جی بجا فرمایا۔ میرا مطلب بھی یہی تھا۔
ویسے ضمنا" ایک سوال ہے کہ کسی متعین فرد پر تولعنت کی جاسکتی ہے نا اگر اس کے کھلے اعمال و اقوال اسی قابل ہوں جیسے ملعون رشدی ۔
لعنت کی دو صورتیں ہیں:
اول: کسی پر مطلق (بغیر تعیین کے) لعنت کرنا، خواہ وہ کافر ہو یا اہل معاصی میں سے کوئی فاسق ۔۔۔ جیسے کوئی کہے کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت! یا کافروں، فاسقوں یا ظالموں پر اللہ کی لعنت! یا کہے شراب نوشی کرنے والے یا چور پر اللہ کی لعنت! تو لعنت کی یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
دوم: کسی (شخص یا گروہ) پر معین طور پر (نام لے کر) لعنت کرنا خواہ وہ کافر ہو یا فاسق ۔۔۔ جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص پر اللہ کی لعنت! تو اس کی مزید دو صورتیں ہیں:
1۔ اس شخص پر لعنت کے متعلق کوئی نص وارد ہوا ہو جیسے ابلیس یا اس کی کفر پر موت کے متعلق نص ہو جیسے فرعون، ابو لہب، ابو جہل وغیرہ تو یہ لعنت جائز ہے۔ ایسے لوگوں پر لعنت نہ کرنے پر بھی کوئی حرج نہیں۔
2۔ کسی ایسے زندہ کافر یا فاسق شخص پر معین کرکے لعنت کرنا، جس پر بطورِ خاص لعنت کے متعلق کوئی نص وارد نہیں۔ جیسے کسی شرابی، غیر اللہ کیلئے ذبح کرنے والے، اپنے ماں باپ پر لعنت کرنے، کسی بدعتی کو پناہ دینے والے یا زمین کے نشانات تبدیل کرنے والے پر کوئی شخص نام لے کر لعنت کرے۔
درج بالا تمام افعال پر مطلق طور پر لعنت تو صحیح احادیث میں وارد ہے، لیکن معین کرکے لعنت کرنے سے منع بھی کیا گیا ہے
تو اس بارے میں علماء کی تین آراء ہیں:
1۔ ایسے لوگوں پر معین لعنت کسی طور جائز نہیں!
2۔ کافر کے بارے میں جائز ہے، فاسق کے بارے میں جائز نہیں!
3۔ مطلقا جائز ہے۔
الآداب الشرعية لابن مفلح 1 / 303
جو لوگ جائز قرار نہیں دیتے ہیں، ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔
عن عبد الله بن عمر أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ مِنْ الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنْ الْفَجْرِ يَقُولُ : اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلانًا وَفُلانًا وَفُلانًا بَعْدَ مَا يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ : ( لَيْسَ لَكَ مِنْ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ) . (صحيح البخاري)
کہ سیدنا ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو سنا کہ جب وہ فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو
سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کے بعد فرماتے کہ اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت کر، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمادی: اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
2۔
عن عمر أن رجلا على عهد النبيﷺ كان اسمه عبد الله، وكان يلقب حمارا ، وكان يضحك رسول اللهﷺ، وكان النبيﷺ قد جلده في الشراب، فأتي به يوما فأمر به فجلد، قال رجل من القوم : اللهم العنه، ما أكثر ما يؤتى به، فقال النبيﷺ: ( لا تلعنوه ، فو الله ما علمت، إلا أنه يحب الله ورسوله ) . (صحيح البخاري)
سیدنا عمر سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں ایک شخص جس کا نام عبد اللہ اور لقب حمار تھا، وہ رسول کریمﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، نبی کریمﷺ نے شراب نوشی پر اسے کوڑے لگوائے تھے، ایک دن (پھر) اسے لایا گیا تو نبی کریمﷺ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم صادر فرمایا۔ تو ایک لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ اس پر لعنت کرے کتنی مرتبہ اسے (شراب پینے پر سزا دینے کیلئے) لایا گیا ہے۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم، جہاں تک میں اسے جانتا ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اس بارے میں امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
جن پر اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ نے لعنت کی ہے، ان پر مطلقاً (بغیر تعیین کے) لعنت کرنا جائز ہے۔ جہاں تک معین کرکے لعنت کرنا ہے تو اگر کسی کے بارے میں یہ علم ہوجائے کہ وہ کفر پر فوت ہوا ہے اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔ جہاں تک کسی فاسق پر تعیین کرکے لعنت کا معاملہ ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے عبد اللہ بن حمار نامی شخص - جنہیں بار بار شراپ پینے کی جرم میں لایا جاتا تھا - پر لعنت کرنے سے منع کر دیا تھا، حالانکہ نبی کریمﷺ نے شارب الخمر پر مطلقاً (عمومی طور پر، بغیر تعیین کے) لعنت فرمائی ہے۔
مجموع الفتاوى" 6 / 511
الشیخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں:
کسی شخص پر معین لعنت اور اہل معاصی پر مطلقاً لعنت میں فرق ہے۔ پہلی صورت ناجائز ہے۔ دوسری صورت (فاسقوں پر مطلقاً لعنت) جائز ہے۔ اگر تم کسی بدعتی شخص کو دیکھو تو اسے یہ نہ کہو کہ تم پر اللہ کی لعنت! بلکہ عمومی طور پر کہو بدعتی کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت! (جیسا کہ حدیث میں ہے) اس کی دلیل یہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے اہل جاہلیت کے بعض مشرکین پر لعنت کرنا شروع کی کہ اے فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت کر! تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل کرکے آپﷺ کو اس سے منع فرما دیا:
﴿ ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون ﴾ کہ اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں (
128) (صحیح بخاری)
القول المفيد: 1 / 226
واللہ تعالیٰ اعلم!
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں:
موقع الإسلام سؤال وجواب - حكم لعن المعين