• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعہ اور منکرین حدیث کا اھلسنت احادیث پر تحریف قرآن کا الزام : علما سے مدلل جواب کا طلبگار۔۔۔۔۔۔

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
قرآن میں زیادتی کے متعلق سنی روایات
اس باب میں ہم اہل ِسنت کی کتابوں سے معتبر و صحیح روایات پیش کرینگے جو کو واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہوئی ہے۔ شیعہ و اہل سنت اس قسم کی روایات کو تسلیم نہیں کرتے اور تاویل و توجیہ پر محمول کرتے ہیں لیکن یہ باب اُن نجس ناصبیوں کے لئے ہے جو کہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ شیعان ِ علی (ع) کافر ہیں صرف اس وجہ سے کے ان کی کتب میں بعض روایات ہیں جو تحریف ِ قرآن پر دلالت کرتی ہیں۔ اگر ایسی روایات ہونا کسی کو کافر بنادیتا ہے تو اس قسم کی روایات ناصبیوں کی اُن کتابوں میں بھی ہیں جو صحیح ترین سمجھی جاتیں ہیں۔
جناب ابن عباس کی تحقیق کے مطابق اس قرآن میں 50 آیات زیادہ ہیں
امام ِاہل سنت حافظ جلالالدین سیوطی نے حضرت ابن عباس (ر) سے روایت نقل کی ہے کہ:
قرآن میں آیات کی تعداد 6616 ہے
الاتقان فی علوم القرآن ، ج 1 ص 84
ذرا دیکھئے کہ ناصبی قرآن کے ساتھ کس طرح کھیلتے ہیں۔ جناب ابن عباس (ر) نے ایک نظریہ دیا، پھر ناصبیوں کے سردار ابن کثیر نے ایک نظریہ پیش کیا جبکہ آج کے دور کے ناصبی علماء کسی اور ہی خواب میں زندہ ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن 6666 آیات ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ پیش کردہ سُنی حوالہ کے مطابق حضرت ابن عباس (ر) قرآن کی 50 آیات کے منکر تھے ؟
ناصبیوں کے چہیتے امام ابن کثیر کے مطابق 6000 آیات معتبر اور باقی مشکوک ہیں
ہم نے ان معتبر سُنی کُتب پر انحصارکیا ہے
1۔ تفسیر ابن کثیر، ج 1 ص 7
2۔ تفسیر قرطبی، ج 1 ص 65
تفسیر ابن کثیر کی عبارت:
قرآن کی کل آیات 6000 ہیں جبکہ باقی آیات میں اختلاف ہے اور ان کے بارے میں کئی آراء ہیں ۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ 6204 آیات ہیں
وہ لوگ جنہوں نے شیعہ دشمنی کو اپنا فرض بنا لیا ہے انہیں پہلے اُن کی اپنی کتب کے متعلق وضاحت دینی چاہئے ۔ سُنی کتب میں ہم کہیں تو یہ پڑھتے ہیں کہ "معضتین" اور "سم اللہ الرحمان الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں یعنی اہل سنت نے انہیں اپنے قرآن میں شامل کر کے زیادتی کی ہے اور کہیں یہ لکھا ہے کہ ایک پورا سورہ جس کی تعداد سورہ بقرہ کی آیات کے برابر تھی کھو گیا ہے اور کہیں لکھا ہے کہ قرآن کی 6000 آیات معتبر اور باقی مشکوک ہیں۔ اگر کسی مسلک کی کتاب میں ایسی احادیث کا ہونا کفر ہے جن سے قرآن میں تحریف ہونا ثابت ہوتا ہو تو ناصبی حضرات کا اپنے علماء کے بارے میں فتویٰ کیا ہے ؟
حیرت انگیز حنفی و مالکی عقیدہ:"بسم اللہ الرحمان الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں ہے
ہم نے ان معتبر سُنی کتب پر انحصارکیا ہے
1۔ تفسیر مظہری، ج 1 ص 3 ؛ قاضی ثنا اللہ پانی پتی
2۔ تفسیر قرطبی، ج 1 ص 92 ؛ مقدمہ تفسیر
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 1 ص 7 ؛امام شوکانی
4۔ تفسیر خازن، ج 1 ص 12 ؛ مقدمہ
5۔ تفسیرابن کثیر، ج 1 ص 20
6۔ تفسیر احکام القران الجصاص
تفسیر ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ ہو:
مالک اور ابو حنیفہ اور ان کے پیروکار کہتے ہیں کہ بسم اللہ نہ ہی سورہ فاتحہ کی آیت ہے اور نہ ہی اور کسی سورہ کی
یہ حوالہ تفسیرابن کثیر کے آن لائن انگریزی ایڈیشن میں بھی پڑھا جاسکتا ہے
http://tafsir.com/default.asp?sid=1&;tid=208
تفسیرخازن کی عبارت:
امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ بسم اللہ نہ ہی سورہ فاتحہ کی آیت ہے اور نہ ہی اور کسی سورہ کی
اگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپاہ صحابہ میں شامل تمام ناصبی جو کہ حنفی دیوبند مسلک کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، انہوں نے "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کو اپنے قرآن میں 114 جگہ لکھ کر قرآن میں واضح زیادتی کا ارتکاب کیا ہے اور اپنے عام سُنی پیروکاروں کو دھوکا دیا ہے جو کہ "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کو قرآن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اگر قرآن میں کمی یا زیادتی کرنا کفر ہے تو سپاہ ِیزید کے نواصب کا امام ابو حنیفہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس حوالہ نے تو کچھ یوں پیچیدگی پیش کردی ہے کہ اب یا تو ابو حنیفہ کافر جن کی نگاہ میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں (یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے پاس ہے اس میں زیادتی کی گئی ہے) یا پھر تمام سُنی حضرات کافر ہوئے جو کہ اس کو قرآن کا جز تسلیم کرتے ہیں (حالانکہ ان کے امام کی نظر میں ایسا نہیں)۔ فیصلہ منافرت پسند سپاہ یزید و دیگر نواصب پرہے ، ہم شیعہ حضرات کے نزدیک تو سب ہی کو اپنا نظریہ پیش کرنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی کو دوسرے مسلک پر کیچڑ اچھالنے کا حق حاصل نہیں!
الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے موضوع کو مسئلہ بنا کر توہین ِقرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِاسلام بخوبی حاصل کرتے ہیں۔
سپاہ یزید کو چیلنج کہ یہ ثابت کردیں کہ امام ابوحنیفہ و امام مالک بسم اللہ کو قرآن کا حصہ تسلیم کرتے تھے
ہم ان معتبر سُنی کتابوں سے نقل کرہے ہیں:
1۔ نور الانوار، ص 9
2۔ خر الاقمار، ص 9
3۔ تفسیر کبیر، ج 1 ص 151 ؛ امام فخرالدین راضی
4۔ تفسیر مدارک، ج 1 ص 13
5۔ تفسیر کشاف، ج 1 ص 1 ؛ علامہ زمخشری
6۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 1 ص 12
تفسیر کبیر کی عبارت:
امام ابو حنیفہ کی نظر میں بسم اللہ قرآن کی آیت نہیں
اہل سنت کے ایک اور امام یعنی امام شافعی کے مطابق "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قرآن کا حصہ ہے اور ہم یہ جانتے کہ قرآن کے ایک لفظ کا بھی رد کرنے والا کافر ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ شافعی مسلک کی تعلیمات کے مطابق تمام حنفی بشمول امام ابو حنیفہ کافر ٹھہرے؟ اب ہم پر تنقید کرنے والوں کے لئے پیش کردہ دو متضاد عقائد میں سے کسی ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہنا مشکل کام ہے شائد اسی کشمکش میں مبتلا ہوئے لوگوں نے اس معاملہ میں کچھ ڈھیل دکھائی جو کہ ہم کتاب نور الانوار میں پڑھتے ہیں:
جو بسم اللہ کو قرآن کا حصہ نہ مانے اسے کافر نہیں کہنا چاہئے جبکہ رد شک پر ہو۔ اس معاملہ میں امام مالک کے نزدیک اختلاف ہے کہ وہ اس کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے
مخالفین کا عقیدہ: بسم اللہ تو بس قرآن میں ثواب حاصل کرنے کی غرض سے لکھی گئ تھی
علامہ زمخشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
بسم اَللَّهِ الرَّحمَنِ اَلرَّحِيمِ قراء المدينة والبصرة والشأم وفقهاؤها على أن التسمية ليست بآية من الفاتحة ولا من غيرها من السور وإنما كتبت للفصل والتبرك بالابتداء بها كما بدئ بذكرها في كل أمر في بال وهو مذهب أبي حنيفة رحمه اللّه ومن تابعه ولذلك لا يجهر بها عندهم في الصلاة‏.‏
(ترجمہ) مدینہ ، بصرہ اور شام کے فقہاء اور قاریوں کے مطابق "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" نہ ہی سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے نہ ہی قرآن کا۔ یہ قرآن میں سورتوں کے درمیاں فرق کرنے اور اس سے ابتداء کر تے ہوئے ثواب حاصل کرنے کی غرض سے لکھا گیا تھا جیسا کے ہر عمل سے پہلے اسے پڑھا جاتا ہے۔ اور اسے قرآن کا حصہ نہ تسلیم کرنا ابو حنیفہ اور ان کے پیروکاروں کا عقیدہ تھا اور اسی وجہ سے اُن کے یہاں نماز میں اسے بلند آواز میں نہیں پڑھا جاتا
تفسیر کشاف ، ج 1 ص1؛ مقدمہ سورۃ فاتحہ
یاد رہے کہ امام شافعی کی نظر میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قراآن کی آیات میں سے ہے ۔ اسی کے متعلق علامہ زمخشری آگے لکھتے ہیں:
وقراء مكة والكوفة وفقهاؤهما على أنها اية من الفاتحة ومن كل سورة وعليه الشافعي وأصحابه رحمهم الله ولذلك يجهرون بها‏.‏
(ترجمہ): اور مکہ اور کوفہ کے قاریوں کی نزدیک یہ سورہ فاتحہ اور ہر سورہ کی ایک آیت ہے اور یہی امام شافعی اور ان کی پیروکاروں کا عقیدہ ہے اسی لئے وہ اسے باآواز ِ بلند پڑھتے ہیں
تفسیر کشاف ، ج 1 ص1؛ مقدمہ سورہ فاتحہ
یہ دونوں عبارات سلفی وہابیوں کی ویب سائٹ پر موجود تفسیر کشاف میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ قارئین کی سہولت کے لئے ہم اس حوالہ کا براہ راست لنک بھی دے رہے ہیں۔
خزانة الكتب | الكتب أبجديا|نداء الإيمان
امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے مطابق قرآن میں 114 جگہ "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کو لکھ کر قرآن میں تحریف یعنی زیادتی کی گئی ہے جبکہ شافعی مسلک کی تعلیمات کے مطابق ابو حنیفہ اور مالک قرآن کی 114 آیات کے منکر تھے۔ اب سپاہ یزید کے انتہا پسند ناصبی ہمیں بتانا پسند کرینگے کہ ان دو عقائد کے لوگوں میں سے صحیح کون تھا ؟ یا پھر یوں کہں کہ ان دونوں میں سے کافر کون تھا اور کون نہیں؟ یاد رہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک ہی صحیح ہوسکتا ہے اور ایک کافر کیونکہ خود سپاہ یزید والے شیعہ خیرالبریہ کے لئے یہی چیختے آئے ہیں کہ قرآن میں زیادتی یا کمی کا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے تو اب یہاں تو اُن کے دو امام ہیں جو کہ 114 آیات کے منکر ہیں۔ فیصلہ یزیدی سپاہ پر۔
الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے مئسلہ کو اُٹھا کر توہین ِ قرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِ اسلام بخوبی حاصل کرتے ہیں۔
وہ جو قرآن میں کمی یا زیادتی کرے وہ کافر ہے
ہم اہل سنت کی معتبر کتاب جامع صغیر، ج 2 ص 32 (از جلال الدین سیوطی) میں پڑھتے ہیں :
رسول اللہ (ص) کے مطابق چھ قسم کے لوگوں پر ان کی، اللہ کی اور باقی نبیوں کی لعنت ہے:
1۔ وہ جو قرآن میں زیادتی کرے
2۔ وہ جو تقدیر کو رد کرے ۔۔۔۔۔
معزز قارئین! یہاں یزید ِ پلید کی حامی جماعت سپاہ صحابہ اور ان جیسے دیگر نواصب کے تین اماموں کے درمیاں اختلاف ہے اور اگر ہم سپاہ صحابہ کی ہی تکفیری زبان استعمال کریں تو کوئی ایک کافر و لعنتی ہو سکتا ہے ۔ یا تو امام شافعی کافر و لعنتی ہوئے کیونکہ انہوں نے ایک عبارت کو 114 مرتبہ قرآن میں لکھ کر زیادتی کی جبکہ وہ قرآن کا حصہ ہی نہ تھا یا پھر ابو حنیفہ و مالک ہوئے کیونکہ انہوں نے قرآن کی 114 آیات کا انکار کیا۔ فیصلہ سپاہ یزید پر ہے کیونکہ یہ ان کا پسندیدہ ترین کھیل ہے جبکہ ہم شیعہ حضرات کے نزدیک دوسرے مسلک پر کفر کے فتویٰ لگانا کوئی معقول فعل نہیں!
نوٹ: 114 اس وجہ سے کہ بسم اللہ سورہ توبہ میں تو نہیں لیکن سورہ نمل میں دو مرتبہ موجود ہے۔
حضرت عثمان کا قرآن کے متعلق اپنی لاعلمی کا اقرار
ہم مندرجہ ذیل سُنی کتب میں پڑھتے ہیں:
1۔ تفسیر غرائب القرآن، ج 2 ص 57
2۔ تفسیر کبیر، ج 4 ص 294
3۔ تفسیر ابن کثیر، ج 3 ص 331
4۔ تفسیر مظہری، ج 4 ص 32
5۔ تفسیر معالم التنزیل، ج 3 ص 410
6۔ تفسیر خازن، ج 3 ص 46
7۔ تفسیر روح المعانی، ج 9 ص 41
8۔ صحیح ترمذی، ج 2 ص 368 ، کتاب التفسیر
ترمذی:
رسول اللہ (ص) انتقال کر گئے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سورہ براءت سورہ انفعال کا حصہ ہے کہ نہیں
امام مالک فرماتے ہیں کہ سورہ براءت (یعنی سورہ توبہ) میں بسم اللہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ جب سورہ براءت کا پہلا حصہ کھو گیا تو اس کا بسم اللہ بھی اس کے ساتھ کھو گیا جب کہ یہاں اہل سنت کے خلیفہ سوم فرما رہے ہیں کہ انہیں یہی نہیں معلوم تھا کہ سورہ براءت کس سورہ کا حصہ ہے۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ براءت کو بس اپنے قیاس کی بنا پر ایک جگہ رکھ دیا جبکہ اُن کو اس کے درست مقام کا علم ہی نہ تھا۔ جب سپاہ یزید کے عقائد کی کتابیں قرآن میں شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہیں تو انہیں کس نے حق دیا کے وہ اپنے گھر کو درست کرنے کے بجائے دوسروں پر اپنے اذہان کی پلیدگی تھوپیں ؟
صحابی عبداللہ ابن مسعود کے عقیدہ میں سورہ فاتحہ قرآن کا حصہ نہیں
ہم مندرجہ ذیل سُنی کتابوں میں پڑھتے ہیں:
1۔ تفسیر قرطبی ، ج 1 ص 15 اور ج 19 ص 151
2۔ تفسیر درالمنثور، ج 1 ص 2
3۔ تفسیر کبیر ، ص 196
4۔ الاتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 80
تفسیر قرطبی کی عبارت:
جب ابن مسعود سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ سورہ فاتحہ کو قرآن میں کیوں نہیں لکھتے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر انہوں نے اسے قرآن میں لکھا تو انہیں ہر سورہ کے ساتھ لکھنا پڑے گا
اہلِ سنت کے امام حافظ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح "فتح الباری" میں لکھتے ہیں:
مسلمانوں میں سورہ الفاتحہ اور معوذتین کے قرآن کا حصہ ہونے پر اجماع ہے اور جو کوئی اسے رد کرے وہ کافر ہے
فتح الباری، ج 8 ص 743 اور ج 9 ص 51
صحابی عبداللہ ابن مسعود کا قرآن کی ایک اہم سورہ الفاتحہ کو اپنے مصحف یعنی اپنی قرآن کی کاپی میں سے خارج کرنا ثابت ہے اور ساتھ ہی یہ امر بھی کہ قرآن کے ایک لفظ کو رد کرنے والا کافر ہے جبکہ صحابی عبد اللہ ابن مسعود قرآن کے اہم سورہ کے منکر تھے۔ سپاہ یزید کے تکفیری عناصر جو شیعہ علماء پر تحریف ِ قرآن کے عقیدہ رکھنے کا الزام دھرتے ہوئے کافر کہتے آئے ہیں ذرا سوچیں کے اُنہی کی نگاہ میں ایک صحابی کا رتبہ ہر عام مسلمان سے بلند ہے تو جس عمل کے لئے وہ ایک عام شیعہ عالم کو کافر ٹھہرا تے ہیں بالکل اُسی عمل کا ارتکاب اگر ایک صحابی کرے تو اُس کے بارے میں سپاہ صحابہ کا کیا کہنا ہے ؟ فیصلہ سپاہ صحابہ پر۔
سپاہ صحابہ کے لئے ایک اور خوراک: علما ِاہل سنت کی گواہی کہ ابن مسعود سورہ فاتحہ کے منکر تھے
ہم اہل ِسنت کی مندجہ ذیل معتبر کتب سے نقل کر رہے ہیں:
1۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 99
2۔ تفسیر ابن کثیر، ج 1 ص 9
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 1 ص 6
4۔ تفسیر الکبیر، ج 1 ص 219
امام فخرالدین الرازی اپنی کتاب 'تفسیر الکبیر' میں لکھتے ہیں:
نقل في الكتب القديمة أن ابن مسعود كان ينكر كون سورة الفاتحة من القرآن وكان ينكر كون المعوذتين من القرآن
قدیم کتابوں میں رقم ہے کہ ابن مسعود فاتحہ اور معوذتین کو قرآن کا حصہ ماننے سے انکار کرتے تھے
ہم انصاف کے طلبگار ہیں! ہم شیعہ خیرالبریہ سپاہ صحابہ اور وہابی مسلک میں موجود نواصب کی جانب سے اس وجہ سے کافر کہے جاتے ہیں کہ ہماری احادیث کی کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا گمان ہوتا ہے لیکن جب ان کے اپنے امام "بسم اللہ رحمان الرحیم" کو قرآن کا حصہ نہ مانتے ہوئے 114 آیات کا انکار کریں اور صحابی ِ رسول (ص) قرآن کی ایک اہم سورہ الفاتحہ کا انکار کریں تو وہ ان لوگوں کے چہیتے ہی رہتے ہیں۔ واہ رے واہ منافقت ! تو نے بھی کیا سہی جگہ ڈیرہ ڈالا!
سپاہ صحابہ کےعقیدہ ِتحریف ِقرآن کا مزید انکشاف! عبداللہ ابن مسعود معوذتین کے بھی منکر تھے
معوذتین قرآن کے آخری دو سورتیں یعنی سورہ والناس اور سورہ فلق کو کہتے ہیں اور صحابی عبد اللہ ابن مسعود ان دو سورتوں کا قرآن کا حصہ ہونے کے بھی منکر تھے۔ اس کا ثبوت مندرجہ ذیل معتبر سُنی کتابوں سے:
1۔ صحیح بخاری (اردو) ، ج 2 ص 1088 کتاب التفسیر
2۔ فتح الباری، ج 8 ص 743 ، کتاب التفسیر
3 تفسیر دُرالمنثور، ج 6 ص 41 6
4۔ تفسیر ابن کثیر، ج 4 ص 571
5۔ تفسیر قرطبی، ج 2 ص 251
6۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 279
7۔ شرح موافق، ص 679
صحیح بخاری کی روایت ملاحضہ ہو:
زر بن حبیش سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابی بن کعب سے پوچھا: اے ابوالمنذر (یہ ابی بن کعب کی کنیت ہے) تمہارے بھائی عبد اللہ ابن مسعود (ر) ایسا کہتے ہیں (کہ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں) انہوں نے کہا میں نے آنحضرت (ص) سے پوچھا انہوں نے فرمایا (جبرائیل کی زبان پر) یوں کہا گیا ایسا کہہ میں نے کہا تو ہم وہی کہتے ہیں جو آنحضرت (ص) کہتے تھے
صحیح بخاری ، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1088 حدیث 2080 (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
ابن حجر عسقلانی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
ابن مسعود معوذتین کو اپنے مصحف میں لکھتے اور مٹادیتے تھے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے
محترم قارئین! سورہ فاتحہ قرآن شروعات جبکہ سورہ والناس قرآن کا اختتام ہے اور ہمیں معلوم ہوا کہ سپاہ صحابہ اور انکے اماموں کے نظر میں قرآن کی شروعات بھی مشکوک ہے اور قرآن کا اختتام بھی۔ یزید ِ پلید کے ہمنوائوں کو اپنی صحیح کتابیں کیوں نظر نہیں آتیں اور کیوں وہ بس مسلسل شیعان ِعلی (ع) کے خلاف تکفیر کرتے رہتے ہیں؟
امام قرطبی اپنی تفسیر کی جلد 1 صفحہ 53 پر لکھتے ہیں:
جو کوئی معوذتین کو قرآن کا حصہ نہ مانیں وہ کافر ہے
سپاہ صحابہ جن کا منشور یہ تھا کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور سب کا احترام لازمی ہے (چاہے وہ کچھ بھی کریں) اور اُن میں سے کسی کی بھی پیروی کی جائے تو فلاح پائی جاسکتی ہے، اور صحابی عبداللہ ابن مسعود کا معوذتین کو رد کرنا ناصبیت کے گلے میں پھنسی وہ ہڈی ہے جس کو نکالنے کی جتنی کوشش ان لوگوں نے یزیدی ہسپتال کے سرجنوں سے کروائی وہ اُتنی ہی اندر جاتی گئی۔
صحابی عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں سورہ فاتحہ اور معوذتین شامل نہیں کی تھی
علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی معروف کتاب "الاتقان فی علوم القرآن" میں صحابی عبد اللہ ابن مسعود کے مصحف (قرآن) میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے مصحف میں سورہ فاتحہ اور معوذتین (یا معوذتان) شامل نہیں تھے۔ ابن اشتح سے روایت ہے:
عبداللہ ابن مسعود کے مصحف کی ترتیب یوں تھی:
الاطوال، البقرہ، النساء، آلِ عمران، ۔۔۔۔۔ الکوثر، کُل یا ایھاالکافرون، تبت، قل ھو اللہ ھواحد، اور، الم نشرح، اور اس میں الحمد اور معوذتان نہیں تھیں
الاتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 173 (اردو ایڈیشن، ادارہ اسلامیہ لاہور)
آج سپاہ یزید جسے ناصبی حضرات گلی کوچوں میں شیعہ کافر شیعہ کافر کی رٹ لگائے ملتے ہیں صرف اس لئے کہ شیعہ کتب میں بعض احادیث سے تحریف ِ قرآن کا گمان ہو سکتا ہے لیکن اُس شخص کے متعلق اس یزیدی سپاہ کی کیا رائے ہے جو اپنے قرآن سے سورہ الحمد اور معوذتین کو خارج کردے؟
ابن مسعود کا معوذتین کا منکر ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے
1۔ فتح الباری، ج 8 ص 74
2۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 212
ان دونوں کتابوں کے مطابق حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا معوذتین کا رد کرنا "صحیح" روایات سے ثابت ہے۔ یہاں ہم علامہ جلال الدین کا نظریہ پیش کرتے ہیں جو اپنی کتاب اتقان (اردو ایدیشن، ادارہ ِ اسلامیہ لاہور) میں تحریر کرتے ہیں:
عبد اللہ ابن احمد اپنی کتاب 'زیارت المسند' اور طبرانی اور ابن مرجح نے اعمش، ابی اسحاق، عبدالرحمٰن بن یزید نخعی سے روایت کی ہے: عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کو مصحف سے مٹاتے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے"۔ اور بزار اور تبرانی نے اسی راوی سے روایت کی ہے: "عبداللہ ابن مسعود معوذتین کو مصحف میں لکھتے اور مٹاتے اور کہتے کہ رسول اللہ (ص) نے ان سورتوں کو صرف تعویز کے لئے استعمال کرنے کا حکم دیا تھا اور ابن مسعود نے یہ سورتیں نہیں لکھیں"۔ اس روایت کے تمام اسناد صحیح ہیں
تو صحابی عبد اللہ ابن مسعود کی تعلیمات کے مطابق حضرت عثمان نے موجودہ قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ فاتحہ اور ان دو سورتوں کو قرآن میں لکھ کرجو کہ قرآن کا حصہ "نہیں" تھے قرآن میں زیادتی کی ہے جبکہ باقی صحابہ کے عقیدہ کے مطابق صحابی عبداللہ ابن مسعود نے سورہ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن سے نکال کر جو کہ قرآن کا حصہ تھے قرآن میں کمی کی ہے ۔ اب ان دونوں میں سے کافر کون ہے اس کا فیصلہ سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی تحریک کے مُلا پر ہے لیکن دونوں میں سی کوئی ایک ہی درست ہو سکتا ہے۔ اور اگر تحریف ِ قرآن کا عندیہ دینے والے صحابہ کے یہ دونوں گروہ صحیح ہیں تو پھر شیعہ جو کہ قرآن کے کامل ہونے کی شہادت دیتے ہیں وہ کافر کس اصول کے تحت ہو گئے؟
اگر کوئی ناصبی پریشان ہوجائے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بہانہ بنا بھی دے کہ یہ روایت معتبر نہیں تو ان کا اپنے امام جلال الدین سیوطی کے متعلق کیا فتویٰ ہے جو تحریف کو ثابت کرنے والی اس آیت کو صحیح تسلیم کرتے تھے؟
صحابہ کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن کی سورہ ولیل میں زیادتی کی گئی ہے اور اس پر امام بخاری کی تصدیق
1۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1068 کتاب التفسیر
2۔ تفسیر دُد المنثور، ج 6 ص 358، سورہ والیل
صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ ہو:
ابراہیم نخعی سے روایت ہے انہوں نے کہا عبد اللہ ابن مسعود (ر) کے شاگرد (شام کے ملک میں) ابو الدرداء صحابی کے پاس گئے ، ابو الدرداء ڈھونڈ کر ان سے ملے اور ان سے پوچھا عبد اللہ ابن مسعود کی طرح تم میں کون سا شخص قرآن پڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم سب اسی طرح پڑھتے ہیں ۔ ابو الدرداء نے کہا کس کو زیادہ یاد ہے ؟۔ انہوں نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ ابو الدرداء نے علقمہ سے پوچھا اچھا حضرت عبدللہ ابن مسعود سورہ واللیل کو کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ نے کہا یوں پڑھتے تھے (والذكر والأنثى‏) ۔ ابو الدرداء کہنے لگے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو اسی طرح پڑھتے سُنا ہے۔ مگر یہ شام کے ملک والے چاہتے ہیں کہ میں یوں پڑھوں (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى) ۔ میں تو خدا کی قسم کبھی اس طرح نہیں پڑھنے کا
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1068 حدیث 2049 (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
عبداللہ ابن مسعود اور ان کے صحابہ کے برخلاف آج تمام مسلمان سورہ الیل کی اس آیت کو اس طرح پرھتے ہیں "وما خلق والذكر والأنثى" جبکہ علقمہ اور صحابی ابو الدرداء کے مطابق یہ آیت اس طرح ہونی چاہئے تھی " والذكر والأنثى" اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ صحابی ابو الدرداء کی گواہی کے مطابق رسول اللہ (ص) نے بھی یہ آیت " والذكر والأنثى" کے الفاظ کے ساتھ ہی پڑھی تھی جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ موجودہ قرآن میں " وما خلق" کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اب یہاں اگر ہم سپاہ ِیزید کی زبان استعمال کریں تو آیا وہ صحابہ کافر جن کے عقیدہ کے مطابق "وما خلق" قرآن کا حصہ نہیں اور انہوں نے رسول اللہ (ص) سے جھوٹ منسوب کیا (اور یہ ایک الگ گناہ) یا پھر سب مسلمان کافرجو کہ صحابہ اور رسول اللہ (ص) کے برخلاف آج ان الفاط کو قرآن کا حصہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ؟ فیصلہ پھر نواصب پر۔
اور ناصبی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی 'صحیح' احادیث کی کتاب میں اس روایت کو شامل کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی قرآن میں تحریف کے قائل تھے۔ یہ دیکھ کر نواصب کہیں شیعہ علماء پر یہی الزام نہ دھریں کیونکہ کسی شیعہ عالم نے دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی کسی شیعہ نے کے ہمارے مذہب کی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سو فیصد 'صحیح' ہے جبکہ امام بخاری نے کئی ہزار احادیث پر عبور حاصل کیا لیکن اپنی کتاب میں صرف وہی احادیث شامل کیں جو "صحیح" کے درجے کو پہنچیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل ِ سنت صحیح بخاری کو قرآن کے بعد صحیح تریں کتاب مانتے ہیں جبکہ ہم شیعان ِعلی (ع) کے عقیدہ کے مطابق قرآن کے علاوہ کوئی کتاب سو فیصد صحیح نہیں۔
صحابی ابی بن کعب کے مصحف میں وہ لفظ نہیں تھا جو موجودہ قرآن میں شامل ہے
سورہ انساء کی آیت نمبر 101 ہے:
‏ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏‏
علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ابی بن کعب اس آیت میں 'إن خفتم' نہیں پڑھتے تھے جبکہ مصحف ِعثمان میں یہ اس طرح ہے ‏{‏إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏} ‏‏
تفسیر در المنثور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے اور قارئین کی سہولت کے لئے اس حوالہ کے لنک درج ذیل ہے
كتاب: الدر المنثور في التفسير بالمأثور **|نداء الإيمان
اس روایت سے واضح ہے کہ صحابی ابی بن کعب کی نگاہ میں 'إن خفتم' قرآن کا حصہ نہیں یعنی حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں نے موجودہ قرآن میں زیادتی کی ۔ اب سپاہ یزید کی زبان میں یا تو صحابی ابی بن کعب کافر کہ وہ اُن الفاظ کو رد کرتے تھے جو کہ قرآن کا حصہ ہیں یا پھر حضرت عثمان اور اُن کی وجہ سے سب مسلمان کافر جو کے ایسے الفاظ کو قرآن کا حصہ مانتے ہیں جو کہ دراصل صحابی ابی بن کعب کے مطابق قرآن کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ فیصلہ ناصبی عدالت میں۔
اس باب کے آخر میں ہم سپاہ یزید اوران کی دیگر ناصبی برادری جو کے شیعہ دشمن عقیدہ رکھتے ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات کی موجودگی کی بنا پر شیعہ کافر شیعہ کافر چیخنے سے قبل پہلے وہ اپنی کتابیں ٹٹولیں جو کہ صحیح کا درجہ رکھتی ہیں اور پہلے قرآن پر اپنا تو ایمان ثابت کریں اور جب وہ اُن تمام صحابہ و تابعین جنہوں نے تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی احادیث روایت کیں بشمول اُن علماء کے جنہوں نے ان روایات کو نقل کیا اور صحیح کا درجہ دیا، کافر قرار نہیں دیتے تب تک انہیں شیعوں پر اپنی نجس انگلیاں اُٹھانے کا کوئی حق نہیں۔
الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے مئسلہ کو اُٹھا کر توہین ِ قرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِاسلام کو حاصل ہوتا ہے۔
باب 5: قرآن میں کمی کے متعلق سنی روایات
ضروری وضاحت: اس باب میں نواصب کی جانب سے "نسخ" کا بہانہ تسلیم نہیں کیا جائے گا
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نواصب شیعوں پر تو تحریف ِ قرآن کا عقیدہ ان کی چند روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب شیعہ حضرات ان نواصب کو ان کی مستند کتابوں سے یکے بعد دیگرے حوالے پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصبی حضرات اور ان کے اجداد قرآن میں چند الفاط و آیات پڑھا کرتے تھے جو اب قرآن میں موجود نہیں تو یہ لوگ فوراً یہ بہانہ کرتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ تعا لیٰ نے منسوخ کردئے ہیں لہٰذا اب قرآن میں شامل نہیں۔ یہ بہانہ وہ اپنے جاہل پیروکاروں کو بہلانے کے لئے تو استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہاں ان نواصب کا سامنا شیعان ِ حیدر ِ کرار سے ہے جو اپنی عقل کو کسی مدرسہ کے مُلا کے حوالے نہیں کردیتے۔ اگر نواصب کا ہماری کسی بھی پیش کردہ آیت کو منسوخ کہنے کا پروگرام ہے تو وہ بیشک کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں متواتر و صحیح احادیث پیش کرنی ہونگی یا کسی صحابی سے صحیح روایت بیان کرنی ہوگی جس سے معلوم ہو کہ ہماری پیش کردہ آیت منسوخ ہو گئ ہے اور محض ذاتی آراء تسلیم نہیں کی جائینگی چاہے وہ بہت بڑا عالم ِ دین ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ صرف ہمارا ہی چیلنج نہیں ہے بلکہ خود سُنی مسللک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
انما يرجع في النسخ الى نقل صريح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوعن صحابي يقول اية كذا۔۔۔ نسخت كذا‏.‏ ولا يعتمد في النسخ قول عوام المفسرين بل ولا اجتهاد المجتهدين من غير نقل صحيح ولا معارضة بينة لا النسخ يتضمن رفع حكم اثبات حكم تقرر في عهده صلى الله عليه وسلم والمعتمد فيه النقل والتاريخ دون الراي والاجتهاد‏.‏
سوائے صریح حدیث کے جو رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا پھر ثقہ صحابی سے جس پر ناسخ ِ آیت موجود ہو نسخ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔۔۔ تنسیخ ِ آیت میں عام مفسروں کے قول بلکہ مجتہدوں کے محض اجتہاد کو بھی کوئی اعتبار نہیں ہوسکتا جب کے صحیح حدیث سے تنسیخ ِ آیت نہ ثابت ہوجائے جس کے معارض کوئی بینہ اور برہان موجود نہ ہو۔ کیونکہ نسخ کسی (قرآنی) حکم کے ازالے یا اثبات پر شامل ہے جو عہد ِ پیغمبر (ص) میں مقرر ہوچکا ہو اس لئے کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کے لئے حدیث اور تاریخ کی ضرورت ہے نہ کہ کسی کی رائے اور اجتہاد کی
اتقان فی علوم القرآن، ج 2 ص 63 نوع 47
اور پھر ہمارے مخالفین کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اہل ِسنت کے چار مکتبہ فکر میں سے دو کے بانی آئمہ یعنی امام شافعی اور امام احمد کے مطابق نسخ تو قرآن میں کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ سنی عالم ِدین علامہ سیف الدین العامدی اپنی کتاب 'الاحکام فی اصول الاحکام' میں تحریر کرتے ہیں:
قطع الشافعي وأكثر أصحابه وأكثر أهل الظاهر بامتناع نسخ الكتاب بالسنة المتواترة وإليه ذهب أحمد بن حنبل في إحدى الروايتين عنه
شافعی اور ان کے اکثر صحابہ اور اہل ِطاہر کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ کتاب (یعنی قرآن) میں نسخ متواتر احادیث سے نہیں ہوسکتا۔ یہی بات امام احمد حنبل نے اپنے سے روایت کردہ دو میں سے ایک روایت میں کہی ہے۔
امام شافعی کے اس عقیدہ کی امام فخرلادین الرازی نے اپنی کتاب 'المحصول' ج 3 ص 348 میں بھی تصدیق کی ہے۔
نسخ الكتاب بالسنة المتواترة جائز وواقع ، وقال الشافعي رضي الله عنه لم يقع
متواتر احادیث سے قرآن میں نسخ ہوسکتا ہے اور ایسا ہو بھی چکا ہے لیکن شافعی (رضی اللہ تعالی عنہ) کا قول ہے کہ ایسا نہیں ہوا
بہرکیف، نسخ سے متعلق ان سنی عقائد و اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ہم نواصب کے مسلک کی چند روایات پیش کرتے ہیں جن سے ایک عام آدمی کو تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں کمی کردی گئ ہے اور وہ آیات و الفاط جو کہ صحابہ اپنے زمانے میں قرآن میں پڑھا کرتے تھے آج ہمیں قرآن میں نہیں ملتے۔
پیش ِخدمت ہے سپاہ ِصحابہ اور وہابیوں کا 40 پاروں والا قرآن
اس سلسلے میں ہم نے مندرجہ ذیل مستند سُنی کتابوں پر انحصار کیا ہے:
1۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 9 ص 95 ؛ امام ابن حجر عسقلانی
2۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 9 ص 345 ؛ علامہ بدروالدین آئینی
3۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری، ج 7 ص 482 ؛ علامہ شہابالدین قستلانی
فتح الباری کی روایت ملاحضہ ہو:
قال أقل ما يجزئ من القراءة في كل يوم وليلة جزء من أربعين جزءا من القرآن
کم سے کم مقدار میں قرآن کا پڑھنا کافی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دن و رات 40 پاروں میں سے 1 پارہ پڑھا جائے
یہ روایت وہابی حضرات کی پسندیدہ ویب سائٹ پر موجود کتاب فتح الباری میں بھی باآسانی پڑھی جاسکتی ہے
كتاب: فتح الباري شرح صحيح البخاري **|نداء الإيمان
ہم جانتے ہیں کہ آج ہم تمام مسلمانوں کے پاس موجود قرآن 30 پاروں میں تقسیم ہے لیکن آج ہمیں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ سپاہ صحابہ اور دیگر نواصب کے عقیدہ کے مطابق موجودہ قرآن میں سے پورے 10 پاروں کی کمی ہے۔ لہٰذا اب نواصب چند کمزور شیعہ روایات کو بنیاد بنا کر ہم پر تحریف ِ قرآن کا عقیدہ تھوپنے سے پہلے اپنے عقیدہ کی وضاحت کریں۔
سُنی علماء کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن سے کچھ الفاظ کھو گئے
سب سے پہلے ہم علامہ جلال الدین سیوطی کے اُن الفاظ کو نقل کرنا چاہینگے جو انہوں نے اپنی معروف تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کئے:
حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں
پھر سورہ احزاب کے مقدمہ میں علامہ صاحب نے امام سفیان ثوری کا ایک عظیم قول انہی کے شاگرد امام عبدالرزاق سنعانی (المتوفی 211 ھ)کی زبانی نقل کرتے ہیں::
خرج عبد الرزاق عن الثوري قال‏:‏ بلغنا ان ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يقرأون القرآن أصيبوا يوم مسيلمة، فذهبت حروف من القرآن‏.‏
عبد الرزاق نے ثوری سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: مجھ تک بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ (ص) کے اُن صحابہ میں سے جو قاری ِ قرآن تھے مسلمہ کے روز قتل ہوگئے اور اُن کے قتل کے ساتھ قرآن سے الفاظ کھو گئے
خاندان یزید کی گمراہ اولاد یعنی تنگ نظر وہابی و سلفی اور سپاہ یزید کا شدت پسند ٹولہ جوشیعہ خیرالبریہ کے خلاف ہمیشہ اپنی ذہن کا گند اُگلتے دکھائی دیتے ہیں اور شیعوں پر اس لئے کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ کچھ شیعہ کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ ہوتا ہے وہ لوگ ذرا اپنے چہیتے اماموں کی روایات کی جانب اپنی نظریں دوڑائیں اور اگر اُن میں غلطی سے کوئی شرم باقی رہ گئی ہو تو وہ وہی فتوٰی جو وہ شیعوں کے خلاف دیتے ہیں اپنے اُن اماموں کے خلاف دے کر انصاف کا تقاضہ پورا کریں جنہوں نے اپنی کتب میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات نقل کیں۔ ویسے ہمیں امید تو نہیں کہ سپاہ یزید منافقت کا دامن ترک کرتے ہوئے انصاف سے کام لے گی لیکن پھر بھی ہم فیصلہ اُن پر ہی چھوڑتے ہیں۔
صحابی عبداللہ ابن عمر کا عقیدہ کہ قرآن کا بیشتر حصہ کھو گیا
خلیفہ دوم کے گھر کے چشم و چراغ، یزید کے اہم ترین حامی اور سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی حضرات کی معتبر شخصیت جناب عبد اللہ ابن عمر نے اپنا عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن بیان کر کے دشمنان ِ شیعہ کے مذہب میں چار چاند لگا دیئے۔ حوالہ:
1۔ تفسیر در المنثور، ج 1 ص 106
2۔ الاتقان، ج 2 ص 64 (اردو ایڈیشن)
3۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 25
4۔ فضائل قرآن، ج 2ص 135
سنی مسلک کے پہلے ادوار کے جید علماء میں سے ایک علامہ قاسم بن سلام (المتوفی 222 ھ)اپنی کتاب فضائل قرآن میں نقل کرتے ہیں:
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : « لا يقولن أحدكم قد أخذت القرآن كله وما يدريه ما كله ؟ قد ذهب منه قرآن كثير ، ولكن ليقل : قد أخذت منه ما ظهر منه
ابن عمر (ر) نے کہا کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی یہ بات کہے گا کہ میں نے تمام قرآن اخذ کرلیا ہے ۔ بجایکہ اُسے یہ بات معلوم ہی نہیں کہ تمام قرآن کتنا تھا۔ کیونکہ قرآن میں سے بہت سا حصہ جاتا رہا ہے
سپاہ یزید و دیگر ناصبی برادری یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ شیعہ تحریف کے قائل ہیں جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مکمل ہے ۔ لیکن یہاں صحابی عبداللہ ابن عمر کا فرمان ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ کھو گیا اب یا تو ابن عمر جھوٹ بول رہے تھے یا پھر سپاہ یزید والے معمول کے مطابق اس معاملے میں بھی جھوٹ بک رہے ہیں ؟ اُن کی نظر میں صحابہ تو جھوٹ بول نہیں سکتے وہ بھی اس مشہور گھرانے کا صحابی، تو پھر نتیجہ یہ ہوا کہ سپاہ یزید اور ان کی پوری ناصبی برادری جھوٹی ٹھہری اور ان کا تحریف ِ قرآن کا عقیدہ عیاں ہوا۔
سپاہ یزید کی جانب سے ابن عمر کے بیان کے دفاع میں وضاحتیں
نواصب عبد اللہ ابن عمر کے اس دلیرانہ بیان سے پریشان ہو کر چند ایک بہانوں تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ کے کھُلنے والی عمرو عیّار کی زنبیل کو بند کرسکیں۔ ان کی جانب سے جو وضاحتیں عام طور سے پیش کی جاتیں ہیں وہ یہ ہیں:
پہلی وضاحت: روایت معتبر نہیں
یہ نواصب کا پہلا حربہ ہے ۔
ہمارا جواب:
ناصبی حضرات کے اس بہانے کو مٹی میں ملانے کے لئے ہم اس روایت میں موجود راویوں کے متعلق امام ذھبی اور امام ابن حجرعسقلانی کی آراء درج کرہے ہیں جس کے بعد یہ ثابت ہوجائےگا کہ یہ روایت کسی بھی صورت میں صحیح کے درجے سے کم نہیں۔ اسماعیل بن ابراہم کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ حجت ہیں (الکاشف، ج 1 ص 242) جبکہ ابن حجر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 90)۔ ایوب السختیانی کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ امام حافظ اور سید العلماء ہیں (سیراعلام النبلا، ج 6 ص 15) جبکہ ابن حجر نے انہیں 'ثقہ ثبت حجت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 117)۔ نافع کے متعلق ذھبی نے کہا ہے کہ وہ تابعین کے امام ہیں (الکاشف، ج 2 ص 315) جبکہ ابن حجر نے'ثقہ ثبت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 2 ص 231)۔
اور پھر یہ روایت امام جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے اور ہم یاد دلا تے چلیں کہ سیوطی نے اپنی کتاب تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے:
حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں
دوسری وضاحت: روایت میں لفظ ذھب استعمال ہوا ہے جسکا مطلب نسخ کے ہیں ناکہ کھو جانے کے
دوسرا اور سب سے ذیادہ استعمال ہونے والا بہانہ جو سپاہ یزید کے مُلاوں نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے وہ یہ کہ لفظ ذھب جو اس روایت میں استعمال ہوا ہے اس کے معنی نسخ کے ہیں کھو جانے کے نہیں لہٰذا صحابی عبد اللہ ابن عمر کا بیان نسخ شدہ آیات کے متعلق تھا اور اس سے تحریف کا امکان بالکل بھی ظاہر نہیں۔
ہمارا پہلا جواب: سپاہ یزید کو چیلنج کو وہ ذھب کے معنی نسخ ثابت کردیں
سپاہ صحابہ والوں کو چیلنج ہے کہ اگر انہوں نے اپنی مائوں کا دودھ پیا ہے نہ کہ جھنگوی فیکٹری کی بوتل کا تو وہ کسی معتبر لغت سے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں کہ لفظ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ان کی شرانگیز تنظیم کے وہ تمام مشکوک الولادت لیڈران جو اب اس دنیا میں نہیں اگر قبر کے عذاب سے بھی اُٹھ کر آجائیں تو بھی وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر وہ اپنے گھر کی لغت استعمال کررہے ہیں جو کہ نسل در نسل ان کے ساتھ آرہی ہے جس کے مطابق تبرہ کا مطلب گالیاں دینا ، تقیہ کی مطلب منافقت ، نکاح المتعہ کا مطلب زنا کاری اور شیعہ کا مطلب کافر ہے تو جاہلوں کا تو علاج ہمارے پاس نہیں انہیں احمقوں کی جنت ہی مبارک ہو۔
ہمارا دوسرا جواب: خلیفہ دوم حضرت عمر نے ذھب کے معنی نسخ سمجھنے والوں کی تردید کردی ہے
صحیح بخاری کی مشہور روایت ہے:
روایت ہے زید بن ثابت سے، انہوں نے کہا جب یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) مسلمان مارے گئے (سات سو صحابہ شہید ہوئے ) تو ابو بکر صدیق (ر) نے مجھے کہلوا بھیجا ، میں گیا تو دیکھا حضرت عمر بھی وہاں بیٹھے ہیں ، ابو بکر صدیق نے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یمامہ کی لڑائی میں قرآن کے قاری بہت مارے گئے ہیں ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن ہاتھ سے جاتا رہے تو مناسب سمجھتا ہوں آپ قرآن کو اکھٹا کرنے کا حکم دے دیجئے ۔۔۔
صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1091 کتاب التفسیر، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یہی روایت صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے:

Abu Bakr As-Siddiq sent for me when the people! of Yamama had been killed (i.e., a number of the Prophet's Companions who fought against Musailama). (I went to him) and found 'Umar bin Al-Khattab sitting with him. Abu Bakr then said (to me), "Umar has come to me and said: "Casualties were heavy among the Qurra' of the! Qur'an (i.e. those who knew the Quran by heart) on the day of the Battle of Yalmama, and I am afraid that more heavy casualties may take place among the Qurra' on other battlefields, whereby a large part of the Qur'an may be lost .Therefore I suggest, you…”
جو عربی لفظ حضرت عمر نے 'کھو جانے' یا 'ہاتھ سے جاتا رہنے' کے لئے استعمال کیا ہے وہ 'ذھب' ہی ہے۔ اس حدیث کو انٹرنیٹ پر موجود عربی صحیح بخاری میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ لنک درج ہے۔
صحیح بخاری ، (انگریزی)، حدیث 5037
جو لوگ یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں وہ بیٹے کے بیان کو پڑھنے سے قبل باپ کے بیان پر غور کریں جو کہ خلیفہ دوم بھی ہیں۔ اگر ذھب کے معنی نسخ ہیں تو حضرت عمر کے بیان کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے:
۔۔۔ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن منسوخ ہوتا رہے۔۔۔
جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ جنگ یمامہ حضرت ابو بکر کے دور ِ حکمرانی میں لڑی گئی اور قرآن کا نسخ رسول کے زمانے میں ہوتا ہے۔ کیا نواصب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حضرت ابو بکر کو اگلا رسول مانتے ہیں ؟
حضرت عائشہ و عمر کا آیت ِرجم میں عقیدہ رکھنا اور لوگوں کے کہنے سُننے کے ڈر سے تقیہ کرنا
یہاں سب سے پہلے ہم ایک بات واضح کردیں کہ آیت ِرجم کے معاملے میں ہم اپنے مخالفین کو تھوڑی چھوٹ دیتے ہیں اور مخالفین کا یہ عقیدہ کہ آیت ِرجم منسوخ ہوچکی ہے کچھ دیر کے لئے مان بھی لیتے ہیں۔ لیکن پھر ہماری بحث کا مقصد و محور صرف اور صرف ان صحابہ کے عقائد ہیں جنہوں نے آیت ِرجم کو کسی موقع پر منسوخ نہیں کہا بلکہ کتاب کا حصہ ہی تسلیم کیا۔
1۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 759، کتاب المحاربین
2۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 914 ، کتاب الاحکام
3۔ تفسیر در المنثور، ج 5 ص 880
4۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 2 ص 32
5۔ تفسیر ابن کثیر، ج 3 ص 61 سورہ نور
5۔ سنن ابن ماجہ، باب رضاع الکبیر، حدیث 2020
سنن ابن ماجہ میں ہم حضرت عائشہ کے یہ الفاظ پڑھتے ہیں:
جب آیت ِرجم اور آیت ِرضاعت نازل ہوئیں تو انہیں ایک کاغذ پر لکھ لیا گیا اور میرے تکیہ کے نیچے رکھ دیا گیا۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد ایک بکرے نے وہ کاغذ کھا لیا جبکہ ہم سوگ میں مصروف تھے
آیت ِرجم کے بکری کے کھاجانے یعنی اس طرح کھو جانے سے صرف عائشہ ہی نہیں حضرت عمر بھی پریشان تھے۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 759، کتاب المحاربین (مکتبہ رحمانیہ لاہور؛ مترجم علامہ وحید ازماں ) میں بیان کردہ حدیث میں حضرت عمر کے الفاط ملاحظہ ہوں:
۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت محمد (ص) کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا، ان پر قرآن اتارا ۔اسی قرآن میں رجم کی آیت بھی اللہ نے اتاری، ہم نے اس کو پڑھا ، اس کا مطلب سمجھا اس کو یاد رکھا ، آنحضرت (ص) نے اس پر عمل کیا ، زنا کرنے والے کو رجم کیا اور ہم لوگ بھی آپ (ص) کی وفات کے بعد زانی کو رجم کرتے رہے ۔ اب میں ڈرتا ہوں کہیں ایک مدت گزر جائے اور کوئی کہنے والا یوں کہے کہ خدا کی قسم رجم کی آیت تو ہم اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے اور اللہ کا ایک فرض جو اس نے اتارا اسے ترک کر کے گمراہ ہوجائے ، دیکھو ہوشیار رہو ، جو شخص مرد ہو یا عورت محصن ہو کر زنا کرے اس میں اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے ۔۔۔۔
صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 759، کتاب المحاربین (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی برادری حضرت عمر کے آیت ِرجم کے قرآن میں ہونے کا پُرزور دلائل کو غور سے دیکھیں بلکہ یہ کہہ کر تو انہوں نے کیس ہی ختم کردیا "اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے" ۔ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی آیت اللہ کی کتاب میں ہمیں نہیں ملتی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ عمر صاحب کا اپنے زمانہ ِ خلافت تک یہ عقیدہ تھا کہ آیت ِرجم قرآن کا حصہ ہے۔
بات صرف یہیں تک ہوتی تو نواصب حضرت عمر کے بیان کے دفاع میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا سکتے تھے لیکن حضرت عمر نے اپنے ہاتھوں سے آیت ِ رجم کو قرآن میں لکھنے کی خواہش ظاہر کر کے نواصب کی جانب سے ایسی کسی کوشش کو تباہ کردیا۔ صحیح بخاری میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا:
حضرت عمر (ر) نے کہا لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر (ر) نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو میں رجم کی آیت مصحف اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا
صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 914 ، کتاب الاحکام، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
علامہ جلال الدین سیوطی سورہ احزاب کے مقدمہ میں نقل کرتے ہیں:
عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ عمر ابن خطاب نے ایک شخص کو جمعہ کی نماز کے لئے لوگوں کو اکھٹا کرنے کا حکم دیا پھر وہ زیر ِمنبر ہوئے اور اللہ کی حمد کی اور فرمایا: اے لوگوں! آیت ِ رجم کے متعلق نہ ڈرو کیونکہ یہ ایک آیت ہے جو اللہ کی کتاب میں نازل ہوئی اور ہم نے اسے پڑھا لیکن یہ محمد (ص) کے جانے کے ساتھ جانے والی آیات کے ساتھ کھو گئی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) نے رجم کیا، ابو بکر نے رجم کیا، میں نے رجم کیا اور اس قوم میں سے لوگ آئینگے جو رجم کی مخالفت کرینگے
تفسیر در المنثور کا یہ حوالہ اس ویب سائٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے:
تفسیر در المنثور
تبصرہ:
یہ روایت حضرت عمر کے قرآن میں کمی (تحریف) کے عقیدہ کو بھی بیان کرتی ہے جو اُس آیت کو قرآن کا حصہ سمجھتے تھے لیکن در حقیقت وہ آیت قرآن میں شامل نہیں تھی اور وہ تو بس لوگوں کے ڈر سے یعنی تقیہ کرتے ہوئے اپنے خواب کی تعبیر نہ کر سکے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال پیش ِ خدمت ہے۔
"اگر آج ایک شخص عوام میں اعلان کرے کے ایک آیت ہے جو قرآن میں نازل ہوئی تھی جو اب قرآن میں نہیں اور اگر مجھے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے اپنے ہاتھ سے قرآن میں لکھ دیتا۔ تو سپاہ صحابہ جیسے نواصب چیختے چلاتے سڑکوں پر آجاتے کہ یہ شخص تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھتا ہے یعنی یہ ایک عبارت کو قرآن کی آیت مانتا ہے جو کہ قرآن میں نہیں لکھی ہوئی اور یہ صرف ہماری تنظیم کے ڈر سے اسے قرآن میں لکھنے سے قاصر ہے تاہم دل میں اس کا عقیدہ بدستور موجود ہے لہٰذا یہ کافر ہے"
اس مثال کے بعد حضرت عمر کا کیس سپاہ یزید کے حوالے اور ساتھ میں امام بخاری کا بھی جنہوں نے اس روایت کو اپنی صحیح کتاب میں شامل کیا۔
نواصب کی جانب سے اپنے عقیدہ کے دفاع میں کمزور وضاحتیں
جی ہاں۔ نواصب ایک اور مرتبہ پریشانی میں مبتلا ہوئے جھنگوی مدارس ایک مرتبہ پھر بچوں سے بھر گئے جو اُن کی محبت میں گرفتار مُلاوں سے حضرت عمر اور صحابی اُبی بن کعب کے دفاع کے سلسلے میں مشورے لینے آئے ہیں۔ لیکن مُلا کو جب کوئی اور بہانا نہ سوجھا تو وہی اپنا نسل در نسل سے آزمودہ نسخ کا بہانا بچوں کوبیان کر کے روانہ کردیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان بچوں کو اپنے منافرت پسند مُلائوں کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہونا پڑےگا کیونکہ نسخ کا بہانہ ہمارے ان جوابات کی بنا پر یہاں کار آمد نہیں ہے:
جواب نمبر1:
نسخ صرف رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں ہوسکتا ہے جبکہ جو مستند سُنی حوالہ جات ہم نے نقل کئے وہ شاہد ہیں کہ حضرت عمر نے قرآن میں آیت رجم لکھنے کا پروگرام رسول اللہ (ص) کے انتقال کے کئی عرصہ بعد بنایا تھا۔ لہٰذا یہ بہانہ اُس وقت تک کارآمد نہیں جب تک کہ نواصب حضرت عمر کو رسول نہ تسلیم کرتے ہوں۔
یاد رہے آیت ِرجم کے متعلق ہم ہی فرض کرکے چل رہے ہیں کہ یہ منسوخ ہوگئ لیکن اصل مقصد جناب ِعمر کا عقیدہ ہے۔
جواب نمبر2:
کتاب الاتقان، ج 1 ص 73 میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کے جمع کے وقت حضرت عمر آیت رجم کو لائے تاکہ صحابی زید بن ثابت اُسے قرآن میں شامل کریں تو زید نے اس بنا پر حضرت عمر کی خواہش کو رد کردیا کہ اُس بات کے صرف حضرت عمر ہی گواہ تھے جبکہ زید بن حارث صرف انہی آیات کو جمع کررہے تھے جن کے بارے میں دو گواہان شہادت دیں کہ یہ آیات قرآن کا حصہ ہیں۔
اگر آیت رجم حضرت عمر کے عقیدہ کے مطابق منسوخ ہوگئی ہوتی تو وہ زید بن ثابت کے پاس اُس آیت لے کر نہ آتے۔
جواب نمبر3:
اہل سنت کے امام ابوبکر رازی کا تبصرہ جو کہ علامہ جلال الدین سیوطی کا بھی تصدیق شدہ ہے نواصب کے اس بہانے کو اُجاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ ہم تفسیر الاتقان فی علوم القرآن، ج 2 ص 67 (اردو ایڈیشن ، ادارہ اسلامیہ لاہور) میں پڑھتے ہیں:
کتاب 'البرہان' میں حضرت عمر کا یہ قول بیان کرتے ہوئے کہ انہوں نے کہا تھا کہ "اگر لوگ یہ بات نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کردی ہے تو بیشک میں اُس آیت رجم کو قرآن میں لکھ دیتا" لکھا ہے: کہ اس قول کے ظاہری الفاظ سے آیت رجم کی کتابت کا جائز ہونا سمجھ میں آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ صرف لوگوں کے کہنے سُننے کے خیال سے عمر (ر) اُس کے درج ِ مصحف کرنے سے رک گئے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو چیز جائز ہو اُس کے منع کرنے کے لئے خارج سے کوئی چیز قائم ہوجاتی ہے ۔ پس اگر وہ جائز ہے تو لازم آتا ہے کہ ثابت بھی ہو
شیعہ دشمنوں کا عقیدہ کہ قرآن سے سورہ بقرہ جتنا طویل سورہ کھو گیا ہے اور اس پر امام مسلم اور امام حاکم کی مہر ِتصدیق
1۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 894 کتاب الزکٰوت، حدیث 2419 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ جامع اصول، ج 3 ص 53 ، باب 2 حصہ 2 حدیث 972
3۔ مستدرک الحاکم، ج 2 ص 224 ،کتاب التفسیر
4۔ المحاضرات، ج 3 ص 433
5۔ تفسیر روح المعانی، ج 2 س 25
6۔ مجمع الزوائد، ج 7 ص 140
7۔ تفسیر در المنثور، ج 1 ص 105
صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:
حضرت ابولاسواد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری (رضہ) کو اہلِ بصرہ کے قرا کی طرف بھیجا گیا۔ آپ ان کے پاس پہنچے تو تین سو قاریوں نے قرآن پڑھا۔ تو آپ نے فرمایا کے تم اہل ِ بصرہ کے سب لوگوں سے افضل ہو اور ان کے قاری ہو تو تم ان کو قرآن پڑھائو اور بہت مدت تک تم تلاوت ِ قرآن سے غافل نہ ہوا کرو ورنہ تمہارے دل اسی طرح سخت ہوجاینگے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کے ہوگئے تھے اور ہم ایک سورہ پڑھتے تھے جو لمبائی میں اور سخت و عداوت میں سورہ براءت کے برابر تھی۔ پھر میں سوائے اس آیت کے سب بھول گیا کہ:
'اگر ابن ِ آدم کے لئے مال کے دو میدان ہوں تو بھی وہ تیسرا میدان طلب کرے گا اور ابن ِ آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا'۔۔۔
صحیح مسلم، ج 1 ص 894 کتاب الزکٰوت، حدیث 2419 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور
کتاب جامع الاصول میں صحابی اُبی بن کعب سے آیت کے متعلق روایت ہے کہ یہ رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئی تھی جبکہ المحاضرات کی عبارت ملاحظہ ہو:
عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں اس آیت کو لکھا تھا:
'اگر ابن ِ آدم کے لئے مال کے دو میدان ہوں تو بھی وہ تیسرا میدان طلب کرے گا اور ابن ِ آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا
امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں اسی روایت کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ معتبر حدیث ہے۔ امام ذھبی نے بھی مستدرک پر اپنے تبصرہ میں اس حدیث کو معتبر کہا ہے۔
یہ روایات ابو موسیٰ ، اُبی بن کعب اور عبد اللہ ابن مسعود جیسے صحابہ کے عقیدہ کو بیان کررہی ہیں یعنی یہ اشخاص اس آیت کو قرآن کا حصہ تسلیم کرتے تھے اور یہ کہ وہ آیت اب قرآن میں شامل نہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک مکمل سورہ جو کہ سورہ بقرہ کے برابر تھا اب قرآن میں نہیں۔
اگر عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن رکھنا کفر ہے تو سپاہ یزید کا ان اشخاص کے بارے میں اور پھر اُن علماء کے بارے میں جنہوں اس روایت کو اپنی معتبر کتب میں شامل کیا اور اسے صحیح کا درجہ دیا فتویٰ کیا ہے؟
اگر ناصبی حضرات یہاں بھی نسخ کا بہانہ بنانے کا پروگرام کئے بیٹھے ہیں تو نسخ ثابت کرنے کے لئے کسی بڑے سے بڑے مجتہد کی ذاتی رائے کارگر نہیں بلکہ اس مخصوص آیت کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے متواتر یا صحیح حدیث کی ضرورت ہے یا پھر کسی صحابی سے ہی اس آیت کی منسوخی کا قول نقل کیا جائے اور یہ صرف ہمارا نواصبیوں کو چیلنج ہی نہیں بلکہ خود ان کے مسلک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع ہی میں بیان کیا ہے۔
صحابی عبداللہ ابن مسعود کی شہادت اور امام ِاہلسنت ابن مردویہ کی تصدیق کہ سورہ مائدہ میں علی (ع) کا نام موجود تھا
سورہ مائدہ کی آیت 67 ہے:
الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۔۔۔
(ترجمہ): ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﻛﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ اللہ ﻛا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا۔۔۔
ہم مند رجہ ذیل معتبر سُنی حوالوں سے نقل کررہے ہیں جن کے مطابق صحابی عبد اللہ ابن مسعود اس آیت میں علی (ع) کا نام بھی پڑھا کرتے تھے:
1۔ تفسیر در المنثور، ج 2 ص 297 ، سورہ مائدہ
2۔ تفسیر روح المعانی، ج 2 ص 193
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 2 ص 57
4۔ تفسیر مظہری، ج 3 ص 353 (اردو ایڈیشن، دارالاشاعت کراچی)
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی معروف تفسیر مظہری میں امام ابن مردویہ سے نقل کرتے ہیں:
ابن مردویہ نے حضرت ابن مسعود کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہم یہ آیت اس طرح پڑھتے تھے:
ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ یعنی علی مومننین کے مولا ہیں اگر آپ نے ایسا نہ کیا۔۔۔۔
یہاں ہم یاد دلا تے جائیں کہ سُنی روایات کے مطابق رسول اللہ (ص) نے جن لوگوں سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا تھا صحابی عبد اللہ ابن مسعود انہی میں سے ایک ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے:
ابراہیم نخعی سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے کہا عبداللہ بن عمر بن عاص نے عبد اللہ ابن مسعود (ر) کا ذکر کیا ، کہنے لگے میں ان سے اس روز سے برابر محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ (ص) سے یہ سُنا کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو عبد اللہ ابن مسعود اور سالم ابی حذیفہ اور معاز بن جبل اور ابی بن کعب سے
صحیح بخاری (اردو) ج 2 ص 1097 کتاب التفسیر (مترجم علامہ وحید ازماں؛ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
کیا نواصب رسول اللہ (ص) کے حکم پر عمل کرتے ہوئے صحابی عبد اللہ ابن مسعود کی طرح قرآن پڑھتے ہیں ؟
سپاہ یزید اور خاص طور سے وہابی و سلفی حضرات شیعوں پر یہ الزام دھرتے آئے ہیں کہ شیعہ کتب میں لکھا ہے کہ قرآن میں علی (ع) کا نام موجود تھا اور شیعہ اس عقیدہ کی بنا پر کافر ہوئے جبکہ ہم پچھلے ابواب میں واضح کر چکے ہیں کہ ایسی تمام روایات شیعہ مذہب میں صحیح نہیں سمجھی جاتیں اور انہیں تفسیر پر سمجھا جاتا ہے اور اگر نواصب اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے تو اسی قسم کی روایات تو ان کی کتابوں میں بھی ہیں جہاں صحابی عبداللہ ابن مسعود گواہی دیتے ہیں کہ رسو اللہ (ص) کے زمانے وہ اس آیت کو علی (ع) کے نام کے ساتھ پڑھا کرتے تھے یعنی حضرت عثمان نے قرآن سے علی (ع) کا نام نکال کر تحریف کردی۔ تو نواصب کا ان صحابہ اور ان علماء کے خلاف فتویٰ کیا ہے؟
صحابی عبداللہ ابن مسعود کی شہادت اور ائمہ ِاہلسنت کی تصدیق کے سورہ احزاب میں بھی علی (ع) کا نام موجود تھا
سورہ احزاب کی آیت نمبر 25 ہے:
۔۔۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
(ترجمہ):۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺍللہ ﺗﻌﺎلیٰ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﻛﻮ کاﻓﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ
ہم مذکورہ آیت کی تفسیر مندرجہ ذیل سُنی تفاسیر سے نقل کرہے ہیں:
1۔ تفسیر در المنثور، ج 5 ص 192 ؛ سورہ احزاب آیت 25
2۔ تفسیر روح المعانی، ص 157 سورہ احزاب آیت 25
3۔ معارج النبوۃ، ذکر غزوہ خندق
علامہ جلال الدین سیوطی نقل کرتے ہیں:
ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ: ' ہم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے:' ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺍللہ ﺗﻌﺎلٰی ﺧﻮﺩ ﮨﯽﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﻛﻮ کاﻓﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ علی ابن ابی طالب کے ذریعے'۔۔۔
شیعہ ان روایات کے ہوتے ہوئے بھی تحریف کے قائل نہیں اور یہ صرف نجس نواصب ہی ہیں جو شیعوں پر الزام دھرتے ہیں کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق علی (ع) کا نام قرآن میں موجود تھا لہٰذا وہ کافر ہیں۔ ہم یزیدی مدرسہ کا یہی فتویٰ انہی کے یہاں لوٹا رہے ہیں کہ اس قسم کی روایات تو اُن کو بلند مرتبہ علماء نے صحابہ سے نقل کی ہیں۔ اسی بنا پر بعض شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر شیعہ کافر تو سب کافر۔ لیکن چوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ اسلام کا ٹھیکیدار بن کر دوسروں پر کفر کا فتویٰ جاری کرے لہٰذا دوسروں کو کافر کہنے والے اس کھیل میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔
تفسیر ثعلبی میں ابن مسعود کی گواہی کہ سورہ آل ِعمران میں الفاظ 'آل محمد' موجود تھے۔ نواصب نے تفسیر کی کتاب میں ہی تحریف کردی
سورہ آل ِعمران کی آیت نمبر 33 میں ہم پڑھتے ہیں:
إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ
بیشک اﷲ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ِابراہیم کو اور آل ِعمران کو سب جہان والوں پر منتخب فرما لیا۔
امام ِاہل ِسنت علامہ ابو سحاق ثعلبی کی کتاب 'الکشف البیان فی تفسیر القرآن' جو کہ 'تفسیر ثعلبی' کے نام سے مشہور ہے، سورہ آل ِعمران کی آیت نمبر 3 میں یہ روایت موجود تھی:
الآمش نے ابی وائل سے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن مسعود کے مصحف میں میں نے پٰڑھا:
'بیشک اﷲ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ِابراہیم کو اور آل ِعمران کو ور آل ِعمران کو ور آل ِمحمد کو سب جہان والوں پر منتخب فرما لیا۔'
بے شک اللهنے آدم کو اور نوح کو اور ابراھیم کی اولاد کو اور عمران کی اولاد کو سارے جہان سے پسند کیاہے
لیکن دشمنان ِاولاد ِمحمد یہ کہاں برداشت کرسکتے تھے لہٰذا ان بےشرموں نے تفسیر ثعلبی میں ہی تحریف کرڈالی اور اور اب اس کتاب میں یہ روایت تو موجود ہے لیکن اس میں لفظ ' اولاد ِ محمد' موجود نہیں۔ لیکن مناقب ِ اولاد ِ محمد ہیں، بدنسلوں کے چھپانے سے کہاں چھپتے۔ مذہب ِاہل سنت کے ایک اور امام علامہ بھقی نے اپنی کتاب 'لباب الانساب' ج 1 ص 10 میں تفسیر ثعلبی کے حوالے سے ہی یہ روایت نقل کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے نواصب اب یہ دعویِ نہیں کرسکتے کہ الفاظ ' اولاد ِ محمد' تفسیر ثعلبی میں تھے ہی نہیں۔ امام بھقی کے الفاظ پیش ِخدمت ہیں:
وذكر الثعلبي في تفسيره عن الأعمش عن أبي وائل أنه قال: قرأت في مصحف عبد الله بن مسعود وآل إبراهيم وآل عمران وآل محمد على العالمين
ثعلبی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے الآمش سے انہوں نے ابی وائل سے کہ عبداللہ ابن مسعود کے مصحف میں میں نے پٰڑھا:
'بیشک اﷲ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ِابراہیم کو اور آل ِعمران کو ور آل ِعمران کو ور آل ِمحمد کو سب جہان والوں پر منتخب فرما لیا۔'
امام ابوحیان اندلسی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
وقرأ عبد الله : وآل محمد على العالمين
عبداللہ اس کی قرات یوں کرتے تھے: ' اور آل ِمحمد کو تمام عالمین میں'۔
تفسیر بحرالمحیط، ج 2 ص 203
سپاہ یزید کا تحریف ِقرآن کا عقیدہ جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے اخذ کیا گیا
1۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 272 ، کتاب الایمان ، حدیث 508، مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ صحیح بخاری
3۔ فتح الباری، ج 8 ص 506
صحیح مسلم کی عبارت ملاحضہ ہو:
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی: " اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو بھی ڈرائیں" تو رسول اللہ (ص) کوہ ِ صفا پر چڑھے اور بلند آواز کے ساتھ فرمایا: سنو! آگاہ ہوجائو! لوگوں نے کہا کہ یہ کون آواز لگا رہا ہے ۔۔۔
صحیح مسلم، ج 1 ص 272 ، کتاب الایمان ، حدیث 508، مکتبہ رحمانیہ لاہور
تو معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس (ر) کے عقیدہ کے مطابق اس روایت میں جو آیت بیان کی ہے وہ تو دراصل یوں ہونی چاہئے:
وأنذر عشيرتك الأقربين‏ ورهطك منهم المخلصين
نواصب ذرا قرآن اُٹھا کر دیکھیں اور ہمیں سورہ نمبر 26 آیت نمبر 214 پڑھ کر بتائیں کہ اس آیت میں "وأنذر عشيرتك الأقربين" ‏( اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو) تو موجود ہے لیکن "ورهطك منهم المخلصين" (اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو ) کہاں ہے؟ صحیح بخاری کی یہ صحیح روایت قرآن میں تحریف کی جانب اشارہ نہیں کررہی تو اور کیا کررہی ہے؟
اگر ناصبی یہاں بھی نسخ کا بہانا بنانے کا پروگرام کئے بیٹھے ہیں تو نسخ ثابت کرنے کے لئے خیالی پلائو کی یا کسی بڑے سے بڑے ملا کی ذاتی رائے کی ضرورت نہیں بلکہ اس مخصوص آیت کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے متواتر یا صحیح حدیث کی ضرورت ہے یا پھر کسی صحابی سے ہی اس آیت کی منسوخی کا قول نقل کیا جائے اور یہ صرف ہمارا نواصب کو چیلنج ہی نہیں بلکہ خود ان کے مسلک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع ہی میں بیان کیا ہے۔ بعض نواصب یہاں کہتے ہیں کہ ابن عباس (ر) کے بیان کردہ الفاظ یعنی "ورهطك منهم المخلصين" قرآن کا حصہ نہیں بلکہ تفسیری نوٹ تھے۔ بس! شیعہ کتابوں میں بھی اسی طرح تفسیری نوٹ ہیں۔
سپاہ یزید کا عقیدہ کہ رسول اللہ (ص) اور صحابہ جس طرح سورہ طلاق کو پڑھا کرتے تھے اب وہ اس طرح نہیں؛ سورہ طلاق میں کمی کردی گئی
مسلمان آج سورہ طلاق کی آیت نمبر 1 کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھتے ہی:
يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن‏
لیکن جب ہم مذہب ِ سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی حضرات کے مذہب کی معتبر کتابیں پڑھتے ہیں تو ہمیں ان کے اس عقیدہ کا انکشاف ہوتا ہے کہ سورہ طلاق میں تحریف کردی گئی اور رسول اللہ (ص) اور صحابہ ِ کرام اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے۔
يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن‏‏
علامہ جلال الدین سیوطی نے اہلِ ِسنت کے اُن اماموں سے جو اس مذہب کی بنیاد ہیں نقل کیا ہے:
مالک، الشافعی، عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں، احمد، عبد بن حامد، بخاری، مسلم، ابو دائود، ترمزی ، نسائی ، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، ابو یعلیٰ ، ابن مردویہ اور بہقی نے اپنی سنن میں ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اس کے ایام میں طلاق دیدی اور رسول اللہ (ص) کو جب اس کے متعلق بتایا گیا تو وہ بہت غصہ ہوئے اور فرمایا: اُس سے کہو کہ اپنی بیوی کے پاس جائے اور اس کے ایام کے آخر تک اپنے پاس رکھے اور پھر اگر وہ چاہے تو اسے چھو نے سے قبل طلاق دے سکتا ہے کیونکہ یہی عدت ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے کہ کس طرح عورت کو طلاق دی جائے اور پھر رسول اللہ (ص) نے تلاوت کی:
يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن‏‏
تفسیر درالمنثور ، تفسیر سورہ طلاق، آیت نمبر 1
اس کے علاوہ علامہ جلال الدین سیوطی نے صحابی ابن عمر اور ابن عباس (ر) کا اس آیت کو اسی طرح سے پڑھنا بھی نقل کیا ہے۔ ہم تفسیر در المنثور کے اس حوالے کا انٹر نیٹ لنک بھی قارئین کی سہولت کے لئے پیش کر رہے ہیں۔
كتاب: الدر المنثور في التفسير بالمأثور **|نداء الإيمان
تبصرہ:
کیا نواصب ہمیں بتانا پسند کرینگے کہ جس طرح صحابہ اور رسول اللہ (ص) اس آیت کو بڑھا کرتے تھے آج یہ اس طرح کیوں نہیں ؟ اس مرتبہ تو صحابہ کو ساتھ ساتھ رسول اللہ (ص) کی بھی گواہی شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قرآن وہ نہیں جو رسول اللہ (ص) اور صحابہ پڑھا کرتے تھے۔ تو سپاہ صحابہ والے اس مرتبہ کسے کفر کے فویٰ کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ یزیدی سپاہ اور کچھ دیگر نواصب یہ بھی شور مچاتے آئے ہیں کہ شیعہ لوگ اپنے اُن تمام علماء کو کافر اور لعنتی قرار دیں جنہوں نے تحریف کو ثابت کرنے والی روایات نقل کی ہیں۔ اب چونکہ گزارش آپ کی جانب سے ہوئی ہے لہٰذا پہل بھی آپ کی جانب سے ہونی چاہئے تاکہ منافقت کا اندیشہ نہ رہے۔ مذکورہ بالا روایت اہل ِسنت کی صحاح ستہ سے ماخوز ہے لہٰذا ہم سپاہ یزید اور دیگر نواصب کی جانب سے ان کی 6 مستند کتابوں کے مصنفین کے خلاف فتویٰ کا انتظار کرینگے۔
وہابی و سلفی تحریک کی معتبر ترین کتاب صحیح بخاری سے قرآن میں کمی کا ایک اور ثبوت
ہم سورہ کہف کی آیت نمبر79 اور 80 میں پڑھتے ہیں:
79:۔۔۔ مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
80: وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ۔۔۔
صحیح بخاری (اردو) ، کتاب ِ تفسیر، ج 2 ص 914۔ 917 ، حدیث 1833( تفسیر سورہ کہف) میں ایک طویل روایت نقل ہے جس کے آخر میں ہم پڑھتے ہیں۔
۔۔۔قال سعيد بن جبير فكان ابن عباس يقرأ وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصباوكان يقرأ وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين‏.‏‏‏‏
سعید بن جبیر نے کہا کہ ابن عباس یوں پڑھتے : "وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا" اور یوں پڑھتے " وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين "
صحیح بخاری (اردو) ، کتاب ِ تفسیر، ج 2 ص 917 ، حدیث 1833 (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یہ حدیث انٹرنیٹ پر موجود صحیح بخاری میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
صحیح بخاری، (عربی)، حدیث 4772
نواصب کو کھلا چیلنج ہے کہ صحیح بخاری کی اس روایت میں صحابی ابن عباس (ر) کا سورہ کہف کی آیات 79 اور 80 میں پڑھے گئے الفاظ موجودہ قرآن میں دکھا دیں یعنی آیت 79 میں لفظ "صالحة" اور آیت 80 میں لفظ "كافرا"۔ نواصب کی مشکلات میں مزید اضافہ یوں کئے دیتے ہیں کہ ایک اور صحابی ابی بن کعب بھی ان دو آیات کو اسی طرح ہی پڑھتے تھے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے ، ثبوت کے طور پر ملاحظہ کریں تفسیر قرطبی، ج 11 ص 22 اور التمھید، ج 4 ص 278۔
حق نواز جھنگوی اور اعظم طارق جیسے ناصبی مُلا جنہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور تکفیر کرتے ہوئے گزاردی اور پھر آرام سے اپنے دادا یزید کے سائے میں یعنی جہنم کی جانب روانہ ہوگئے، کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی کتابوں میں یہ اور ان جیسی دیگر صحیح روایات نظرانداز کردیں جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرتی ہیں جبکہ شیعہ روایات چاہے وہ ضعیف بھی ہوں ان کی بناد پر اپنے پیرکاروں کو شیعہ کافر شیعہ کافر کی رٹ لگانا سکھا تے رہے؟ کیوں ان ملائوں نے جیسے شیعہ علماء کے خلاف فتوے اگلے اسی طرح امام بخاری و دیگر کے خلاف اپنی شرانگیز زبانوں سے فتاوی نہیں اُگلے؟ نواصب کا یہ دوہرہ معیار کب تک چلتا رہے گا؟
نواصب کے مطابق حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کا موجودہ قرآن پر ایمان نہ تھا
ہم سورہ بقرہ کی آیت نمبر 238 میں پڑھتے ہیں:
حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطى وقوموا لله قانتين‏
اہل ِسنت کی معتبر کتابوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جناب ِ عائشہ اور دیگر امہات المومنین اس آیت میں مزید کچھ الفاظ پڑھا کرتی تھیں جو کہ اب موجود نہیں۔
1۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 566۔ 567 حدیث 1427 مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ المصاحف، ص 194 ؛ مولف: ابی بکرسجستانی
3 تفسیر در المنثور، ج ا ص 302 ، سورہ بقرہ آیت 230
4۔ تفسیر طبری ، ج 3 ص 348
5۔ فتح الباری، ج 8 ص 197
صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:
حضرت ابو یونس حضرت عائشہ صدیقہ کے غلام فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ نے حکم فرمایا کہ میں ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرماتی ہیں کہ جب تو اس آیت پر پہنچے تو مجھے بتانا:
"حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطى وقوموا لله قانتين"۔
تو جب میں اس آیت پر پہنچا تو آپ کو میں نے بتایا؛ تو انہوں نے فرمایا کہ اس آیت کو اس طرح لکھو:
‏"حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر‏ وقوموا لله قانتين"۔
عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (ص) سے اس آیت کو اسی طریقے سے سنا ہے
صحیح مسلم، ج 1 ص 566۔ 567 حدیث 1427 مکتبہ رحمانیہ لاہور
نوٹ : موجودہ قرآن میں اس آیت میں الفاظ "وصلاة العصر" موجود نہیں ۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے بالکل ایسی ہی روایت خلیفہ ِ دوم کی بیٹی جناب ِ حفصہ اور علامہ ابو بکر سجستانی نے ام المومنین حضرت ام سلمہ (ر) کے متعلق نقل کی ہے۔
یہاں نواصب اپنا نسخ کا بہانہ کسی صیح و متواترہ احادیث کے بغیر پیش نہ کریں کیونکہ اہل سنت کی کتابوں میں صحابہ نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں کوئی آیت بیان کی اور پھر بتایا کہ یہ منسوخ ہو چکی ہے لیکن یہاں تو تین تین امہات المومنین اپنے اپنے مصحف جو انہوں نے رسول اللہ (ص) کے انتقال کے بعد ہی لکھوائے، سورہ بقرہ کی آیت میں ایک مخصوص جملہ لکھوایا۔ نسخ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہوتا ہے ان کی بعد نہیں بشرط کے نواصب محمد (ص) کے بعد کسی اور کو اپنا رسول نہ مانتے ہوں اور پھر تینوں امہات المونین کی گواہی کہ انہوں نے یہ آیت رسول اللہ (ص) سے اسی طرح ہی سنی تھی ایسی کسی بہانہ کو پارہ پارہ کردیتی ہے۔
اگر ناصبی اب بھی نسخ کا بہانہ بنانے کا پروگرام کئے بیٹھے ہیں تو نسخ ثابت کرنے کے لئے کسی بڑے سے بڑے عالم ِ دین کی ذاتی رائے کارگر نہیں بلکہ اس مخصوص آیت کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے متواتر یا صحیح حدیث کی ضرورت ہے یا پھر کم از کم کسی صحابی سے ہی اس مخصوص آیت کی منسوخی کا قول نقل کیا جائے اور یہ صرف ہمارا ناصبی برادری کو چیلنج ہی نہیں بلکہ یہ خود ان کے مسلک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع ہی میں بیان کیا ہے۔
سپاہ یزید جو کہ یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ شیعہ امہات المومنین کی توہین کرتے ہیں ذرا اپنی صحیح کتب کو تو دیکھیں جہاں امہات المومنین کے متعلق تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھنے کا بیان ہے کیا یہ علماء حضرات قابلِ مذمت نہیں؟ یا معاویہ بن ھندہ کی جانب سے کوئی قانون ہے کہ جس کے تحت ناصبی مُلا اپنی کتب میں امہات المومنین کے غسل کی منظرکشی، اُن کے حیض کے حالات اور اُن پر تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھنے کو اپنی معتبر کتابوں میں بیان کریں لیکن وہ علماء پھر بھی قا بل ِتحسین ہیں لیکن اگر شیعہ انہی کتابوں کو ناصبیوں کے آگے رکھیں تو کہا جاتا ہے کہ شیعہ امہات المومنین کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں؟ اب ہمیں نہیں معلوم کہ یہ منافقت کیا پیدائشی ناصبیوں کے خون میں آتی ہے یا یہ صرف جھنگوی مدارس کا اثر ہے!
حضرت ِعائشہ کا واضح عقیدہ کے حضرت عثمان نے قرآن میں کمی کردی
1۔ تفسیر الاتقان، ج 2 ص 65 (اردو ایڈیشن)
2۔ تفسیر در المنثور، ج 5 ص 220
3۔المصاحف، ص 95 ، ذکر مصحف ِعائشہ
امام جلال الدین سیوطی اتقان میں نقل کرتے ہیں:
حمیدہ بنت ابی یونس نے کہا: میرے باپ نے جس کی عمر اسی 80 سال کی تھی، مجھ کو بی بی عائشہ (ر) کے مصحف سے پڑھ کے سُنایا:
إن الله وملائكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما‏ والذين يصفون الصفوف الأول‏۔
راویہ نے کہا: یہ آیت عثمان (ر) کے مصحف میں تبدیلی کرنے سے قبل یوں ہی تھی
تو ہمیں معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کا مصحف ایک اور جگہ موجودہ قرآن سے مختلف تھا اور ان کے مصحف میں قرآن کی مشہور ترین آیت جس انداز سے تھی آج ہمارے پاس موجود نہیں۔ سپاہ صحابہ کو چیلنج کہ اگر انہوں نے جھنگوی دودھ فیکٹری کی بوتل کا نہیں بلکہ اپنی مائوں کا دودھ پیا ہے تو وہ ہمیں اس آیت میں وہ الفاظ یعنی "والذين يصفون الصفوف الأول" دکھا دیں جو کہ جناب ِ عائشہ کے مصحف میں موجود تھے۔
اس کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں موجود یہ الفاط حضرت عثمان کے ایمان کو نہایت مشکل میں ڈال دیتے ہیں کہ " یہ آیت عثمان (ر) کے مصحف میں تبدیلی کرنے سے قبل یوں ہی تھی"۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ سپاہ صحابہ و دیگر نواصب برادری شیعوں پر انگلیاں اُٹھانے سے قبل قرآن پر اپنا ایمان ثابت کریں اور اُن شخصیات کے خلاف فتوے جاری کریں جنہوں نے ایسی روایات اپنی کتب میں نقل کیں جن سے قرآن میں تحریف کا معلوم ہوتا ہے۔
اس قسم کی روایات شیعہ کتب میں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ یا آئمہ قرآنی آیات میں کچھ ایسے الفاظ بھی پڑھتے تھے جو کہ آج موجود نہیں لیکن انہیں تفسیری نوٹ کی طرح سمجھا جاتا ہے یعنی آج بھی قرآن کے شیعہ و سُنی ترجمہ میں آپکو کچھ الفاط ملینگے جو کہ بریکٹس () میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں حالانکہ وہ قرآن کا حصہ نہیں ہوتے لیکن معنی کو سمجھنے کےلئے شامل کئے جاتے ہیں۔ شیعہ کتب میں موجود ایسی روایات کو اسی طرح سمجھا جاتا ہے کہ وہ تفسیری نوٹ تھے نہ کہ قرآن کا حصہ لیکن سر سے پاوں تک شیعہ دشمنی میں ڈوبے ہوئے بد نیت لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تفسیری نوٹ نہیں بلکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہیں۔
اگر ایسا ہی ہے تو ان کا اپنی کتابوں کے متعلق کیا کہنا ہے جن میں اس قسم کی روایات بھری پڑی ہیں؟ اگر یہ لوگ شیعہ عقیدہ کو رد کرتے ہوئے اُن کے تفسیری نوٹ ہونے کا انکار کرتے ہیں تو کسی ناصبی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی کتابوں میں موجود ایسی روایات کے لئے تفسیری نوٹ کا جواز بیان کریں۔ اسلام میں قانون سب کے لئے برابر ہے-
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
کافی لمبا مضمون ہے پڑھنے کے لئے کافی وقت اور جواب دینے کے لئے اور زیادہ وقت درکار ہے
لہذا اہل علم ہمت کریں اور جواب ضرور دیں
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
شعیہ روافض اور منکر حدیث اپنے مختلف رسائل اور عام تبلیغ و بحث میں یہ اعترازات اٹھاتے ہیں، اور اس بات کا بھی بہت امکان ہے کہ آج کل میڈیا پر موجود تجدد پسند لوگ (غامدی وغیرہ) ان اعترازات کو ہوا دیں۔ علماء سے گزارش ہے کہ ان حوالاجات کی اصل عبارت کی تحقیق کر کہ ایک مدلل تحریر شائع کریں۔ اور یہ بدعتی لوگ اصل عبارات پیش نا کر کہ ہی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شیعہ حضرات کی طرف سے اہل سنت پر قرآن میں اختلاف اور تحریف کا طعنہ بالکل غلط بیانی، دھوکہ دہی اور گھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترداف ہے۔
وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم موجودہ قرآن میں اختلاف کرتے ہیں تو اہل سنت بھی تو کرتے ہیں، جس کی مثال وہ آیات کے شمار کی دیتے ہیں۔
حالانکہ حقیقت بالکل ہی کچھ اور ہے۔

اہل سنت میں سے جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کی تعداد 6666 ہے، ان کے نزدیک بھی حقیقی طور پر قرآن کریم کی آیات 6666 نہیں۔
بلکہ یہ ایک موٹا شمار ہے۔ جس میں ’کسر‘ کو گرا دیا گیا ہے۔
وہ اس کی تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ تقریباً ایک ہزار آیات امر کی اور ایک ہزار نہی کی ہیں۔ ایک ہزار وعد کی اور ایک ہزار وعید کی ہیں، ایک ہزار قصص کے متعلق اور ایک ہزار مثالوں کی ہیں، پانچ سو احکام کی ہیں، ایک سو تسبیح اور دعاء کی ہیں اور چھیاسٹھ ناسخ منسوخ سے متعلق ہیں۔
اس کا مطلب نہیں کہ ان کے ہاں امر کی آیات پورے ایک ہزار ہیں، ایک بھی کم وبیش نہیں ہوسکتی، وغیرہ وغیرہ
گویا یہ ایک تقریبی حساب ہے، اور قرآنی موضوعات کی ایک موٹی تقسیم ہے۔
باقاعدہ ہر ہر سورت کی آیات بیان کر کے کسی نے قرآنی آیات کو 6666 نہیں کہا۔

حقیقی طور پر قرآن کریم کی آیات کی تعداد (کوفی شمار کے مطابق) 6236 ہے۔
بعض دیگر شماروں میں کم وبیش دس بیس آیات کا فرق ہے۔
مثلاً کم سے کم شمار 6215 کا ہے، کسی کے ہاں 6221 ہے، کسی کے ہاں 6225 وغیرہ وغیرہ
اس فرق کا مطلب بھی یہ نہیں کہ جن کے نزدیک کل آیات 6215 ہیں، وہ 21 آیات کا انکار کرتے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں!!!
بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ بعض قراء ایک جگہ پر آیت کا نشان لگا کر آیت شمار کرتے ہیں، اور دوسرے اس جگہ پر آیت شمار نہیں کرتے یعنی دو آیتوں کو ہی ایک آیت شمار کرتے ہیں۔
ان میں کوئی ایک بھی ایک لفظ کا بھی انکار اور ردّ نہیں کرتا۔
اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ
مکی اور کوفی قراء کے نزدیک سورۃ الفاتحہ کی سات آیات ہیں۔ جس کی تفصیل یہ ہے:
پہلی آیت: بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوسری آیت: الحمد للہ رب العٰلمین
تیسری آیت: الرحمٰن الرحیم
چوتھی آیت: ملک یوم الدین
پانچویں آیت: ایاک نعبد وایاک نستعین
چھٹی آیت: اہدنا الصراط المستقیم
اور ساتویں آیت: صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ہے۔

جبکہ دیگر قراء (مدنی، بصری اور شامی قراء) کے نزدیک اگرچہ سورۃ الفاتحہ کی آیات 7 ہی ہیں، لیکن ان کی تفصیل یہ ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ الفاتحہ کی نہیں، بلکہ الگ آیت ہے۔
پہلی آیت: الحمد للہ رب العٰلمین
دوسری آیت: الرحمٰن الرحیم
تیسری آیت: ملک یوم الدین
چوتھی آیت: ایاک نعبد وایاک نستعین
پانچویں آیت: اہدنا الصراط المستقیم
چھٹی آیت: صراط الذین انعمت علیہم
ساتویں آیت: غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ہے۔

گویا دونوں شماروں میں سورۃ الفاتحہ کے آیات نمبر میں ردّ وبدل ہے، لیکن ایک لفظ کے بھی قرآن ہونے یا قرآن سے خارج ہونے کا کوئی اختلاف نہیں۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ بعض قراء حروفِ مقطعات پر آیت شمار کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔ (واضح رہے کہ کوئی بھی حروفِ مقطعات کی قرآنیّت کا منکر نہیں)

یہی حقیقت قراء کے مابین آیات کی شمار کی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!

جبکہ شیعہ حضرات کے ہاں تو اختلاف بالکل ہی اور نوعیت کا ہے۔ بعض موجودہ قرآن کو بالکل مکمل قرآن کہتے ہیں، اور بعض کے نزدیک یہ ایک تہائی قرآن ہے، باقی دو تہائی اہل بیت کے احکام اور فضائل سے بھرا ہوا تھا وہ موجودہ قرآن میں شامل نہیں۔
تو شیعہ کا اختلاف قرآن میں حقیقی اختلاف ہے۔

جبکہ اہل سنت کا اختلاف صرف آیات کے شمار کا ہے۔
جیسے کوئی لفظ ’محمّد‘ میں اختلاف کرے کہ اس میں چار حروف ہیں: م، ح، م، د
اور دوسرا کہے کہ نہیں پانچ حروف ہیں، م، ح، م، م، د (مشدّد دو کے قائم مقام ہوتا ہے)
تو اسے صرف حروف کے شمار کا اختلاف قرار دیا جائے گا، حقیقی اختلاف نہیں۔

واضح رہے کہ علومِ قرآن میں سے ایک مستقل علم عدّ الآی (آیات کے شمار کا علم) یا علم الفواصل کہلاتا ہے، مزید تفصیل کیلئے مضمون ’نص قرآنی کے متعلق چند علوم کا تعارف‘ کی پوسٹ نمبر 16 سے پوسٹ نمبر 24 تک کا مطالعہ کریں۔

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
تحریف قرآن کے متعلق ایک سوال

سوال :قرآن میں تحریف نہ ہو سکنے کے باوجود جو کہ قرآن کریم میں بطورصریح اور واضح بیان ہوا ہے کیسے بعض شیعہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔
جواب :
لفظ تحریف ،لغت اور اصطلاح میں

تحریف لغت میں ،تغیر اور تبدل کے معنی میں ہے ۔(۱)اور قرآن میں ایک لفظ کے معنی کو دوسرے معنی میں بدلنے میں استعمال ہو ا ہے اور <یسمعون کلام اللہ ثم یحرفونہ>(۲)کی آیت اس بات کے ثبوت پر دلیل ہے ۔

لفظ تحریف اصطلاح میں مختلف معانی میںاستعمال ہوا ہے بعض اہم معانی ملاحظہ ہوں۔

۱۔ ترتیبی تحریف: کہ ایک آیت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر نقل کرنے کے معنی میں ہے اوراس معنی میں تحریف کا وقوع متفق علیہ ہے کہ قرآن میں واقع ہوتی ہے۔کیونکہ بہت سی مکی آیات مدنی آیات کے بیچ میں اور بالعکس واقع ہوئی ہیں ۔اگر قرآن کے جمع کرنے والے کو حضرت علی علیہ السلام یا رسول خدا کے علاوہ کسی کو سمجھتے ہو تو یہ تحریف معنی رکھتی ہے وگرنہ نہیں۔

۲۔معنوی تحریف: ایک لفظ کو دور کے معنی سے تفسیر کیا جائے جو لفظ کے ظاہر سے مرتبط نہ ہو یعنی کسی لفظ کا معنی مشہور تفسیر سے منافات رکھے یہ تحریف بھی قرآن میں واقع ہوئی ہے۔لیکن اس کی حرمت پر امت کااجماع ہے ۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:”من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوء من النار“؛ (۳)”جوکوئی قرآن پر کسی مطلب کو علم کے بغیر نسبت دے تو اپنی جگہ آگ سے آمادہ سمجھے۔“اس ”تحریف کو تفسیر بالراٴی “بھی کہتے ہیں کہ روایات میں اس کی بہت سرزنش کی گئی ہے ۔(۴)

۳۔لفظی تحریف کہ جس کی خود کئی قسم ہے:

الف۔دو لفظ جا بجا کرنے کی تحریف ؛جیسے کہ بعض لوگ معتقد ہیں <فامضوا الی ذکر اللہ>کی جگہ <ِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللهِ>(۵)کی آیت آئی ہے کہ اس کی صحت کی دلیل موجود نہیں ہے۔

ب۔ الفاظ کو آگے پیچھے کرنے کی تحریف ؛جیسے کہ بعض لوگ کہتے ہیں :”وضربت علیھم المسکنت والذلة“،وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ(۶)آئی ہے ۔یہ تحریف بھی باطل ہے ،کیونکہ قرآن کے اعجاز سے منافات رکھتی ہے۔

ج۔کم و زیاد کرنے کی تحریف۔کہ یہ بھی تین قسم پر ہے

۱۔حروف اور حرکات میں تحریف جوکہ قرآن کی قرائت سے مربوط ہے ۔یہ تحریف بھی باطل ہے مگر بعض الفاظ میں ۔مثلا وَامْسَحُوا بِرُئُوسِکُمْ وَاٴَرْجُلَکُمْ (۷)کی آیت میں ”ارجل“کا لفظ ،فتحہ اور کسرہ کے دونوں ساتھ آیاہے ادبیات عرب کے قواعد و اصول اور مشہور قرائت کے مخالف نہیں ہے خاص طور اس جگہ جہاں قرائت کے سلسلے میں صحیح روایت وارد ہوتی ہے۔

۲۔کلمات میں تحریف جو خود دو قسم ہے: ایک یہ کہ اصل قرآن میں ہو کہ یہ بھی باطل ہے ۔اور دوسرے یہ کہ لفظ کو اضافہ کرنا مشکل آیت کو واضح کرنے کے لئے کہ یہ اضافہ کرنا جب آیات سے متمایز ہو تو بالاجماع کوئی اشکال نہیں ہے۔

۳۔سورہ اور آیات میں تحریف؛ یعنی اس پر معتقد ہوجائیں کہ سورہ اور آیات میں نقص یا اضافہ ہواہے کہ یہ قطعاً باطل ہے۔
سوروں اور آیات میں عدم تحریف کی دلیلیں:

نفی تحریف کی دلیلیں اس قدر قوی اور منطقی ہیں کہ قرآن کی روایتوں کو بھی باطل کردیتی ہےں علی الخصوص یہ کہ ساری روایتیں قابل خدشہ ہیں چاہے سند کے اعتبار سے چاہے دلالت کے اعتبار سے ہم بعض دلیلوں کو بیان کرتے ہیں :
۱۔ حکم عقل

عقل قطعی حکم کرتی ہے کہ قرآن کریم کسی بھی تغیر و تبدل اور تحریف سے محفوظ ہے کیونکہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جس پر دوران نزول اسلامی امت کی خاص توجہ مرکوز تھی اور ان کے نزدیک وہ بڑا مقدس و عظیم ہے اور اس میں کوئی تعجب اور تردید کی بات نہیں ہے ،کیونکہ قرآن لوگوں کی دینی ،سیاسی ،اور اجتماعی زندگی کا پہلا مرجع و منبع ہے قرآن دین و شریعت کی اساس واسلام کا رکن ہے اور کوئی امکان نہیں ہے کہ تحریف کا ہاتھ اس تک پہنچ پائے۔
۲۔ قاعدہ ٴلطف

قرآن کاتحریف نہ ہونا لطف الٰہی کا تقاضا ہے لطف یعنی ایسا کام انجام دینا جو بندہ کو اطاعت کے نزدیک اور معصیت سے دور کردے یہ معنی بحکم عقل خداوند پر واجب ہے ،اور کوئی شک نہیں کہ قرآن اصلی سندہے اسلام اور پیغمبر (ص)کی بنوت کے معتبر ہونے کا ۔اور ایسے دین کی بنیاد کو باقی اور اس کے رکن کو مضبوط رہنا چاہئے اور کبھی بدعت گذاروں کے نفسانی خواہشات اس کے آگے ٹک نہ سکےں ۔لہٰذا قاعدہ لطف کی وجہ سے قرآن تحریف سے محفوظ تھا اور ہے اور یہ خود قرآن کے اعجاز کا ایک رخ ہے۔
۳۔ آیاتِ قرآن:

جب خدا وند متعال نے قرآن کی تحریف سے حفاظت کرنے کی ضمانت لی ہو تو کیسے قرآن میں تحریف ممکن ہوگی؟یہاں پر دو آیت کو نمونہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:

الف۔انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون(۸)”ہم نے خود ذکر (قرآن)کو نازل کیا ہے اور خود اس کے نگہبان ہیں ۔“

یہ آیت دو جملوں سے بنی ہے ،پہلے جملے میں ”ان“تاکید ی کلمہ اور ”نا و نحن“میں خبر کے قطعی اور مسلم ہونے کی علامت ہے اور منکرین کے ان شکوک وشبہات کو مٹانے کے لئے ہے جواس سورہ کی اس سے پہلے کی آیتوں میں انھیں ہوا ہے۔

دوسرا جملہ”ان ولام“جو تاکیدی لفظ ہیں اور ”نا“جو جمع کی ضمیر ہے اور ”حافظون“جوجمع کا صیغہ ہے کو ذکر کرکے قرآن کی حفاظت کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ جملہ کایہ طرز بیان کسی بھی شک کو مٹا تا ہے اس آیت میں قرآن کی حفاظت بلا قید اور مطلق طور پر بیان ہوئی ہے لہٰذاہر قسم کی تحریف سے حفاظت کرنا شامل ہے اور چونکہ خدا کا ہر وعدہ سچا ہے اور<ان اللہ لا یخلف المیعاد>اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا(۹)لہٰذا قرآن کی حفاظت قطعی ہے۔

ب۔ ۔۔۔وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ لاَیَاٴْتِیہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَمِنْ خَلْفِہِ تَنزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِید (۱۰)اور قطعی طور پر وہ کتاب عزیز ہے ،باطل آگے پیچھے سے اس میں نہیں وارد ہو سکتااوریہ خداوند حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے۔“

ان دو آیتوں میں ”ذکر“اور ”کتاب“سے مقصود قرآن مجید ہے جو تین صفت ،<عَزِیز>،<لاَیَاٴْتِیہِ الْبَاطِل>،<تَنزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ> سے متصف ہوا ہے پہلے دو وصف قرآن کی تحریف نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں ،کیونکہ لفظ ”عزیز“کا معنی غیر قابل نفوذ ہے اور تحریف ، قرآن میں شکست اور نفوذ کا نام ہے ،لفظ ”باطل“وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں ثبات نہ رہے اورشئی فاسد و تباہ ہوجائے ۔ اور قرآن اپنے اندر کسی بھی تغیر وتبدل کی نفی کرتا ہے <لاَیَاٴْتِیہِ الْبَاطِل>کیونکہ قرآن کے اعجاز اور اس کے سوروں اور آیات کے نظم ا ورمضمون کومد نظر رکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی طرح کا بھی تغیر و تبدل قرآن کے نظم اور مضمون کو خدشہ دار کردے گا ہیں اور قرآن کو تباہ ہونے کا مصداق بنادے گا جب کہ یہ بات <۔۔۔من بین یدیہ ومن خلفہ>کی تفسیر نے کلی طور پر ہر زمان اور ہر جہت سے غیر ممکن بتلاتی ہے اور <تَنزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ>اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن ہرقسم کی تحریف سے محفوظ ہے خداوند حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے اس خدا کی طرف سے جو سب کمالات کا مالک ہے اور اس کاہر کام بامقصد اور بے نقص ہوتا ہے لہٰذا اگر قرآن میں تحریف ہوجائے تو خدا کی حکمت میں نقض لازم آجائے گا ۔

سورہٴ حجر کی آیت اور سورہٴ فصلت کی آیت کا مقایسہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی حفاظت کسی بھی تحریف سے ضمانت میں ہے ۔

لاَتُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ(۱۱)”دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں۔“ اس آیت سے بھی قرآن کی تحریف نہ ہونے کا استفادہ ہوتا ہے۔
۴۔احادیث

احادیث بھی قرآن کی تحریف نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ہیں ہم ان میں سے بعض کی طر ف اشارہ کرتے ہیں:

الف۔حدیث ثقلین : پیغمبر (ص)نے فرمایا:بیشک میں تم لوگوں کے درمیان دو قیمتی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت میرے اہل بیت ؛اگر ان دونوں سے مستمک رہوگے تو ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے۔(۱۲)

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم پیغمبر (ص)کے دور ہی میں جمع ہوا ہے نہ اس کو کتاب کہنا صحیح نہ تھا اور اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ قرآن قیامت تک باقی رہے گا تاکہ پیغمبر (ص)کی عترت کے ساتھ امت اسلامی کی ہدایت کا سبب بن سکے۔

ب۔بہت سی احادیث معصومین علیہ السلام موجود ہےں جو واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ ۔قرآن کی تحریف ہونے سے محفوظ ہے اس میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ حسین بن عثمان نے امام جعفر صادق ںسے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا:”ما بین الدفتین قرآن“(۱۳)جو کچھ ان دو جلدوں کے درمیان ہے وہ قرآن ہے ۔“(بغیر کسی کمی و زیاتی کے)

امام محمد باقر علیہ السلام کے خط کا کچھ حصہ جوآپ نے اپنے ایک صحابی ”سعدا لخیر “کے نام لکھا تھا اس میں آیا ہے ”۔۔۔وکان من نبذھم الکتاب ان اقاموا حروفہ وحرفواحدودہ“؛(۱۴)ان کی بے اعتنائی قرآن کے بارے میںیہ ہے کہ انھوں نے قرآن کے الفاظ پر عمل کیا لیکن اس کے حدود و معارف کو تحریف کر لیا۔“

امام کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔

ج۔وہ سب حدیث جس میں قرآن کا بلند مرتبہ انسانوں کی ہدایت کے لئے بیان کیا جاتا ہے ۔(۱۵)

د۔بہت سی احادیث جو قرآن کو مطلق طور پر صحیح و غلط روایات کا معیار سمجھتی ہیں ،رسول خدا (ص)نے فرمایا بیشک ہر حق کی ایک حقیقت ہے اور ہر درستگی کا ایک نور ہے پس جو قرآن کے موافق ہو اسے لے لو اور جو ا کے مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔

یہ معنی دو وجہ سے قرآن کی تحریف ہونے کے احتمال سے مخالف ہے:

پہلی وجہ یہ ہے کہ میزان اور معیار کو قطعی ہونا چاہئے ،کیونکہ قرآن حق و باطل کی پہچان ہے ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ معیار ایسی چیز ہو جو سب مسلمانوں کے نزدیک مسلم اور ثابت ہوا ۔

ھ۔بے شمار روایات مختلف ابواب میں جوسب کی سب مجموع قرآن کی تحریف نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔مثال کے طور پر ”قرآن سے شفا چاہنا“(۱۷)،”قرآن سے توسل “،(۱۸)”قرآن کو حفظ کرنا“،(۱۹)”تلاوت قرآن کے آداب “،(۲۰)”قرآن کی قسم “،(۲۱)اور دوسرے موضوع جن میںسے ہر ایک دسیوں روایت پر مشتمل ہیں۔
۵۔قرآن کا اعجاز

قرآن اعجاز کی کتاب ہے اور ابھی تک کسی نے اس کی طرح آیت نہیں لایا ہے ،جس طرح قرآن کی آیت اس پر اشارہ کرتی ہے اور اگر اب قرآن میں تحریف کا راستہ کھولا رہے تو یہ اعجاز قرآن فصاحت اور بلاغت کی نظر سے مخالف ہے ۔
تحریف نہ ہونے کی شیعہ علماء کی تصریح

یہ بات سب کے نزدیک واضح ہے کہ کسی عقیدہ یا فتواکی کسی مذہب سے نسبت دینے کے لئے اس مذہب کے بزرگوں کی تالیفات اور کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے موضوع تحریف کے سلسلے میں بھی شیعہ بزرگوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر لوگ قرآن کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں اب ہم اس میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔شیخ صدوق الاعتقادات ،ص۹۲۔

۲۔شریف رضی حقائق التاویل فی متشابہ التنزیل ،ص۱۶۸۔

۳۔شیخ مفید المسائل السرویة،ص۸۳۔۸۴ واوائل المقالات ،ص۸۰۔

۴۔سید مرتضیٰ الذخیرة فی علم الکلام ،ص۳۶۱۔

۵۔شیخ طوسی التبیان فی تفسیر القرآن ،ج۶،ص۳۲۰۔

۶۔طبرسی مجمع البیان ،ج۶،ص۵۰۹۔

۷۔ابو الفتوح رازی روض الجنان روح الجنان ،ج۱،ص۳۱۔

۸۔قطب الدین رواندید الخرائج والجرائح ،ص۱۰۰۴۔

۹۔ابن ادریس حلی المنتخب من تفسیر القرآن ،ج۲،ص۲۴۶۔

۱۰۔ابن شہر آشوب متشابة القرآن ،ج۲،ص۷۷۔

۱۱۔رضی الدین علی بن طاوٴس سعد السعود،ص۱۴۴۔

۱۲۔سدیدی الدین محمود حمصی المنقذ من التقلید ،ج۱،س۴۷۷۔

۱۳۔ابوالمکارم حسنی ،البلابل والقلاقل ،ج۱،ص۲۴۴۔

۱۴۔محمد بن حسن شیبانی نہج البیان،ج۳،ص۱۸۴۔

۱۵۔محمد بن یوسف مطہر اجوبة المسائل المہنائیة،ص۱۲۱۔

۱۶۔جمال الدین مقداد سیوری کنزالعرفان،ص۲۔۵۔

۱۷۔زین الدین بیاض عاملی الصراط المستقیم ،ج۱،ص۳۲۶۔

۱۸۔کمال الدین حسین کاشفی،مواہب علّیہ، ج۱،ص۳۳۶۔

۱۹۔علی بن عبدالعالی رسالة فی جفی النقیصة فی القرآن نقل از التحقیق فی نفی التحریف ،ص۲۲۔

۲۰۔فتح اللہ کاشانی منہج الصادقین ،ج۵،ص۱۵۴۔

۲۱۔مقدس اردبیلی مجمع الفائدة والبرہان ،ج۲،ص۲۱۸۔

۲۲۔محمد بن نقی شیبانی مختصر نہج البیان،ص۲۶۲۔

۲۳۔ابو المحاسن حسین بن حسن جرجانی جلاء الاذہان وجلاء الاحزان ،ج۵،ص۱۲۸۔

۲۴۔ابو الفیض ناکوری سواطع الالہام ،ج۳،ص۲۱۴۔

۲۵۔قاضی نور اللہ شوشتری مصائب النواصب نقل از الاء الرحمن،ج۲،ص۲۵۔

۲۶۔شیخ بھائی العروة الوثقی،ص۱۶۔

۲۷۔فاضل تونی الوافیة فی الاصول ،ص۱۴۸۔

۲۸۔فیض کاشانی تفسیر صافی،ج۳،ص۱۰۲و المحجة البیضاء ،ج۲،ص۲۶۳۔

۲۹۔محمد بن حسن شریف لاہیجی تفسیر شریف لاہیجی،ص۲،ص۶۵۸۔

۳۰۔شیخ حر عاملی رسالةتواتر القرآن وعدم نقضہ و تحریفہ ۔خطی۔

۳۱۔محمد بن مرتضٰ کاشانی تفسیر المعین ،ج۲،ص۶۵۰۔

۳۲۔محمد رضا قمی کنز الدقائق،ج۷،ص۱۰۴۔

۳۳۔شیخ جعفر کاشف الغطاء کشف الغطاء ،ص۲۲۹۔

۳۴۔سید محسن کاظمی شرح الوافیة نقل از التحقیق فی نفی التحریف،ص۲۶۔

۳۵۔سید محسن طباطبائی مفاتیح الاصول نقل از کتاب پیشین،ص۲۷۔

۳۶۔شیخ ابراہیم کلباسی، ارشادات الاصول نقل از کتاب پیشین،ص۲۷۔

۳۷۔سید حسین کوہ کمری بشری الوصل نقل از کتاب پیشین،ص۲۷۔

۳۸۔موسی تبریزی اوثق الوسائل ،ص۹۱۔

۳۹۔محمد بن ابی القاسم مشہور بہ معرب تہرانی کشف الارتیاب فی عدم تحریف الکتاب۔

۴۰۔سید محمد شہرستانی حفظ الکتاب عن شبہة القول با التحریف۔

۴۱۔محمد حسن آشتیانی بحر الفوائد ،ص۹۹۔

۴۲۔محمدجواد حسسینی عاملی مفتاح الکرامة ،ج۲،س۳۹۰۔

۴۳۔شیخ ممد جواد بلاغینجفی الاء الرحمن ،ص۲۶۔

۴۴۔سیخ محمد حسین کاشف الغطاء اصل الشیعة واصولھا،ص۱۳۳۔

۴۵۔سید محسن امین اعیان الشیعة ،ج۱،ص۴۱۔

۴۶۔شیخ محمد نھاوندی نفحات الرحمن ،ج۱،ص۴۰۔

۴۷۔میر جعفر علوی حسینی کشف الحقائق ،ج۱،ص۴۰۔

۴۸۔سید عبد الحسین شرف الدین الفصول المہمة ،ص۱۶۲و اجوبة مسائل جار اللہ ،ص۲۸۔

۴۹۔علامہ امینی الغدیر ،ج۳،ص۱۰۱۔

۵۰۔سید محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۲،ص۱۰۴۔۱۳۳۔

۵۱۔آیت اللہ العظمیٰ خمینی تہذیب الاصول ،ج۲،ص۱۶۵،وانوار الہدایة،ص۲۴۳۔

۵۲۔ایت اللہ العظمیٰ خوئی البیان ،ص۱۹۷۔

تحریف پر دلالت کرنے والے احادیث کی توجیہ

حدیث و تفسیر کی کتابوں میں قرآن کے بارے میں ایسی روایتیں ملتی ہیں کہ بعض لوگ انھیں سب کو قرآن کی تحریف ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں ،لیکن توجہ کرنا چاہئے کہ :

اولاً: اکثر روایات ایسے افراد اور ایسی کتابوں سے نقل ہوئی ہیںکہ جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے مثال کے طور پر کتاب قراء ات احمد بن محمد سیاری (متوفی۲۸۶ھ) کہ جسے علمائے رجال نے ضعیف جانا ہے اور اس کے مذہب کو فاسد سمجھا ہے(۲۲) یا علی ابن احمد کوفی (متوفی ۳۵۳ھ)کی کتاب علمائے رجال نے اس کے بارہ میں کہا ہے :”عمر کے آخر لحظات میں اس نے غلو اور افراط کا راستہ انتخاب کر لیا تھا ۔(۲۳)

ثانیاً: دوسری قسم روایات کی جو تحریف ہونے کو بیان کرتی ہیں ،تفسیر ی وجہ رکھتی ہیں یعنی روایت میں بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں یہ تفسیر قرآن کا جزء تھی اور اس میں سے حذف ہوگئی ہے مثال کے طور پر سورہٴ حمد <اھدنا الصراط المستقیم> کی آیت ،پیغمبر (ص)اور ان کی خاندان کی راہ یا علی علیہ السلام کی راہ سے تفسیر ہوئی ہے اور واضح ہے کہ ایسی تفسیر فرد کامل پر کلی کی تطبیق اور کچھ نہیں

امام خمینی جن روایت میں تحریف کی احتمال پایا جاتا ہے اس کی تین قسمیں کی ہےں:

الف۔ ضعیف روایات جن سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔

ب۔جعلی روایات جن کے جعلی ہونے پرشواہد موجود ہیں۔

ج۔صحیح روایات جن میں دقت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریف کا مقصد لفظی نہیں معنوی تحریف ہے ۔

ثالثاً: اگر کسی شخص کو کسی مذہب کے بارے میں قضاوت کرنا ہے تو اس مذہب کے عقایدکے بارے میں اسی مذہب کے علماء و مفسرین اور متکلمین سے اس کو پوچھنا چاہئے نہ کہ اس مذہب کی فقط بعض کتابوں کا مراجعہ کرے اور بعض احادیث کو پانے کے بعد اس کے مطالب کو عقیدہ کے عنوان سے اس مذہب کی طرف نسبت دےدے قرآن کی تحریف کے بارہ میں بھی یہی کرنا چاہئے کیا شیعہ مفسرین نے جوطول تاریخ میں سیکڑوں تفسیر قرآن لکھی ہے اس موجود قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کی تفسیر ہے اور کیا ان تفاسیر میں وہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں؟اور شیعہ فقیہوں کا فتواکہ جہاں مختلف ابواب میں قرآن سے استناد کیا ہے موجود ہ قرآن کے خلاف ہے؟اوراس میں قرآن کی تحریف کے قائل ہیں؟

شیعہ متکلمین قرآن کی تحریف نہ ہونے کے معترف ہیں جنھوں نے شیعہ عقائد کے اثبات کے لئے اسی قرآن سے تمسک کیاہے۔

اور شیعہ محدثین جنھوں نے اپنی حدیثی کتابوں میں سیکڑوں روایت اسی قرآن کے بارہ میں نقل کیا ہے ۔۔۔

کسی مذہب کے عقائد کی شناخت کا معیار ،اکثریت کا قول ہے

کسی مذہب کے عقائد کو بیان کرنے کے لئے معیار اور پہچان وہ نظریہ ہے کہ جس میں اس مذہب کے سب علماء کا اتفاق نظر ہواور اس حقیقت کو بعض اہل سنت کے محقق افراد سمجھتے ہیں اور شیعوں کو تحریف کا قائل ہونے سے پاک سمجھتے ہیں جیسے کہ شیخ رحمت اللہ ہندی نے اپنی معروف کتاب اظہار الحق میں لکھا ہے :”قرآن کریم اکثر شیعہ علماء کے نظریہ کے مطابق تحریف سے محفوظ ہے اور جو لوگ تحریف ہونے کے قائل ہیں ان کے قول کو مردود اور نامعقول سمجھتے ہیں۔(۲۶)

شیخ محمد محمد مدنی الازہر کے استاد نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے :امامیہ مذہب کے افراد آیات اور قرآن کے سورہ میں کسی کمی کے قائل نہیں ہیں اگرچہ اس بارے میں ان کی حدیث کی کتابوں میں بعض روایات ویسے ہی نقل ہوئی ہیں جس طرح ہماری کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ہر مذہب (شیعہ ہو سنی) کے محقق ان سب کو نادرست سمجھتے ہیں ۔کوئی بھی شخص اتقان سیوطی کی طرف رجوع کر کے اس طرح کی روایات پاسکتا ہے جو ہماری نظر میں کوئی اعتبار نہیں رکھتیں علماءِ امامیہ بھی تحریف ہونے کی روایت کو مردود سمجھتے ہیں ۔(۲۷)

استاد مدنی نے اپنے کلام میں اس مطلب کی یاد دہانی کی ہے کہ اگر کوئی شخص (شیعہ ہویاسنی)ا س طرح کی غیرمعتبر روایات سے استناد کرکے تحریف کا قائل ہو جائے ،تواس کی بات کو ملاک بنا کر اس مذہب کے اعتقادات کی طرف منسوب نہیں کےاجاسکتا۔ جیسے کہ ایک مصری عالم نے ایک کتاب العرفان نام کی تالیف کیا اور ان سب روایات کو جمع کیا جو قرآن کی تحریف کے بارے میں تھی لیکن دانشگاہ الازہر نے اس کتا ب کو بے اعتبار ثابت کر کے حکومت کے ذریعہ اس کتاب کی توقیف کردی اور سارے نسخے ضبط کرلئے ۔
سورہٴ نورین اورسورہٴ ولایت کیا ہے؟

یہ دوسورہ ہیں کہ اس کے جاعلین نے ناسیئانہ طور پر سست وغلط عبارت سے امام علی کے مناقب و وصایت سے جعل کیا ہے یہ دو سورہ کیارہویں صدی کے پہلے کوئی منبع اور مدرک کے ساھت نہیں تھی اورکوئی نام ومتن کا اثر نہیں تھا جو افراد نے اس کو نقل یا انتقاد کیا ہے نے بھی کوئی منبع(معتبر وغیر معتبر ) اس صدی کے پہلے نہیں ارائہ کیا ہے مدارک اور شواہد کے بنا پر یہ دو سورہ ہندوستان میں نا معلوم افراد کے ہاتھ جعل ہوئی ہے اور اس کے بعد اسلام اور قرآن کے دشمنوں کے ذریعہ نشر ہوئی ہے ۔

علامہ عسکری کہتے ہیں :شیعوں کے مخالفین مثلا احسان الٰہی ظہیر جیسے لوگوں نے شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دینے میں تذکرة الائمہ اور دبستان المذاہب جیسی کتابوں پر اعتماد کیا ہے جب یہ کتابیں کوئی علمی قدر وقیمت نہیں رکھتیں۔کیونکہ:

اولاً: دبستان المذاہب کے موٴلف کا نام ہی نہیں تحریرہے لہٰذا علماء نے اس کے موٴلف کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے بعض لوگوں نے اس کو میر ذوالفقار علی حسین اردستانی سے نسبت دی ہے اور بعض لوگوں نے شیخ کشمیری جواہل سنت کے متعصب عالم تھے منسوب کیا ہے اور بعض لوگوں نے کیخسرو بن اسفندیار سے نسبت دی ہے جو ہندوستان میں مجوسیوں کا بڑا عالم تھا۔

بعض لوگ کہتے ہیں اس کتاب کے موٴلف نے اس وجہ سے اس کتاب کولکھا تاکہ دین زر دشت کی تبلیغ کر کے دوسرے ادیان کو سست اور کمرنگ کردے۔

ثانیاً: تذکرة الائمہ کتاب کو محمد باقر مجلسی سے نسبت دیا ہے لیکن یہ کتاب ان کی نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے شخص بنام ” محمد باقر بن محمد تقی “کی ہے جیسا کہ بعض مورخین سوانح نگاراس بات کی طرف متوجہ تھے اور انھوں نے مرحوم مجلسی کو اس اتہام سے مبرا سمجھا ہے مثال کے طور پر مرزاعبد اللہ آفندی مرحوم مجلسی کے شاگرد نے ریاض العلماء میں، سید اعجاز حسین نے اپنی کتاب کشف الحجب والاستار عن الکتب والاسفار میں، سید خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات میں،شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب الفوائد الرضویہ میں ،اور شیخ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب” الذریعہ“ میں۔

ثالثاً: مکتب اہل بیت میں ایسی روایات کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے جو صحیح سند کے ذریعے پیغمبر یا ائمہ معصومین تک نہ پہنچتی ہوںاور ان جعلی سوروں کے لئے تو کوئی سند ہی ذکر نہیں ہوئی ہے ۔(۲۸)

رضا زادہ ملک ،کتاب دبستان مذاہب کے توانا محقق ،نے جو متن کتاب سے اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کا موٴلف ۱۰۲۵ ء میں پیدا ہوا اور ۱۰۶۹ ء تک زندہ تھا اس محقق نے کتاب دبستان مذاہب کا ارتباط شیخ کشمیری سے غیر واقعی جانا ہے۔(۲۹)

پھر دلیلوں اور شواہد کی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ سارے شواہد وقرائن اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس کتاب کا موٴلف صد در صد آذرکیوان اور دین دساتریری کا ایک پکا پیرو ہے اوروہ بھی اس مذہب کے معتقد افراد کا مورد احترام شخص ہے اور یہ شخص موّبد کیخسرواسفندیار یعنی آذرکیوان کے لڑکے کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے ۔(۳۰)

اس نے بحث میں کتاب دبستان مذاہب کے لکھنے کی دلیل میں لکھا ہے ”دبستان مذاہب کا موٴلف خود جعلی دین کا رہبر تھا اور اس کی اساسی غرض ۔اگرچہ اس اس کا اظہار نہیں کیا ہے ۔دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا اعتقاد سست کرنا اور ان سب کو اپنے دین میں لانا تھا اسی لئے اس نے سست اورغیر معتبر مغرضانہ اسناد کو غیر مہذب لوگوں سے نقل کیا ہے ۔

برطانوی سامراج نے بھی دبستان مذاہب کے موٴلف کی غرض کو اجرا کرنے کے لئے اس دیاکیونکہ کتاب دبستان مذاہب پہلی بار انگریزوں کے ذریعہ پرچار ہوئی جیسا کہ اس کتاب کے پہلے فارسی اڈیشن میں ”ویلیام بیلی“ہندوستان میں انگریز سفیر کے ذریعہ اس کتاب کی رونمائی ہوئی اس وقت جبکہ اس خطہ میں ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی (۳۱)ان لوگوں نے ان مجلوں میں جو ا یشیا اور جہان اسلام پرچھائے ہوئے تھے ان سوروں کو شیعی سوروںکے عنوان سے منتشر کیا یہ سب استعمار گروں کی غرض اور” لڑاؤ اور حکومت کرو “ کی پالیسی کار فرما تھی۔

سورہٴ ”ولایت “صرف ایک مجہول اور خطی قرآن کے آخر میں۱۷ ویں صدی میں ہندوستان میں لکھا گیا ہے اور اس کا کوئی اثر شیعہ اور غیر شیعہ منابع میں موجود نہیں ہے اس کا تنہا ایڈرس یہ ہے کہ یہ نسخہ جون ۱۹۱۲ میں ہندوستان کے بانکی پور کے کتا ب خانہ میں پایا گیا اور اس کے مدیر نے کہا ہے کہ اس نسخہ کو نواب نام ککوٴسے بیست سال پہلے لکھنوٴ میں خرید ہ ہے یہ نسخہ کی قدمت ۲۰۰سے ۳۰۰ سال پہلے ہے۔“

بہر حال کوئی بھی قرآن کی سلامت کی دلیلوں پر غور کرنے اور یہ دو سورہ کی پریشان و۔۔۔۔عبارت دیکھ کر وہ سب کاجعلی ہونے کی حکم دے سکتا ہے التبہ یہ بات فقط یہ دو سورہ کے لئے نہیں ہے بلکہ قرآن کے نزول کے بعد کسی نے بھی کوشش کیا ہے قرآن کی طرح آیت اور دو سورہ لائے اس کا انجام رسوائی اور استہزاء تھا کیونکہ قرآن بے نظیر ہے اور اس کا زیبا متن اور عمیق مضمون کوئی متن سے قابل قیاس نہیں ہے ۔
مدارک و منابع :

(۱)تاج العروس ،زبیدی ،ج۶،ص۶۹۔

(۲)کتاب العین ،الخلیل ،ج۳،س۲۱۱؛لسان العرب ،ابن منظور،ج۹،ص۴۳۔۔۔

(۳)جامع البیان ،طبری،ج۱،ص۳۴ والاتقان ،سیوطی،ج۴،ص۲۱۰۔

(۴)التبیان ،طوسی،ج۱،ص۴۔

(۵)سورہٴ جمعہ (۶۲)آیت ۹۔

(۶)سورہٴ بقرہ (۲)آیت ۶۱۔

(۷)سورہٴ مائدہ(۵)آیت ۶۔

(۸)سورہٴ حجر(۱۵)آیت۹۔

(۹)سورہٴ رعد(۱۳)آیت ۳۱۔

(۱۰)سورہٴ فصلت(۴۱)آیت ۴۱۔۴۲۔

(۱۱)سورہٴ قیامت (۷۵)آیت۱۶۔۱۷۔

(۱۲)ر۔ک۔عبقات الانوار ،ج۱و۲۔

(۱۳)الاصول الستة عشر۔

(۱۴)کافی،۸،ص۵۳۔

(۱۵)تفسیر عیاشی ،ج۱،س۳۔۶۔

(۱۷)بحار الانوار،ج۹۲،ص۱۳۔۴۳وص۱۷۵۔۳۷۲۔۔۔

(۱۸)وہی مدرک

(۱۹)وہی مدرک

(۲۰)وہی مدرک

(۲۱)وہی مدرک

(۲۲)رجال نجاشی،ج۱،ص۲۱۱۔

(۲۳)وہی مدرک،ج۱،ص۹۶۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر قرآن کے جمع کرنے والے کو حضرت علی علیہ السلام یا رسول خدا کے علاوہ کسی کو سمجھتے ہو تو یہ تحریف معنی رکھتی ہے وگرنہ نہیں۔
یہ رسول خدا سے بھی پہلے ۔۔علی ۔۔نامی ہستی کون ہے ؟
اس مذکورہ ۔۔علی ۔۔نامی شخص کا جمع کردہ قرآن اس وقت کس میوزیم میں ملے گا ؟؟
 

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
۔پوری عبارت بیان کریں ایک حصہ کو بیان کرکے دوسرے کو چھپانا جہالت کی دلیل ہے
 
Top