- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
صححہ الحاکم و وافقہ الذہبي
کا تحقیقی جائزہ
از: حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
(اللہ تعالی محترم خبیب صاحب کے علم میں برکت فرمائے کہ وہ قیمتی بحوث پیش کرتے رہتے ہیں امین )
الحمد للّٰہِ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خیر الأنام محمد بن عبد اللّٰہؐ ومن والاہ۔ أما بعد:
امام حاکمa کا اسم گرامی محمد بن عبداللہ بن حمدویہ ہے۔ جو معروف امام، ناقد، حافظ، علامہ اور شیخ المحدثین تھے۔ کنیت ابو عبداللہ ابن البیع قرار پائی۔ الضبی، النیسابوری کی نسبت سے معروف ہوئے۔ ولادت باسعادت سوموار (١٣) ربیع الأول ٣٢١ھ کو نیشاپور میں ہوئی۔ (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٦٢، ١٦٣)
آپ کی علمی تُراث میں متعدد تصنیفات موجود ہیں۔ ان میں سے المستدرک علی الصحیحین شہرہئ آفاق کتاب ہے۔ صاحبِ کتاب اس کے منہج کی توضیح میں رقمطراز ہیں:
''وقد سألني جماعۃ من أعیان أھل العلم بہذہ المدینۃ وغیرھا أن أجمع کتابًا یشتمل علی الأحادیث المرویۃ بأسانید یحتج محمد بن إسماعیل و مسلم بن الحجاج بمثلھا.''
''اس شہر اور دیگر شہروں کے متعدد نامور اہلِ علم نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں ان احادیث پر مشتمل ایک کتاب تالیف کروں جن کی سندوں سے امام بخاریa اور امام مسلمa نے احتجاج (استدلال) کیا ہو۔''
(مقدمہ المستدرک للحاکم: ١/ ٢۔٣)
ان کی اس کتاب کی تلخیص آٹھویں صدی ہجری کے نامی گرامی محدث حافظ ذہبیa (٧٤٨ھ) نے کی ہے۔ جو بیروت، لبنان سے مطبوع المستدرک کے حاشیے میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ خلاصہ کی ابتدا میں فرماتے ہیں:
''یہ حافظ ابو عبداللہ حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین کا خلاصہ ہے۔ جس کے ملخص حافظ ذہبیa ہیں۔ انھوں نے متون ذکر کر کے اسانید کو حذف کیا ہے اور ان پر کلام کیا ہے۔'' (تلخیص المستدرک: ١/ ٢)
صاحب تلخیص دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
''یہ سود مند کتاب ہے جس کا خلاصہ میں نے ذکر کیا ہے۔ ''
(سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٦)
مزید فرمایا:
''میں نے المستدرک کے اختصار میں ان (ضعیف اور منکر روایات) کی نشاندہی کی ہے۔''
(تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ٤٠١۔٤٢٠ھـ، ص: ١٣٢)
ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص کی ہے اور اسے ہی مقدم رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بسا اوقات وہ صاحبِ المستدرک کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ مگر بیش تر وہ حاصلِ کلام ہی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو علمائے کرام ''أقرہ الذھبي، وافقہ الذھبي'' اور ''سکت عنہ الذھبي'' جیسی اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں کہ حافظ ذہبیa کا اس حدیث پر کلام نہ کرنا امام حاکمa کی موافقت کی دلیل ہے۔ اسی رائے کا تجزیہ ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔
تلخیص میں حافظ ذہبیa کے منہج کو چار مرکزی اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے۔ 1 خلاصہ2 خلاصہ مع تعاقب3 خلاصہ میں امام حاکمa کے کلام کا حذف 4مستدرک کی احادیث کا حذف۔
اب ان نکات کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
تلخیص کی ان اقسام میں سے سب سے بڑی قسم یہ ہے کہ حافظ ذہبیa امام حاکمa کی ذکر کردہ سند اور اس پر لگائے ہوئے حکم کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں۔ جس کا طریقہئ کار یہ ہے کہ وہ عموماً امام حاکمa کی ذکر کردہ سند کا نصف دوم، کبھی اس سے زیادہ اور بسا اوقات اس سے کم حذف کر دیتے ہیں۔ محض صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ کے طبقات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ بعد ازاں متنِ حدیث کے ذکر کے ساتھ ساتھ وہ حافظ حاکمa کے کلام کا نچوڑ بیان کر دیتے ہیں جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
١۔ امام حاکمa حدیث کی سند اور متن بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ''ہذا حدیث صحیح: علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ.''
اس کی تلخیص میں حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: ''علی شرطہما'' (المستدرک: ١/ ٧) یا پھر ''بخاری و مسلم '' جیسے رموز کی بدولت اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ (المستدرک: ١/ ٥٧)
٢۔ امام حاکمa لکھتے ہیں: ''ہذا حدیث صحیح علی شرط البخاري ولم یخرجاہ'' حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: 'علی شرط (بخاری)' المستدرک (١/ ٩٠) بسا اوقات 'بخاری' پر اکتفا کرتے ہیں۔
تلخیص المستدرک (١/ ٤٢٠)
٣۔ صحیح مسلم کی شرط پر حدیث کو امام حاکمa ''احتج بہ مسلم'' وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں۔ حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: 'علی شرطم' تلخیص المستدرک (١/ ٧) کبھی ''ہذا خرجہ م'' سے بھی ذکر کرتے ہیں۔ تلخیص المستدرک (١/ ٤٧) نادر طور پر وہ اسے (م) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ (التلخیص: ١/ ٤٣٠)
٤۔ امام حاکمa فرماتے ہیں:
''ہذا حدیث لا نعرف لہ علۃ بوجہ من الوجوہ ولم یخرجاہ''
حافظ ذہبیa لکھتے ہیں:
'' علاوہ ازیں تلخیص کے دیگر الفاظ بھی ہیں جن کا استیعاب ہمارا مقصود نہیں۔''
دوسری قسم خلاصہ مع تعاقب:
حافظ ذہبیa امام حاکمa کے کلام کی تلخیص کے ہمراہ ان کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ جسے وہ صیغہئ متکلم قُلتُ سے شروع کرتے ہیں۔ اس کی تین انواع ہیں:
١۔ حدیث میں ضعف کے باوجود امام حاکمa اسے صحیح کہہ دیتے ہیں جیسے انھوں نے مثنی بن الصباح کی سند سے حدیث: ''کان إذا جاء جبرئیل۔۔۔۔۔۔'' بیان کی اور پھر فرمایا: ''ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ'' حافظ ذہبیa اس کی تلخیص اور ان کے تعاقب میں رقمطراز ہیں ''صحیح، قلت: مثنی، قال النسائي: متروک'' (المستدرک: ١/ ٢٣١)
دوسری جگہ فرمایا: ''قلت: لا''
٢۔ امام حاکمa نے حضرت ابوہریرۃt کی حدیث ''أکمل المؤمنین إیماناً۔۔۔۔۔۔'' بدونِ تبصرہ بیان کی تو حافظ ذہبیaنے فرمایا: ''قلت: لم یتکلم علیہ المؤلف وھو صحیح''
''میں کہتا ہوں: مولف نے اس حدیث پر حکم نہیں لگایا حالانکہ یہ روایت صحیح ہے۔'' (المستدرک: ١/ ٣)
٣۔ المستدرک میں ذکر کردہ حدیث شرطِ شیخین یا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی شرط پر نہیں ہوتی یعنی وہ حدیث یا راوی ان کتب میں موجود ہوتا ہے۔ گویا وہ المستدرک کی شرط پر نہیں۔ امام حاکمa نے حضرت ابوہریرہt کی حدیث ''افترقت الیھود۔۔۔۔۔۔'' بیان کی اور فرمایا:
''مسلم نے محمد بن عمرو بن ابی سلمہ عن أبی ہریرہ سے احتجاجاً روایت لی ہے۔ بخاری و مسلم فضل بن موسیٰ سے احتجاجاً روایت لینے میں متفق ہیں اور فضل ثقہ ہیں۔''
حافظ ذہبیa ان کی تردید میں فرماتے ہیں:
''قلت: ما احتج (م) بمحمد بن عمرو منفرداً بل بانضمامہ إلی غیرہ''
''میں کہتا ہوں: مسلم نے محمد بن عمرو کی روایت بطور دلیل نہیں بلکہ متابع کے طور پر ذکر کی ہے۔'' (المستدرک: ١/٦)
اس قسم کی دوسری مثال یہ ہے کہ امام حاکمa نے حضرت ابوہریرہt کی حدیث: ''الجرس مزمار الشیطان'' ذکر کی اور فرمایا: ''ہذا حدیث صحیح علی شرطِ مسلم ولم یخرجاہ ''
حافظ ذہبیa لکھتے ہیں: ''قلت خرجہ مسلم بھذا السند''
(المستدرک: ١/ ٤٤٥)
یہ حدیث صحیح مسلم (٢١١٤) میں ہے۔ مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ المستدرک میں مزمار کا لفظ ہے اور صحیح مسلم میں (مزمار کی جمع) مزامیر کے الفاظ ہیں۔
بسا اوقات امام حاکمa المستدرک میں حدیث ذکر کرنے کے بعد اعتراف بھی کرتے ہیں کہ شیخین نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ وہ حضرت انسt کی حدیث: ''کان آخر وصیۃ۔۔۔۔۔۔'' کے بعد فرماتے ہیں: ''وقد اتفقا علی إخراج ہذا الحدیث وعلی إخراج حدیث عائشۃ: آخر کلمۃ تکلم بھا: الرفیق الأعلیٰ''
''امام بخاری اور امام مسلمa نے حضرت انسt کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ اور حضرت عائشہt کی حدیث ''آخر کلمۃ۔۔۔۔۔۔'' بھی بیان کی ہے۔'' (المستدرک: ٣/ ٥٧)
حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: ''فلما ذا أو ردتہ!''
''پھر اسے المستدرک میں ذکر کرنے کا فائدہ کیاہے؟''
حضرت انسt کی حدیث کاانتساب صحیح بخاری اور مسلم کی طرف کرنا محلِ نظر ہے بلکہ یہ روایت سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ میں ہے۔ علامہ مزیa نے بھی اس حدیث کو ان دونوں کتب کی طرف منسوب کیا ہے۔
(تحفۃ الأشراف للمزي: ١/ ٣١٩، حدیث: ١٢٢٩)
یہ روایت صحیح ابن حبان میں بھی موجود ہے جیسا کہ حافظ ہیثمیa نے موارد الظمان (ص: ٢٩٨، حدیث: ١٢٢٠) میں ذکر کی ہے۔ معلوم شدکہ موارد الظمان زوائد علی الصحیحین ہے۔ یعنی اس میں صحیح ابن حبان کی ایسی روایات ہیں جو بخاری و مسلم میں نہیں۔ چنانچہ حافظ ہیثمیa مقدمہ کتاب میں فرماتے ہیں:
'''فقد رأیت أن أفرد زوائد صحیح أبي حاتم محمد بن حبان البستي علی صحیح البخاري و مسلم''
(مقدمہ موارد الظمان، ص: ٢٨)
یہ اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ حضرت انسt کی حدیث بخاری و مسلم میں نہیں۔ امام حاکمa کا اسے ان کتب کی طرف منسوب کرنا قابلِ غور ہے۔ حافظ ذہبیa کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اس انداز سے امام حاکمa کا تعاقب کرتے۔
حافظ ابن حجرaنے اتحاف المھرۃ (٢/ ٦٤٩ رقم: ١٦٤٣) میں اسے صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور المستدرک کا حوالہ ان سے رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ کتاب کی شرط پر ہے۔ فلیستدرک علیہ!
تنبیہ:
المستدرک کی سند میں سلیمان التیمی اور انس بن مالک کے مابین قتادہ کا واسطہ ساقط ہے۔ جیسا کہ حدیث کے دیگر مراجع سے معلوم ہوتا ہے۔
تیسری قسم: تلخیص میں حاکمa کے کلام کا حذف:
بسا اوقات امام حاکم کسی حدیث پر حکم لگاتے ہیں مگر وہ تلخیص میں موجود نہیں ہوتا۔ حافظ حاکمa فرماتے ہیں:
'''ہذا حدیث لم یخرج فی الصحیحین وقد احتج مسلم بأحادیث القعقاع بن حکیم عن أبی صالح'' (المستدرک: ١/٥)
مگر یہ کلام یا اس کا خلاصہ تلخیص میں مذکور نہیں۔ نہ معلوم یہ طباعتی غلطی ہے یا نسخوں کا اختلاف ہے یا حافظ ذہبیa نے اسے حذف کر دیا ہے۔
چوتھی قسم: احادیث کا حذف:
ایسا بھی ممکن ہے کہ المستدرک والی حدیث التلخیص میں موجود نہ ہو۔ یہاں اس احتمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ حافظ ذہبیa تکرار کی بنا پر اسے حذف کر دیتے ہوں یا شدید ضعف کی بنا پر اسے ساقط قرار دیتے ہوں۔ مگر یہ دوسرا احتمال محل نظر ہے کیونکہ انھوں نے انتہائی منکرروایات بھی التلخیص میں ذکر کی ہیں۔ اور حافظ حاکمa پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔
حافظ حاکمa نے حضرت عائشہr کی حدیث ''مابعث رسول اﷲ۔۔۔۔۔۔'' کو صحیح کیا ہے مگر حافظ ذہبیaانتہائی غصیلے انداز میں لکھتے ہیں:
''یہ روایت صحیح ہے۔'' میں (ذہبیa) کہتا ہوں: سہل (بن عمار العتکی) کو حاکمa نے تاریخ میں کذاب قرار دیا ہے اور یہاں اس کی حدیث کو صحیح کیا ہے۔ کیا یہی دین داری ہے؟'' (المستدرک: ٣/ ٢١٥)
دوسرے مقام پر یوں اظہارِ برہمی کیا:
''میں کہتا ہوں: کیا مؤلف (حاکمa) کو اس خود ساختہ حدیث کے بیان کرنے میں حیا مانع نہیں؟ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر، اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ حدیث جھوٹ ہے۔ '' (المستدرک:١/ ٢٣٤)
تلخیص کی تیسری اور چوتھی قسم مشکوک ہے۔ جس کی ضروری تفصیل ابھی گزری ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ المستدرک اور اس کی تلخیص میں متعدد سقطات اور اغلاط موجود ہیں:
١۔ المستدرک (٣/ ٣٥٣۔ ٣٥٤)کی پانچ احادیث تلخیص میں نہیں۔
٢۔ تلخیص المستدرک (٢٠٤٨) میں ''شعبۃ عن أبي بشر سمعت أبا الملیح عن عبد اللّٰہ بن عتبۃ عن أم حبیبۃ أن رسول اللّٰہ کان إذا سمع المؤذن قال: وأنا وأنا'' ہے۔
گویا یہ سند اس متن کی نہیں۔ ملاحظہ ہو: المستدرک
٣۔ تلخیص المستدرک (٢/ ١٦٦) میں ہے:
''معتمر ثنا محمد بن عمرو بن أبي سلمۃ عن أبي ہریرۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: 'تستأمر الیتیمۃ في نفسھا فإن أبت فلاجواز علیھا''
مگر یہ سند اور متن المستدرک میں نہیں ہے۔
٤۔ مستدرکِ حاکم (٣/ ١٨٥۔ ١٨٦) میں حضرت عائشہr کی مرفوع حدیث: ''سیدات نساء أھل الجنۃ'' پر کوئی حکم مذکور نہیں مگر تلخیص میں (خ۔م) موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطبعی غلطی ہے۔
صححہ الحاکم ووافقہ الذھبي کا ظہور:
پہلے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ التلخیص میں حافظ ذہبیa امام حاکمa کے کلام کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں اور بسا اوقات تعاقب بھی کرتے ہیں۔ ان کی اس تلخیص کو بعض علماء ''موافقت'' گردانتے ہیں۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔
حافظ زیلعیa:
صححہ الحاکم وأقرہ الذھبي کا اطلاق غالباً سب سے پہلے حافظ زیلعیa (٧٦٢ھ) نے کیا۔ جو صاحب التلخیص حافظ ذہبیa کے شاگرد ہیں۔ نصب الرایہ میں بھی متعدد بار انھوں نے حافظ ذہبیaکو ''شیخنا'' سے تعبیر کیا ہے۔
حافظ زیلعیa رقمطراز ہیں:
''قال (الحاکم): صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، انتھی، وأقرہ الذھبي علیہ.'' (نصب الرایۃ: ٤/ ١٦١)
یعنی امام حاکمa نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبیa نے ان کی رائے کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن اگر یہ نسخ کا اختلاف اور صرفِ نظر کا شاخسانہ نہیں تو حافظ زیلعی کا وہم ہے۔ کیونکہ حافظ ذہبیa نے اس مقام پر بایں الفاظ امام حاکمa کی تردید کی ہے:
''صحیح، قلت: أبوحماد ھوا المفضل بن صدقۃ، قال النسائي: متروک.'' (المستدرک: ٢/ ١٢٠)
''یہ روایت صحیح ہے، میں (ذہبیa) کہتا ہوں: ابو حماد کا نام مفضل بن صدقہ ہے۔ جسے نسائیa نے متروک قرار دیا ہے۔ ''
بنابریں حافظ زیلعیa کا مذکورہ بالا قول محلِ نظر ہے۔ تا ہم انھوں نے تین مرتبہ لم یتعقبہ الذہبي کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔
(نصب الرایۃ: ٣/ ٣، ٣٨، ٨٠)
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حافظ ذہبیaکے عدمِ تعاقب کو موافقت قرار دیتے تھے۔
حافظ ابن الملقنa
حافظ ابن الملقنa (٨٠٤ھ) ''مختصر استدراک الحافظ الذھبي علی مستدرک أبي عبد اللّٰہ الحاکم'' میں ایک حدیث کے بعد لکھتے ہیں:
''قال: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، قلت: إقرہ الذھبی علیہ.''
(مختصر الستدراک الحافظ الذھبي: ١/ ٥٦٩)
دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں:
''والعجب من الذھبي کیف أقرہ علیہ.''
(استدراک: ١/ ٣٨٩)
''ذہبیa پر تعجب ہے کہ انھوں نے ان کی رائے کو کیسے برقرار رکھا ہے۔''
حافظ ابن حجرa:
حافظ ابن حجرa (٨٥٢ھ)نے بھی ''وافقہ الذھبي، سکت عنہ الذھبي'' جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
١۔ حافظ ابن حجرaفرماتے ہیں:
''وقد أخرجہ الحاکم۔۔۔۔۔۔ وقال: صحیح ووافقہ المصنف في تلخیصہ.'' (لسان المیزان: ٧/ ٤٥٧، ترجمہ قاسم بن إبراہیم)
یعنی حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کی موافقت کی ہے۔ ایسی صورت کے موافقت ہونے میں کوئی دو آراء نہیں کیونکہ حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کے کلام کا خلاصہ ''صحیح'' ذکر کیا پھر 'قلت' سے ان کی تائید کی۔
(المستدرک، ص: ١٧٨، حدیث ابن عباس)
٢۔ حافظ ابن حجرa حافظ ذہبیa پر تعجب کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:
''میں نہیں جانتا کہ ذہبیa کے قول'صویلح' اور تلخیص المستدرک میں امام حاکمa کی تصحیح پر سکوت میں جمع کیسے ممکن ہے۔ باوجویکہ حافظ ذہبیa نے دو حافظوں (امام حاکمa اور امام ابن حبانa ) سے نقل کیا ہے انھوں نے رجاء کے موضوع روایات بیان کرنے کی گواہی دی ہے۔'' (لسان المیزان: ٢/٤٥٧)
بلاشبہ حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کی تصحیح پر سکوت کیا ہے۔ المستدرک (٤/ ١٢٩) اور میزان الاعتدال (٢/ ٤٦ترجمہ: ٢٧٦٤) میں وہی بات نقل کی ہے جس کی طرف حافظ ابن حجرa نے اشارہ کیا ہے۔ گویا تلخیص المستدرک میں امام ذہبیa کا سکوت حافظ ابن حجرa کے ہاں موافقت کی دلیل ہے۔
3 حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''أخرج لہ الحاکم في المستدرک وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ.'' (لسان المیزان: ٤/ ١٨٢، ترجمہ: العلاء بن إسماعیل)
یہاں بھی حسبِ سابق امام ذہبیa نے امام حاکمa کا تعاقب نہیں کیا۔ (المستدرک: ١/ ٢٢٦)
٤ حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں:
''وقد أخرج لہ الحاکم في المستدرک، فقال: ثقۃ مأمون ولم یتعقبہ المؤلف في تلخیص المستدرک.''
لسان المیزان (٢/ ٤٣٤، ترجمہ: دینار أبو سعید) بلاشبہ حافظ ابن حجر کی بات درست ہے۔ (المستدرک: ٣/ ١٢٤)
٥۔ حافظ ابن حجرaرقمطراز ہیں:
''وقد أخرج الحاکم حدیثہ في المستدرک من ہذا الوجہ، وقال: صحیح ولم یتعقبہ الذھبي.''
لسان المیزان (٧/ ٣٧) ملاحظہ ہو: المستدرک (٤/ ٣١٦، ٤٣٤)
٦۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
''وأخرج لہ۔ أبو سباع۔ الحاکم في أوائل البیوع حدیثاً ولم یتعقبہ الذھبي في تلخیصہ.''
لسان المیزان (٧/ ٥٠) وتعجیل المنفعۃ لا بن حجر (ص: ٤٦٣، ٤٦٤، ترجمہ: ١٢٧٧) ملاحظہ ہو: المستدرک (٢/ ٩، ١٠)
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حافظ ابن حجرa نے پہلی مثال میں موافقت کا اثبات کیا۔ جو بلاشبہ درست ہے۔ دوسری اور تیسری مثال میں سکوت کو جبکہ آخری تین مثالوں میں ''لم یتعقبہ الذھبي'' کو موافقت سے تعبیر کیا ہے۔
حافظ سیوطیa:
حافظ سیوطیa وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ان الفاظ کو قاعدے کی شکل میں پیش کیا۔ چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
''حافظ ذہبیa نے المستدرک پر توجہ دیتے ہوئے اسے مختصر کیا، اس کی اسانید کو تعلیقاً بیان کیا اور ان احادیث میں موافقت کی جن میں کلام نہ تھا ۔جو کمزور تھیں ان کا تعاقب کیا۔''
(مقدمۃ النکت البدیعات، ص: ٢٩)
اسی قانون کو علامہ سیوطیa نے عملی لبادہ بھی اوڑھایا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''وأخرجہ الحاکم في المستدرک۔۔۔۔۔۔ وقال: صحیح وأقرہ الذھبی فلم یتعقبہ.'' (اللآلی المصنوعۃ للسیوطي: ٢/ ٢١٥)
بلاشبہ حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کا کوئی تعاقب نہیں کیا۔
(المستدرک: ٤/١٢٢)
حافظ مناویa:
علامہ عبدالروف مناویa (١٠٣١ھ) نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے میں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور صرف فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں اسے تقریباً سوا چار صد مرتبہ استعمال کیا۔ (فیض القدیر: ١/ ٤٢۔ ٦٨)
علامہ عزیزیa:
علامہ علی بن احمد بن محمد العزیزیa (١٠٧٠ھ) نے السراج المنیر بشرح الجامع الصغیر میں بکثرت اس اصطلاح کا اطلاق کیاہے۔ اور یہ حافظ مناویa کے اسلوب سے متاثر ہونے اور ان کی کتاب فیض القدیر کو پیش نظر رکھنے کا نتیجہ ہے:
علامہ تھانوی فرماتے ہیں:
''میں نے عزیزی کا الجامع الصغیر کی شرح میں یہ اسلوب دیکھا کہ وہ حاکمa کی تصحیح پر ذہبیa کی موافقت سے بکثرت استدلال کرتے ہیں۔''
بعد ازاں اس اصطلاح کے استعمال میں وسعت پیدا ہو گئی۔ محدثِ مصر شیخ احمد شاکرa اور وحید الدہر علامہ البانیa نے بھی اس کا استعمال بکثرت کیا۔ جہاں سے عام علما میں یہ اصطلاح شہرت پا گئی اور اس کے قبول کرنے کا رجحان پیدا ہو گیا۔ مگر یہ موقف درست نہیں۔
اس میں دو آراء نہیں کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص المستدرک میں تو کجا کسی اور کتاب میں بھی یہ صراحت نہیں کی کہ تلخیص میں میرا سکوت یا عدمِ تعاقب موافقت کی دلیل ہو گا۔ اگر وہ صراحت کر دیتے تو یقینا یہ معما بھی حل ہو جاتا اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہتی۔ لہٰذا اب ''سکوت'' کی وضاحت قرائن کے ذریعے ہی سے ممکن ہے۔
سیراعلام النبلاء میں مذکور عبارت سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا سکوت تائید کی دلیل نہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ''مستدرک میں بہت سی احادیث ایسی ہیں جو شیخین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہیں۔ کتاب میں ایسی احادیث تقریباً ایک تہائی (٣٣) فیصد یا اس سے بھی کم ہے ۔ پھر ان میں سے بہت سی احادیث ایسی ہیں جو بظاہر شرطِ بخاری یا مسلم یا ان دونوں کی شرط پر ہیں۔ مگر حقیقت میں ایسی پوشیدہ علتیں ہیں جو صحتِ حدیث کو متاثر کرتی ہیں۔
المستدرک کا ایک حصہ صالح، حسن اور جید سندوں پر مبنی ہے جو تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ باقی تقریباً ٤٢ فیصد المستدرک میں مناکیر اور عجائب روایات ہیں۔ بہر حال یہ کتاب انتہائی سود مند ہے۔ میں نے اس کی تلخیص کی ہے ابھی وہ مزید کام اور اصلاح کی متقاضی ہے۔ '' (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٥۔ ١٧٦)
علامہ ذہبیa کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ شرطِ شیخین والی احادیث٣٣ فیصد ہیں۔ حسن صالح اسانید والی احادیث ٢٥ فیصد ہیں۔ باقی ٤٢ فیصد احادیث مناکیر اور ضعیف ہیں۔
المستدرک کا جو نسخہ مصطفی عبدالقادر عطا کے اہتمام سے شائع ہوا اس میں احادیث کی تعداد (٨٨٠٣) ہے۔ دکتور خالد بن منصور الدریس نے امام ذہبیa کی ضعیف کردہ روایات کی تعدد (٣٣٧) بتلائی ہے۔ الایضاح الجلی (٣٧۔ ٥٨٢٣٥٥) میں دکتور محمود میرہ نے ضعیف احادیث کی تعداد (٩٥٦) جبکہ موضوع روایات کی (٥٤) بتلائی ہے۔ گویا ان کے نزدیک ایسی احادیث (١٠١٠) ہیں۔
(الحاکم وکتاب المستدرک، ص: ٣٤٧۔ ٣٤٩، بحوالہ: الإیضاح الجلي، ص:٣٧)
مختصر استدراک الذہبی لا بن الملقن کے محققین نے ان احادیث کی تعداد (١١٨٢) بتلائی ہے۔ ان میں وہ استدرکات بھی شامل ہیں جو حافظ ابن الملقنa نے حافظ ذہبیa پر کیے ہیں جو زیادہ نہیں۔
دکتور محمود میرہ کے اعداد و شمار کے مطابق موضوع روایات کی تعداد (١٠١٠) قرار دی جائے تو یہ تعداد مکمل احادیث کا (٤٨.١١ فیصد) قرار پاتی ہے۔ جبکہ حافظ ذہبی کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تناسب تقریباً ٤٢ فیصد ہے۔ اور ٤٢ فیصد تقریباً (٣٦٩٧) احادیث بنتی ہیں۔ گویا (٢٦٨٧) احادیث حافظ ذہبیa کی نظر میں تھیں مگر انھوں نے ان کے ضعیف ہونے کی نشان دہی نہیں کی۔ اور ایسی احادیث کا تناسب تقریباً ٣٠ فیصد بنتا ہے۔ بالفاظِ دیگر حافظ ذہبیa کی نگاہ میں المستدرک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ضعیف اور منکر تھا۔
اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حافظ ذہبیa کی نگاہ میں کل روایات میں سے ایک تہائی (٣٣ فیصد) احادیث شرطِ شیخین پر ہونے کے باوجود علتِ قادحہ سے معلول ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حافظ ذہبیa نے ان سب معلول روایات کی نشاندہی کی ہے؟ یہاں ہم ایک اشکال کا ازالہ کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں۔
یہاں کوئی معترض یہ دعوی کر سکتا ہے کہ حافظ ذہبیa کے یہ اعداد و شمار تخمین اور ظن پر مبنی ہیں کیونکہ انھوں نے تاریخ اسلام میں روایات کا جو تناسب ذکر کیا ہے وہ سیر اعلام النبلاء میں مذکور نسبت سے مختلف ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
''المستدرک میں بہت ساری روایات شرطِ شیخین پر ہیں اور خاصی احادیث بخاری یا مسلم کی شرط پر ہیں۔ ممکن ہے ان کا مجموعہ نصف کتاب (٥٠ فیصد) کے برابر ہو۔ ایک چوتھائی (٢٥ فیصد) احادیث صحیح سند سے مروی ہیں۔ باقی ایک چوتھائی (٢٥ فیصد) مناکیرہ واہیات اور ضعیف روایات ہیں۔ کچھ ان میں موضوع بھی ہیں۔ میں نے تلخیص المستدرک میں ان سے باخبر اور متنبہ کر دیا ہے۔''
(تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ٤٠١۔٤٢٠ھـ، ص: ١٣٢)
یعنی (٢٥ فیصد) احادیث ضعیف اور منکر ہیں۔ اور ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ تلخیص المستدرک میں موجود ایسی نشان زدہ روایات (١٢ فیصد) سے زیادہ نہیں۔ گویا حافظ ذہبیa کے اس قول کے مطابق بھی (١٣ فیصد) احادیث ایسی ہیں جو ان کی نگاہ میں ضعیف تھیں مگر انھوں نے ان کی نشان دہی نہیں کی۔
سیر اعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام میں تناسب کا یہ اختلاف حافظ ذہبیa کے اجتہاد کے متغیر ہونے کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے۔ سیر اعلام النبلاء والا اجتہاد ہی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کا آخری اجتہاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے ثابت ہوتا ہے کہ سیر اعلام النبلاء تاریخ الاسلام کے بعد مرقوم کی گئی۔ معروف محقق دکتور بشارعواد رقمطراز ہیں:
''وقد ألف الذھبي کتابہ ہذا بعد کتابہ العظیم (تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام).''
(مقدمۃ تحقیق سیر أعلام: ١/ ٩٢)
اس پر مستزادیہ کہ النبلاء میں تاریخ الاسلام کے حوالے موجود ہیں: النبلائ: (١٧/ ٥٣٥ ، ٣/ ٣٨٠، ٤/ ١٨٠، ٧/ ١٨٠، ٤٢٥، ١٧/ ٥٣٥) لہٰذا ضعیف روایات کا تناسب (٤٢ فیصد) ہی درست معلوم ہوتا ہے۔
حافظ ذہبیa کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تلخیص المستدرک حافظ حاکمa پر تعاقب کی غرض سے نہیں لکھی کیونکہ انھوں نے اختصار کیا ہے استدراک نہیں، اور تلخیص میں خشتِ اول عدمِ اضافہ اور خلاصہ پر اکتفا ہوتا ہے۔ اضافہ اختصار کی شرط کے منافی ہو گا گویا نئی کتاب مرتب کر رہا ہے۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر یہ محض اختصار تھا تو انھوں نے متعدد مواقع پر تعاقب بھی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ذہبیa حسبِ ضرورت ملخص کتب میں بعض مقامات پر علمی نکات بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے ''المھذب في اختصار السنن الکبیر، تلخیص الموضوعات، تلخیص العلل المتناھیۃ'' جیسی کتب میں کیا ہے۔ تلخیص المستدرک کے حوالے سے انھوں نے یہ صراحت کی ہے:
'' میں نے اس کی تلخیص کی ہے ابھی اس کا بہت سارا کام اور اس کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ '' (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٦)
تاریخ الاسلام میں بھی صراحت کی کہ میں نے اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے۔ بلکہ تلخیص المستدرک کی ابتدا میں فرمایا۔ ھذا مالخص (١/ ٢)
المستدرک میں بہت سارے مقامات پر ضعیف راوی ہیں اس کے باوجود صاحبِ کتاب اس سند یا اسانید کی تصحیح کرتے ہیں اور حافظ ذہبیa ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ مگر دوسری جگہ پر اسی سند پر حافظ ذہبیa بدونِ تعاقب گزر جاتے ہیں۔ بادیئ النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے امام حاکمa کی موافقت کی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ امام حاکمaنے سہل بن عمارا کی سند سے حضرت عائشہr کا قول ''مابعث رسول اللّٰہ ؐ زید بن حارثہ۔۔۔۔۔۔'' ذکر کر کے فرمایا: ''صحیح الإسناد ولم یخرجاہ.''
حافظ ذہبیa ان کے تعاقب میں فرماتے ہیں:
''صحیح، قلت، سھل قال الحاکم في تاریخہ: کذاب وھنا یصحح لہ، فأین الدین!'' (المستدرک: ٣/ ٢١٥)
''صحیح حدیث ہے۔'' میں کہتا ہوں: حاکمa نے التاریخ میں سہل کو کذاب قرار دیا ہے اور یہاں اس کی حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔ کیا یہی دین ہے؟''
امام حاکمa نے اس حدیث کے بعد بارھویں حدیث جبکہ تلخیص المستدرک کے مطابق نویں حدیث اسی راوی سے بیان کی اور فرمایا:
''صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ'' حافظ ذہبیa نے تلخیص میں ''(م)'' کی علامت ذکر دی۔ (المستدرک: ٣/ ٢١٩)
گویا انھوں نے اس چوتھے صفحے پر امام حاکمa کا تعاقب نہیں کیا اور یہ بات معقول نہیں کہ حافظ ذہبیa اپنے سابقہ تعاقب کو بھول گئے ہوں جو صرف چار صفحات قبل گزرا ہو اور دوسری حدیث میں ان کی موافقت کر لی ہو۔ بلکہ اس راوی کی پہلی حدیث پر تعاقب معمولی الفاظ سے نہیں کیا بلکہ فرمایا: فأین الدین! کیا یہی دین داری ہے!
حافظ ذہبیa کے اس اسلوب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ ضعیف راوی کی پہلی حدیث پر تنقید کرتے ہیں۔ باقی روایات سے خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔
دراج ابو السمح المصری معروف راوی ہے۔ ان کی بتیس روایات میں سے چار روایات پر حافظ ذہبیa نے تعاقب کیا باقی اٹھائیس روایات پر سکوت کیا ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:
رقم
طرف الحدیث
المستدرک
حکم الامام حاکم
حکم الذھبی
1
خیر مساجد..
209/1
سکت عنہ الحاکم
سکت عنہ الذھبی
2
إذا رأیتم الرجل۔۔۔۔۔۔
212/1
صح
دراج کثیر المناکیر
3
إذا أدیت...
390/1
صح
صح
4
أکثروا ذکر اللّٰہ۔۔۔۔۔۔
499/1
صح
سقط الحدیث من تلخیصہ
5
استکثروا۔۔۔۔۔۔
513-512/1
صح
صح
6
قال موسی...
528/1
صح
صح
7
أعوذ باللّٰہ..
532/1
صح
واہ
8
قد ہجرت ..
104-103/2
صح
صح
9
تشویہ النار..
246/2
//
//
10
إذا رأیتم..
333/2
//
//
11
إن الحمیم..
387/2
صح
سقط من تلخیصہ
12
تشویہ النار..
395/2
صح
صح
13
إن علیھم التیجان۔۔۔۔۔۔
427-426/2
//
//
14
لو أن رصاصتہ..
439-438/2
صح
صاحب عجائب
15
ینظر إلی وجھہ..
475/2
صح
صح
16
کعکرالزیت۔۔۔۔۔۔'
501/2
//
//
17
الویل وادٍ
507/2
//
//
18
// // //
534/2
//
//
19
لوأنکم لا ..
646/4
//
//
20
إن الشیطان ..
261/4
سکت
سکت
21
أیما امرأ ۃ..
289/4
صح
صح
22
لاحلیم....
293/4
//
//
23
لو أن رجلاً..
314/4
//
//
24
الشرک الخفی..
329/4
//
//
25
أصدق الرؤیا..
392/4
//
//
26
سیأتی علی..
457/4
//
//
27
إن فی النار...
593/4
//
کثیر المناکیر
28
إن الأرضین..
594/4
صح
صح
29
ویل واد ٍ...
596/4
//
//
30
ینصب للکافر..
597/4
//
//
31
مقعد الکافر..
598/4
//
//
32
لو أن مقمعاً..
600/4
صح
حکم نہیں
33
سرادق النار..
601/4
صح
سقط الحدیث من تلخیص
34
لو ضرب..
601/4
صح
صح
35
لو أن ولو..
602/4
//
//
36
ماء کالمھل..
604/4
//
//
37
إذا کان یوم ...
605/4
//
//
38
یأکل التراب..
609/4
صح
مالحقہ (أی أبوقلابۃ أباذر)
حافظ ذہبیaکے حکم میں جو 'صح' ذکر کیا گیا ہے وہ ظاہری اعتبار سے ہے ورنہ ذہبیa نے اس کی روایت کو قطعاً صحیح قرار نہیں دیا۔
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ دراج کی اڑتیس احادیث مستدرک میں موجود ہیں۔ جن میں سے دو ایسی ہیں جن پر حاکمa نے سکوت کیا اور ذہبیa نے اسے اسی طرح لکھ دیا۔ (المستدرک: ١/ ٢٠٩، ٤/ ٢٦١)
چار مقامات پر حاکمaکا تعاقب کیا۔
١۔ کثیر المناکیر۔ المستدرک (١/ ٢١٢، ٤/ ٥٩٤)
٢۔ کثیر المناکیر۔ المستدرک (١/ ٢١٢، ٤/ ٥٩٤)
٣۔ واہ۔ المستدرک (٢/١٠٣۔ ١٠٤)
٤۔ صاحب عجائب۔ المستدرک (٢/ ٤٧٥)
تین جگہوں پر تلخیص میں حدیث موجود نہیں۔
(المستدرک: ١/ ٤٩٩، ٢/٣٩٥، ٦٠١)
ایک جگہ ذہبیa کی تلخیص مذکور نہیں۔ (المستدرک: ٤/ ٦٠٠)
گویا حافظ ذہبیa نے بتیس مقامات میں سے صرف چار مقامات پر تعاقب کیا اور اٹھائیس مقامات پر سکوت کیا ہے۔ کیا ان اٹھائیس مقامات کے بارے میں دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ذہبیa نے حاکمa کی موافقت کی ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس لیے اسے موافقت یا تائید باور کرنا غلط فہمی اور حافظ ذہبیa کے اسلوب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ بلکہ اس سے حافظ ذہبیa کا تناقض بھی لازم آتا ہے جیسا کہ بعض لائق احترام علما نے ایسے مواقع پر حافظ ذہبی کی رائے کو باہم متعارض قرار دیا ہے۔
حافظ ذہبیa نے المستدرک کی تلخیص کی ہے۔ اس کا تعاقب کیا ہے اور نہ استدراک ورنہ وہ اتنی مرویات پر خاموش نہ رہتے۔ اسی قسم کی متعدد مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو انھیں بھی ذکر کر دیا جائے گا۔
١۔ امام حاکمa نے احمد بن محمد بن داود الصنعانی کی سند سے عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اﷲ عنہ مرفوع حدیث: ''نزل جبرئیل إلی النبيؐ...'' بیان کی۔ پھر فرمایا: (ہذا حدیث صحیح الإسناد فإن رواتہ کلھم مدنیون ثقات)
حافظ ذہبیa نے تلخیص میں ذکر کیا: رواتہ ثقات.
(المستدرک: ١/ ٥٤٤۔٥٤٥)
مگر میزان الاعتدال میں اس کی یہی منکر روایت بیان کی اور فرمایا:
''اس نے ایسی حدیث بیان کی ہے جس کا وہ متحمل نہیں۔ حاکمa نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ میں نے کہا: ''ہرگز نہیں۔'' انھوں نے کہا: ''اس کے راوی مدنی ہیں۔'' میں نے جواب دیا: ''قطعاً نہیں۔'' انھوں نے کہا: ''ثقہ ہیں۔'' میں نے کہا: ''میں اس (روایت) کو احمد (بن محمد الصنعانی) کی وجہ سے متہم قرار دیتا ہوں۔''
(میزان الاعتدال: ١/ ١٣٦)
کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص میں حاکمa کی موافقت کی ہے؟
٢۔ امام حاکمa نے محمد بن حبیب الجارودی کی سند سے حضرت ابن عباسt کی مرفوع حدیث: ''ماء زمزم...'' بیان کی اور پھر فرمایا: ہذا حدیث صحیح الإسناد إن مسلم من الجارودی ولم یخرجاہ
حافظ ذہبیa نے یہی کلام نقل کیا مگر ''ولم یخرجاہ'' کو حذف کر دیا۔
گویا بظاہر موافقت کی ہے مگر میزان الاعتدال (٣/ ٥٠٧، ترجمہ ٧٣٤٩) میں فرمایا:
''حاکم نے اس پر نکیر کی ہے اس نے ایک باطل حدیث بیان کی جس بنا پر اسے متہم قرار دیا گیا ہے۔ ''
٣۔ امام حاکمa نے عمر بن ابراہیم العبدی کی سند سے حضرت سمرہ بن جندبt کی مرفوع حدیث بیان کی۔ حافظ ذہبیa نے ذکر کیا ''صحیح''
حافظ ذہبیa نے اسی روایت کو میزان الاعتدال میں عمر کے ترجمہ میں بیان کیا اور فرمایا:
''صححہ الحاکم وھو حدیث منکر کما تری.''
(میزان: ٢/ ١٧٩)
''حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ وہ منکر ہے۔''
٤۔ امام حاکمa نے محمد بن الحسن التل الاسدی الکوفی کی سند سے حضرت علیt کی مرفوع حدیث: ''الدعاء سلاح المؤمن...'' ذکر کی پھر فرمایا: ''ہذا حدیث صحیح فإن محمد بن الحسن ہذا ھو التل وھو صدوق في الکوفیین.'' حافظ ذہبیa نے ''صحیح'' قرار دیا ہے۔ مگر میزان الاعتدال (٣/ ٥١٢۔٥١٣) میں فرماتے ہیں: اس کی یہ روایت منکر ہے۔ حاکمa نے اسے بیان کر کے تصحیح کی ہے۔ اس میں انقطاع ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جن راویان کی حدیثوں کو بظاہر حافظ ذہبیa نے صحیح قرار دیا انھی احادیث کو ان راویان کے ترجمے میں ذکر کر کے منکر قرار دیا ہے۔ اب ذرا یہ بھی ملاحظہ ہو کہ حافظ ذہبیa نے جن احادیث کا شرطِ شیخین وغیرہ سے ہونا تسلیم کیا ہے انھی پر تنقید بھی کی ہے۔
٥۔ امام حاکمa نے ثور عن راشد بن سعد عن ثوبان کی سند سے مرفوع حدیث ''بعث رسول...'' بیان کی اور کہا: ۔۔۔۔۔۔علی شرط مسلم۔۔۔۔۔۔ حافظ ذہبی نے بھی علی شرط (م) فرما دیا۔ (المستدرک: ١/ ١٦٩) مگر سیر اعلام النبلاء میں راشد بن سعد کے ترجمے میں اس حدیث کو ذکر کیا، پھر فرمایا:''اس حدیث کی سند قوی ہے۔ حاکمa نے اس کی تخریج کر کے فرمایا: یہ مسلم کی شرط پر ہے۔ ان سے چوک ہوئی۔ بخاری و مسلم نے راشد کو قبول نہیں کیا اور نہ ثور امام مسلم کی شرط پر ہے۔ (سیر أعلام النبلائ: ٤/٤٩١)
غور فرمائیے کہ امام حاکمa کی دو اغلاط کی نشاندہی کی کہ راشد سے شیخین نے استدلالاً روایت لی اور نہ ثور امام مسلم کی شرط پر ہیں۔
٦۔ امام حاکمa نے معاویہ بن صالح الحضرمی کی سند سے حضرت معاذ بن جبلt کی مرفوع حدیث: ''أنہ عاشر عشرۃ...'' بیان کی اور فرمایا: حافظ ذہبیaنے ذکر کیا: علی شرطہما. (المستدرک: ١/ ٩٨)
مگر حافظ ذہبیa فرماتے ہیں کہ بخاریa نے اس کی روایت نہیں لی۔ مزید لکھتے ہیں:
''یہ ان راویوں میں سے ہے جن سے مسلم نے حجت پکڑی ہے، بخاری نے نہیں۔ آپ حاکمa کو دیکھتے ہیں کہ المستدرک میں ان کی احادیث کو شرطِ بخاری پر قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ان سے بار بار چوک ہوتی ہے۔ ''
ان چاروں قرائن سے معلوم ہوا کہ ذہبیa کا سکوت یا عدمِ تعاقب موافقت کی دلیل نہیں۔ کیونکہ انھوں نے تلخیص کی ہے۔
اس مقولہ کو درست کہنے والوں کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ علم کے یہاں یہ بات متعارف ہے کہ اگر کوئی عالم کسی دوسرے کا کلام بدونِ تنقید نقل کرے تو یہ موافقت اور تائید کی دلیل ہوتی ہے۔ یعنی اگر حافظ ذہبیa کو امام حاکمa پر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ رائے زنی کرتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ غلط بات پر چپ سادھ لیں۔ جیسا انھوں نے متعدد احادیث پر تعاقب کیا ہے۔ انھیں ویسا ہی باقی احادیث پر بھی کرنا چاہیے تھا۔
مگر یہ دلیل محلِ نظر ہے۔ بلاشبہ یہ قضیہ تبھی درست ہوتا ہے جب اس بارے میں حافظ ذہبیa کا کلام منقول نہ ہوگا۔ جبکہ انھوں نے سیر اعلام النبلاء (١٧/ ١٧٥۔ ١٧٦) میں صراحت کی ہے کہ مستدرک میں ضعیف اور منکر روایات تقریباً ٤٢ فیصد ہیں۔ مگر جن کی نشاندہی کی وہ ١٢ فیصد سے زیادہ نہیں گویا ٣٠ فیصد احادیث ان کی نگاہ میں ضعیف تھیں۔ پھر یہ تحدید المستدرک کی احادیث کے ساتھ خاص ہے اور یہ استدلال (کسی عالم کا بدونِ تنقید کسی عالم کی بات نقل کرنا موافقت ہے) عام ہے۔ لہٰذا ان کے مابین تعارض کی صورت میں خاص کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ وہ عام سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
ثانیاً: س پر مستزاد یہ کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص استدراک اور تعاقب کے نظریے سے نہیں لکھی کہ ان کے عدمِ تعاقب یا سکوت کو موافقت قرار دیا جاسکے۔ بلکہ انھوں نے صراحت کی ہے کہ یہ کتاب میں نے مختصر کی ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
١۔ ھذا ما لخصتہ. (مقدمۃ المستدرک: ١/ ٢)
٢۔ وقد اختصرتہ. (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٦)
٣۔ اختصرت ہذا المستدرک.
تاریخ الاسلام (حوادث ٤٠١۔ ٤٢٠ھـ، ص: ١٣٢)
صاحبِ اختصار کا کام ہر چیز کا تعاقب نہیں ہوتا اور نہ یہ بات علماء کے ہاں معروف ہے کہ اختصار کرنے والا اصل کتاب کے مؤلف کی اغلاط کی نشان دہی کرے گا بصورتِ دیگر اس کی موافقت قراردی جائے گی۔
اختصار کرنے والا بعض مقامات پر جو تعاقب کرتا ہے وہ طبیعت میں انشراح کی صورت میں کرتا ہے۔ عدمِ نشاط کے وقت اسے ترک کر دیتا ہے۔ جیسا کہ راویانِ حدیث بھی حالتِ انشراح میں حدیث کو مکمل سند اور مکمل متن کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ مگر سستی کے عالم میں اسی حدیث کو مرسل بیان کر دیتے ہیں۔
آپ پہلے معلوم کر آئے ہیں کہ دراج ابوالسمح کی بتیس (٣٢) روایات میں سے صرف چار روایات پر حافظ ذہبی نے نقد کیا۔ اور باقی سے اغماض کیا کیونکہ تلخیص کرنے والے کا منہج ہر ہر حدیث کا تعاقب نہیں ہوتا۔
ثالثاً: اگر حافظ ذہبیa کے عدمِ تعاقب کو موافقت قرار دیا جائے تو ان کی باقی ملخص شدہ کتب میں بھی اسی اصول کی پاسداری کی جائے گی؟ جیسے تلخیص الموضوعات لابن الجوزی اور تلخیص العلل المتناھیۃ لابن الجوزي وغیرہ ہیں۔ اگرچہ ان کتب میں بھی حافظ ذہبیa کے تعاقبات بعض مقامات پر موجود ہیں اور تلخیص کی نوعیت بھی ہر دوسری کتاب سے مختلف ہے۔
ان تینوں وجوہات کی بنا پر بات واضح ہو گئی کہ حافظ ذہبیa کا سکوت تائید کی دلیل نہیں۔
دوسری دلیل اور اس کا مناقشہ:
اس اصطلاح کے درست قرار دینے والوں کی دوسری دلیل یہ ہے کہ متعدد علماء نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔ حافظ زیلعیa ابن الملقنa اور حافظ ابن حجرaنے اسے جزوی طور پر استعمال کیا ہے۔ حافظ سیوطیa، علامہ مناویa، علامہ عزیزیa اور محدث البانیa جیسوں نے اسے بطورِ قاعدہ مستعمل کیا ہے۔
اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ حافظ ذہبیa کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ انھوں نے بہت سی ایسی احادیث کا تعاقب نہیں کیا جو ان کے ہاں ضعیف تھیں۔ لہٰذا ان کا یہ کلام ان علماء کے فہم سے زیادہ مضبوط ہے۔
علما کے ہاں یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ منطوق مفہوم پر مقدم ہوتا ہے۔ حافظ ذہبیa کی ضعیف احادیث کے حوالے سے صراحت منطوق ہے اور تلخیص میں ان کے طرزِ عمل سے علماء جو سمجھے مفہوم ہے۔ لہٰذا ان کی صراحت اس مفہوم سے مقدم ہو گی۔ جن علماء نے اس مقولہ کو درست قرار دیا ہے ممکن ہے ان کی نگاہ میں سیر اعلام النبلاء والی صراحت موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
خلاصہ:
جس حدیث کو امام حاکمa صحیح قرار دیں اور حافظ ذہبیa ان کا تعاقب نہ کریںیا سکوت کا مظاہرہ کریں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ امام حاکمa کا موقف درست ہے۔ کیونکہ المستدرک کی احادیث پر حکم لگانے میں ان سے بہت خطائیں اور تساہل ہوا ہے۔ لہٰذا حافظ ذہبیa کا عدمِ تعاقب اقرار کے درجے میں نہیں آ سکتا۔
٢۔ جن روایات کو امام حاکمaنے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبیa نے ان کا تعاقب نہیں کیا تو اس بنا پر حافظ ذہبیa کو مطعون ٹھہرانا درست نہیں، کیونکہ ملخص کا مقصد تلخیص ہوتا ہے ہر ہر حدیث اور حکم کا تعاقب نہیں۔
٣۔ سب سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال حافظ زیلعیa نے کیا۔ علامہ سیوطیa نے اسے قاعدہ بنایا اور حافظ مناوی اور علامہ عزیزی نے بڑی وسعت سے اس کا استعمال کیا۔ یہاں تک کہ یہ مقولہ ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔
٤۔ حافظ ذہبیa نے السیر میں المستدرک کی احادیث کے بارے میں جو رائے دی ہے وہی ان کی حتمی اور آخری رائے ہے۔
٥۔ انھوں نے السیر میں فرمایا: المستدرک کی تقریباً ٤٢ فیصد احادیث عجائب اور مناکیر ہیں ۔ اور یہ تناسب تلخیص المستدرک میں موجود ضعیف اور منکر روایات سے ٣٠ فیصد زیادہ ہے کیونکہ متکلم فیہ روایات کا تناسب ١٢ فیصد ہے۔
٦۔ ہر حدیث پر تعاقب حافظ ذہبیaکا منہج نہیں۔ بلکہ وہ راوی کی پہلی روایت پر عموماً حکم لگاتے ہیں اور باقی روایات پر خاموش رہتے ہیں۔
٧۔ بعض علماء کا حافظ ذہبیa کے سکوت یا عدمِ موافقت پر ''صححہ الحاکم ووافقہ الذہبي'' کا اطلاق کرنا درست نہیں کیونکہ اس نظریے کی اساس کمزور دلیل پر مبنی ہے۔(مقالات اثریہ)
کا تحقیقی جائزہ
از: حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
(اللہ تعالی محترم خبیب صاحب کے علم میں برکت فرمائے کہ وہ قیمتی بحوث پیش کرتے رہتے ہیں امین )
الحمد للّٰہِ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خیر الأنام محمد بن عبد اللّٰہؐ ومن والاہ۔ أما بعد:
امام حاکمa کا اسم گرامی محمد بن عبداللہ بن حمدویہ ہے۔ جو معروف امام، ناقد، حافظ، علامہ اور شیخ المحدثین تھے۔ کنیت ابو عبداللہ ابن البیع قرار پائی۔ الضبی، النیسابوری کی نسبت سے معروف ہوئے۔ ولادت باسعادت سوموار (١٣) ربیع الأول ٣٢١ھ کو نیشاپور میں ہوئی۔ (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٦٢، ١٦٣)
آپ کی علمی تُراث میں متعدد تصنیفات موجود ہیں۔ ان میں سے المستدرک علی الصحیحین شہرہئ آفاق کتاب ہے۔ صاحبِ کتاب اس کے منہج کی توضیح میں رقمطراز ہیں:
''وقد سألني جماعۃ من أعیان أھل العلم بہذہ المدینۃ وغیرھا أن أجمع کتابًا یشتمل علی الأحادیث المرویۃ بأسانید یحتج محمد بن إسماعیل و مسلم بن الحجاج بمثلھا.''
''اس شہر اور دیگر شہروں کے متعدد نامور اہلِ علم نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں ان احادیث پر مشتمل ایک کتاب تالیف کروں جن کی سندوں سے امام بخاریa اور امام مسلمa نے احتجاج (استدلال) کیا ہو۔''
(مقدمہ المستدرک للحاکم: ١/ ٢۔٣)
ان کی اس کتاب کی تلخیص آٹھویں صدی ہجری کے نامی گرامی محدث حافظ ذہبیa (٧٤٨ھ) نے کی ہے۔ جو بیروت، لبنان سے مطبوع المستدرک کے حاشیے میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ خلاصہ کی ابتدا میں فرماتے ہیں:
''یہ حافظ ابو عبداللہ حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین کا خلاصہ ہے۔ جس کے ملخص حافظ ذہبیa ہیں۔ انھوں نے متون ذکر کر کے اسانید کو حذف کیا ہے اور ان پر کلام کیا ہے۔'' (تلخیص المستدرک: ١/ ٢)
صاحب تلخیص دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
''یہ سود مند کتاب ہے جس کا خلاصہ میں نے ذکر کیا ہے۔ ''
(سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٦)
مزید فرمایا:
''میں نے المستدرک کے اختصار میں ان (ضعیف اور منکر روایات) کی نشاندہی کی ہے۔''
(تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ٤٠١۔٤٢٠ھـ، ص: ١٣٢)
ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص کی ہے اور اسے ہی مقدم رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بسا اوقات وہ صاحبِ المستدرک کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ مگر بیش تر وہ حاصلِ کلام ہی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو علمائے کرام ''أقرہ الذھبي، وافقہ الذھبي'' اور ''سکت عنہ الذھبي'' جیسی اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں کہ حافظ ذہبیa کا اس حدیث پر کلام نہ کرنا امام حاکمa کی موافقت کی دلیل ہے۔ اسی رائے کا تجزیہ ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔
تلخیص میں حافظ ذہبیa کے منہج کو چار مرکزی اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے۔ 1 خلاصہ2 خلاصہ مع تعاقب3 خلاصہ میں امام حاکمa کے کلام کا حذف 4مستدرک کی احادیث کا حذف۔
اب ان نکات کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
پہلی قسم : خلاصہ:
تلخیص کی ان اقسام میں سے سب سے بڑی قسم یہ ہے کہ حافظ ذہبیa امام حاکمa کی ذکر کردہ سند اور اس پر لگائے ہوئے حکم کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں۔ جس کا طریقہئ کار یہ ہے کہ وہ عموماً امام حاکمa کی ذکر کردہ سند کا نصف دوم، کبھی اس سے زیادہ اور بسا اوقات اس سے کم حذف کر دیتے ہیں۔ محض صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ کے طبقات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ بعد ازاں متنِ حدیث کے ذکر کے ساتھ ساتھ وہ حافظ حاکمa کے کلام کا نچوڑ بیان کر دیتے ہیں جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
١۔ امام حاکمa حدیث کی سند اور متن بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ''ہذا حدیث صحیح: علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ.''
اس کی تلخیص میں حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: ''علی شرطہما'' (المستدرک: ١/ ٧) یا پھر ''بخاری و مسلم '' جیسے رموز کی بدولت اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ (المستدرک: ١/ ٥٧)
٢۔ امام حاکمa لکھتے ہیں: ''ہذا حدیث صحیح علی شرط البخاري ولم یخرجاہ'' حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: 'علی شرط (بخاری)' المستدرک (١/ ٩٠) بسا اوقات 'بخاری' پر اکتفا کرتے ہیں۔
تلخیص المستدرک (١/ ٤٢٠)
٣۔ صحیح مسلم کی شرط پر حدیث کو امام حاکمa ''احتج بہ مسلم'' وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں۔ حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: 'علی شرطم' تلخیص المستدرک (١/ ٧) کبھی ''ہذا خرجہ م'' سے بھی ذکر کرتے ہیں۔ تلخیص المستدرک (١/ ٤٧) نادر طور پر وہ اسے (م) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ (التلخیص: ١/ ٤٣٠)
٤۔ امام حاکمa فرماتے ہیں:
''ہذا حدیث لا نعرف لہ علۃ بوجہ من الوجوہ ولم یخرجاہ''
حافظ ذہبیa لکھتے ہیں:
'' علاوہ ازیں تلخیص کے دیگر الفاظ بھی ہیں جن کا استیعاب ہمارا مقصود نہیں۔''
دوسری قسم خلاصہ مع تعاقب:
حافظ ذہبیa امام حاکمa کے کلام کی تلخیص کے ہمراہ ان کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ جسے وہ صیغہئ متکلم قُلتُ سے شروع کرتے ہیں۔ اس کی تین انواع ہیں:
١۔ حدیث میں ضعف کے باوجود امام حاکمa اسے صحیح کہہ دیتے ہیں جیسے انھوں نے مثنی بن الصباح کی سند سے حدیث: ''کان إذا جاء جبرئیل۔۔۔۔۔۔'' بیان کی اور پھر فرمایا: ''ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ'' حافظ ذہبیa اس کی تلخیص اور ان کے تعاقب میں رقمطراز ہیں ''صحیح، قلت: مثنی، قال النسائي: متروک'' (المستدرک: ١/ ٢٣١)
دوسری جگہ فرمایا: ''قلت: لا''
٢۔ امام حاکمa نے حضرت ابوہریرۃt کی حدیث ''أکمل المؤمنین إیماناً۔۔۔۔۔۔'' بدونِ تبصرہ بیان کی تو حافظ ذہبیaنے فرمایا: ''قلت: لم یتکلم علیہ المؤلف وھو صحیح''
''میں کہتا ہوں: مولف نے اس حدیث پر حکم نہیں لگایا حالانکہ یہ روایت صحیح ہے۔'' (المستدرک: ١/ ٣)
٣۔ المستدرک میں ذکر کردہ حدیث شرطِ شیخین یا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی شرط پر نہیں ہوتی یعنی وہ حدیث یا راوی ان کتب میں موجود ہوتا ہے۔ گویا وہ المستدرک کی شرط پر نہیں۔ امام حاکمa نے حضرت ابوہریرہt کی حدیث ''افترقت الیھود۔۔۔۔۔۔'' بیان کی اور فرمایا:
''مسلم نے محمد بن عمرو بن ابی سلمہ عن أبی ہریرہ سے احتجاجاً روایت لی ہے۔ بخاری و مسلم فضل بن موسیٰ سے احتجاجاً روایت لینے میں متفق ہیں اور فضل ثقہ ہیں۔''
حافظ ذہبیa ان کی تردید میں فرماتے ہیں:
''قلت: ما احتج (م) بمحمد بن عمرو منفرداً بل بانضمامہ إلی غیرہ''
''میں کہتا ہوں: مسلم نے محمد بن عمرو کی روایت بطور دلیل نہیں بلکہ متابع کے طور پر ذکر کی ہے۔'' (المستدرک: ١/٦)
اس قسم کی دوسری مثال یہ ہے کہ امام حاکمa نے حضرت ابوہریرہt کی حدیث: ''الجرس مزمار الشیطان'' ذکر کی اور فرمایا: ''ہذا حدیث صحیح علی شرطِ مسلم ولم یخرجاہ ''
حافظ ذہبیa لکھتے ہیں: ''قلت خرجہ مسلم بھذا السند''
(المستدرک: ١/ ٤٤٥)
یہ حدیث صحیح مسلم (٢١١٤) میں ہے۔ مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ المستدرک میں مزمار کا لفظ ہے اور صحیح مسلم میں (مزمار کی جمع) مزامیر کے الفاظ ہیں۔
بسا اوقات امام حاکمa المستدرک میں حدیث ذکر کرنے کے بعد اعتراف بھی کرتے ہیں کہ شیخین نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ وہ حضرت انسt کی حدیث: ''کان آخر وصیۃ۔۔۔۔۔۔'' کے بعد فرماتے ہیں: ''وقد اتفقا علی إخراج ہذا الحدیث وعلی إخراج حدیث عائشۃ: آخر کلمۃ تکلم بھا: الرفیق الأعلیٰ''
''امام بخاری اور امام مسلمa نے حضرت انسt کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ اور حضرت عائشہt کی حدیث ''آخر کلمۃ۔۔۔۔۔۔'' بھی بیان کی ہے۔'' (المستدرک: ٣/ ٥٧)
حافظ ذہبیa فرماتے ہیں: ''فلما ذا أو ردتہ!''
''پھر اسے المستدرک میں ذکر کرنے کا فائدہ کیاہے؟''
حضرت انسt کی حدیث کاانتساب صحیح بخاری اور مسلم کی طرف کرنا محلِ نظر ہے بلکہ یہ روایت سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ میں ہے۔ علامہ مزیa نے بھی اس حدیث کو ان دونوں کتب کی طرف منسوب کیا ہے۔
(تحفۃ الأشراف للمزي: ١/ ٣١٩، حدیث: ١٢٢٩)
یہ روایت صحیح ابن حبان میں بھی موجود ہے جیسا کہ حافظ ہیثمیa نے موارد الظمان (ص: ٢٩٨، حدیث: ١٢٢٠) میں ذکر کی ہے۔ معلوم شدکہ موارد الظمان زوائد علی الصحیحین ہے۔ یعنی اس میں صحیح ابن حبان کی ایسی روایات ہیں جو بخاری و مسلم میں نہیں۔ چنانچہ حافظ ہیثمیa مقدمہ کتاب میں فرماتے ہیں:
'''فقد رأیت أن أفرد زوائد صحیح أبي حاتم محمد بن حبان البستي علی صحیح البخاري و مسلم''
(مقدمہ موارد الظمان، ص: ٢٨)
یہ اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ حضرت انسt کی حدیث بخاری و مسلم میں نہیں۔ امام حاکمa کا اسے ان کتب کی طرف منسوب کرنا قابلِ غور ہے۔ حافظ ذہبیa کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اس انداز سے امام حاکمa کا تعاقب کرتے۔
حافظ ابن حجرaنے اتحاف المھرۃ (٢/ ٦٤٩ رقم: ١٦٤٣) میں اسے صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور المستدرک کا حوالہ ان سے رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ کتاب کی شرط پر ہے۔ فلیستدرک علیہ!
تنبیہ:
المستدرک کی سند میں سلیمان التیمی اور انس بن مالک کے مابین قتادہ کا واسطہ ساقط ہے۔ جیسا کہ حدیث کے دیگر مراجع سے معلوم ہوتا ہے۔
تیسری قسم: تلخیص میں حاکمa کے کلام کا حذف:
بسا اوقات امام حاکم کسی حدیث پر حکم لگاتے ہیں مگر وہ تلخیص میں موجود نہیں ہوتا۔ حافظ حاکمa فرماتے ہیں:
'''ہذا حدیث لم یخرج فی الصحیحین وقد احتج مسلم بأحادیث القعقاع بن حکیم عن أبی صالح'' (المستدرک: ١/٥)
مگر یہ کلام یا اس کا خلاصہ تلخیص میں مذکور نہیں۔ نہ معلوم یہ طباعتی غلطی ہے یا نسخوں کا اختلاف ہے یا حافظ ذہبیa نے اسے حذف کر دیا ہے۔
چوتھی قسم: احادیث کا حذف:
ایسا بھی ممکن ہے کہ المستدرک والی حدیث التلخیص میں موجود نہ ہو۔ یہاں اس احتمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ حافظ ذہبیa تکرار کی بنا پر اسے حذف کر دیتے ہوں یا شدید ضعف کی بنا پر اسے ساقط قرار دیتے ہوں۔ مگر یہ دوسرا احتمال محل نظر ہے کیونکہ انھوں نے انتہائی منکرروایات بھی التلخیص میں ذکر کی ہیں۔ اور حافظ حاکمa پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔
حافظ حاکمa نے حضرت عائشہr کی حدیث ''مابعث رسول اﷲ۔۔۔۔۔۔'' کو صحیح کیا ہے مگر حافظ ذہبیaانتہائی غصیلے انداز میں لکھتے ہیں:
''یہ روایت صحیح ہے۔'' میں (ذہبیa) کہتا ہوں: سہل (بن عمار العتکی) کو حاکمa نے تاریخ میں کذاب قرار دیا ہے اور یہاں اس کی حدیث کو صحیح کیا ہے۔ کیا یہی دین داری ہے؟'' (المستدرک: ٣/ ٢١٥)
دوسرے مقام پر یوں اظہارِ برہمی کیا:
''میں کہتا ہوں: کیا مؤلف (حاکمa) کو اس خود ساختہ حدیث کے بیان کرنے میں حیا مانع نہیں؟ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر، اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ حدیث جھوٹ ہے۔ '' (المستدرک:١/ ٢٣٤)
تلخیص کی تیسری اور چوتھی قسم مشکوک ہے۔ جس کی ضروری تفصیل ابھی گزری ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ المستدرک اور اس کی تلخیص میں متعدد سقطات اور اغلاط موجود ہیں:
١۔ المستدرک (٣/ ٣٥٣۔ ٣٥٤)کی پانچ احادیث تلخیص میں نہیں۔
٢۔ تلخیص المستدرک (٢٠٤٨) میں ''شعبۃ عن أبي بشر سمعت أبا الملیح عن عبد اللّٰہ بن عتبۃ عن أم حبیبۃ أن رسول اللّٰہ کان إذا سمع المؤذن قال: وأنا وأنا'' ہے۔
گویا یہ سند اس متن کی نہیں۔ ملاحظہ ہو: المستدرک
٣۔ تلخیص المستدرک (٢/ ١٦٦) میں ہے:
''معتمر ثنا محمد بن عمرو بن أبي سلمۃ عن أبي ہریرۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: 'تستأمر الیتیمۃ في نفسھا فإن أبت فلاجواز علیھا''
مگر یہ سند اور متن المستدرک میں نہیں ہے۔
٤۔ مستدرکِ حاکم (٣/ ١٨٥۔ ١٨٦) میں حضرت عائشہr کی مرفوع حدیث: ''سیدات نساء أھل الجنۃ'' پر کوئی حکم مذکور نہیں مگر تلخیص میں (خ۔م) موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطبعی غلطی ہے۔
صححہ الحاکم ووافقہ الذھبي کا ظہور:
پہلے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ التلخیص میں حافظ ذہبیa امام حاکمa کے کلام کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں اور بسا اوقات تعاقب بھی کرتے ہیں۔ ان کی اس تلخیص کو بعض علماء ''موافقت'' گردانتے ہیں۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔
حافظ زیلعیa:
صححہ الحاکم وأقرہ الذھبي کا اطلاق غالباً سب سے پہلے حافظ زیلعیa (٧٦٢ھ) نے کیا۔ جو صاحب التلخیص حافظ ذہبیa کے شاگرد ہیں۔ نصب الرایہ میں بھی متعدد بار انھوں نے حافظ ذہبیaکو ''شیخنا'' سے تعبیر کیا ہے۔
حافظ زیلعیa رقمطراز ہیں:
''قال (الحاکم): صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، انتھی، وأقرہ الذھبي علیہ.'' (نصب الرایۃ: ٤/ ١٦١)
یعنی امام حاکمa نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبیa نے ان کی رائے کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن اگر یہ نسخ کا اختلاف اور صرفِ نظر کا شاخسانہ نہیں تو حافظ زیلعی کا وہم ہے۔ کیونکہ حافظ ذہبیa نے اس مقام پر بایں الفاظ امام حاکمa کی تردید کی ہے:
''صحیح، قلت: أبوحماد ھوا المفضل بن صدقۃ، قال النسائي: متروک.'' (المستدرک: ٢/ ١٢٠)
''یہ روایت صحیح ہے، میں (ذہبیa) کہتا ہوں: ابو حماد کا نام مفضل بن صدقہ ہے۔ جسے نسائیa نے متروک قرار دیا ہے۔ ''
بنابریں حافظ زیلعیa کا مذکورہ بالا قول محلِ نظر ہے۔ تا ہم انھوں نے تین مرتبہ لم یتعقبہ الذہبي کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔
(نصب الرایۃ: ٣/ ٣، ٣٨، ٨٠)
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حافظ ذہبیaکے عدمِ تعاقب کو موافقت قرار دیتے تھے۔
حافظ ابن الملقنa
حافظ ابن الملقنa (٨٠٤ھ) ''مختصر استدراک الحافظ الذھبي علی مستدرک أبي عبد اللّٰہ الحاکم'' میں ایک حدیث کے بعد لکھتے ہیں:
''قال: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، قلت: إقرہ الذھبی علیہ.''
(مختصر الستدراک الحافظ الذھبي: ١/ ٥٦٩)
دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں:
''والعجب من الذھبي کیف أقرہ علیہ.''
(استدراک: ١/ ٣٨٩)
''ذہبیa پر تعجب ہے کہ انھوں نے ان کی رائے کو کیسے برقرار رکھا ہے۔''
حافظ ابن حجرa:
حافظ ابن حجرa (٨٥٢ھ)نے بھی ''وافقہ الذھبي، سکت عنہ الذھبي'' جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
١۔ حافظ ابن حجرaفرماتے ہیں:
''وقد أخرجہ الحاکم۔۔۔۔۔۔ وقال: صحیح ووافقہ المصنف في تلخیصہ.'' (لسان المیزان: ٧/ ٤٥٧، ترجمہ قاسم بن إبراہیم)
یعنی حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کی موافقت کی ہے۔ ایسی صورت کے موافقت ہونے میں کوئی دو آراء نہیں کیونکہ حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کے کلام کا خلاصہ ''صحیح'' ذکر کیا پھر 'قلت' سے ان کی تائید کی۔
(المستدرک، ص: ١٧٨، حدیث ابن عباس)
٢۔ حافظ ابن حجرa حافظ ذہبیa پر تعجب کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:
''میں نہیں جانتا کہ ذہبیa کے قول'صویلح' اور تلخیص المستدرک میں امام حاکمa کی تصحیح پر سکوت میں جمع کیسے ممکن ہے۔ باوجویکہ حافظ ذہبیa نے دو حافظوں (امام حاکمa اور امام ابن حبانa ) سے نقل کیا ہے انھوں نے رجاء کے موضوع روایات بیان کرنے کی گواہی دی ہے۔'' (لسان المیزان: ٢/٤٥٧)
بلاشبہ حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کی تصحیح پر سکوت کیا ہے۔ المستدرک (٤/ ١٢٩) اور میزان الاعتدال (٢/ ٤٦ترجمہ: ٢٧٦٤) میں وہی بات نقل کی ہے جس کی طرف حافظ ابن حجرa نے اشارہ کیا ہے۔ گویا تلخیص المستدرک میں امام ذہبیa کا سکوت حافظ ابن حجرa کے ہاں موافقت کی دلیل ہے۔
3 حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''أخرج لہ الحاکم في المستدرک وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ.'' (لسان المیزان: ٤/ ١٨٢، ترجمہ: العلاء بن إسماعیل)
یہاں بھی حسبِ سابق امام ذہبیa نے امام حاکمa کا تعاقب نہیں کیا۔ (المستدرک: ١/ ٢٢٦)
٤ حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں:
''وقد أخرج لہ الحاکم في المستدرک، فقال: ثقۃ مأمون ولم یتعقبہ المؤلف في تلخیص المستدرک.''
لسان المیزان (٢/ ٤٣٤، ترجمہ: دینار أبو سعید) بلاشبہ حافظ ابن حجر کی بات درست ہے۔ (المستدرک: ٣/ ١٢٤)
٥۔ حافظ ابن حجرaرقمطراز ہیں:
''وقد أخرج الحاکم حدیثہ في المستدرک من ہذا الوجہ، وقال: صحیح ولم یتعقبہ الذھبي.''
لسان المیزان (٧/ ٣٧) ملاحظہ ہو: المستدرک (٤/ ٣١٦، ٤٣٤)
٦۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
''وأخرج لہ۔ أبو سباع۔ الحاکم في أوائل البیوع حدیثاً ولم یتعقبہ الذھبي في تلخیصہ.''
لسان المیزان (٧/ ٥٠) وتعجیل المنفعۃ لا بن حجر (ص: ٤٦٣، ٤٦٤، ترجمہ: ١٢٧٧) ملاحظہ ہو: المستدرک (٢/ ٩، ١٠)
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حافظ ابن حجرa نے پہلی مثال میں موافقت کا اثبات کیا۔ جو بلاشبہ درست ہے۔ دوسری اور تیسری مثال میں سکوت کو جبکہ آخری تین مثالوں میں ''لم یتعقبہ الذھبي'' کو موافقت سے تعبیر کیا ہے۔
حافظ سیوطیa:
حافظ سیوطیa وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ان الفاظ کو قاعدے کی شکل میں پیش کیا۔ چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
''حافظ ذہبیa نے المستدرک پر توجہ دیتے ہوئے اسے مختصر کیا، اس کی اسانید کو تعلیقاً بیان کیا اور ان احادیث میں موافقت کی جن میں کلام نہ تھا ۔جو کمزور تھیں ان کا تعاقب کیا۔''
(مقدمۃ النکت البدیعات، ص: ٢٩)
اسی قانون کو علامہ سیوطیa نے عملی لبادہ بھی اوڑھایا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''وأخرجہ الحاکم في المستدرک۔۔۔۔۔۔ وقال: صحیح وأقرہ الذھبی فلم یتعقبہ.'' (اللآلی المصنوعۃ للسیوطي: ٢/ ٢١٥)
بلاشبہ حافظ ذہبیa نے امام حاکمa کا کوئی تعاقب نہیں کیا۔
(المستدرک: ٤/١٢٢)
گویا اس قاعدے کی داغ بیل ڈالنے والے اور ایک اصول کی حیثیت سے متعارف کرانے والے حافظ سیوطیa ہیں۔ اسے بکثرت استعمال کرنے والے حافظ مناویa ہیں۔
حافظ مناویa:
علامہ عبدالروف مناویa (١٠٣١ھ) نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے میں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور صرف فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں اسے تقریباً سوا چار صد مرتبہ استعمال کیا۔ (فیض القدیر: ١/ ٤٢۔ ٦٨)
علامہ عزیزیa:
علامہ علی بن احمد بن محمد العزیزیa (١٠٧٠ھ) نے السراج المنیر بشرح الجامع الصغیر میں بکثرت اس اصطلاح کا اطلاق کیاہے۔ اور یہ حافظ مناویa کے اسلوب سے متاثر ہونے اور ان کی کتاب فیض القدیر کو پیش نظر رکھنے کا نتیجہ ہے:
علامہ تھانوی فرماتے ہیں:
''میں نے عزیزی کا الجامع الصغیر کی شرح میں یہ اسلوب دیکھا کہ وہ حاکمa کی تصحیح پر ذہبیa کی موافقت سے بکثرت استدلال کرتے ہیں۔''
بعد ازاں اس اصطلاح کے استعمال میں وسعت پیدا ہو گئی۔ محدثِ مصر شیخ احمد شاکرa اور وحید الدہر علامہ البانیa نے بھی اس کا استعمال بکثرت کیا۔ جہاں سے عام علما میں یہ اصطلاح شہرت پا گئی اور اس کے قبول کرنے کا رجحان پیدا ہو گیا۔ مگر یہ موقف درست نہیں۔
ذہبی کا سکوت موافقت نہیں:
اس میں دو آراء نہیں کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص المستدرک میں تو کجا کسی اور کتاب میں بھی یہ صراحت نہیں کی کہ تلخیص میں میرا سکوت یا عدمِ تعاقب موافقت کی دلیل ہو گا۔ اگر وہ صراحت کر دیتے تو یقینا یہ معما بھی حل ہو جاتا اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہتی۔ لہٰذا اب ''سکوت'' کی وضاحت قرائن کے ذریعے ہی سے ممکن ہے۔
پہلا قرینہ:
سیراعلام النبلاء میں مذکور عبارت سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا سکوت تائید کی دلیل نہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ''مستدرک میں بہت سی احادیث ایسی ہیں جو شیخین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہیں۔ کتاب میں ایسی احادیث تقریباً ایک تہائی (٣٣) فیصد یا اس سے بھی کم ہے ۔ پھر ان میں سے بہت سی احادیث ایسی ہیں جو بظاہر شرطِ بخاری یا مسلم یا ان دونوں کی شرط پر ہیں۔ مگر حقیقت میں ایسی پوشیدہ علتیں ہیں جو صحتِ حدیث کو متاثر کرتی ہیں۔
المستدرک کا ایک حصہ صالح، حسن اور جید سندوں پر مبنی ہے جو تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ باقی تقریباً ٤٢ فیصد المستدرک میں مناکیر اور عجائب روایات ہیں۔ بہر حال یہ کتاب انتہائی سود مند ہے۔ میں نے اس کی تلخیص کی ہے ابھی وہ مزید کام اور اصلاح کی متقاضی ہے۔ '' (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٥۔ ١٧٦)
علامہ ذہبیa کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ شرطِ شیخین والی احادیث٣٣ فیصد ہیں۔ حسن صالح اسانید والی احادیث ٢٥ فیصد ہیں۔ باقی ٤٢ فیصد احادیث مناکیر اور ضعیف ہیں۔
المستدرک کا جو نسخہ مصطفی عبدالقادر عطا کے اہتمام سے شائع ہوا اس میں احادیث کی تعداد (٨٨٠٣) ہے۔ دکتور خالد بن منصور الدریس نے امام ذہبیa کی ضعیف کردہ روایات کی تعدد (٣٣٧) بتلائی ہے۔ الایضاح الجلی (٣٧۔ ٥٨٢٣٥٥) میں دکتور محمود میرہ نے ضعیف احادیث کی تعداد (٩٥٦) جبکہ موضوع روایات کی (٥٤) بتلائی ہے۔ گویا ان کے نزدیک ایسی احادیث (١٠١٠) ہیں۔
(الحاکم وکتاب المستدرک، ص: ٣٤٧۔ ٣٤٩، بحوالہ: الإیضاح الجلي، ص:٣٧)
مختصر استدراک الذہبی لا بن الملقن کے محققین نے ان احادیث کی تعداد (١١٨٢) بتلائی ہے۔ ان میں وہ استدرکات بھی شامل ہیں جو حافظ ابن الملقنa نے حافظ ذہبیa پر کیے ہیں جو زیادہ نہیں۔
دکتور محمود میرہ کے اعداد و شمار کے مطابق موضوع روایات کی تعداد (١٠١٠) قرار دی جائے تو یہ تعداد مکمل احادیث کا (٤٨.١١ فیصد) قرار پاتی ہے۔ جبکہ حافظ ذہبی کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تناسب تقریباً ٤٢ فیصد ہے۔ اور ٤٢ فیصد تقریباً (٣٦٩٧) احادیث بنتی ہیں۔ گویا (٢٦٨٧) احادیث حافظ ذہبیa کی نظر میں تھیں مگر انھوں نے ان کے ضعیف ہونے کی نشان دہی نہیں کی۔ اور ایسی احادیث کا تناسب تقریباً ٣٠ فیصد بنتا ہے۔ بالفاظِ دیگر حافظ ذہبیa کی نگاہ میں المستدرک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ضعیف اور منکر تھا۔
اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حافظ ذہبیa کی نگاہ میں کل روایات میں سے ایک تہائی (٣٣ فیصد) احادیث شرطِ شیخین پر ہونے کے باوجود علتِ قادحہ سے معلول ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حافظ ذہبیa نے ان سب معلول روایات کی نشاندہی کی ہے؟ یہاں ہم ایک اشکال کا ازالہ کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
یہاں کوئی معترض یہ دعوی کر سکتا ہے کہ حافظ ذہبیa کے یہ اعداد و شمار تخمین اور ظن پر مبنی ہیں کیونکہ انھوں نے تاریخ اسلام میں روایات کا جو تناسب ذکر کیا ہے وہ سیر اعلام النبلاء میں مذکور نسبت سے مختلف ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
''المستدرک میں بہت ساری روایات شرطِ شیخین پر ہیں اور خاصی احادیث بخاری یا مسلم کی شرط پر ہیں۔ ممکن ہے ان کا مجموعہ نصف کتاب (٥٠ فیصد) کے برابر ہو۔ ایک چوتھائی (٢٥ فیصد) احادیث صحیح سند سے مروی ہیں۔ باقی ایک چوتھائی (٢٥ فیصد) مناکیرہ واہیات اور ضعیف روایات ہیں۔ کچھ ان میں موضوع بھی ہیں۔ میں نے تلخیص المستدرک میں ان سے باخبر اور متنبہ کر دیا ہے۔''
(تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ٤٠١۔٤٢٠ھـ، ص: ١٣٢)
یعنی (٢٥ فیصد) احادیث ضعیف اور منکر ہیں۔ اور ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ تلخیص المستدرک میں موجود ایسی نشان زدہ روایات (١٢ فیصد) سے زیادہ نہیں۔ گویا حافظ ذہبیa کے اس قول کے مطابق بھی (١٣ فیصد) احادیث ایسی ہیں جو ان کی نگاہ میں ضعیف تھیں مگر انھوں نے ان کی نشان دہی نہیں کی۔
سیر اعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام میں تناسب کا یہ اختلاف حافظ ذہبیa کے اجتہاد کے متغیر ہونے کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے۔ سیر اعلام النبلاء والا اجتہاد ہی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کا آخری اجتہاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے ثابت ہوتا ہے کہ سیر اعلام النبلاء تاریخ الاسلام کے بعد مرقوم کی گئی۔ معروف محقق دکتور بشارعواد رقمطراز ہیں:
''وقد ألف الذھبي کتابہ ہذا بعد کتابہ العظیم (تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام).''
(مقدمۃ تحقیق سیر أعلام: ١/ ٩٢)
اس پر مستزادیہ کہ النبلاء میں تاریخ الاسلام کے حوالے موجود ہیں: النبلائ: (١٧/ ٥٣٥ ، ٣/ ٣٨٠، ٤/ ١٨٠، ٧/ ١٨٠، ٤٢٥، ١٧/ ٥٣٥) لہٰذا ضعیف روایات کا تناسب (٤٢ فیصد) ہی درست معلوم ہوتا ہے۔
دوسرا قرینہ:
حافظ ذہبیa کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تلخیص المستدرک حافظ حاکمa پر تعاقب کی غرض سے نہیں لکھی کیونکہ انھوں نے اختصار کیا ہے استدراک نہیں، اور تلخیص میں خشتِ اول عدمِ اضافہ اور خلاصہ پر اکتفا ہوتا ہے۔ اضافہ اختصار کی شرط کے منافی ہو گا گویا نئی کتاب مرتب کر رہا ہے۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر یہ محض اختصار تھا تو انھوں نے متعدد مواقع پر تعاقب بھی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ذہبیa حسبِ ضرورت ملخص کتب میں بعض مقامات پر علمی نکات بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے ''المھذب في اختصار السنن الکبیر، تلخیص الموضوعات، تلخیص العلل المتناھیۃ'' جیسی کتب میں کیا ہے۔ تلخیص المستدرک کے حوالے سے انھوں نے یہ صراحت کی ہے:
'' میں نے اس کی تلخیص کی ہے ابھی اس کا بہت سارا کام اور اس کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ '' (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٦)
تاریخ الاسلام میں بھی صراحت کی کہ میں نے اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے۔ بلکہ تلخیص المستدرک کی ابتدا میں فرمایا۔ ھذا مالخص (١/ ٢)
تیسرا قرینہ:
المستدرک میں بہت سارے مقامات پر ضعیف راوی ہیں اس کے باوجود صاحبِ کتاب اس سند یا اسانید کی تصحیح کرتے ہیں اور حافظ ذہبیa ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ مگر دوسری جگہ پر اسی سند پر حافظ ذہبیa بدونِ تعاقب گزر جاتے ہیں۔ بادیئ النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے امام حاکمa کی موافقت کی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ امام حاکمaنے سہل بن عمارا کی سند سے حضرت عائشہr کا قول ''مابعث رسول اللّٰہ ؐ زید بن حارثہ۔۔۔۔۔۔'' ذکر کر کے فرمایا: ''صحیح الإسناد ولم یخرجاہ.''
حافظ ذہبیa ان کے تعاقب میں فرماتے ہیں:
''صحیح، قلت، سھل قال الحاکم في تاریخہ: کذاب وھنا یصحح لہ، فأین الدین!'' (المستدرک: ٣/ ٢١٥)
''صحیح حدیث ہے۔'' میں کہتا ہوں: حاکمa نے التاریخ میں سہل کو کذاب قرار دیا ہے اور یہاں اس کی حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔ کیا یہی دین ہے؟''
امام حاکمa نے اس حدیث کے بعد بارھویں حدیث جبکہ تلخیص المستدرک کے مطابق نویں حدیث اسی راوی سے بیان کی اور فرمایا:
''صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ'' حافظ ذہبیa نے تلخیص میں ''(م)'' کی علامت ذکر دی۔ (المستدرک: ٣/ ٢١٩)
گویا انھوں نے اس چوتھے صفحے پر امام حاکمa کا تعاقب نہیں کیا اور یہ بات معقول نہیں کہ حافظ ذہبیa اپنے سابقہ تعاقب کو بھول گئے ہوں جو صرف چار صفحات قبل گزرا ہو اور دوسری حدیث میں ان کی موافقت کر لی ہو۔ بلکہ اس راوی کی پہلی حدیث پر تعاقب معمولی الفاظ سے نہیں کیا بلکہ فرمایا: فأین الدین! کیا یہی دین داری ہے!
حافظ ذہبیa کے اس اسلوب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ ضعیف راوی کی پہلی حدیث پر تنقید کرتے ہیں۔ باقی روایات سے خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔
دوسری مثال:
دراج ابو السمح المصری معروف راوی ہے۔ ان کی بتیس روایات میں سے چار روایات پر حافظ ذہبیa نے تعاقب کیا باقی اٹھائیس روایات پر سکوت کیا ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:
رقم
طرف الحدیث
المستدرک
حکم الامام حاکم
حکم الذھبی
1
خیر مساجد..
209/1
سکت عنہ الحاکم
سکت عنہ الذھبی
2
إذا رأیتم الرجل۔۔۔۔۔۔
212/1
صح
دراج کثیر المناکیر
3
إذا أدیت...
390/1
صح
صح
4
أکثروا ذکر اللّٰہ۔۔۔۔۔۔
499/1
صح
سقط الحدیث من تلخیصہ
5
استکثروا۔۔۔۔۔۔
513-512/1
صح
صح
6
قال موسی...
528/1
صح
صح
7
أعوذ باللّٰہ..
532/1
صح
واہ
8
قد ہجرت ..
104-103/2
صح
صح
9
تشویہ النار..
246/2
//
//
10
إذا رأیتم..
333/2
//
//
11
إن الحمیم..
387/2
صح
سقط من تلخیصہ
12
تشویہ النار..
395/2
صح
صح
13
إن علیھم التیجان۔۔۔۔۔۔
427-426/2
//
//
14
لو أن رصاصتہ..
439-438/2
صح
صاحب عجائب
15
ینظر إلی وجھہ..
475/2
صح
صح
16
کعکرالزیت۔۔۔۔۔۔'
501/2
//
//
17
الویل وادٍ
507/2
//
//
18
// // //
534/2
//
//
19
لوأنکم لا ..
646/4
//
//
20
إن الشیطان ..
261/4
سکت
سکت
21
أیما امرأ ۃ..
289/4
صح
صح
22
لاحلیم....
293/4
//
//
23
لو أن رجلاً..
314/4
//
//
24
الشرک الخفی..
329/4
//
//
25
أصدق الرؤیا..
392/4
//
//
26
سیأتی علی..
457/4
//
//
27
إن فی النار...
593/4
//
کثیر المناکیر
28
إن الأرضین..
594/4
صح
صح
29
ویل واد ٍ...
596/4
//
//
30
ینصب للکافر..
597/4
//
//
31
مقعد الکافر..
598/4
//
//
32
لو أن مقمعاً..
600/4
صح
حکم نہیں
33
سرادق النار..
601/4
صح
سقط الحدیث من تلخیص
34
لو ضرب..
601/4
صح
صح
35
لو أن ولو..
602/4
//
//
36
ماء کالمھل..
604/4
//
//
37
إذا کان یوم ...
605/4
//
//
38
یأکل التراب..
609/4
صح
مالحقہ (أی أبوقلابۃ أباذر)
تنبیہ:
حافظ ذہبیaکے حکم میں جو 'صح' ذکر کیا گیا ہے وہ ظاہری اعتبار سے ہے ورنہ ذہبیa نے اس کی روایت کو قطعاً صحیح قرار نہیں دیا۔
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ دراج کی اڑتیس احادیث مستدرک میں موجود ہیں۔ جن میں سے دو ایسی ہیں جن پر حاکمa نے سکوت کیا اور ذہبیa نے اسے اسی طرح لکھ دیا۔ (المستدرک: ١/ ٢٠٩، ٤/ ٢٦١)
چار مقامات پر حاکمaکا تعاقب کیا۔
١۔ کثیر المناکیر۔ المستدرک (١/ ٢١٢، ٤/ ٥٩٤)
٢۔ کثیر المناکیر۔ المستدرک (١/ ٢١٢، ٤/ ٥٩٤)
٣۔ واہ۔ المستدرک (٢/١٠٣۔ ١٠٤)
٤۔ صاحب عجائب۔ المستدرک (٢/ ٤٧٥)
تین جگہوں پر تلخیص میں حدیث موجود نہیں۔
(المستدرک: ١/ ٤٩٩، ٢/٣٩٥، ٦٠١)
ایک جگہ ذہبیa کی تلخیص مذکور نہیں۔ (المستدرک: ٤/ ٦٠٠)
گویا حافظ ذہبیa نے بتیس مقامات میں سے صرف چار مقامات پر تعاقب کیا اور اٹھائیس مقامات پر سکوت کیا ہے۔ کیا ان اٹھائیس مقامات کے بارے میں دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ذہبیa نے حاکمa کی موافقت کی ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس لیے اسے موافقت یا تائید باور کرنا غلط فہمی اور حافظ ذہبیa کے اسلوب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ بلکہ اس سے حافظ ذہبیa کا تناقض بھی لازم آتا ہے جیسا کہ بعض لائق احترام علما نے ایسے مواقع پر حافظ ذہبی کی رائے کو باہم متعارض قرار دیا ہے۔
حافظ ذہبیa نے المستدرک کی تلخیص کی ہے۔ اس کا تعاقب کیا ہے اور نہ استدراک ورنہ وہ اتنی مرویات پر خاموش نہ رہتے۔ اسی قسم کی متعدد مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو انھیں بھی ذکر کر دیا جائے گا۔
١۔ امام حاکمa نے احمد بن محمد بن داود الصنعانی کی سند سے عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اﷲ عنہ مرفوع حدیث: ''نزل جبرئیل إلی النبيؐ...'' بیان کی۔ پھر فرمایا: (ہذا حدیث صحیح الإسناد فإن رواتہ کلھم مدنیون ثقات)
حافظ ذہبیa نے تلخیص میں ذکر کیا: رواتہ ثقات.
(المستدرک: ١/ ٥٤٤۔٥٤٥)
مگر میزان الاعتدال میں اس کی یہی منکر روایت بیان کی اور فرمایا:
''اس نے ایسی حدیث بیان کی ہے جس کا وہ متحمل نہیں۔ حاکمa نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ میں نے کہا: ''ہرگز نہیں۔'' انھوں نے کہا: ''اس کے راوی مدنی ہیں۔'' میں نے جواب دیا: ''قطعاً نہیں۔'' انھوں نے کہا: ''ثقہ ہیں۔'' میں نے کہا: ''میں اس (روایت) کو احمد (بن محمد الصنعانی) کی وجہ سے متہم قرار دیتا ہوں۔''
(میزان الاعتدال: ١/ ١٣٦)
کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص میں حاکمa کی موافقت کی ہے؟
٢۔ امام حاکمa نے محمد بن حبیب الجارودی کی سند سے حضرت ابن عباسt کی مرفوع حدیث: ''ماء زمزم...'' بیان کی اور پھر فرمایا: ہذا حدیث صحیح الإسناد إن مسلم من الجارودی ولم یخرجاہ
حافظ ذہبیa نے یہی کلام نقل کیا مگر ''ولم یخرجاہ'' کو حذف کر دیا۔
گویا بظاہر موافقت کی ہے مگر میزان الاعتدال (٣/ ٥٠٧، ترجمہ ٧٣٤٩) میں فرمایا:
''حاکم نے اس پر نکیر کی ہے اس نے ایک باطل حدیث بیان کی جس بنا پر اسے متہم قرار دیا گیا ہے۔ ''
٣۔ امام حاکمa نے عمر بن ابراہیم العبدی کی سند سے حضرت سمرہ بن جندبt کی مرفوع حدیث بیان کی۔ حافظ ذہبیa نے ذکر کیا ''صحیح''
حافظ ذہبیa نے اسی روایت کو میزان الاعتدال میں عمر کے ترجمہ میں بیان کیا اور فرمایا:
''صححہ الحاکم وھو حدیث منکر کما تری.''
(میزان: ٢/ ١٧٩)
''حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ وہ منکر ہے۔''
٤۔ امام حاکمa نے محمد بن الحسن التل الاسدی الکوفی کی سند سے حضرت علیt کی مرفوع حدیث: ''الدعاء سلاح المؤمن...'' ذکر کی پھر فرمایا: ''ہذا حدیث صحیح فإن محمد بن الحسن ہذا ھو التل وھو صدوق في الکوفیین.'' حافظ ذہبیa نے ''صحیح'' قرار دیا ہے۔ مگر میزان الاعتدال (٣/ ٥١٢۔٥١٣) میں فرماتے ہیں: اس کی یہ روایت منکر ہے۔ حاکمa نے اسے بیان کر کے تصحیح کی ہے۔ اس میں انقطاع ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جن راویان کی حدیثوں کو بظاہر حافظ ذہبیa نے صحیح قرار دیا انھی احادیث کو ان راویان کے ترجمے میں ذکر کر کے منکر قرار دیا ہے۔ اب ذرا یہ بھی ملاحظہ ہو کہ حافظ ذہبیa نے جن احادیث کا شرطِ شیخین وغیرہ سے ہونا تسلیم کیا ہے انھی پر تنقید بھی کی ہے۔
٥۔ امام حاکمa نے ثور عن راشد بن سعد عن ثوبان کی سند سے مرفوع حدیث ''بعث رسول...'' بیان کی اور کہا: ۔۔۔۔۔۔علی شرط مسلم۔۔۔۔۔۔ حافظ ذہبی نے بھی علی شرط (م) فرما دیا۔ (المستدرک: ١/ ١٦٩) مگر سیر اعلام النبلاء میں راشد بن سعد کے ترجمے میں اس حدیث کو ذکر کیا، پھر فرمایا:''اس حدیث کی سند قوی ہے۔ حاکمa نے اس کی تخریج کر کے فرمایا: یہ مسلم کی شرط پر ہے۔ ان سے چوک ہوئی۔ بخاری و مسلم نے راشد کو قبول نہیں کیا اور نہ ثور امام مسلم کی شرط پر ہے۔ (سیر أعلام النبلائ: ٤/٤٩١)
غور فرمائیے کہ امام حاکمa کی دو اغلاط کی نشاندہی کی کہ راشد سے شیخین نے استدلالاً روایت لی اور نہ ثور امام مسلم کی شرط پر ہیں۔
٦۔ امام حاکمa نے معاویہ بن صالح الحضرمی کی سند سے حضرت معاذ بن جبلt کی مرفوع حدیث: ''أنہ عاشر عشرۃ...'' بیان کی اور فرمایا: حافظ ذہبیaنے ذکر کیا: علی شرطہما. (المستدرک: ١/ ٩٨)
مگر حافظ ذہبیa فرماتے ہیں کہ بخاریa نے اس کی روایت نہیں لی۔ مزید لکھتے ہیں:
''یہ ان راویوں میں سے ہے جن سے مسلم نے حجت پکڑی ہے، بخاری نے نہیں۔ آپ حاکمa کو دیکھتے ہیں کہ المستدرک میں ان کی احادیث کو شرطِ بخاری پر قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ان سے بار بار چوک ہوتی ہے۔ ''
ان چاروں قرائن سے معلوم ہوا کہ ذہبیa کا سکوت یا عدمِ تعاقب موافقت کی دلیل نہیں۔ کیونکہ انھوں نے تلخیص کی ہے۔
قائلین کے دلائل کا مناقشہ
اس مقولہ کو درست کہنے والوں کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ علم کے یہاں یہ بات متعارف ہے کہ اگر کوئی عالم کسی دوسرے کا کلام بدونِ تنقید نقل کرے تو یہ موافقت اور تائید کی دلیل ہوتی ہے۔ یعنی اگر حافظ ذہبیa کو امام حاکمa پر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ رائے زنی کرتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ غلط بات پر چپ سادھ لیں۔ جیسا انھوں نے متعدد احادیث پر تعاقب کیا ہے۔ انھیں ویسا ہی باقی احادیث پر بھی کرنا چاہیے تھا۔
مگر یہ دلیل محلِ نظر ہے۔ بلاشبہ یہ قضیہ تبھی درست ہوتا ہے جب اس بارے میں حافظ ذہبیa کا کلام منقول نہ ہوگا۔ جبکہ انھوں نے سیر اعلام النبلاء (١٧/ ١٧٥۔ ١٧٦) میں صراحت کی ہے کہ مستدرک میں ضعیف اور منکر روایات تقریباً ٤٢ فیصد ہیں۔ مگر جن کی نشاندہی کی وہ ١٢ فیصد سے زیادہ نہیں گویا ٣٠ فیصد احادیث ان کی نگاہ میں ضعیف تھیں۔ پھر یہ تحدید المستدرک کی احادیث کے ساتھ خاص ہے اور یہ استدلال (کسی عالم کا بدونِ تنقید کسی عالم کی بات نقل کرنا موافقت ہے) عام ہے۔ لہٰذا ان کے مابین تعارض کی صورت میں خاص کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ وہ عام سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
ثانیاً: س پر مستزاد یہ کہ حافظ ذہبیa نے تلخیص استدراک اور تعاقب کے نظریے سے نہیں لکھی کہ ان کے عدمِ تعاقب یا سکوت کو موافقت قرار دیا جاسکے۔ بلکہ انھوں نے صراحت کی ہے کہ یہ کتاب میں نے مختصر کی ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
١۔ ھذا ما لخصتہ. (مقدمۃ المستدرک: ١/ ٢)
٢۔ وقد اختصرتہ. (سیر أعلام النبلائ: ١٧/ ١٧٦)
٣۔ اختصرت ہذا المستدرک.
تاریخ الاسلام (حوادث ٤٠١۔ ٤٢٠ھـ، ص: ١٣٢)
صاحبِ اختصار کا کام ہر چیز کا تعاقب نہیں ہوتا اور نہ یہ بات علماء کے ہاں معروف ہے کہ اختصار کرنے والا اصل کتاب کے مؤلف کی اغلاط کی نشان دہی کرے گا بصورتِ دیگر اس کی موافقت قراردی جائے گی۔
اختصار کرنے والا بعض مقامات پر جو تعاقب کرتا ہے وہ طبیعت میں انشراح کی صورت میں کرتا ہے۔ عدمِ نشاط کے وقت اسے ترک کر دیتا ہے۔ جیسا کہ راویانِ حدیث بھی حالتِ انشراح میں حدیث کو مکمل سند اور مکمل متن کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ مگر سستی کے عالم میں اسی حدیث کو مرسل بیان کر دیتے ہیں۔
آپ پہلے معلوم کر آئے ہیں کہ دراج ابوالسمح کی بتیس (٣٢) روایات میں سے صرف چار روایات پر حافظ ذہبی نے نقد کیا۔ اور باقی سے اغماض کیا کیونکہ تلخیص کرنے والے کا منہج ہر ہر حدیث کا تعاقب نہیں ہوتا۔
ثالثاً: اگر حافظ ذہبیa کے عدمِ تعاقب کو موافقت قرار دیا جائے تو ان کی باقی ملخص شدہ کتب میں بھی اسی اصول کی پاسداری کی جائے گی؟ جیسے تلخیص الموضوعات لابن الجوزی اور تلخیص العلل المتناھیۃ لابن الجوزي وغیرہ ہیں۔ اگرچہ ان کتب میں بھی حافظ ذہبیa کے تعاقبات بعض مقامات پر موجود ہیں اور تلخیص کی نوعیت بھی ہر دوسری کتاب سے مختلف ہے۔
ان تینوں وجوہات کی بنا پر بات واضح ہو گئی کہ حافظ ذہبیa کا سکوت تائید کی دلیل نہیں۔
دوسری دلیل اور اس کا مناقشہ:
اس اصطلاح کے درست قرار دینے والوں کی دوسری دلیل یہ ہے کہ متعدد علماء نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔ حافظ زیلعیa ابن الملقنa اور حافظ ابن حجرaنے اسے جزوی طور پر استعمال کیا ہے۔ حافظ سیوطیa، علامہ مناویa، علامہ عزیزیa اور محدث البانیa جیسوں نے اسے بطورِ قاعدہ مستعمل کیا ہے۔
اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ حافظ ذہبیa کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ انھوں نے بہت سی ایسی احادیث کا تعاقب نہیں کیا جو ان کے ہاں ضعیف تھیں۔ لہٰذا ان کا یہ کلام ان علماء کے فہم سے زیادہ مضبوط ہے۔
علما کے ہاں یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ منطوق مفہوم پر مقدم ہوتا ہے۔ حافظ ذہبیa کی ضعیف احادیث کے حوالے سے صراحت منطوق ہے اور تلخیص میں ان کے طرزِ عمل سے علماء جو سمجھے مفہوم ہے۔ لہٰذا ان کی صراحت اس مفہوم سے مقدم ہو گی۔ جن علماء نے اس مقولہ کو درست قرار دیا ہے ممکن ہے ان کی نگاہ میں سیر اعلام النبلاء والی صراحت موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
خلاصہ:
جس حدیث کو امام حاکمa صحیح قرار دیں اور حافظ ذہبیa ان کا تعاقب نہ کریںیا سکوت کا مظاہرہ کریں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ امام حاکمa کا موقف درست ہے۔ کیونکہ المستدرک کی احادیث پر حکم لگانے میں ان سے بہت خطائیں اور تساہل ہوا ہے۔ لہٰذا حافظ ذہبیa کا عدمِ تعاقب اقرار کے درجے میں نہیں آ سکتا۔
٢۔ جن روایات کو امام حاکمaنے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبیa نے ان کا تعاقب نہیں کیا تو اس بنا پر حافظ ذہبیa کو مطعون ٹھہرانا درست نہیں، کیونکہ ملخص کا مقصد تلخیص ہوتا ہے ہر ہر حدیث اور حکم کا تعاقب نہیں۔
٣۔ سب سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال حافظ زیلعیa نے کیا۔ علامہ سیوطیa نے اسے قاعدہ بنایا اور حافظ مناوی اور علامہ عزیزی نے بڑی وسعت سے اس کا استعمال کیا۔ یہاں تک کہ یہ مقولہ ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔
٤۔ حافظ ذہبیa نے السیر میں المستدرک کی احادیث کے بارے میں جو رائے دی ہے وہی ان کی حتمی اور آخری رائے ہے۔
٥۔ انھوں نے السیر میں فرمایا: المستدرک کی تقریباً ٤٢ فیصد احادیث عجائب اور مناکیر ہیں ۔ اور یہ تناسب تلخیص المستدرک میں موجود ضعیف اور منکر روایات سے ٣٠ فیصد زیادہ ہے کیونکہ متکلم فیہ روایات کا تناسب ١٢ فیصد ہے۔
٦۔ ہر حدیث پر تعاقب حافظ ذہبیaکا منہج نہیں۔ بلکہ وہ راوی کی پہلی روایت پر عموماً حکم لگاتے ہیں اور باقی روایات پر خاموش رہتے ہیں۔
٧۔ بعض علماء کا حافظ ذہبیa کے سکوت یا عدمِ موافقت پر ''صححہ الحاکم ووافقہ الذہبي'' کا اطلاق کرنا درست نہیں کیونکہ اس نظریے کی اساس کمزور دلیل پر مبنی ہے۔(مقالات اثریہ)