جزاك الله خيرا
ليكن سوال يہ تھا جناب کہ محدیثین نے صحابہ کے خلاف روایت بیان ہیکیوں کیا اگر یہ غلط ہے تو
یہ ایک دوست کی تحریر ہے، ملاحظہ کیجیے۔
محدثین نے مشاجرات صحابہ والی احادیث و آثار کو اپنی کتب میں کیوں ذکر کیا ؟
اس بات کو سمجھنے سے پہلے چند بنیادی باتیں سمجھ لیں :
1 _ تمام صحابہ کرام سے اللہ تعالی راضی ہوگیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ﴿ و کلا وعد اللہ الحسنی ﴾[ الحدید ]
2 _ اس شبہے کا کوئی امکان نہیں کہ جس کو اہل علم نے صحابی شمار کیا ہے ( کسی کا صحابی ہونا کیسے معلوم ہوتا ہے اس کے متعدد طریقے ہیں ) وہ منافق ہو _ یہ امکان قطعاً غلط ہے _ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ما کان اللہ لیذر المؤمنین علی ما انتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب ﴾ [ آل عمران : 179 ]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ یا ایھا النبی جاھد الکفار و المنافقین و اغلظ علیھم ﴾
اسی طرح فرمایا : ﴿ و لتعرفنھم فی لحن القول ﴾
نیز اگر اللہ تعالیٰ کسی منافق کا نفاق چھپا لے اور اس کو صحابی شمار کیا جاتا ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کے حق می بہت سے محظورات لازم آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت ، کمال ، جود ، رحمت ، قدرت ، قدسیت اور سبحانیت وغیرہ کےمنافی ہیں اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ ان سے پاک ہے : مثلاً : لوگوں کو ایسی چیز کا مکلف بنانا جس کی ان میں استطاعت نہیں ، دین کو لوگوں پر خلط ملط کر دینا ، قول و فعل میں تضاد ، قرآن کریم اور سنت نبویہ کی عدم حفاظت وغیرہ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں " کہ فلاں حدیث بیان کرنے والا صحابی تمھیں کیا پتا کہ منافق ہو " وہ نہ اللہ تعالیٰ کی قدر جانتے ہیں نہ اس کے نبی کہ نہ صحابہ کی اور نہ ہی اللّٰہ تعالیٰ کے نازل شدہ دین کی _
3 _ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے آپس میں ہونے والے مشاجرات کا یہی حکم ہے کہ اس پر سکوت اختیار کیا جائے ، یہی اصل ہے _ عوام کے لیے بھی اور علماء کے لیے بھی ، بالخصوص عامۃ الناس پر تمام احوال میں یہی واجب ہے _
4 _ صحابہ کرام کی نیکیاں سمندر کی مانند ہیں اور اغلاط گھاس پُھوس کی طرح جو ان نیکیوں کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں
5 _ ادنی سے ادنی صحابی کے فضل کو بھی بعد والا کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا نہ تابعین سے اور نہ بعد والوں سے چاہے کوئی علم میں بہت اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے _
اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکثیر سواد میں ہر ہر صحابی کا ہاتھ ہے جس سے آپ کا رعب ایک ماہ کی مسافت تک پہنچ گیا ،
اور ہر ہر صحابی کفار کے گلے میں کانٹا تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : لیغیظ بھم الکفار
اور صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے مس شدہ پانی پر صحابہ لپکتے اور نیچے نہ گرنے دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنتے ہوے سر ایسے جھکا لیتے جیسے سر پر پرندے ہوں
اس صورت حال سے کفار میں رعب پیدا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت بیٹھ گئی
یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح تعظیم کرتے تھے ان میں سے اکثر کے نام بھی معلوم نہیں
لیکن اللہ کی قسم ان کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو رعب پھیلا اس کے مقابلے میں ہماری ساری زندگی کے اعمال ہیچ اور حقیر ہیں ، رضی اللہ عنھم و رضوا عنھم
یاد رکھیں کہ کسی بھی بڑے آدمی کی بعض چیزیں اس کے مجموعی افراد سے پیدا ہوتی ہیں ، ایک دو افراد کا کام نہیں ہوتا
6 _ کسی بھی مسلمان کی غیبت حرام ہے ، اور علماء کے گوشت زہر آلود ہیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تو علماء سے بھی بڑھ کر ہیں _
غیبت وہ ہوتی ہے جو پیٹھ پیچھے کی جائے اور جس کے متعلق کی جائے وہ اسے نا پسند کرتا ہو جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اور کوئی بھی اپنے عیب ذکر کرنا پسند نہیں کرتا
جب عام آدمی کی غیبت حرام ہے تو صحابہ کی غیبت کرنا تو بالاولی حرام ہوئی کیونکہ اس میں مسخ دین بھی ہے اور مسخ عظمت رجال الدین بھی
7 _ اللہ تعالیٰ نے فحش کام کرنے والے کے بارے میں فرمایا : ﴿ والذان يأتينها منكم فآذوهما فان تابا و اصلحا فاعرضوا عنهما ان الله كان توابا رحيما ﴾ [ النساء : ١٦ ]
یہ شروع میں حکم تھا بعد میں زنا کی مخصوص حد مشروع ہو گئی
اس میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کے بعد فحش کام کرنے والے سے اعراض کا حکم دیا ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے نہ زبان سے نہ ہاتھ سے حالانکہ ان کی توبہ ان کا اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے ہمیں دل کا صدق معلوم نہیں
تو جب عامی کے لیے یہ حکم ہے تو صحابہ کرام جن کے گناہ معاف ہو چکے ہیں ان کے بارے میں تکلیف دینے والی باتیں کرنا تو بالاولی غلط ہوا
8 _ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی جھگڑے ذکر کرنے میں عام آدمی کے ذہن میں دین کی عظمت اور حقانیت میں شکوک وشبہات ڈالنا ہے ، اور صحابہ کرام کے معاملے کو حقیر سا بنا دینا ہے
جب کہ صحابہ کرام کسی کو وہ بات بتانے سے منع کرتے تھے جو اس کی عقل میں نہ آ سکتی ہو _
اس کی متعدد امثلہ ہیں _
9 _ کسی بات کے لوگوں تک پہنچنے پر انسان پر اس کے سلبی پہلو پیدا ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بسا اوقات بعض باتوں کو عام نہیں کرتے تھے _ حالانکہ بات حق ہوتی تھی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے بڑھ کر حق کیا ہو سکتا ہے
جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ لوگوں کو بتا دو کہ جو بھی کلمہ پڑھے گا جنت میں جائے گا پھر اس بات کو عام کرنے سے منع کر لیا کہ لوگ توکل کر کے عمل کرنا ہی نہ چھوڑ دیں
حالانکہ کہ بعض صحابہ کو آپ نے یہ بات خود بتائی ہے ، جیسا کہ و ان زنی و ان سرق والی حدیث میں ہے
ایسی احادیث کو چھپانا بھی غلط ہے اور بس یہی بیان کرتے جانا بھی غلط ہے ، ایسی احادیث میں سنت یہ ہے کہ ان کے ایجابی اور سلبی تاثیرات کو مد نظر رکھ کر اور لوگوں کے احوال مد نظر رکھ کر بیان کی جائیں
بالا بات سے معلوم ہوا کہ بات کسی تک پہنچنے پر سلبی پہلو پیدا ہونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مد نظر رکھتے تھے
تو صحابہ کرام کے مشاجرات ذکر کرنے کے بہت سے سلبی پہلو ہیں اور مقابلے میں بڑی مصالح موجود نہیں اس لیے ان کو ذکر نہیں کیا جائے گا _
10 _ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ صحابہ کرام کے لیے بخشش مانگیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دل میں صحابہ کے لیے کینہ نہ پیدا کرے
فرمایا : ﴿ والذین جاؤوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا و لاخواننا الذين سبقونا بالايمان ولا تجعل فى قلوبنا غلا للذين آمنوا ربنا انك رؤوف رحيم ﴾ [ الحشر ]
11 _ ان کی غلطی اگر صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو احسن ترین عذر پر اسے محمول کیا جائے گا نہ کہ بد گمانی کی جائے گی ، بد گمانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسے بھی سب سے جھوٹی بات قرار دیا ہے _
12 _ مذھب سلف صالحین بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام کے مشاجرات ذکر نہ کیے جائیں _
اس کی صرف چند امثلہ پیش کرتا ہوں :
ا : امام مالک کے شاگرد ابن ابی حسان الیحصبی سے ابوبکر و عمر اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں تفاضل کے متعلق پوچھا گیا تو کہنے لگے :
یہ نہ قریش کا دین ہے نہ عرب کا _ یہ اہل قم ( روافض ) کا دین ہے _ [ ریاض النفوس 287/1 نقلا عن المغربیہ ]
جب یہ ثابت شدہ تفاضل سے منع کر رہے ہیں کہ اس سے دوسرے کی تنقیص کا وہم نہ ہو تو صحابہ کرام کی صرف تنقیص کرنا تو بالاولی ممنوع ہوا
حالانکہ یہ خود تفاضل کے قائل تھے _
ب : امام احمد مشاجرات صحابہ والی احادیث سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے : اس سے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے - [ السنہ للخلال : 816 ]
ت : امام احمد جب ایسی احادیث سنتے تو کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے حتی کہ ایسی احادیث گزر جاتیں
[ السنہ للخلال : 803 ]
ث : امام احمد فرماتے ہیں : جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تنقیص کرتا ہے اس کے دل میں کوئی بری چیز داخل ہوئی وی ہے
ج : عمر بن عبد العزیز رحمہ اللّٰہ سے جنگ جمل وغیرہ کے متعلق سوال ہوا تو کہنے لگے اللہ نے میرے ہاتھوں کو اس سے بچایا ہے تو میں اپنی زبان کے لیے بھی اس میں غوطہ لگانے سے منع کرتا ہوں
ح : حرب بن اسمعیل کرمانی
خ : ابن ابی زید القیروانی
د : ابو حاتم رازی و ابو زرعہ رازی اور انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ہم نے حجاز ، عراق ، مصر ، شام ، یمن اور تمام شہروں میں علماء کو اسی عقیدے پر پایا ہے
ذ : ابن بطہ
ر : امام قرطبی
ز : ابن کثیر
س : ابن حجر العسقلانی
ش : ابو عثمان الصابونی
ص : عوام بن حوشب ( الابانۃ الصغریٰ : 220 )
ض : حمزہ الزیات ( طبقات المحدثین باصفھان 110/2 نقلا عن حاشیۃ الابانہ )
ع : ابن ابی زمنین
غ ابن قدامہ
ان سب علماء نے اس پر نص بیان کی ہے کہ صحابہ کرام کے مشاجرات ذکر نہیں کیے جائیں گے _
ان کے علاوہ بھی بہت سارے علماء نے یہی بات کی ہے جن کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا شمار ایک مشکل کام ہے
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کے محدثین کرام نے ایسی روایات کیوں ذکر کیں ؟
پہلی بات : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کی اتباع کا اللہ نے حکم نہیں دیا اور انبیاء کے علاوہ کوئی معصوم بھی نہیں ، اس لیے حق واضح ہو جانے پر فلاں فلاں کے عمل کو دیکھ کر حق قبول نہ کرنا گمراہی ہے
دوسری بات : صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مشاجرات میں خوض کرنے والے اور اس سے مشغول ہونے والے اکثر اخباری لوگ ہوں ، کبیر علم والے نہیں کہ وہ علم میں امامت کے درجے پر ہوں
تیسری بات : صحابہ کرام کے مشاجرات دو اقسام کے ہیں جیسا کہ طریفی حفظہ اللہ نے خراسانیہ میں ذکر کیا ہے
ایک وہ جس میں فقہ کا مدخل ہے دوسرے وہ جس میں اعتبار اور عبرت کا مدخل ہے ، کیوں کہ جو فاضل میں جائز ہے وہ مفضول میں بھی جائز ہے
ان دو اقسام کی طرف بعض اوقات اہل علم محتاج ہوتے ہیں خاص کر وہ جو صحابہ کے اقوال کو حجت سمجھتے ہیں اور اس میں تو کسی کا اختلاف ہی نہیں کہ صحابہ سب سے بڑھ کر قرآن کی تفسیر جو جاننے والے تھے اور ان کی فقہ اور اقوال سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے ، اور اس احتیاج کے باوجود محدثین تنقیص ، یا سب و شتم کے لیے ان مشاجرات کا ذکر نہیں کرتے ، اور تمام صحابہ کو مجتہد معذور یا مجتہد ماجور جانتے ہیں
اس سے معلوم ہوا کہ محدثین کا ان مشاجرات کو ذکر کرنے کا عامی سے کوئی تعلق نہیں ، نہ ہی اس کے سامنے یہ مشاجرات ذکر کیے جائیں گے اور نہ ہی محدثین کا یہ طرز عمل اس کے لیے دلیل ہے کہ انھوں نے مشاجرات ذکر کیے ہیں تو میں کیوں نہ کروں
اسی لیے آپ دیکھیں کہ کسی بھی معتبر امام نے مشاجرات صحابہ پر کتاب نہیں لکھی ہاں دفاع کرنے کے لیے ضرور لکھا ہے کہ کوئی اگر کسی کے مقام کو زیادہ بلند کر رہا ہے کہ دوسرے کی تنقیص ہو یا کسی کی مباشرۃ تنقیص کر رہا ہے تو دفاع ضرور کیا ہے
بعض اوقات مشاجرات قسم کی اشیاء کا ذکر تبعا آ جاتا ہے جسے محدثین حدیث میں ذکر کر دیتے ہیں ، وہ موضوع سے متعلق بات نہیں ہوتی
اسی لیے حدیث کی کسی کتاب میں یہ مشاجرات سے متعلق ابواب نہیں ملیں گے _
محدثین کا منھج جاننے کے لیے یہ بات بھی جان لیں کہ محدثین نے صحابہ کے دفاع اور فضائل پر مستقل کتب لکھی ہیں جیسے امام نسائی ، امام احمد اور امام دارقطنی وغیرہ _ اگر یہ ان مشاجرات کو عام ذکر رکنا مصلحت سمجھتے ہوتے تو مشاجرات کو بھی اسی طرح جمع کرتے نشر کرتے ، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا _
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشاجرات والی احادیث کو ذکر کرنے کا شوق نہیں رکھتے نہ اس کا عقیدہ رکھتے ہیں
چوتھی بات : جیسا کہ ہم نے کہا کہ صحابہ کرام کی غیبت سخت حرام ہے ، اور غیبت سے ضرورت کے لیے مستثنیٰ امور بقدر ضرورت ہی مستثنیٰ ہیں ، اس لیے جہاں ضرورت شرعی نہیں وہاں غیبت سے مستثنی بات بھی نہیں _
اور عوام کے سامنے ، یا عوام کے لیے لکھی گئی کتب ، یا تنقیص کے لیے ، یا جس سے فساد پیدا ہو یہ سب نہ شرعی ضرورت ہے نہ دین میں سے ہے ، بلکہ یہ صرف گمراہی ہے۔
موہب الرحیم