جناب اعتصام صاحب آپ کی پیش کردہ روایت کا ترجمہ کچھ یوں ہے
’’صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1885 حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 22
یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، شہاب (دوسری سند) عبداللہ بن محمد، عبدالرزاق، معمر زہری، عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء رویائے صالحہ کے ذریعہ ہوئی جو آپ کو نیند کی حالت میں دیکھتے، آپ جو بھی خواب دیکھتے تو وہ صبح کے ظاہر ہونے کی طرح ظاہر ہوتا، آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور تحنث کرتے یعنی کئی کئی بار میں وہاں عبادت کرتے اور اس کے لئے کھانا ساتھ لے جاتے، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور اسی طرح توشہ لے کر تشریف لے جاتے، اچانک ایک دن آپ کے پاس وحی آئی، آپ اس وقت غار حرا میں تھے، وہاں جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ پڑھ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، انہوں نے مجھ کو پکڑا اور زور سے دبایا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر مجھے پکڑ کر تیسری بار زور سے دبایا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر چھوڑ کر کہا کہ، ، اقرا باسم ربک الذی خلق، یعنی پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، مالم یعلم تک پڑھا، آپ حضرت خدیجہ کے پاس واپس تشریف لے گئے تو آپکے شانے تھرتھرا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھایا، یہاں تک کہ جب خوف کا اثر جاتا رہا تو فرمایا اے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے کیا ہوگیا ہے اور سارا ماجرا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ نے کہا کہ ہرگز نہیں، آپ خوش ہوں خدا کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچی بات کرتے ہیں غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں پیش آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی کے پاس لے کر آئیں جو خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عربی زبان لکھا کرتے تھے چنانچہ انجیل عربی زبان میں لکھا کرتے تھے جس قدر اللہ کو منظور تھا، اور بہت بوڑھے آدمی تھے اور نابینا ہوگئے تھے۔ ان سے خدیجہ نے کہا اے چچازاد بھائی، اپنے بھتیجے کی بات سنئے، ورقہ نے پوچھا اے بھتیجے کیا تم دیکھتے ہو، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ بیان کردیا، ورقہ نے یہی کہا کہ وہ ناموس ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا کاش کہ میں اسوقت جوان ہوتا اور زندہ رہتا جب کہ تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو بھی شخص یہ چیز لے کر آیا جو تم لائے ہو تو اس کی دشمنی کی گئی، اگر میں تمہارا زمانہ پاتا تو میں تمہاری زبردست مدد کرتا، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا، اور وحی کی آمد رک گئی، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان واقعات سے جو ہم کو معلوم ہوئے اس قدرغمگین ہوئے کہ متعدد بار بلند چوٹی پر سے اپنے آپ کو گرا کر ہلاک کردینا چاہا، جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے کہ اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل ظاہر ہوئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو اس سے آپ کا جوش سرد پڑجاتا اور طبیعت کو سکون ملتا اور واپس تشریف لے آتے، جب وحی کا سلسلہ دیر تک منقطع رہا تو پھر اسی طرح نکلے، جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو جبرائیل سامنے آئے اور اسی طرح کہا، حضرت ابن عباس نے کہا کہ فالق الاصباح سے مراد دن میں سورج کی روشنی ہے اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔‘‘
اب آپ یہ بھی بتا دیجیے کس دلیل کی بنیاد پر آ پ اس حدیث کو ضعیف کہے رہے ہیں؟
’’صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1885 حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 22
یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، شہاب (دوسری سند) عبداللہ بن محمد، عبدالرزاق، معمر زہری، عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء رویائے صالحہ کے ذریعہ ہوئی جو آپ کو نیند کی حالت میں دیکھتے، آپ جو بھی خواب دیکھتے تو وہ صبح کے ظاہر ہونے کی طرح ظاہر ہوتا، آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور تحنث کرتے یعنی کئی کئی بار میں وہاں عبادت کرتے اور اس کے لئے کھانا ساتھ لے جاتے، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور اسی طرح توشہ لے کر تشریف لے جاتے، اچانک ایک دن آپ کے پاس وحی آئی، آپ اس وقت غار حرا میں تھے، وہاں جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ پڑھ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، انہوں نے مجھ کو پکڑا اور زور سے دبایا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر مجھے پکڑ کر تیسری بار زور سے دبایا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر چھوڑ کر کہا کہ، ، اقرا باسم ربک الذی خلق، یعنی پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، مالم یعلم تک پڑھا، آپ حضرت خدیجہ کے پاس واپس تشریف لے گئے تو آپکے شانے تھرتھرا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھایا، یہاں تک کہ جب خوف کا اثر جاتا رہا تو فرمایا اے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے کیا ہوگیا ہے اور سارا ماجرا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ نے کہا کہ ہرگز نہیں، آپ خوش ہوں خدا کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچی بات کرتے ہیں غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں پیش آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی کے پاس لے کر آئیں جو خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عربی زبان لکھا کرتے تھے چنانچہ انجیل عربی زبان میں لکھا کرتے تھے جس قدر اللہ کو منظور تھا، اور بہت بوڑھے آدمی تھے اور نابینا ہوگئے تھے۔ ان سے خدیجہ نے کہا اے چچازاد بھائی، اپنے بھتیجے کی بات سنئے، ورقہ نے پوچھا اے بھتیجے کیا تم دیکھتے ہو، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ بیان کردیا، ورقہ نے یہی کہا کہ وہ ناموس ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا کاش کہ میں اسوقت جوان ہوتا اور زندہ رہتا جب کہ تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو بھی شخص یہ چیز لے کر آیا جو تم لائے ہو تو اس کی دشمنی کی گئی، اگر میں تمہارا زمانہ پاتا تو میں تمہاری زبردست مدد کرتا، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا، اور وحی کی آمد رک گئی، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان واقعات سے جو ہم کو معلوم ہوئے اس قدرغمگین ہوئے کہ متعدد بار بلند چوٹی پر سے اپنے آپ کو گرا کر ہلاک کردینا چاہا، جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے کہ اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل ظاہر ہوئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو اس سے آپ کا جوش سرد پڑجاتا اور طبیعت کو سکون ملتا اور واپس تشریف لے آتے، جب وحی کا سلسلہ دیر تک منقطع رہا تو پھر اسی طرح نکلے، جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو جبرائیل سامنے آئے اور اسی طرح کہا، حضرت ابن عباس نے کہا کہ فالق الاصباح سے مراد دن میں سورج کی روشنی ہے اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔‘‘
اب آپ یہ بھی بتا دیجیے کس دلیل کی بنیاد پر آ پ اس حدیث کو ضعیف کہے رہے ہیں؟