• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح ابن خزیمہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کےذکر والی روائیت کے راوی مومل بن اسماعیل کی تحقیق

شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
سحیح ابن خزیمہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے زکر والی روائیت کے راوی مومل بن اسماعیل کی تحقیق درکار ہے ، مفصل جواب مع حوالہ جات اور اس راوی سے اور بھی کوئی روایات ہیں تو وہ بھی بتا دیجیے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فی الحال شیخ حافظ زبیر علی زئیؒ کا ایک مضمون پیش ہے ،اس میں مؤمل بن اسمعیل کے متعلق محدثین کے اقوال بھی موجود ہیں ،مزید تفصیل کیلئے تھوڑا انتظار کیجئے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: حافظ زبیر علی زئی
عن سھل بن سعد قال : کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ [بخاري : 102/1 ح 740، و موطأ امام مالك 159/1 ح 377 باب وضع اليدين احداهما على الاخريٰ فى الصلوٰة، ورواية ابن القاسم بتحقيقي : 409]
فوائد :
① اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آ جائیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔ [سنن نسائي مع حاشية السندهي : ج1 ص 141 ح 890، ابوداود : ج1 ص112 ح 727]

اسے ابن خزيمه [243/1 ح 48] اور ابن حبان [الاحسان : 202/2 ح 485] نے صحیح کہا ہے۔
❀ سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ : يضع هٰذه عليٰ صدره…. إلخ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ“ [مسند احمد ج 5 ص 226 ح 22313، واللفظ له، التحقيق لا بن الجوزي ج 1 ص 283 ح 477 و فى نسخة ج 1 ص 338 و سنده حسن]
سنن ابی داود [ح 756] وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے۔
◈ علامہ نووی نے کہا:
”عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔ “ [نصب الراية للزيلعي الحنفي314/1]

◈ نیموی فرماتے ہیں :
وفيه عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وهو ضعيف

”اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ [حاشيه آثار السنن ح 330]
مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ [208/2] وغیرہ کتابیں دیکھیں۔
◈ ہدایہ اولین کے حاشیہ [17، 102/1] میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
③ یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعا ثابت نہیں ہے، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں، یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہو جائے تو برحق ہے، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔
④ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب تحت السرة ”ناف کے نیچے“ والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔

◈ حافظ ابن حجر نے کہا:
منكر الحديث [تقريب التهذيب : 2304]

[ديكهئے مختصر الخلافيات للبيهقي : 342/1، تاليف ابن فرح الاشبيلي و الخلافيات مخطوط ص 37 ب و كتب اسماء الرجال]
⑤ بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے تحت السرة والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں تحت السرة کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا [كذاب بقول البقاعي / الضوء اللامع 186/6] نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔
◈ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں :
”پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ تحت السرة (والی عبارت) نہیں ہے۔“[فيض الباري 267/2]

⑥ حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [الفقه على المذاهب الاربعة 251/1]
⑦ تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب المدونة میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا : ”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں۔ “ امام مالک رحمہ اللہ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہو تو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ [ديكهئے المدونة 76/1] اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہی کافی ہے۔
⑧ جو لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی [74/20 ح 139] کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر كذاب ہے۔ [ديكهئے مجمع الزوائد 102/2]
معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔
⑨ سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں فوق السرة یعنی ناف سے اوپر (سینے پر) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [امالي عبدالرزاق / الفوائد لابن مندة 234/2 ح 1899 و سنده صحيح ]
⑩ سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب ”نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام“ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدلله !
از : توحید ڈاٹ کام
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث

قال ابن خزیمۃ فی صحیحہ: "نا ابوموسیٰ : نا مؤمل : نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی ٰ صدرہ"
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔
(ابن خزیمہ۲۴۳۱/۱ح ۴۷۹ واحکام القرآن للطحاوی ۱۸۶/۱ ح ۳۲۹)
سند کا جائزہ:
بعض آل تقلید نے اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل پر جرح نقل کی ہے۔
(بذل المجہود فی حل ابی داؤد ۴۸۶/۴ ، آثار السنن : ۳۲۵)
مؤمل بن اسماعیل
تعدیل کرنے والے: تعدیل
۱: یحیٰ بن معین: ثقۃ (تاریخ ابن معین: ۲۳۵)
۲: الضیاء المقدسی: اورد حدیثہ فی المختارۃ (۳۴۵/۱ ح ۲۳۷)
۳: ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال : ربما اخطا (۱۸۷/۹)
۴: احمد: روی عنہ (دیکھئے مجمع الزوائد ۸۰/۱)
۵: ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۴۱۶)
۶: الدارقطنی: صحح لہ فی سننہ (۱۸۶/۲ح ۲۲۶۱)
۷: سلیمان بن حرب: یحسن الثناء علیہ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
۸: الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۳۸۴/۱)
۹: الذہبی: کان من ثقات البصریین (العبر ۳۵۰/۱)
۱۰: الترمذی: صحح لہ فی سننہ (۶۷۲)
۱۱: ابن کثیر : قواہ فی تفسیرہ (۴۳۲/۴)
۱۲: الہیثمی: ثقۃ وفیہ ضعف ، المجمع (۱۸۳/۸)
۱۳: ابن خزیمہ: اخرج عنہ ، فی صحیحہ (۲۴۳/۱ ح ۴۷۹)
۱۴: البخاری: اخرج عنہ تعلیقاً فی صحیحہ (دیکھئے ح ۲۷۰۰)
وغیرہم ، نیز دیکھئے ص ۲۸تا ۳۸
جرح کرنے والے: جرح
۱: ابوحاتم: صدوق شدید فی السنۃ کثیر الخطا یکتب حدیثہ (کتاب الجرح والتعدیل ۳۷۴/۸)
* ابوزرعہ الرازی: فی حدیثہ خطا کثیر ( یہ قول ابوزرعہ سے ثابت نہیں ہے)
۲: یعقوب بن سفیان: یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا۔۔۔۔(المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
* الساجی: صدوق کثیر الخطا ولہ اوھام (یہ قول ثابت نہیں ہے)
۳: ابن سعد: ثقۃ کثیر الغلط (طبقات ابن سعد ۵۰۱/۵)
* ابن قانع: صالح یخطئ (یہ قول ثابت نہیں ہے)
۴: الدارقطنی: صدوق کثیر الخطا (سوالات الحاکم للدارقطنی : ۴۹۲)
*محمدبن نصر المروزی: سیئ الحفظ کثیر الغلط (یہ قول ثابث نہیں ہے)
۵: ابن حجر : صدوق سیئ الحفظ (تقریب التہذیب : ۷۰۲۹)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین کی اکثریت کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ یا حسن الحدیث اور ثقہ دعدد کثیر کی بات عدد قلیل پر حجت ہے۔
[مؤمل بن اسماعیل پر تفصیل بحث کے لیے دیکھئے ص ۲۸ تا ۳۸]
تنبیہ: حافظ مزی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بغیر کسی سند کے امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے مؤمل مذکور کے بارے میں کہا: "منکر الحدیث" امام بخاری کی یہ جرح ہمیں ان کی کسی کتاب میں نہیں ملی، التاریخ الکبیر (۴۹/۸) میں بخاری مؤمل بن اسماعیل کا ترجمہ لائے ہیں مگر اس پر کوئی جرح نہیں کی۔
ظفر احمد تھانوی صاحب ایک قاعدہ بتاتے ہیں کہ
" کل من ذکرہ البخاری فی "تواریخہ" ولم یطعن فیہ فھو ثقۃ"
ہر وہ شخص جس کو (امام) بخاری اپنی توراریخ میں بغیر طعن کے ذکر کریں تو وہ (دیوبندیوں کے نزدیک) ثقہ ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص ۲۲۳)
اس بات سے قطع نظر کہ یہ اصول اصلاً باطل ہے، تھانوی صاحب کے نزدیک امام بخاری کی رائے میں مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہے، واللہ اعلم۔
امام بخاری نے مؤمل بن سعید الرحبی کو ذکر کرکے "منکر الحدیث" کہا ہے۔ (التاریخ الکبیر ج ۸ ص ۴۹)
مؤمل بن سعید پر بخاری کی جرح حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے ذکر تک نہیں کی۔
(مثلاً ملاحظہ لسان المیزان ج۶ ص۱۶۱)
امام بخاری ؒنے مؤمل بن اسماعیل کا ذکر "الضعفاء" میں نہیں کیا۔
متقدمین ومتاخرین جنھوں نے ضعفاء کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں مثلاً امام ابن عدیؒ ، امام ابن حبانؒ، علامہ عقیلیؒ اور علامہ ابن الجوزی وغیرہم ، انھوں نے مؤمل بن اسماعیل پر امام بخاری کی یہ جرح نقل نہیں کی لہٰذا معلوم ہوا کہ حافظ مزیؒ کو اس کے انتساب میں وہم ہوا ہے۔علامہ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے اس وہم میں ان کی اتباع کی ہے۔
اس کی دیگر مثالیں بھی ہیں مثلاً ملاحظہ کریں العلاء بن الحارث۔
(میزان الاعتدال ج۳ ص ۹۸ مع حاشیہ)
تطبیق وتوفیق
جارحین کی جرح عام ہے اور معدلین کی تعدیل میں تخصیص موجود ہے۔
یحیٰ بن معین نے مؤمل بن اسماعیل کو سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ قراردیا ہے۔
(الجرح والتعدیل الابن ابی حاتم ۳۷۴/۸شرح علل الترمذی لابن رجب ص ۳۸۴، ۳۸۵)
مؤمل کی سفیان ثوری سے روایت کو ابن خزیمہ ، دارقطنی، حاکم، ذہبی ، ترمذی اور ابن کثیر نے صحیح و قوی قرار دیا ہے۔
(دیکھئے ص ۳۲،۳۳)
متقدمین میں سے کسی امام نے بھی مؤمل کو سفیان الثوری کی روایت میں ضعیف نہیں کہا لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ ثوری سے روایت میں ثقہ ہیں۔
اسی لیے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (دیکھئے اعلاء السنن ج۳ ص ۱۰۸)
اس طرح جارحین و معدلین کے اقوال میں تطبیق وتوفیق ہوجاتی ہے اور تعارض باقی نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top