت پر نہیں بلکہ میری کمسنی و معصومی اور خوبصورتی پر ترس کھایا تھا اور میرے اچھے ذہن او ر ہوش سے مختلف امیدیں وابستہ کر کے پر ور دگار عالم سے سفارش کی تھی ۔
بہر حال میں خود اپنی مرضی سے یا اپنی التجا ء سے آسمانوں پر نہیں گیا تھا ۔ چند فرشتوں نے سفارش کی اور پر ور دگار نے منظور کی ۔ میرا کیا بگڑتا تھا اور بگڑ تا کیا ۔ میرا تو فائدہ اسی میں تھا کہ کسی صورت سے جان بچے میں تو اپنی آنکھوں سے غداروں کا انجام اور قتل عام دیکھ چکا تھا یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ مجھ پر کسی کا کوئی احسان نہیں رہا اور مفت میں جان بچ گئی ۔ میں نے سوچا کہ خیریت اسی میں ہے کہ اس وقت جان بچنے کی خوشی کا اظہار نہ ہونے پائے ورنہ فرشتے او ر خدا یہ سمجھ لیں گے کہ جان بچنے سے اس لڑکے کو خوشی ہوئی ہے اور یہ خود چاہتا ہے کہ اسے فنا نہ کیا جائے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ اگر اس وقت پر ور دگار کو یہ اطلاع ہوجاتی یا فرشتے کسی طرح یہ جان سکتے کہ میں اس انقلاب سے مسرور ہوں تو یقینا کوئی ہ کوئی شرط کسی وقت لگادی جاتی ۔ مگر وہ تو خیر گزری کہ فرشتوں نے التجا ء کی اور پر ور دگار نے قبول کر لی۔
مجھے کیا خبر تھی اس وقت کہ میرا یہ خیال لچر ہے اور ایک نہ ایک دن مجھے تکلیف دے گا میں تو یہ جانتا تھا کہ علم غیب کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اگر اس وقت کوئی مجھے یہ کہ دیتا کہ پر وردگار دور کی بات بھی جان لیتا ہے اوردل کا بھید بھی اسے کسی طاقت سے معلوم ہو جاتا ہے ۔سچ جانئے ایک دفعہ تو میں اس مہر بانی کا شکریہ ادا کر ہی لیتا اور عجب نہیں اس دن کی ممنو نیت آج میرے کام آجاتی ۔ لیکن اب وقت گزر چکا ہے اس کی تلافی نہیں ہے ۔ ہائے مجھے کیا خبر تھی کہ اس وقت کی روشنی طبع مجھ پر بلائے نا گہاں کی طرح ٹوٹ [پڑے گی جب میں آسمان پر رہتا تھا تو بار ہا فرشتوں نے مجھے یہ طعنہ دیا کہ ہم نے تمہاری سفارش کی ۔ جان بچائی پر ور دگار سے التجائیں کر کے تمہیں زندہ رہنے کا موقع دیا اور ہمارے پر ور دگار نے اسے قبو ل کیا لیکن تم نے اس احسان عظیم کے عوض کسی ممنو نیت کا اظہار نہیں کیا۔
اس وقت تو نہیں مگر ہاں آج مجھے پچھتا نا پڑ رہا ہے ۔ اگر اس وقت ایک آدھ ظاہری سجدہ کر لیتا تو میرا کیا بگڑ تا تھا ۔ مگر میں اپنی عقل کے زعم میں رہا اور واقعات اپن کام کر تے گئے ۔
%ہاں تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ فرشتے مجھے گرفتار کر کے آسمان پر لے گئے ۔ اس وقت میری عمر دو بیاسی سال کی تھی ۔ ممکن ہے کہ میری عمر آج کے زمانے میں تعجب انگیز ہو کیونکہ میں نے اس عمر کے با وجود اپنی ذات کو گرفتاری کے وقت کم سن بتایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں عمریں محدود نہیں ہوتی تھیں ۔ یہ درجہ بندی تو اسی وقت ہو سکتی ہے جب ابتداء کے بعد انتہا ہو اور آغاز کے بعد انجام ہو اور پیدائش کے بعد فنا کی کوئی صورت ہو چونکہ ہمارے لئے فنا کا کوئی وقت نہ تھا اس واسطے ہزاروں سال کی عمر تک کم سنی کا زمانہ ہی شمار ہوتا تھا ۔
ماں باپ کا حال
میرے والد کا قومی نام چلیپا تھا لیکن ان کے قوم کے لوگ انہیں رکنیت کی مناسبت سے ابوالغوی کہ کر پکارتے تھے انکا چہرہ تقریبا ایسا تھا جیسے آجکل کے زمانے میں ببر شیر کا ہوتا ہے نہایت قد آور اور بہادر تھے اگر آج کل کے حساب سے بتایا جائے تو ان کے جسم کا وزن 14 من اور اور 35 سیر تھا قوم کی طرف سے ان کو شاشین کا خطاب ملا تھا ۔ شا شین کے لغوی معنی ہماری زبان مین دل ہلا دینے والے کے ہیں میرے والد کی تمام قوم پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی وہ جس سے خفا ہوتے تھے اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی تھی اور جس سے خوش ہوتے تھے نہال کر دیتے تھے قوم کا بچہ بچہ ان کا احترام کرتا تھا۔
اسی طرح اپنی والدہ بھی بہت طاقتور اور دلیر تھیں انکا نام نبلیث تھا انکا چہرہ کچھ اس ساخت کا تھا کہ آج میں مثال دے کر بھی مشکل سے سمجھا سکتا ہوں بہر حال ایک حد تک انکے چہر ے کی ساخت آجکل کے بھیڑئیے کی مادہ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی انکے متعلق عام بات یہ مشہور تھی کہ وہ اپنے زمانے کی سب سے حسین و جمیل مادہ ہیں لیکن نہایت جنگجو اور دلیر ۔ بہادری ایسی کہ جنگ میں ہزار نر کا منہ پھیریں ۔فرشتوں سے آخری جنگ کے وقت انکی بہادری نے وہ وہ نظارے پیش کئے کہ دیکھنے والے عش عش کر گئے لیکن مشکل یہ تھی کہ جن اور فرشتے کی جوڑ برابر کی نہیں تھی ورنہ ہماری قوم میں نبلیث جیسی بہادر مادہ کے ہوتے ہوئے شکست نہ ممکن تھی دوران جنگ میں قوم کے بچہ بچہ کی زبان پر تھا کہ جنہ کی مائیہ ناز مادر وطن نبلیث کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی ۔
خود میرا بھی یہی خیال تھا کہ اماں جان کی بعید از قیاس بہادری کے مقابلہ میں آکر فرشتوں نے زبردست غلطی کی ہے اور انہیں منہ کی کھانی پڑے گی اور در حقیقت منہ کی کھانی پڑتی ۔ اگر کوئی اندرونی طاقت کام نہ کر رہی ہوتی ۔بچارے کم طاقت فرشتے ہمارے مقابلہ پر کیا جنگ کر سکتے تھے ، یہ بھی خدا جانے کیا بات تھی کہ ہم دب گئے ورنہ وہ جوہر دکھاتے کہ فرشتوں کو چھٹی کا دود ھ یاد آجاتا ۔
اس عجیب و غریب جنگ کا سماں کچھ ایسا قابل فہم تھا کہ ساری قوم حیرت بین تھی ۔ فرشتوں کا وار ہم پہ بھر پور پڑتا تھا لیکن ہمارا وار کچھ ایسا اوچھا بزدلانہ نظر آتا تھا کہ خود ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔ وہ وار کرتے تھے تو ہم پر پڑتا تھا اور جب ہم وار کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم نے ریت کے ڈھیر پر حملہ کیا ہو۔
اسی نا قابل فہم اور حیرت ناک جنگ میں والد اور والدہ شہید ہو گئے ،میں بھی اس وقت شادی شدہ تھا میری جان نثار ملکہ اسی لڑائی میں خدا کو پیاری ہوگئی اور میرا بڑا لڑکا بھی بیچارا اسی جنگ میں ختم ہوا ۔اس کا نام مرہ تھا بیچارے کی شادی کے دن قریب تھے اگر یہ جنگ کچھ عرصہ بعد ہوتی تو وہ غریب بھی شادی کی مسر تیں دیکھ لیتا مگر افسوس ہے ہمیں اپنے دادا ہاموس کی طرف سے ایک ایسا تاوان ادا کرنا تھا جو کسی حال میں مہلت دینے کے لئے تیار نہ تھا ۔مرہ غریب بے آئی مارا گیا اس نے ابھی دنیا میں پوری طرح قدم بھی نہ رکھا تھا کہ اپنے بزرگوار ہاموس جنی کے گناہوں کی پاداش میں فنا کی قربان گاہ پر چڑھا دیا گیا ۔ اور اپنے دادا ابو الغوی چلیپا اور دادی نبلیث کے ساتھ ساتھ گمنامی کے عمیق سمندر میں انسانی مورخوں کی نظروں سے بہت دور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو گیا اور آنے والے والی انسانی دنیا کے لئے غلط فہمی چھوڑ گیا کہ اس کا باپ (شیطان )فرشتہ ہے اور شاید بے ماں باپ کے پیدا ہوا ہے ۔ اور غالبا یہ خیال بھی غلط ہے کہ بیچارہ شیطان لا ولد ہے غیر شادی شدہ ہے (خدا نہ کرے جو میں لا ولد ہوں)۔
خیر مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ میرے لخت جگر مرہ نے اس دنیا کے لئے کیا چھوڑا اور اپنے ساتھ کیا لے گیا ۔ مجھے تو ان نادان انسانی مورخوں پر ہنسی آتی ہے جو مٹی کی عقل لئے پھر تے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تاریخ کے اندھے کنویں سے بہت دور کی کوڑی لاسکتے ہیں ۔اور جن کی تاریخی معلومات کا یہ عالم ہے کہ فرشتہ اور جن میں بھی تمیز نہیں کر سکتے ۔،
Mجیسے کہ میں بتا چکا ہوں کہ میں دنیا کی ابتداء سے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور دنیا کی تباہی کے وقت میری عمر دو سو بیاسی سال کی تھی اس مختصر عمر میں میرے والد صاحب نے اپنے ایک دوست سے جن کا نام ثر بوق تھا ، ابتدائی تعلیم دلوائی ذہن اچھا تھا تھوڑے ہی عرصے میں چل نکلا میری قابلیت دیکھ کر بہت سے افراد جلتے تھے اور انہوں نے شہرت دینی شروع کر دی کہ عزازیل (میرا قومی نام )بہت مغرور بچہ ہے او ر چونکہ اس کے باپ کی شکل شیر کی سی ہے اس لئے نہایت خود دا ر اور سرکش ہے اور ماں کی شکل بھیڑیئے سے ملتی ہے اس لئے مکار اور خود غرض اور فریبی ہے ۔
آسمان کی سکونت
عین اس وقت جب میں شباب کی ابتدائی منزلوں سے گزر رہا تھا کہ وہ جنگ شروع ہوئی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔جس میں میرے والدین اور قوم کے لا تعداد افرالقمہ اجل بنے اور جس میں دنیا کا چوتھائی دور بھی ختم کر دیا اس جنگ میں فرشتوں نے مجھے قید کر لیا اور خدائے قدوس کی اجازت سے مجھے آسمان پر لے گئے اس حفاظت جاں سے مجھے در حقیقت بے حد مسرت تھی لیکن تجربہ کے بعد آج افسوس کر تاہوں اگر مجھے بھی میری قوم کے ساتھ فنا کر دیا جاتا تو زیادہ اچھا تھا اس ذلت کی زندگی سے موت ہزار درجہ بہتر تھی لیکن مجھے اس وقت کیا خبر تھی کہ آئندہ میری زندگی میرے ساتھ کیسے کیسے ذلت انگیز کھیل کھیلے گی میں صرف یہ سمجھ رہا تھا کہ جان بچ گئی اور اب ہمیشہ فرشتوں کی صحبت میں آرام سے بسر ہوگی ۔
gشروع شروع میں مجھے فرشتو ں نے پڑھایا ، علوم مختلفہ کی تعلیم دی ۔ اکثر آسمانی راز او ر انکے تفصیلی واقعات سے آگاہ کیا پر ور دگار عالم کے رتبہ اور جاہ و جلال سے آشنا کیا عبادات اور ریاضت کے طریقے سمجھائے ۔ آداب آسمانی بتائے ار جب میں اپنے تیز ذہن اور ذبر دست حافظہ کی مدد سے سب کچھ سیکھ گیا تو وہی فرشتے (غالبا حکم خداوندی کے ماتحت) مجھ سے علوم عالیہ میں امداد لینے لگے رفتہ رفتہ میں اپنی قابلیت کے باعث فرشتوں کا مکمل استاد بن گیا ۔ اب میری وہ پوزیشن ہوگئی جو کبھی میرے سامنے فرشتوں کی تھی ایک دن وہ آیا کہ وہ سب کے سب میری شاگردی کو باعث افتخار سمجھنے لگے ۔
اللہ اللہ قدرت بھی کیسے کیسے عجوبے پیش کرتی ہے کبھی کسی کو اعزاز بخشتی ہے اور کھبی کسی کو اللہ میاں کا ہمیشہ سے یہ دستور ہے کہ وہ اپنی رائے اور ارادے کو سب سے لگ تھلگ رکھتے ہیں کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی اور انہیں جو کرنا ہوتا ہے کر جاتے ہیں ۔ جس کو چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں اورجس کو چاہے ذلت دیتے ہیں جو انکے راستے سے گمراہ ہوجائے پھر اسے کوئی طاقت صراط مستقیم پر نہیں لاسکتی اور جسے راہ راست کی کنجی دے دیں پھر اسے کوئی طاقت گمراہ نہیں کر سکتی ۔
موجودہ زمانے میں بھی ان کا وہی دستور مائل ہے قرآن مجید میں بھی انہوں نے بار ہا یہی جتایا ہے کہ ہم جسے چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ذلت دیتے ہیں کوئی ہمیں مشورہ دینے کا مجاز نہیں ۔[/SIZE][/COLOR]
پہلے آسمان پر
جاری ہے
 

Emran Hingora

مبتدی
شمولیت
جون 30، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
اس تحریر میں حوالہ اگر میسر ہو تو بتادیں
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
شیطان کی کہانی ، شیطان کی زبانی۔
عنوان پڑها نہیں؟ بهلا شیطان سے دلیل مانگنا انسانی عقل میں کہاں سے آگیا؟ شیطان کے پیش کردہ دلائل آپ کے لیئے قابل قبول هونگے؟

آج ہی شمولیت کی هے ، نا سلام نا کلام ۔ شیطان کی کہانی لے بیٹهے ۔
 
Top