الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
اسلام علیکم
کیا کوی بھای یہ بتاسکتے ہے کہ یہ کیسے پتا چلےگا کہ ایک صاع کا وزن اڑھای کلو ہی ہوتا ہے.
میں یہ سوال اس لیے کر رہا ہو کیوں کی میں نے کبھی صاع نہیں دیکھا.@اسحاق سلفی
اسلام علیکم
کیا کوی بھای یہ بتاسکتے ہے کہ یہ کیسے پتا چلےگا کہ ایک صاع کا وزن اڑھای کلو ہی ہوتا ہے.
میں یہ سوال اس لیے کر رہا ہو کیوں کی میں نے کبھی صاع نہیں دیکھا.@اسحاق سلفی
صاع کی تحقیق ۔ شروع از بتاریخ : 03 June 2013 10:25 AM السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ حدیث شریف میں جو صاع کا لفظ آیا ہے، جس سے بہت سے احکام متعلق ہیں، اس کا وزن ہندوستانی قول میں کیا ہوتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیے کہ صاع کا جو لفظ حدیث میں آیا ہے، وہ صاع آنحضرتﷺ کا ہے، اسے صاع حجازی کہتے ہیں، اسی صاع حجازی سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے، صاع عراقی سے نہیں، کیونکہ صاع عراقی آنحضرتﷺ کا صاع نہیں ہے، چنانچہ اس کی تصریح کتب حدیث میں موجود ہے، اور جراء احکام اسی صاع سے ہونا چاہیے، جو صاع آنحضرتﷺ کا ہے، اور اس کا وزن سیروں کے حساب سے یہ ہے، جو مسک الختام شرح بلوغ المرام میں ہے۔
پس صدقہ فطر بسیر پختہ لکھنؤ کہ نود و شش روپیہ است د روپیہ یاز دو ماشہ نصف صاع از گندم ایک آثار و شش چھٹانک وسہ، ماشہ باشد واز جود وچند آن یعنی دو آثار ونیم پاؤ شش ماشہ کہ وزن صاع است و نصف صاع بسیر انگریزی کہ ہشتاد روپیہ چہرہ دار است وہر روپیہ یا زدہ ماشہ وچہار رتی است یک سیر د نیم پاؤ و نیم چھٹانک دیکتولہ وسہ ماشہ باشد انتہیٰ
اور یہ بھی معلوم کرنا چاہیے، کہ اصل صدقہ فطر میں کیل یعنی پیمانہ تانبے کا ہے اور وزن کے قدر کی جو حاجت پڑتی ہے تو صرف استفہار او ستعانۃًلطب حفظ الاحکام کما لا یخفی علی الماہر اور لا محالہ قدر وزن میں قدر قلیل اختلاف معلوم ہوتا ہے، اور حقیقت میں مشکل ہی ہے، ضبط صاع کا ساتھ ارطال وغیرہ کے کیونکہ صاع جو حضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میںتھا، اس سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے، تو وہ پیمانہ معروف و مشہور تھا۔ اب اندازہ و قدر اس کا وزناً ہوتا ہے، ساتھ مختلف ہونے اجناس صدقہ کے مثل حمص و ذرہ وغیرہ کے تو ضروری ہے کہ ایسے پیمانہ سے صدقہ دینا چاہیے۔ کہ موافق صاع و پیمانہ رسول اللہﷺ کے ہو اور جو شخص اس کو نہ پائے، تو لازم ہے کہ اس طرح سے ادا کرے کہ تیقن کامل ہو کہ یہ اس سے کم و ناقص نہیںہو گا، مسلک الختام میں لکھا ہے کہ احتیاطاً در صڈقہ فطر دو سیر انگریزی گندم باید داود صاع از جودو چندآن یعنی دو سیر ویک نیم چھٹانک واحتیاطاً از جو چہار سیر باید وانتہیٰ۔ پس مقدر کرنا صاع کو ساتھ پانچ رطل و ثلث رطل کے بہت قریب الی الصواب ہے، اور کہ صاحب روضہ نے :
((وقد یشکل ضبط الصاع بالارطال فان الصاع المخرج به فی زمن رسول اللّٰہ ﷺ مکیان معروف ویختلف قدرۂ وزناً باختلاف جنس، ما یخرج کالذرة والحمص وغیرہما والصواب ما قاله الدارمی ان الاعتماد علی الکیل بصاع مغائر بالصاع الذی کان یخرج به فی عصر النبی ﷺ ومن لم یجدہٗ لزمه اخراج قدر یتقن انه ادلة البخاری)) اور بعض علماء نے کہا ہے کہ صاع چار لپ یعنی چار بک متوسط آدمی کا ہے، اور یہ تجربہ بھی کیا گیا ہے، پس صحیح اور موافق ہے، صاع رسول اللہﷺ کے کذا فی القاموس وحکاہٗ النووی ایضاً فی الروضۃ۔
اور اہل پنجاب اس امر میں بہت اچھے اور خوب ہیں، کیونکہ ان کے یہاں پیمانہ مثل مد کے پڑوپی ہے، اور مثل صاع کے ٹوپہ ہے، اور وہ اسی پر اجراء احکام وغیرہ کرتے ہیں، فقط واللہ اعلم بالصواب والیه المرجع والمأب۔ (فتاویٰ نذیریہ ص ۱۶ھ ج۱)
صاع کی مقدار ۔ شروع از بتاریخ : 03 June 2013 10:31 AM السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صاع کی مقدار کیا ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صاع شرعی نزدیک ائمہ ثلاثہ وابو یوسف وجمہور اہل علم پنج رطل وثلث است ونزدیک امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ ثمائیہ ارطال بالحجازی وہو القول القدیم لابی یوسف ثم رجع الیٰ قول الشافعی در عمدہ حاشیہ شرح وقایہ نوشتہ در جع ابو یوسف الیٰ قول الشافعی حین دخل المدینۃ ووقف علی ذالک بعد ما کان یقول بقول شیخہٖ ومد شرعی کہ ربع صاع است نزد وائمہ ثلاثہ و ابو یوسف جمہور اہل علم یک رطل وثلث رطل است ونزد امام ابو حنیفہ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ دورطل است۔ حافظ ابن حجر در فتح الباری نوشتہ والمداناء یسع رطلاً وثلثاً بالبغدادی قالہٗ جمہور اہل علم وخالف بعض الحنفیۃ فقالوا المد رطلان مد از مد کفین است یعن آنچہ در کفین از غلاد داشتہ شود آن مداست وہمیں است رطل وثلث رطل۔
’’شرح صاع ائمہ ثلاثہ وابو یوسف اور جمہور اہل علم کے نزدیک ۳/۱۔۵ رطل کا ہے، امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک آٹھ حجازی رطلوں کا ہے، پہلے امام ابو یوسف کا بھی یہی قول تھا، پھر اس سے شافعی کے قول کی طرف رجوع کر لیا، عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ امام ابو یوسف جس وقت مدینہ میں تشریف لائے، اور صاع شرعی کی تحقیق کی تو اپنے شیخ کے قول سے امام شافعی کے قول کی طرف رجوع کیا، مد شرعی جو کہ صاع کا ربع ہے، ائمہ ثلاثہ اور ابو یوسف و جمہور اہل علم کے نزدیک دور طل کا ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں تحریر فرماتے ہیں، کہ مد وہ برتن ہے کہ اس میں ۴/۱۔۱ رطل بغدادی سما جائے، جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے، لیکن بعض حنفی اس کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مد دو رطل کا ہے، (اصل میں) مد مد کفین سے ہے، یعنی جس قدر غلہ ہاتھوں میں آ جائے، وہ مد ہے، اور وہ ۳/۱۔۱ رطل ہے۔‘‘
در مرقاۃ الصعود نوشتہ قال فی المشارق سمی مدا لانہٗ یملاء کفی الانسان اذا مد ہما طعاماً۔ پس صاع چہار بار ملاء کفین است بکفین درمیانہ وہمیں قدر است پنج رطل ومثلث رطل در قاموس نوشتہ الصاع اربعۃ امداد کل مد رطل وثلث قال الداؤد معیارہ الذی لا یختلف اربع مفتات بکفی الرجل الذی لیس بعظیم الکفین ولا صغیر ہمار از لیس کل مکانیوجد فیہ صاع النبی ﷺ انتہیٰ
’’مرقاۃ الصعود میں لکھا ہے، کہ مشارق میں ہے کہ مد کا نام اس واسطے مد رکھا گیا ہے کہ جس وقت انسان اپنے ہاتھوں کو پھیلا دے، تو غلہ مد ان دونوں ہاتھوں کو بھر دیتا ہے، پھر اس حساب سے مد کی مقدار معلوم ہو گئی کہ اگر ہاتھوں کو چار دفعہ بھرا جائے، تو جتنا غلہ ان میںآ جائے وہ مقدار صاع کی ہے۔‘‘
صاحب قاموس میگوید و حبربت ذلک فوجدتہٗ صحیحاً۔ وچہار خفات از گندم، تجربہ معلوم شدہ کہ دو سیر پختہ انگریزی و نصف پاؤ مے شود ہذا علیٰ مذہب الجمہور ونزدیک امام ابو حنیفہ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ کہ صاع ہشت رطل است بایں حساب صاع سہ سیر پختہ و یک نیم پائو انگریزی وزن ہشتاد روپیہ ڈبل است ووزن رطل بحساب مذکور دو آنہ کم سی و دو روپیہ شود درین مسئلہ قول راجح قول جنہور است لہٰذا ابو یوسف بعد از تحقیق صاع نبوی در مدینہ منورہ رجوع از قول شیخ خود بقول جمہور نمود
’’قاموس میں لکھا ہے کہ صاع چار مد کا ہوتا ہے، اور ہر مد ۳/۱۔۱ رطل کا اور داؤد نے کہا کہ معیار اس کا جس میں اختلاف نہیں ہے، وہ چار بک ایک ایسے آدمی کے ہیں، کہ جس کے ہاتھ نہ بڑے ہوں، اور نہ چھوٹے اس واسطے کہ صاع نبوی ہر جگہ میسر نہیں ہو سکتا انتہیٰ۔ اور صاحب قاموس کہتا ہے کہ میں نے اس کو آزمائا تو صحیح پایا (یعنی صاع نبوی کے موافق پایا) اور گیہوں کے چار بک تجربہ سے معلوم کیا گیا ہے، کہ ۲/۱۔۲ سیر انگریزی ہوتے ہیں، اور جمہور اہل علم کے مذہب کے موافق بھی یہی ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک صاع آٹھ رطل کا ہے، اس حساب سے صاع ۲/۱۔۳ سیر انگریزی ہوئے سیر پختہ انگریزی سے مراد اسی روپے کا سیر ہے۔ حساب مذکور سے رطل کا وزن اکتیس روپے چودہ آنے ہوتا ہے، ان مسائل میں راجح قول جمہور ہی کا قول ہے، اسی واسطے امام ابو یوسف نے مدینہ منورہ میں آ کر جب صاع نبوی کی تحقیق کی تو اپنے شیخ (امام ابو حنیفہ) کے قول سے جمہور اہل علم کے قول کی طرف رجوع کیا۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ غزنویہ ص ۲۰۴)