گستاخان صحابہ کا عبرت ناک انجام
مجلہ دعوت اہل حدیث
September 30, 2018
سيدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ .
میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔
(صحيح بخاري : 3673)
نیز ارشاد فرمایا :
مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ .
جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ (
سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2340)
سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ما فرماتے ہیں :
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گذری ہوئی ان کی ایک گھڑی تمہارے زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے ۔(سنن ترمذي : 162،فضائل صحابہ احمد بن حنبلؒ)
قارئین کرام ! مذکورہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو برا بھلا کہنے اور ان کی گستاخی سے منع فرمایا ہے ۔
اس کے باوجود بعض لوگ باز نہ آئے اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ، جس پر اللہ نے انہیں دنیا میں ہی نشانہ عبرت بنا دیا ۔
ہم ایسے بعض واقعات آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ ہم سب کے لیے عبرت ہو ۔
آئیں ملاحظہ فرمائیں ۔
1۔
سیدناحسین رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام
مخضرم تابعی یعنی جاہلیت کا زمانہ پانے والے ، جناب ابو رجاء عطاردي (المتوفی 105 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَحدثنا قرة قال: سمعت أبا رجاء يقول: لا تسبوا عليا، ولا أهل هذا البيت، إن جارا لنا من بني الهجيم قدم من الكوفة فقال: ألم تروا هذا الفاسق ابن الفاسق؟ إن الله قتله، يعني الحسين عليه السلام، قال: فرماه الله بكوكبين في عينه، فطمس الله بصره.
تم علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کو برا بھلا نہ کہو ، ہمارا ایک پڑوسی جو کوفہ سے آیا تھا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا :
تم اس فاسق ابن فاسق کو نہیں دیکھتے جسے اللہ نے ہلاک کر دیا ہے ۔ پس (اس گستاخی کی وجہ سے) اللہ تعالی نے اس کی آنکھ میں دو آسمانی انگارےپھینکے اور اسے اندھا کر دیا ۔
(فضائل الصحابة لاحمد : 972، اور المعجم الکبیر طبرانی)
عبیداللہ بن زیاد کا انجام
قرطبہ کے عظیم محدث علامہ أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر القرطبي (المتوفى: 463 ھ) لکھتے ہیں :
قتل يوم الأحد لعشر مضين من المحرم يوم عاشوراء سنة إحدى وستين بموضع من أرض الكوفة يدعى كربلاء قرب الطف،وقضى الله عز وجل أن قتل عبيد الله بن زياد يوم عاشوراء سنة سبع وستين، قتله إبراهيم بن الأشتر في الحرب، وبعث برأسه إلى المختار، وبعث به المختار إلى ابن الزبير، فبعث به ابن الزبير إلى علي بن الحسين.
عبیداللہ بن زیاد (جس کے حکم سے سیدنا حسین رضی اللہ کو قتل کیا گیا ) اس کے متعلق علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حسین رضی اللہ عنہ کو 61 ہجری میں عاشورہ محرم کے دن قتل کیا گیا تھا ، پھر اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ عبیداللہ بن زیاد کو بھی 67 ہجری کو عاشورہ محرم کے دن ہی موت کے گھاٹ اتارا گیا ، اسے ابراہیم بن اشتر نے ایک جنگ کے دوران قتل کیا اور اس کا سر مختار ثقفی کے پاس بھجوا دیا ،اور پھر مختار نے اس کا سر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس (مکہ ) بھجوادیا "۔
(الاستیعاب : 397/1)
علامہ عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفورى (المتوفى: 1353هـ)
اپنی مشہور عالم تصنیف ( تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ) میں عبید اللہ کے سر میں سانپ گھسنے والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
قال العيني إن الله تعالى جازى هذا الفاسق الظالم عبيد الله بن زياد بأن جعل قتله على يدي إبراهيم بن الأشتر يوم السبت لثمان بقين من ذي الحجة سنة ست وستين على أرض يقال لها الجازر بينها وبين الموصل خمسة فراسخ وكان المختار بن أبي عبيدة الثقفي أرسله لقتال بن زياد ولما قتل بن زياد جيء برأسه وبرءوس أصحابه وطرحت بين يدي المختار وجاءت حية دقيقة تخللت الرءوس حتى دخلت في فم بن مرجانة وهو بن زياد وخرجت من منخره ودخلت في منخره وخرجت من فيه وجعلت تدخل وتخرج من رأسه بين الرءوس ثم إن المختار بعث برأس بن زياد ورءوس الذين قتلوا معه إلى مكة إلى محمد بن الحنفية وقيل إلى عبد الله بن الزبير فنصبها بمكة وأحرق بن الأشتر جثة بن زياد وجثت الباقين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے اس ظالم اورفاسق عبداللہ بن زیاد کو (دنیا میں ) یہ سزا دی کہ 22 ذی الحجہ بروز ہفتہ سنۃ 66 ہجری ،عراق کے علاقے موصل سے پانچ فرسخ کے فاصلہ پر۔۔ جارز۔۔ نامی جگہ پر ابراہیم بن اشتر کے ہاتھوں قتل ہوا، ابراہیم بن اشتر کو مختار ثقفی نے عبیداللہ سے لڑائی کیلئے بھیجا تھا ، اس لڑائی میں جب ابنِ زیاد اور اس کے ساتھی قتل کردیئے گئے تو ان کے سر اکٹھے کرکے مختار ثقفی کے پاس لا کر ایک جگہ رکھ دیئے گئے ، ایک چھوٹا سانپ سروں کے بیچ سے گھومنے لگا ،اور ابنِ مرجانہ یعنی عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر اس کے منہ سےنکل آیا ، پھر اس کے نتھنوں میں داخل ہو گیا اور اس کے منہ سےنکل آیا ، اس طرح وہ سانپ اس کے سر میں پھرتا رہا ،پھر مختار ثقفی نے ابن زیاد اور اس کے مقتول ساتھیوں کے سَر مکہ مکرمہ محمؒد بن حنفیہ ،یا سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیئے گئے ۔۔۔۔
عمارہ بن عمیر بیان کرتے ہیں :
جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے:
قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہو گیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا ، اس طرح دو یا تین بار ہوا ۔(سنن ترمذی : 3780)
مشہور مفسر اور مؤرخ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما ما روى من الأحاديث وَالْفِتَنِ الَّتِي أَصَابَتْ مَنْ قَتَلَهُ فَأَكْثَرُهَا صَحِيحٌ، فإنه قل من نجا من أولئك الذين قتلوه من آفة وعاهة في الدنيا، فلم يخرج منها حتى أصيب بمرض، وأكثرهم أصابهم الْجُنُونُ.
سیدناحسین رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے بارے میں جو احادیث اور مصائب بیان کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر صحیح ہیں ، جن لوگوں نے آپ کو قتل کیا ان میں سے (اس دنیا میں )بہت کم ہی کوئی آفت و مصیبت سے بچا ہوگا ، ان میں سے اکثر پاگل ہو گئے اور کوئی کسی موذی مرض میں مبتلا ہوگیا ۔
(البداية والنھایة : 202/8)
2۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام
قاضی ابو طیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانوروں کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے متعلق سوال کیا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی ۔ تو وہ خبیث نوجوان بولا :
أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا .
ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے ۔ قاضی ابو طیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس نوجوان نے ابھی اپنی بات پوری ہی نہیں کی تھی کہ اتنی میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا ۔ بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا ۔(المنتظم : 106/18)
3۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام
سيدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔
اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کرکے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ : وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔
چنانچہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلاوہ بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا : اے ابواسحاق ! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ آپ اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو ؟ اس پر آپ نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! میں تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا ۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں ( قراءت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔
تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ابواسحاق ! مجھ کو آپ سے یہی امید تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا :
أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا، فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ ، وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ : اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ : شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ : فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ.
جب تم لوگوں نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ ہی فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ (یہ سن کر) سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا : ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے ۔ عبدالملک نے بیان کیا : میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔ (صحیح بخاری : 755)
4 ۔
سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی گستاخ عورت کا انجام
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک خاتون) اروی بنت اویس نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور مروان بن حکم کے پاس مقدمہ لے کر گئی تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا میں اس بات کے بعد بھی اس کی زمین کے کسی حصے پر قبضہ کر سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ اس ( مروان ) نے کہا : آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے : جس نے کسی کی زمین ایک بالشت بھی ظلم سے حاصل کی اسے سات زمینوں تک کا طوق پہنایا جائے گا۔ تو مروان نے ان سے کہا : اس کے بعد میں آپ سے کسی شہادت کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد انہوں (سعید ) نے کہا :
اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَعَمِّ بَصَرَهَا، وَاقْتُلْهَا فِي أَرْضِهَا، قَالَ: فَمَا مَاتَتْ حَتَّى ذَهَبَ بَصَرُهَا، ثُمَّ بَيْنَا هِيَ تَمْشِي فِي أَرْضِهَا، إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ .
اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اسے اس کی زمین ہی میں ہلاک کر دے۔ عروہ نے کہا : وہ ( اس وقت تک ) نہ مری یہاں تک کہ اس کی بینائی ختم ہو گئی، پھر ایک مرتبہ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں جا گری اور مر گئی۔
(صحيح مسلم : 1610)
محمد بن زید راوی کہتے ہیں :
فَ
رَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا .
میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔ (صحيح مسلم : 1610)
5۔
امیرالمومنین سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں بیت اللہ شریف کا طواف کر رہا تھا کہ ایک آدمی کو دیکھا ، وہ دعا مانگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا : اے اللہ ! مجھے معاف کر دے لیکن میرا گمان ہے کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا ۔
میں نے کہا : اے اللہ کے بندے ! میں تجھے کیا کہتے ہوئے سن رہا ہوں ؟ ایسا تو کوئی نہیں کہتا ۔ اس نے کہا :
كُنْتُ أَعْطَيْتُ لله عَهْدًا إِنْ قَدَرْتُ أَنْ أَلْطِمَ وَجْهَ عُثْمَانَ إِلَّا لَطْمَتُهُ، فَلَمَّا قُتِلَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ في البيت والناس يجيئون فيصلون عَلَيْهِ، فَدَخَلْتُ كَأَنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ خَلْوَةً فرفعت الثوب عن وجهه فلطمت وجهه وسجيته وَقَدْ يَبِسَتْ يَمِينِي. قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: فَرَأَيْتُهَا يابسة كأنها عود.
میں نے اللہ سے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر مجھے قدرت ہوئی تو میں عثمان رضی اللہ عنہ کو تھپڑ ماروں گا (ان کی زندگی میں تو مجھے ایسا کوئی موقعہ نہیں ملا) لیکن جب وہ قتل ہو گئے اور ان کی چار پائی گھر میں رکھی گئی تو لوگ آتے رہے اور آپ پر جنازہ پڑھتے رہے تو میں بھی داخل ہوگیا گویا کہ میں بھی جنازہ پڑھنا چاہتا ہوں ۔
میں نے دیکھا کہ جگہ خالی ہے تو کفن کا کپڑا اٹھایا اور تھپڑ مار دیا اور پھر چہرہ ڈھانپ دیا ۔ اب میرا یہ دایاں ہاتھ سوکھ گیا ہے ۔
امام محمدبن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اس بد بخت کا ہاتھ دیکھا وہ لکڑی کی طرح سوکھا ہوا تھا ۔
(تاريخ دمشق 141/80 البداية والنهاية 191/7)
آپ رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکے۔
تاریخ و سیرت کے مشہور محقق علامہ صلابی نقل کرتے ہیں :
وإن المتتبع لأحوال أولٰئك الخارجين علي عثمان رضي الله المعتدين عليه يجد أن الله تعالي لم يمهلهم، بل أذلهم و أخزاهم وانتقم منهم فلم ينج منهم أحد .(عثمان بن عفان شخصيته و عصره للصلابي : 419)
عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والے ان ظالم باغیوں کے حالات کا جو بھی جائزہ لے گا اس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالی نے ان ظالموں کو نہیں بخشا ، بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اسی دنیا میں ہی رسوا و ذلیل کیا اور انتقام لیا ، ان میں سے کوئی بھی بچ نہیں سکا ۔
6۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے گستاخ کا انجام
ممتاز اہل حدیث عالم شیخ سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ہمارے گھر میں میرا حقیقی ماموں (جو رافضی تھا) جب فوت ہوا تو اس سے اس طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے کوئی کتا بھونک رہا ہو ۔ چہرے کا رنگ بدل گیا کیونکہ اس کا وطیرہ تھا کہ جب گھر میں کوئی کتا داخل ہوتا تو کہتا (معاذ اللہ) ابوبکر آگیا عمر آگیا ۔ اتنی گندی زبان استعمال کرتا تھا اس لیے جب وہ مرا تو اس سے کتے کی آوازیں آتیں تھیں ۔
(خطبات اہل حدیث ص : 226)