صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات اور سلف کا موقف
امام محمد بن الحسین الآجری کا فرمان :
امام ابو بکر محمد بن الحسین بن عبداللہ آجری المتوفی ۳۶۰ ھ نے اپنی معروف کتاب‘‘ کتاب الشریعۃ’’ میں (باب نمبر ۲۵۷ص ۹۳۲نسخہ مر قمہ) باب یہی قائم کیا ہے۔
‘‘باب ذکر الکف عما شجر بین أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و رحمۃ اللہ علیھم أجمعین’’ کہ یہ باب اس کے متعلق ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان ہونے والے اختلافات سے گریز کیا جائے اللہ تعالیٰ کی ان سب پر رحمتیں ہوں۔’’ امام آجری نے اس باب میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور اپنے اس موقف پر بہت سے دلائل ذکر کئے ہیں جو دس صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان دلائل سے قطع نظر ہم یہاں صرف ان کے موقف کا خلاصہ پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
‘‘فضائل صحابہ کرام و اہلِ بیت کے سلسلے میں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر غور و فکر کرنےو الے پر لازم ہے کہ وہ ان سب سے محبت کرے ان کے بارے میں رحمت اور بخشش کی دعا کرے اور ان کی محبت کو اللہ کے ہاں اپنے لئے وسیلہ بنائے، ان کے مابین جو اختلافات ہوئے ہیں، ان کو ذکر نہ کرے نہ ان کی چھان بین کرے اور نہ ہی ان پر بحث کرے ہمیں تو ان کے بارے میں استغفار کرنے اور ان کے حق میں رحمت کی دعا کرنے، ان سے محبت اور ان کی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید، احادیث رسول اور ائمہ مسلمین کے اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے مابین مشاجرات (اختلافات)کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت اور رشتہ کا شرف حاصل ہے ان کے اسی شرف صحبت کی بنا پر اللہ تعالی ٰ نے انہیں معاف کر دینے کا اعلان فرمایا ہے اور اپنی کتاب میں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی قیامت کے دن شرمسار نہیں کروں گا، ان کے اوصاف کا اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی بہترین تعریف کی ہے، ان کی توبہ کا اور اپنی رضا و خوشنودی کا ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں تو ان مشاجرات کے بارے میں محض اپنی معلومات میں اضافہ چاہتا ہوں تا کہ میں ان حالات سے بچ سکوں جن میں وہ مبتلا ہوئے ہیں ، تو اسے سمجھایا جائے گا کہ تم تو فتنہ کے طلب گار ہو کیونکہ تم ایسی بات کے درپے ہو جو تمہارے لئے نقصان کا باعث ہے، کسی فائدہ کی اس سے کوئی توقع نہیں۔ اس کی بجائے اگر تم فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کی صورت میں اپنی اصلاح کی کوشش کرتے تو یہ تمہارے لئے بہتر تھا بالخصوص اس دور میں جب کہ بدعات ضالہ عام ہو رہی ہیں، لہذا تمہارے لئے یہی بہتر تھا کہ تم اپنے کھانے پینے، اپنے لباس کی فکر کرو کہ یہ کہاں سے آیا ہے، یہ روپیہ پیسہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں خرچ کیا جا رہا ہے، نیز ہمیں اس بارے میں بھی خطرہ ہے کہ مشاجرات صحابہ میں تمہاری چھان بین اور بحث و تکرار کے نتیجہ میں تمہارا دل بدعت کی طرف مائل ہو جائے گا شیطان کے ہاتھوں تم کھیلنے لگو گے۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ ان سے محبت کرو، ان کے لئے بخشش طلب کرو اور ان کی اتباع کرو، اگر تم ان کو برا کہنے لگو گے، اور ان سے بغض و نفرت کرنے لگو گے، باطل راستہ پر چل نکلو گے، جو شخص بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح و توصیف کرتا ہے بعض کی مذمت کرتا ہے اور ان پر طعن و تشنیع کرتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہے کیونکہ اس پر تو سب صحابہ کرام سے محبت اور سب کے بارے میں استغفار واجب ہے۔ (الشریعۃ ص۲۴۸۵ ، ۲۴۹۱ج۵)
امام ابو بکر الآجری رحمہ اللہ کے اس کلام پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ بلا ریب مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار کا نتیجہ وہی ہے جس کی نشاندہی انہوں نے کی ہے، اور اسی سے دیگر علمائے امت نے بتکرار خبردار کیا۔’’[مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف کا موقف ص ۴۱ ، ۴۲]
امام نووی کا فرمان:
امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی المتوفی ۶۷۶ھ شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں:
‘‘و مذھب أھل السنۃ و الحق إحسان الظن بھم و الإمساک عما شجر بینھم و تاویل قتالھم، و إنھم مجتھدون متأولون لم یقصد و امعصیۃ ولا محض الدنیا، بل اعتقد و اکل فریق أنہ المحق و مخلافہ باغ فوجب قتالہ لیر جع الی أمر اللہ، وکان بعضھم مصیباً و بعضھم مخطئاً معذوراً فی الخطأ لأنہ بإجتھاد و لمجتھد إذاأ خطألا إثم علیہ وکان علی رضی اللہ عنہ ھو المحق المصیب فی ذلک الحروب ھذا مذھب أھل السنۃ و کانت القضایا مشتبۃ حتی أن جماعۃ من الصحابۃ تحیرو ا فیھا فاعتزلو االطائفتین ولم یقاتلو اولو تیقنو االصواب لم یتأ خرواعن مساعدتہ’’
(شرح صحیح مسلم ص ۳۹۰ج۲، کتاب الفتن ، باب إذا التقی المسلمان بسیفیھما إلخ)
‘‘اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔’’
(شرح مسلم ص۲۷۲ج۲)
https://www.tohed.com