انسانوں کی ایک محفل میں گناہوں کا ذکر چھڑ گیا ایک بولا اگر دنیا میں شیطان کا وجود نہ ہوتا تو کوئی شخص گناہ نہ کرتا ۔ دوسرے نے کہا ۔ شیطان کو کیوں بدنام کرتے ہو ، گناہ خود انسان کرتا ہے شیطان کا اس مین کیا قصور ۔؟بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی سوال اٹھا یہ شیطان ہے کیا بلا کسی نے کہا فرشتہ تھا ، کسی نے کہا جن تھا کوئی بولا فرشتوں کا استاد ہے ، آدم کو جنت سے نکلوادیا اور اب دنیا میں لوگوں سے گناہ کرا رہا ہے ۔یقین کے ساتھ شیطان کے متعلق کوئی کچھ نہ بتا سکا۔ دوستوں میں سے ایک بولا یار دنیا میں ہزارون انسانوں نے اپنی سوانح عمریاں شایع کیں ، فرشتون کی دنیا میں کسی کو یہ جرت نہ ہوئی ۔ کم سے کم یہ معلوم تو ہوتا یہ لوگ کون ہیں اور یہ جو ان کا استاد مشہور ہے آخر ایسی کیا بپتا پڑی کہ بیچارا اتنا بدنام ہو رہا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دنیا اپنے اعمال نامے انسانوں کے سامنے بھیجتے شرماتی ہے ضرور کوئی نہ کوئی خامی ہوگی ۔
انسانوں کی زبانی یہ کلام سن کر شیطان کو بڑا غصہ آیا اور غصے میں اس نے اپنی کہانی خود اپنی زبانی ہی سنانی شروع کردی تاکہ انسانوں میں اسکی سبکی نہ ہو ۔شیطان نے خود اپنی زبان میں اپنی سوانح عمری کچھ اس طرح شروع کی ۔
گزارش
کیوں صاحب ! جب ہمارے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مٹی کے کھلونے دنیا میں آکر اپنی اپنی سوانح عمریاں شائع کرتے ہیں تو فرشتوں اور ان کے ساتھیوں نے کسی کا بیل تھوڑی مارا ہے کہ زبان اور قلم پر تالا لگائے بیٹھے رہیں ہم کیون نہ اپنی زندگی کے حالات لکھیں اور کیوں نہ اسے شائع کریں۔
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی کیون نہی کی یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے ۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں سمجھ سکتے خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی رہی ہیں یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلو ں سے پہلے کھانا سیکھا ہے پہلے بولنا سیکھا ہے اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے ۔شیطان نے اور نہ جانے کیا کیا کہا نادان جاہل ظالم کمتر انسان ، خاکی عقل والا کوتاہ عقل نا سمجھ بڑا طول بھری داستان تھی جو اس کی اندر کی آگ کی غمازی کر رہی تھی لیکن میں وہ سب کچھ حذف کر رہا ہوں کیوں کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اس لئے میں صرف قیمتی باتیں آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔
میں اپنی سوانح عمری لکھنے سے پہلے یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ میرے پاس فی الحال کوئی ایسا نیشی نہیں ہے جو میرے بتائے ہوئے واقعات سلسلہ وار درج کر سکے اور ظاہر ہے کہ میں بیک وقت یہ دونو ں کام انجام نہیں دے سکوں گا نہ میرے پاس اتنا وقت ہے اور نہ بظاہر اسکی کوئی ضرورت ہے ، میرا مقصد زندگی کے واقعات اور سوانح حیات کو روشنی میں لانا ہے اور اسکے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ تقدیم اور تاخیر کا خیال رکھا جاے پس میری زندگی کے واقعات پڑہنے والوں کو یہ خیال نظر انداز کر دینا پڑیگا کہ میں نے سلسلہ کیوں نہ قائم رکھا ۔
(ابلیس)
[/COLOR][/COLOR]
پیدائش
میری پیدائش کا زمانہ او ر اسکے قبل کے حالات کچھ ایسے پیچیدہ ہیں کہ مو جودہ زمانہ کے انسان کی ادھوری عقل ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی ۔
اس واسطے مجھے اپنے نادان مخاطب کو سمجھانے کے لئے انکی تفصیل بھی لکھنی پڑے گی کیوںکہ انسان بیچارا بہت ہی محدود عقل کا پتلا ہے اور جہاں تک اسکی عقل کام کرتی ہے اس سے زیادہ یقین کرنے کے لئے یہ کبھی تیار نہیں ہوتا چنانچہ اس نا سمجھ کو سمجھانے کے لئے مجھے وہ تمام واقعات با التفصیل لکھنے پڑیں گے جو میری پیدائش سے پہلے تشکیل عالم کے لئے ظہور پذیر ہوئے اور دنیا موجود ہ شکل میں آئی ۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتانا ہے کہ دنیا کس طرح اور کیوں بنی ؟
کس طرح بنی یہ تو میں خوب جانتا ہوں اور مجھے خوب بتایا گیا ہے ۔ لیکن کس لئے ؟ اسکا جواب میرے پاس صرف ایک ہے اور اس میں اعتراض کرنے کی کسی کی مجال ہی نہیں ۔
خدا سے پوچھا گیا کہ پر ور دگار تخلیق کائنات سے تیرا کیا منشا ہے یہ سب کھیل کیوں کھیلا ہے ؟جواب ملا
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا مجھے اچھا معلوم ہوا کہ میں پہچانا جاؤں لہذا میں نے کائنات بناڈالی۔
اب بتائیے اس میں کون دم مار سکتا ہے اور اس کے بعد سوال ہی کیا رہ جاتاہے ۔ جب بتانے والا خود یہ کہ دے کہ مجھے اچھا معلوم ہوا کہ پہچانا جاؤں اس لئے دنیا بنادی ۔ تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے بعد دوسرا سوال کر سکے ۔ خیر چلا کہ اچھا ہوا کہ دنیا بنانے کا جواب انہوں نے خود ہی دے دیا ۔
اب رہا یہ سوال کہ دنیا کس طرح بنی یہ مجھ سے سن لیجئے مجھے بھی نہایت معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اور صاف ہی کیوں کہ دوں کہ مجھے خود میرے پروردگار نے مختلف اوقات میں سمجھا یا ہے کچھ تو خود بغیر دریافت کئے اور کچھ مختلف فرشتوں کی معرفت مجھے یہ تعلیم ملی ہے پس ضرورت ہے کہ اپنے حالات کی ابتدا ء کرنے سے پہلے یہ سمجھاؤں کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی۔
ایک نور تھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کا نور ہے مجھے خود بھی بار ہا انکی زیارت نصیب ہوئی ہے ا س وقت جب میں آسمان پر گرفتار کر کے لایا گیا تھا ،ہاں تو واقعات یہ ہیں کہ اس وقت جبکہ کائنات میں کچھ بھی نہ تھا صرف نور خدا وندی ہر طرف جلوہ افروز تھا کہ پر وردگار نے اپنے پہچاننے کے لئے تخلیق کائنات کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے اس نور کو دو حصو ں میں تقسیم فرمایا پہلا حصہ جس میں ایک راز تھا اور جسے صرف پرور دگار ہی جانتا تھا دوسرے حصہ سے زیادہ روشن اور کثیر الضیاء تھا اس تقسیم کے بعد صانع مطلق نے پہلے حصہ کا نام نور رکھا اور بقیہ نصف جو صفات نور یہ سے کم درجہ پر تھا اور جسمیں سے ضیائے خاص علیحدہ کر لی گئی تھی اس کو بھی دو حصوں پر تقسیم فرمادیا پہلے حصہ کو دوسرے پر فضیلت دینے کے لئے اس میں مخصوص ترمیم فرمائی گئی ۔ چنانچہ پہلے حصہ سے جس کا نام نا ر تجویز ہوا تھا قوم جن کی تخلیق ہوئی اور بقیہ دوسرا حصہ ( جس میں صفاتِ نور یہ معدوم ہوچکی تھی ) ارواح شیاطین اور ارواح خبیثہ کے لئے رہ گیا ۔
Qچنانچہ اب یہ تقسیم اس طرح ہوئی کہ حصہ اول جو خالص نور تھا اور جس میں ضیائے خاص موجود تھی اس کو ارواحِ مقدسہ اور ملائکہ نیز اطباق و سماوات وغیرہ کے لئے مخصو ص فرمایا چنانچہ سب سے پہلے روح پاک پیغمبر آخر الزمان تخلیق فرمائی گئی اس کے بعد لوح و قلم اور عقل اور کل اجسام کی تخلیق عمل میں آئی زمین و آسمان پیدا کئے گئے اور اس نور خاص کے بقیہ نصف سے جس میں سے ضیائے خاص علیحدہ ہونے کے بعد دو حصے ہوئے ان میں سے پہلے حصہ کو جو اپنے دوسرے نصف سے ممتاز تھا قوم جن کی تخلیق کے واسطے رکھا گیا اور اس کے بقیہ دوسرے حصہ کو ارواح شیاطین کے لئے مخصوص کر دیا گیا ۔
سب سے پہلے جو تقسیم عمل میں آئی اس کے نصف بہترسے جو مخلوق عالم وجود میں آئی اس کا فرضِ منصبی عبادت قرار پایا گیا کیوںکہ وہ نور خاص سے پیدا کی گئی تھی اس لئے اس کی سرشت میں عبادات داخل ہوئی اور معصوم رہی اور چونکہ خالص نور سے تخلیق ہوئی تھی اس واسطے اس مخلوق کا سایہ تک نہ پڑتا تھا اس کے بعد حصہ دوم جو ضیائے خاص سے محروم تھا لیکن ایک حصہ نور تھا قوم جن کے لئے مخصوص ہوا ۔ چنانچہ قوم جن کا سایہ بھی زمین پر نہیں پڑتا لیکن چونکہ اس کی تخلیق میں نا ر کا جز غالب ہے اور حصہ نور یہ کم ۔ اس لئے زیادہ تر یہ قوم تباہی کی طرف دوڑتی رہی کبھی کبھی اس قوم کے بعض افراد مائل بے دین ہوئے اور اس کی وہی وجہ تھی کہ انکی تخلیق میں کچھ کچھ نور کی جھلک ضرور تھی لیکن نار غالب تھی اس لئے تباہی و بربادی زیادہ میسر آئی ۔
خیر ! تو یہ تشکیل دنیا کی کیفیت تھی جسے میں نے ضرور تاً بہت ہی مختصر بیان کیا اب میں باقی تمام صحیفے چھوڑ کر وہ حالات بیان کرتا ہون جہاں سے میری زندگی کی ابتداء ہوئی دنیا کے بہت سے نا سمجھ انسان مجھے فرشتہ سمجھتے ہیں بڑے بڑے پڑھے لکھے میرے متعلق یہی رائے رکھتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ میں ہیڈ فرشتہ ہوں اس لئے فرشتوں کا استاد مشہور ہوں بہر حال یہ طے شدہ امر ہے کہ میرے متعلق دنیاوالے بہت کم جانتے ہیں کہ میں کون ہوں اس حالت میں کیسے آیا چنانچہ میں انسان کی محدود معلومات اور ناقص عقل کا مر ثیہ پڑھنے اور اسکی مخصوص فطرت اور مفسد ذہنیت کی قسم کھا کر صحیح واقعات لکھتا ہوں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو کائنات کو عالم وجود میں آئے ہوئے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال گزر چکے تھے ۔
دنیا کی ابتداء
جاری ہے ۔
[/COLOR]