• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحيح البخاري - مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ - جلد 3 احادیث ۱۸۹۱ سے ۲۷۸۱

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
32- بَابُ نَفَقَةِ الْقَيِّمِ لِلْوَقْفِ:
باب: وقف کی جائیداد کا اہتمام کرنے والا اپنا خرچ اس میں سے لے سکتا ہے

حدیث نمبر: 2776
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا دِرْهَمًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ' کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ' انہیں ابوالزناد نے ' انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی میرے وارث ہیں ' وہ روپیہ اشرفی اگر میں چھوڑ جاؤں تو وہ تقسیم نہ کریں ' وہ میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد صدقہ ہے۔

حدیث نمبر: 2777
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ"اشْتَرَطَ فِي وَقْفِهِ أَنْ يَأْكُلَ مَنْ وَلِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُؤْكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مَالًا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ' کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ' ان سے ایوب سختیانی نے ' ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف میں یہ شرط لگائی تھی کہ اس کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور اپنے دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن وہ دولت نہ جوڑے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
33- بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ:
باب: کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لیے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کر لی تو یہ بھی درست ہے
وَأَوْقَفَ أَنَسٌ دَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا قَدِمَهَا نَزَلَهَا وَتَصَدَّقَ الزُّبَيْرُ بِدُورِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ:‏‏‏‏ أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مُضَرٍّ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ فَلَيْسَ لَهَا حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ نَصِيبَهُ مِنْ دَارِ عُمَرَ سُكْنَى لِذَوِي الْحَاجَةِ مِنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ.
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک گھر وقف کیا تھا (مدینہ میں) جب کبھی مدینہ آتے ' اس گھر میں قیام کیا کرتے تھے اور زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھروں کو وقف کر دیا تھا اور اپنی ایک مطلقہ لڑکی سے فرمایا تھا کہ وہ اس میں قیام کریں لیکن اس گھر کو نقصان نہ پہنچائیں اور نہ اس میں کوئی دوسرا نقصان کرے اور جو خاوند والی بیٹی ہوتی اس کو وہاں رہنے کا حق نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ کے (وقف کردہ) گھر میں رہنے کا حصہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا۔

حدیث نمبر: 2778
وَقَالَ عَبْدَانُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ حُوصِرَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَنْشُدُ إِلَّا أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ فَحَفَرْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَهَّزْتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ. وَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ "فِي وَقْفِهِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ وَقَدْ يَلِيهِ الْوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهُوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ".
عبدان نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی ' انہیں شعبہ نے ' انہیں ابواسحاق نے ' انہیں ابوعبدالرحمٰن نے کہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ محاصرے میں لیے گئے تو (اپنے گھر کے) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت (غزوہ تبوک پر جانے والے لشکر) کو جو شخص ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگر اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہو سکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہو سکتے ہیں اور ہر ایک کے لیے یہ جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
34- بَابُ إِذَا قَالَ الْوَاقِفُ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ. فَهْوَ جَائِزٌ:
باب: اگر وقف کرنے والا یوں کہے کہ اس کی قیمت اللہ ہی سے لیں گے تو وقف درست ہو جائے گا

حدیث نمبر: 2779
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ' کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ' ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت مجھ سے وصول کر لو تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
35- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الآثِمِينَ فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتُحِقَّ عَلَيْهِمُ الأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا وَاللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المائدہ میں ) یہ فرمانا مسلمانو ! جب تم میں کوئی مرنے لگے تو آپس کی گواہی وصیت کے وقت تم میں سے ( یعنی مسلمانوں میں سے یا عزیزوں میں سے ) دو معتبر شخصوں کی ہونی چاہئے یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں تم موت کی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو غیر ہی یعنی کافر یا جن سے قرابت نہ ہو دو شخص سہی ( میت کے وارثوں ) ان دونوں گواہوں کو عصر کی نماز کے بعد تم روک لو اگر تم کو ( ان کے سچے ہونے میں شبہ ہو ) تو وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی کے عوض دنیا کمانا نہیں چاہتے گو جس کے لیے گواہی دیں وہ اپنا رشتہ دار ہو اور نہ ہم اللہ واسطے گواہی چھپائیں گے ، ایسا کریں تو ہم اللہ کے قصوروار ہیں ، پھر اگر معلوم ہو واقعی یہ گواہ جھوٹے تھے تو دوسرے وہ دو گواہ کھڑے ہوں جو میت کے نزدیک کے رشتہ دار ہوں ( یا جن کو میت کے دو نزدیک کے رشتہ داروں نے گواہی کے لائق سمجھا ہو ) وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے کوئی ناحق بات نہیں کہی ، ایسا کیا ہو تو بیشک ہم گنہگار ہوں گے ۔ یہ تدبیر ایسی ہے جس سے ٹھیک ٹھیک گواہی دینے کی زیادہ امید پڑتی ہے یا اتنا تو ضرور ہو گا کہ وصی یا گواہوں کو ڈر رہے گا ایسا نہ ہو ان کے قسم کھانے کے بعد پھر وارثوں کو قسم دی جائے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو ( راہ پر ) نہیں لگاتا

حدیث نمبر: 2780
2 وقَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلَانِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ سورة المائدة آية 106".
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے ' کہا ہم سے ابن ابی زائدہ نے ' انہوں نے محمد بن ابی القاسم سے ' انہوں نے عبدالملک بن سعید بن جبیر سے ' انہوں نے اپنے باپ سے ' کہا ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہا بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر کو نکلا ' وہ ایسے ملک میں جا کر مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ یہ دونوں شخص اس کا متروکہ مال لے کر مدینہ واپس آئے۔ اس کے اسباب میں چاندی کا ایک گلاس گم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم کھانے کا حکم فرمایا (انہوں نے قسم کھا لی) پھر ایسا ہوا کہ وہ گلاس مکہ میں ملا، انہوں نے کہا ہم نے یہ گلاس تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ اس وقت میت کے دو عزیز (عمرو بن العاص اور مطلب کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ ہماری گواہی تمیم اور عدی کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے ' یہ گلاس میت ہی کا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم‏» آخر آیت تک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
36- بَابُ قَضَاءِ الْوَصِيِّ دُيُونَ الْمَيِّتِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الْوَرَثَةِ:
باب: میت پر جو قرضہ ہو وہ اس کا وصی ادا کر سکتا ہے گو دوسرے وارث حاضر نہ ہوں

حدیث نمبر: 2781
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فِرَاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ الشَّعْبِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَوْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ادْعُ أَصْحَابَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا وَاللَّهِ رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلِمَ وَاللَّهِ الْبَيَادِرُ كُلُّهَا حَتَّى أَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْبَيْدَرِ الَّذِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّه لَمْ يَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً".
ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا یا فضل بن یعقوب نے محمد بن سابق سے (یہ شک خود امام بخاری رحمہ اللہ کو ہے) کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن ابومعاویہ نے بیان کیا ' ان سے فراس بن یحییٰ نے بیان کیا ' ان سے شعبی نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔ اپنے پیچھے چھ لڑکیاں چھوڑی تھیں اور قرض بھی۔ جب کھجور کے پھل توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد ماجد احد کی لڑائی میں شہید ہو چکے ہیں اور بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں ' میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (تاکہ قرض میں کچھ رعایت کر دیں) لیکن وہ یہودی تھے اور وہ نہیں مانے ' اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور کھلیان میں ہر قسم کی کھجور الگ الگ کر لو جب میں نے ایسا ہی کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ' قرض خواہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو سب سے بڑے کھجور کے ڈھیر کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکر لگائے اور وہیں بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ ناپ کر دینا شروع کیا اور واللہ میرے والد کی تمام امانت ادا کر دی ' اللہ گواہ ہے کہ میں اتنے پر بھی راضی تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کا تمام قرض ادا کر دے اور میں اپنی بہنوں کیلئے ایک کھجور بھی اس میں سے نہ لے جاؤں لیکن ہوا یہ کہ ڈھیر کے ڈھیر بچ رہے اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس ڈھیر پر بیٹھے ہوئے تھے اس میں سے تو ایک کھجور بھی نہیں دی گئی تھی۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ «أغروا بي» (حدیث میں الفاظ) کے معنی ہیں کہ مجھ پر بھڑکنے اور سختی کرنے لگے۔ اسی معنی میں قرآن مجید کی آیت «فأغرينا بينهم العداوة والبغضاء» میں «فأغرينا» ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033



----------------------------------------------------------------------------
الحمدللہ صحیح بخاری کی تیسری جلد پر کام مکمل ہوا، یا الله اس کام کے بدلے میرے ماں باپ کو دنیا و آخرت میں آسانی عطا فرما آمین ثما آمین
----------------------------------------------------------------------------

 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آمین یا رب العالمین
ماشاء اللہ۔ اللہ تعالی آپ کی محنت کو قبول کریں اور اس کو ذریعہ نجات بنائے۔ آمین۔
بارک اللہ لکم فی الدنیاء والاخرہ
 
Top