السلام علیکم۔
صحابی درخت کا ایک قصہ بہت مشہور ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم جب 12 برس کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ تجارت کے لیے گئے تو وہاں ایک درخت نے آپکو پہچان لیا کہ یہ آخری نبی ہیں تو اس نے اپنی شاخیں پھیلا دیں۔ وہ درخت آج بھی موجود ہے اور لق دق صحرا میں اکلوتا درخت ہے۔ اس درخت کو آج صحابی درخت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس واقعے کا ذکر الرحیق المختوم میں بھی ہوا مگر وہاں ساتھ لکھا گیا کہ اسکی اسناد مشکوک ہیں۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ صحیح یا غلط، اس روایت کا کہاں ذکر ہے، کونسی حدیث کی کتاب یا تاریخ کی کتاب میں یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے ؟ اس بات سے قطع نظر کہ اسکی سند ٹھیک ہے یا غلط برائے مہربانی مجھے یہ بتا دیں کہ اسکا ذکر کہاں موجود ہے۔
اسکے بعد، اگر محدثین کے نزدیک اسکی سند ضیعف یا کوئی بھی ایسا معاملہ ہے کہ جسکی وجہ سے اس "صحابی درخت" کی کہانی ایک فسانہ ثابت ہوتی ہو تو وہ بھی بتلا دیں اور اگر اسکی سند صحیح کے درجے کو پہنچتی ہو تو اسکے بارے میں بھی برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔
شکریہ۔
وعلیکم السلام و رحمت الله -
"صحابی درخت" سے متعلق روایات اور واقعہ بحیرا راہب ایک منگھڑت اور خود ساختہ قصّہ ہے - یہ مبالغات پر مبنی ہے لہذا زبان زد عام ہے- پہلی بات تو یہ کہہ
صحابی رسول کی تعریف انسان پر لاگو ہوتی ہے نا کہ درختوں اور دیگر بے جان اشیاء پر -روایات کے مطابق سفر شام میں ایک درخت نے آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کو نبی پہچان کر سجدہ کیا- اس وقت آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کی عمر ١٢ سال تھی- جبکہ آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کو تو اس وقت خود بھی معلوم نہ تھا کہ آپ صل الله علیہ وآ له وسلم الله کے نبی ہیں- یا نبی بناے جانے والے ہیں - تو وہ درخت صحابی کیسے ہو گیا ؟؟ کیا وہ آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کے سامنے آپ کی ہستی پر ایمان لایا تھا اور اس نے آپ کی نبوت کا اقرار کیا تھا ؟؟- جو کہ حقیقت میں ایک انسان یا جن صحابی کا امتیاز ہے- پھر یہ کہ درخت نے روایات کے مطابق آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کو نبی پہچان کر باقاعدہ سجدہ کیا تھا-جب کہ کسی صحابی رسول سے نبی صل الله علیہ وآ له وسلم کو سجدہ کرنا ثابت نہیں- تو اس کو "صحابی درخت" کہنا چہ معنی دارد؟؟
مزید یہ کہ واقعہ بحیرا راہب تاریخ و احادیث کی کتب میں پایا جانے والا مشہور و معروف قصّہ ہے جو امّت میں کافی زبان زد عام ہے- لیکن اس قصّے سے متعلق روایات کی اسنادی حیثیت کافی مخدوش ہیں- یہ واقعہ مختلف متن کے ساتھ سیرت محمّد بن اسحاق، امام حاکم کی مسترک حاکم، ترمزی ، واقدی کی فتوح الشام ، ابن کثیر البداية والنهاية وغیرہ موجود ہے - کہیں روایات میں درختوں، نباتات ، پتھروں کا نبی کریم کو سجدہ کرنے کا ذکر ہے- تو کہیں اس کے بغیر ہی بحیرا نامی راہب کا نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم کے ساتھ سوال و جواب کا ذکر ہے-
اس واقعہ کی اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہیں:
امام ذھبی اس روایت پر مستدرک کی تعلیق میں کہتے ہیں
أظنه موضوعا فبعضه باطل ( گمان ہے یہ گھڑی ہوئی ہے اور بعض باطل ہے)-
سیرت ابن اسحاق میں یہ قصّہ بغیر سند کے بیان ہوا ہے- محدث ابن اسحٰاق نے کہیں یہ بیان نے کیا کہ اس نے یہ قصّہ کس سے سنا ؟؟-
ترمزی میں بیان کردہ یہ روایت ابو موسیٰ الاشعری سے مروی ہے - لیکن ابو موسیٰ اشعری نے اس واقعہ کو کس سے سنا یہ ثابت نہیں- کیوں کہ روایت میں یہ نہیں ہے کہ ان کو نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم نے خود اس قصّے کے بارے میں بتایا ہو کہ جب میں ١٢ سال کا تھا تو اس طرح بحیرا راہب سے ملا- اور اس نے مجھ سے فلاں فلاں سوال و جواب کیے-حافظ ابن کثیر میں اس روایت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ترمذی ، حاکم ، بیہقی اور ابن عساکرنے بیان کیا ہے اس میں بعض عجیب باتیں ہیں،یہ مرسلات صحابہ میں سے ہے اس لیے کہ حضرت ابوموسی اشعری جو اس کے راوی ہیں غزوہ خیبر کے سال تشریف لائے تھے۔ اصطلاحات حدیث کی رو سے یہ حدیث معلل ہے-
مزید یہ کہ قرانی نص سے بھی اس بات کا پتا چلاتا ہے کہ آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کو ہرگز اس بات کا علم نہ تھا وہ نبی بناے جانے والے ہیں نا بچپن میں نہ ٤٠ سال کی عمر میں پہلی وحی نازل ہونے تک -الله رب العزت کا فرمان ہے کہ :
”وَمَا کُنتَ تَرْجُو أَن یُلْقَی إِلَیْْکَ الْکِتَاب.“ (القصص:۸۶)
اورآپ ہرگز اس کے امیدوار نہ تھے کہ آپ پر کتاب نازل کی جائے گی۔
دوسری صورت میں مشرکین مکہ کہتے کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے ،اس وقت یہ سارے مضامین ان سے سیکھ لیے تھے -اگر اس واقعہ میں صداقت ہوتی تو یہ بات مکہ سے لے کر شام تک اور شام سے لے کے مکہ تک تو مشہور ہو ہی جاتی-
بظاھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راہب بحيرا ایک فرضی کردار ہے جس کے وجود پر کوئی دلیل نہیں- راہب بحيرا کا ذکر اس حوالے سے کتاب "الفتن" Apocalypse of Bahira میں کیا گیا ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ اس کی ملاقات عرب میں معبوث محمّد نامی شخص سے ہوئی جو شام کی طرف محو سفر تھا اور اس کو کوہ طور پر مکاشفہ آیا کہ عربوں میں نبی آئے گا. اس کتاب کو عیسائیوں نے تخلیق کیا کیونکہ بحيرا ایک نسطوری عیسائی تھا- یعنی کیتھولک چرچ کا مخالف اور اس نے نبی کو عیسایت کے بارے میں معلومات دی تھیں یہ کردار اصل میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عیسائیوں کا بہتان تھا کہ انہوں نے اس راہب سے سیکھا تھا-
اس موضوع سے متعلق مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل لنک بھی مفید رہے گا-
https://aljumuah.com/the-story-of-bahira-the-monk-fact-or-fiction-1-aataai-gazi-mahbub/