ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 615
- ری ایکشن اسکور
- 191
- پوائنٹ
- 77
شیعیت و رافضیت یہودیت سے ماخوذ ہے، اور ان کے یہ پالے ہوئے بچے (ایرانی) کبھی بھی ان سے غداری نہیں کر سکتے
پلیدیت کی اس پیداوار (شیعہ روافض) سے کبھی بھی دھوکہ نا کھائیں، جن کی اصل نفاق سے نکلی ہو، جن کا مذہب نفاق پر کھڑا ہو، جن کی معاشرت اور زندگی نفاق سے مستعار ہو،
وہ سچ کیوں کر اور کیسے بولیں گے، جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ ہی جھوٹ پر کھڑی کی ہو، وہ سچ کی طرف جاکر اپنی ہزار سالہ تاریخ تباہ نہیں کرسکتے، یہ ملی بھگت روز اول سے چلی ارہی ہے، آپ ان کے دسائس میں قطعاً نہ آئیں،
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں :
و قد ذكر أهل العلم أن مبدأ الرفض إنما كان من الزنديق عبد الله بن سبأ، فإنه أظهر الإسلام وأبطن اليهودية و طلب أن يفسد الإسلام، كما فعل بولص النصراني – الذي كان يهودياً – في إفساد دين النصارى.
[مجموع الفتاوى (28/ 483)] ،
ایک دوسری جگہ توضیح کے ساتھ فرماتے ہیں: إن الذي ابتدع الرفض كان يهودياً أظهر الإسلام نفاقاً، و دس إلى الجهال دسائس يقدح بها في أصل الإيمان، و لهذا كان الرفض أعظم أبواب النفاق والزندقة.
[ مجموع الفتاوى (4/ 428)] ،
جب نفاق و زندقیت ایک جگہ جمع ہوجائے، تو وہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست و خیرخواہ نہیں ہوسکتے،
خودی روافض کی معتمد و مشہور کتاب قرن رابع کے جھوٹے مستری '' الکشی (ت340هـ) نے رجال الکشي میں لکھا ہے، اور ان کی یہ سلطانی گواہی ان کی نفاق دکھانے کے لئے کافی ہے، اور اس پر تفصیل بحارالانوار والے زندیق ابن زندیق نے لکھا ہے،
'' إن التشيع ، والرفض ، مأخوذ من اليهودية ''.
[رجال الكشي / ص 101 و طبعة جديدة ص 71]،
اسی طرح ان سے پہلے یعنی تیسری صدی میں الأشعري القمي (ت301هـ) اپنی کتاب '' المقالات والفرق'' ص 20 پر لکھتے ہیں:
'' إن أصل الرفض مأخوذ من اليهودية ''،
اسی طرح ان کے ایک اور آقا النوبختي (ت 310هـ) نے اپنی کتاب '' في فرق الشيعة '' ص 44، پر لکھا ہے ،
'' إن أصل الرفض مأخوذ من اليهود ''.
وما علینا الالبلاغ.
از قلم : ابو فارس