اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اعتراض نمبر17:۔
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ51پر صحیح بخاری سے ایک حدیث نقل کرتا ہے کہ:
صحابی رسول ﷺ کو کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپکو صحبت نبوی نصیب ہوئی اور بیعت رضوان بھی نصیب ہوئی تو براء بن عازب رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ بھتیجے تجھ کو کیا خبر کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کیا کیا بدعتیں جاری کی ہیں ۔۔۔ (بخاری 599/2)
''اورادھر آپ ﷺ نے فرمایا تھا ''من احدث حدثا اواوی محدثا فعلیہ لعنت اللہ ''تو کیا
صحابی یہ لعنت اپنے اوپر فٹ کررہا تھا ۔۔۔۔۔''
جواب:۔
قارئین کرام اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ مصنف کا یہ انداز تحریرحدیث دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے وگرنہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کسی اور بات پر دلالت کرتی ہے اور صحابی کا قول کسی اور معنی پر دلالت کرتا ہے ۔نبی کریم ﷺ کی حدیث جس امر پر دلالت کرتی ہے وہ ہے بدعت شرعی اصطلاح میں دین میں نئے کام کوثواب کی نیت سے جاری کرنا ،اسے شرعی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں ۔رہا مسئلہ صحابی کے قول کا جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کتاب المغازی میں ذکرکیا ہے کہ:
''لقیت البراء بن عازب رضی اللہ عنہ فقلت :طوبی لک ۔۔۔''
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ رقم الحدیث 4170)
''علا ء بن مسیب اپنے والد سے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ملااور میں نے کہا کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کو نبی ﷺ کی صحبت بھی ملی اور بیعت رضوان میں بھی شریک ہوئے تو براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بھتیجے تجھ کو کیا خبر کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ہم نے کیاکیا نئے معاملات کیئے''۔
آخر ی لفظ ''احد ثنا '' سے مصنف نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بدعتی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ مصنف کی تنگ نظری ہے جسے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کھاتے میں ڈال رہا ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ کی''احد ثنا'' سے یہاں مراد نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد کی جنگیں (جو غلط فہمی کی بنا ء پرہوئیں )مثلاً جمل اور صفین وغیرہ نہ کہ بدعت ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری میںاس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ:
''یشیر الی ما وقع لھم من الحروب وغیرھا۔۔۔۔'' (فتح الباری جلد7ص572)
'یعنی صحابی رسول کا ''احد ثنا'' کہنااشارہ ہے ان لڑائیوں کی طرف (جمل صفین وغیر ہ)'
لہٰذامصنف کی علمی خیانت بھی آپ پر عیاں ہے کہ انہوں نے نہ قرآن کوچھوڑا نہ ہی نبی کریم ﷺ کو اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو مصنف کا یہ الزام حدیث دشمنی کی کھلی دلیل ہے جو قابل مذمت ہے ۔