اس میں صحیح بخاری کی احادیث پر بھی نقد کیا گیا کہ یہ حدیث ضعیف ھے حالانکہ وہ حدیث متصل باسند ہوتی جن کے متعلق محدثین اور علمائ امت کا اجماع ھے کہ بخاری میں جتنی بھی باسند احآدیث ہیں وہ تمام کی تمام صحیح ہیں ۔مگر افسوس کہ سعیدی بریلوی صاحب جو صحیح بخاری کی احآدیث پر نقد کر رہے ہیں اور ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے ان للہ و نا الیہ راجعون ۔
٢:اور اپنی یہ حالت ھے کہ ضعیف اور موضوع روایات سے استدلال کرنے سے ان کی نعمۃ الباری ، شرح صحیح مسلم اور تبیان القرآن بھری پڑی ھے جس پر عنقریب بحث کی جائے گی بلکہ بریلویت ،فقہ حنفی اور بدعات کی تائید میں جیسی مرضی بے اصل روایت ملے اس کو لکھ مارتے ہیں،گویا وہ احآدیث جن کی صحت پر اجماع ہو چکا ھے ان کو ضعیف ثابت کرنا اور خود موضؤع ،بے اصل اور ضعیف روایات سے استدلال کرنا سعیدی بریلوی صاحب کا وطیرہ ھے ۔
٣:صحیح بخاری میں موجود فقہی مباحث کی صورت میں رد کیا ہے کہ امام بخاری ان احادیث سے یہ مسئلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے فقہ حنفی کا مسئلہ ہی راجح ہے ،حقائق بتائیں گے کہ حق کیا ہے فقہ حنفی یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔دوسرے لفظوں میں صحیح بخاری کا توڑ پیش کیا ھے سعیدی بریلوی صاحب نے منۃ الباری میں ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
٤:حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی فتح الباری پر بے جا تنقید کی گئی ھے تعصب کی انتہائ دیکھیے حافظ ابن حجر کے متعلق لکھتے ہیں :''حافظ ابن حجر عسقلانی کے ممدوح امام بخاری نے اپنی ''صحیح بخاری''میں امام اعظم ابو حنیفہ کی عبارات میں متعدد مقامات پر اپنے زعم میں تناقض اور تضآد ثآبت کیا ھے ،وہاں پر حآفظ ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری شدت سے تائید کی ھے اور اس تناقض اور تضاد کو برقرار رکھا ھے ،امام بخاری کے متعلق تو ہماری مجال نہیں ہے ،وہ ہمارے نزدیک فن حدیث میں ایسے ہی محترم ہیں جیسے علم فقہ میں ہمارے نزدیک امام اعظم ابو حنیفہ مکرم ہیں ،لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی سے قصاص لینے کاتو ہمیں حق پہنچتا ھے ۔''(نعمۃ الباری :ج١ص١٠٦)
نعمۃ الباری اسی تعصب سے بھری ہوئی ھے اور بلاوجہ ابن حجر کا رد کیا گیا جو علم و تحقیق سے خالی ہے ،اس کی حقیقت بھی ہم واضح کریں گے اور قارئین پر مطلع کریں گے کہ سعیدی صاحب نے ابن حجر سے قصاص لینے میں انصاف سے کام لیا ہے یا تقلید اور بدعات کا پرچار کرنے کی خاطریہ روش اپنائی ھے۔
٥:تاویلات باطلہ اور بعیدہ کا سہارا لیا ہے اور بدعات کا خوب اثبات کیا ھے منۃ الباری میں ،اس پر بھی کلام ھو گی ۔
٦:محدثین پر بے جا تنقید کی ہے اور ان کے متعلق غیر مناسب الفاظ استعمال کئے ہیں کیونکہ وہ تقلید اور بدعات کا رد کرتے تھے۔اس پر بھی بحث ھو گی ۔ان شائ اللہ
٧:اصول حدیث اور جرح و تعدیل کا دور سے بی مس نہیں کیا اور نہ ہی اس کا خیال رکھا ھے بس اپنی مرضی کے ترکش چلائے ہیں ۔
الغرض سعیدی بریلوی صاحب نے انصاف سے کام نہیں کاش وہ منۃ الباری میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے اور قرآن و حدیث کے مطابق شرح لکھتے ۔مگر افسوس جب بھی کسی مقلد نے حدیث کی شرح لکھی تو صرف اس غرض سے کہ فقہ حنفی کا دفاع کیا جائے اور احادیث کا توڑ کیا جائے اس کی داستان پڑھنے کے لئے ''پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث ''کا مطالعہ کیا جائے ۔
راقم اس پر مفصل تبصرہ کرے گا پہلے صحیح بخاری کی جن احادیث کو سعیدی بریلوی صاحب نے ضعیف ثابت کیا ہے ان پر بحث کی جائے گی پھر دیگر بحوث پر منصفانہ تجزیہ کیا جائے گا انشائ اللہ
صحیح بخاری میں ضعیف احادیث ہیںسعیدی بریلوی کے نزدیک
!
سعيدي بريلوي صاحب نے لكها هي
بعض وہ حضرات جو صحیح بخاری کو حرف آخر قرار دیتے ہیں ان کی رائے ہے کہ بخاری میں مندرج ہر ہر حدیث صحیح ہے اور سند اور متن کے بیان میں ان سے کسی جگہ غلطی نہیں ہوئی ۔ ہماری رائے ان لوگوں سے بحرحال مختلف ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ بخاری میں دیگر تمام کتب احادیث کی بہ نسبت سب سے زیادہ صحیح احادیث ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ اس میں مندرج کوئی بھی حدیث ضعیف نہیں ہے۔
نعمۃالباری فی شرح صحیح البخاری جلد اول ص نمبر 94
.............................
اس کا رد پیش خدمت ہے
احمد رضا خان بریلوی صاحب نے ردّ کرتے ہوئے لکھا :
اقول اولاً : یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔
حوالہ : فتاویٰ رضویہ ، طبع جدید 174/5 ۔
احمد رضا خان بریلوی صاحب نے ردّ کرتے ہوئے لکھا :
اقول اولاً : یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔
حوالہ : فتاویٰ رضویہ ، طبع جدید 174/5 ۔
معلوم ہوا کہ احمد رضا خان صاحب کے نزدیک صحیحین کے راویوں پر جرح کرنا بےشرمی کا کام ہے !!
غلام رسول رضوي بريلوي صاحب فرماتے ہیں :
تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصحح کتاب ہے۔
حوالہ : تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری 5/1 ،
بعینہ یہی الفاظ آپ سعیدی صاحب کی کتاب "تذکرۃ المحدثین" کے صفحہ نمبر 324 پر دیکھ سکتے ہیں۔
پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی فرماتے ہیں :
جمہور علمائے امت نے گہری فکر و نظر اور بےلاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو "اصحح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری" کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔
حوالہ : سنت خیر الانام ، ص:175 ، طبع:2001ء
ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :
پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔
حوالہ: مرقاۃ المفاتیح ، 58/1 ۔
امام شمس الدين السخاوی کی "فتح المغيث شرح ألفية الحديث" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
صفحہ نمبر 34 پر لکھا ہے :
ولفظ الأستاذ أبي إسحاق الإِسفرائيني أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
اردو ترجمہ (ارشاد الحق اثری) :
امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :
فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔
صحیحین کی صحت ، تلقی بالقبول یا قطعیت پر اجماع کا دعویٰ درج ذیل مستند علماء نے بھی کیا ہے :
ابن کثیر (774ھ)
ابن تیمیہ (728ھ)
ابن الصلاح (643ھ)
ابن القیسرانی (507ھ)
تفصیل کے لیے درج ذیل کتاب دیکھیں :
"احادیث الصحیحین بین الظن والیقین" - حافظ ثناءاللہ زاہدی
علامہ عینی حنفی کی شرح بخاری "عمدۃ القاری" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے :
اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔
علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ : مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔۔۔۔ اس ہی بات کی دلیل ہے کہ :
صحیح بخاری میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں !!
قرآن مجید کو دنیا کی صحیح ترین کتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقانیت پر مبنی ہے۔
اگر بخاری میں کوئی ایک مرفوع متصل حدیث ، ضعیف ثابت ہو جاتی تو محدثین کبھی بھی اس کو "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ" کا درجہ نہ دیتے !!
امام نسائی فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری
امام ابوالفلاح فرماتے ہیں :
تمام فقہاء نے صحیح بخاری کی ہر سند حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری ، باب شذرات الذہب
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134
علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں :
اور حفاظ حدیث کے نزدیک سب سے اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث وہ ہے جس کی روایت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہو۔
حوالہ : نصب الرایۃ ، 421/1 ۔
محدثین کا یہ دعوی ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جمیع ما حکم مسلم بصحتہ من ھذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ و العلم النظری حاصل بصحتہ فی نفس الأمر و ھکذا ما حکم البخاری بصحتہ فی کتابہ و ذلک لأن الأمة تلقت ذلک بالقبول سوی من لا یعتد بخلافہ و وفاقہ فی الاجماع۔(صیانة صحیح مسلم' امام ابن صلاح' ص٨٥'دار الغرب الاسلامی)
وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی فانہ قال:أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وان حصل الخلاف فی بعضھا فذلک خلاف فی طرقھا و رواتھا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح' جلد١' ص٣٧٧' المجلس العلمی أحیاء تراث الاسلامی)
استاذ ابو اسحاق اسفرائینی نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔
امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)
اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔
امام أبو نصر السجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)
تمام اہل علم فقہاء اور ان کے علاوہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول سے مروی روایات موجود ہے وہ آپ سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے فرامین ہیں'تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں باقی رہے گی۔
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ (مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)
اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا...پھر امام مسلم بن حجاج القشیری آئے انہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا کہ جن کی صحت پر اجماع تھا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔(قطر الولی'ص٢٣٠٭)
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں وجود ہیں وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدر خاں لکھتے ہیں:
بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پرامت کا اجماع و اتفاق ہے۔اگر صحیحین کی 'معنعن'حدیثیں صحیح نہیں تو امت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں۔(أحسن الکلام'مولانا محمد سرفرازصفدر خان 'جلد١'ص٢٤٩'طبع سوم اکتوبر ١٩٨٤)
پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر أئمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کا اتفاق ہوتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعوی متأثر نہ ہوگا جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں أصل اعتبار فقہاء کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے مقدمہ اصول تفسیر میں بحث کی ہے۔
سعیدی بریلوی کا اعتراض اور ہمارا جواب
جب کوئی کسی پر اعتراض کرتا ھے تو اس کی اس کے نزدیک وجوہات ہوتی ہیں خواہ وہ غلط ہی ہو اس نے تو اپنے علمی زاویے میں رہ کر کام کرنا ھے جسیے بے شمار منکرین حدیث صحیح بخاری پر اعتراضات کرتے ہیں کیونکہ ان کی علمی فکرمیں کجی ہوتی ہے ، وہ اصول حدیث سے عاری ، فہم سلیم سے خالی ، قرآن و حدیث کی حجت ہونے میںتشکیک ڈالنے والے ، محدثین کی خدمات کو لات مار کر ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس سے اللہ کی پناہ ۔واضح دین اسلام کی تخفیف و تحقیر و تذلیل کرتے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
بریلوی طبقہ فکر جن کی حالت زار ہر کسی پر عیاں ہے ،جب وہ صحیح بخاری کی شرح لکھے گا اس سے کیا بخاری کی تائید کرے گا ۔کلا۔طاہر القادری نے بھی صحیح بخاری پر دروس دئے ،احمد رضا بریلوی نے بھی حدیث پر کام کیا ،اسی طرح دیوبندی اور حنفی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس کی مثال کے لئے فیض الباری دیکھ لیں یا کوثری حنفی کی خدمات کا مطالعہ کر لیں ۔
ان تمہیدی باتوں کے بعد عرض ہے کہ سعیدی بریلوی صاحب نے صحیح مسلم کی بھی شرح لکھی ہے وہ شرح راقم کے مطالعہ میں بلکہ کئی سال سے اس پر نقد لکھ رہا ہوں مگر صحیح مسلم کی کسی بھی روایت کو وہ ضعیف نہیں کہتے مگر صحیح بخاری کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا ؟اس کی وجوہات اہل علم سے مخفی نہیں ۔اور نہ ان کو لکھنے کی ضرورت ہے ۔
وہ کیا اصول ہیں جن کی بنا پر سعیدی بریلوی صاحب نے صحیح بخاری کی احادیث کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
سعیدی بریلوی صاحب کا پہلا اصول :
لکھتے ہیں :'' صحیح بخاری میں ایسے راویوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جو جہمی ،قدری رافضی یا مرجئہ عقائد کے حامل تھے ۔''(نعمۃ الباری :ج١ص٩٤ سطر ٨)
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے پہلی وجہ یہ بیان کی ہے کہ بخاری میں جہمی قدری وغیرہ راوی موجود ہیں ۔؟؟؟؟!!!!
راقم عرض کرتا ھے کہ سعیدی صاحب کی یہ بات اصول حدیث سے بے خبری پر دلالت کرتی ہے ۔
محدثین راوی کی عدالت و ضبط کو دیکھتے تھے اس کے عقیدے کو نہیں ،کسی راوی کا قدری وغیرہ ہونا راوی کے ضبط اور عدالت میں مضرنہیں ہے بشرطیکہ وہ بدعت کے داعیوں میں سے نہ ہوں ۔تو اس کی حدیث قبول ھے اور خصوص اس کی حدیث کی صحت پر امت مسلمہ کا اجماع بھی ہو چکا ہو ۔
محدثین کے اقوال ملاحظہ کریں ۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کیا تم مرجئی اور قدری سے حدیث لکھتے ہیں فرمایا :ہاں:جب تک وہ اس کی طرف دعوت نہ دے اور اس میں کلام کثیر نہ کرے ۔(الضعفائ لابن حبان :ج١ ص ٨٢)
ابن حبان فرماتے ہیں :''ہمارے ائمہ اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک صدوق اور متقن راوی اس میںبدعت ہو وہ اس کی طرف دعوت نہ دیتا ہو تو اس کی حدیثوں سے حجت پکڑنا صحیح ھے ۔(تاریخ الثقات لابن حبان)حآفظ ابن حجر نے کہا :امام ابن حبان کا نقل کردہ اتفاق تو محل نظر ھے لیکن سب سے زیادہ انصاف والا مذہب یہ ہے کہ جو بدعت کا داعی نہ ہو اس کی روایت قبول کی جائے گی اور داعی کی روایت رد کر دی جائے گی ۔(ہدی الساری :٣٨٥)
حافظ ذہبی لکھتے ہیں:مجھ پرن جو چیز واضح ہوئی ہے وہ یہ ھے کہ جوراوی بدعت کی طرف مائل ہوگا لیکن بدعت کے سرداروں میں سے نہیں ہے اور نہ وہ اس بدعت کی گہرائی میں جاتا ہے اس کی حدیث قبول کی جائے گی ۔(سیر اعلام النبلائ:ج٧ص١٥٤)
فائدہ:بدعت مکفرہ کے مرتکب کی روایت مردود ھے اور قدری سے مراد تقدیر کا منکر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد وہ راوی ہے جو کہتا ہے ''الشر من الشیطان''شر شیطان کی طرف سے ہے ۔(التنکیل :ج١ص٤٢،٥٢)اور تشیع سے مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو عام صحابہ پر مقدم کرتا ھے جو سیدنا علی کو ابوبکر و عمر پر مقدم کرتا ہے اس کو رافضی کہتے ہیں ۔(ہدی الساری:ص٤٩٥)
سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :''یہ بے چارے اصول حدیث میں بالکل کورے ہیں محمد بن خاذم بخاری و مسلم کے مرکزی راوی ہیں اصول حدیث کی رو سے راوی کا خارجی یا جہمی ،معتزلی یا مرجی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا اثر انداز نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت ہیں ۔''(احسن الکلام :ج١ص٤٩)
قارئین کرام :اس شخص کی حالت کیا ہے جو اصول حدیث کے اس بنیادی مسئلے سے عاری ہے اور اسی بنیاد پر صحیح بخاری کی احآدیث کو ضعیف قرار دے رہا ہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون
سعیدی بریلوی نے مرسل صحابی کی وجہ سے صحیح بخاری پر طعن کیا
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے مرسل صحابی کی وجہ سے صحیح بخاری پر طعن کیا (نعمۃ الباری :٣ص٥٩٢)حالانکہ مرسل صحابی صحیح ہوتی ہے ۔
امام نوویؒ مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
"وامامرسل الصحابی وھوروایۃ مالم یدرکہ اویحضرہ کقول عائشۃ رضی اللہ عنہا اول مابدیٔ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فمذہب الشافعی والجماھیر انہ یحتج بہ وقال الاستاذ الامام ابواسحاق الاسفراینی الشافعی انہ لایحتج بہ الاان یقول انہ لایروی الاعن صحابی والصواب الاول"۔
(مقدمہ صحیح مسلم للنووی:۱۷، طبع ہند)
ترجمہ:اوررہا معاملہ مرسلاتِ صحابہ کا اور وہ ایسی روایات ہیں جن کا زمانہ اس راوی نے نہ پایا ہو یازمانہ پایا ہومگراس مجلس میں اس نے حاضری نہ پائی ہو توامام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؛ البتہ امام ابواسحاق اسفرائنی کہتے ہیں اس قسم کی روایات سے استناد صحیح نہیں، ہاں اگر وہ کہے کہ وہ صحابی، صحابی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتا توپھر اسے اُن کے ہاں بھی قبول کیا جاسکے گا اور صحیح بات پہلی ہے (کہ مرسلاتِ صحابہ مطلقاً لائقِ قبول ہیں)۔
آپ ایک دوسرے مقام پر ایک حدیث کی بحث میں لکھتے ہیں:
"ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ وہوحجۃ عندالجماھیر"۔(شرح مسلم للنووی:۲/۲۸۴)
ترجمہ: یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں:
"ویستفاد من الحکم بصحۃ ماکان ذلک سبیلہ صحۃ الاحتجاج بمراسیل الصحابۃ"۔(فتح الباری،باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا:۱/۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹)
ترجمہ: اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں قبولیت روایت کا مدار اعتماد اور وثوق پر ہی رہا ہے، روایت کا متصل ہونا ضروری نہ تھا، صحابہ کرام کا عادل اور ثقہ ہونا یقینی اور قطعی دلائل سے معلوم تھا تواب ان کی مرسلات بھی حجت سمجھی گئیں، اللہ تعالیٰ نے جب اُن کی عدالت پر مہر کردی تواب اس کی کیا ضرورت ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کوئی ان کی تعدیل کرے، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم.... فلایحتاج احدمنہم مع تعدیل اللہ لہم المطلع علی بواطنہم الی تعدیل احد من الخلق لہ"۔
(الکفایہ فی علوم الروایہ:۴۸،۴۶)
ترجمہ: صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے۔
محدثین کے اصول اور ان کی تحقیق کے مطابق اگر کسی روایت کی سند صحابی تک پہنچ جائے اوردیگر رواة میں انقطاع نہ ہو تو یہ مرسل کہلاتی ہے ،اور حدیث کی یہ قسم مقبول ہے۔ صحابی نے براہ راست آنحضرت ا سے سنا ہو (یعنی جس واقعہ کو صحابی نے بیان کیا ہے) یا کسی دوسرے صحابی سے سنا ہو۔مشہور محقق عالم مولانا عبد العزیز الفرہاروی اپنی کتاب "کوثر النبی،، میں فرماتے ہیں:
"اذا روی الصحابی مالم یشاہدہ فحدیثہ یسمی مرسل الصحابی کروایة احداث الصحابة کالسبطین وابن عباس وابن الزبیر... والصحیح انہ موصول اذا غالب ان الصحابی لایروی الا عن مثلہ اھ،،۔
ترجمہ:۔"جب صحابی ایسا واقعہ روایت کرے جس کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو یہ روایت مرسل صحابی کہلاتی ہے، جیسے چھوٹے صحابہ مثلاً حضرات حسنین، ابن عباس اور ابن زبیر کی روایت... صحیح بات یہ ہے کہ یہ متصل ہے جب کہ یقین غالب ہو کہ صحابی ہی سے روایت کررہا ہے،،۔
خود صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ وہ ابن عباس کی روایات کو قبول کرتے، حالانکہ ان کا شمار چھوٹے صحابہ میں تھا، کسی نے بھی اس کی تحقیق کی ضرورت نہ سمجھی کہ ان کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی؟ وجہ صرف یہی تھی کہ صحابہ کرام ایک دوسرے سے اور موقع بموقع خود رسول اللہ سے استفادہ کرتے رہتے تھے، اسی وجہ سے اجماع ہوگیا کہ مرسل مقبول ہے، مولانا ظفر احمد تھانوی فرماتے ہیں:
"...اما الاجماع: فہو ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل ،اما الصحابة فانہم قبلوا اخبار عبد الله بن عباس مع کثرة روایتہ وقد قیل انہ لم یسمع من رسول الله سوی اربعة احادیث لصغر سنہ،،۔
ترجمہ:۔"باقی رہا اجماع: تو صحابہ وتابعین کا عادل شخص کی مرسل کو قبول کرنے پر اجماع ہے،صحابہ کرام نے ابن عباس کی روایات کو بکثرت ہونے کے باوجود قبول کیا، حالانکہ کہا جاتاہے کہ انہوں نے چھوٹی عمر کی وجہ سے براہ راست صرف چار حدیثوں کو رسول خدا سے سنا،،۔
مرسل صحابی تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں مگر افسوس کی شارح بریلوی سعیدی صاحب صحیح بخاری سے دشمنی اپناتے ہوئے مرسل صحابی حدیث کی وجہ سے طعن کر رہے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون
حنفی حقیقت کا انکشاف
سعیدی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :''لیکن اب اس بات کا کیا کیا جائے کہ امام بخاری نے جن راویوں پر خود دوسری کتابوں میں جرح کی ھے ''صحیح بخاری''میں ان سے بھی روایات لے آئے ہیں ۔''اس پر سعیدی بریلوی صاحب مثالیں دیتے ہیں
١:ایوب بن عائذ کو امام بخاری نے کتاب الضعفائ میں درج کیا ھے اور فرماتے ہیں کان یری الارجائ ''یہ شخص مرجئہ عقائد کا حامل تھا ۔
٢:عطائ بن ابی میمونہ کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں :''وکان یری القدر ۔''یہ شخص قدریہ عقائد کا حامل تھا ۔
(نعمۃ الباری :ج١ص٩٤)
جواب :
ہم نے مفصل بیان کے ساتھ ثابت کیا ھے کہ راوی کا قدری یا بدعی یا مرجئی ہونا جرح نہیں اگر بدعت کی طرف داعی نہ ہوگا بس ان کے عدالت و ضبط کو دیکھا جائے گا ۔یہ اصول سعیدی بریلوی صاحب کو سمجھ نہیں آیا اس لئے اس کو بنیاد بنا کر صحیح بخاری کی مسند احادیث کو ضعیف کہنا شروع کر دیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
الزامی جواب :
سعیدی صاحب اور ان کے حمایتیوں کی خدمت میں عرض ھے کہ اگر صحیح بخاری میں مرجی راوی ہونا قابل جرح ہے تو امام ابوحنیفہ صاحب بھی مرجی تھے تو اب تمہارا کیا خیال ہے؟!تفصیل کے لئے دیکھئے (اللمحات جلد١)
حنفی مذہب کی کہانی بہت ہی عجیب ہے چناچہ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی فرماتےہیں:
فکم من حنفی حنفی فی الفروع معتزلی عقیدۃ کالز محشری جا راللہ مؤلف الکشاف وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکم من حنفی حنفی فرعا مرجی او زیدی اصلاً وبالجملۃ فالحنفیۃ لہا فروع باعتبار اختلاف العقیدۃ فمنہم الشیعۃ ومنہم المعتزلۃ ومنہم المرجئۃ۔ (الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل ص ۲۷۔ دوسرا نسخہ ص ۳۸۵۔۶۸۳ بتحقیق ابی غدہ)
"عقیدہ کے اعتبار سے حنفی مذہب کی کئی شاخیں اور فروع ہیں ۔بہت سارے حنفی شیعہ، معتزلہ اور مرجئہ ہیں، درحقیقت حنفی فرقہ وہ جماعت ہے جو فروعی مسائل اور شرعی اعمال میں امام ابو حنفیہ کی تقلید کرتے ہیں اگرچہ ان کا عقیدہ امام صاحب کے موافق ہو یا نہ ہو، اگر موافق ہوگا تو وہ کامل حنفی کہلائے گا مگر جو دوسرے فرقوں کے موافق عقیدہ رکھے گا وہ بھی حنفی ہی کہلائے گا لیکن اس کےعقیدے کی وضاحت کی جائے گی، اس طرز پر بہت سارے لوگ فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور عقیدہ کے اعتبار سے معتزلی مثلًا زمخشری، نجم الدین الزاہدی، عبدالجبار، ابو ہاشم اور جبائی وغیرہم، اسی طرح کتنے ہی فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور اصولی مسائل کے اعتبار سے مرجیہ اور زیدی شیعہ ہیں۔"
اسی طرح احناف کے مرشدو ممدوح شیخ عبدالقادر جیلانی نے بہتر (۷۲) گمراہ فرقوں کی تفصیل ان کے ناموں کے ساتھ لکھی ہے ،مرجئہ فرقہ کی بارہ شاخوں میں سے ایک "حنفیہ" کو قرار دیا ہے اور حنفیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وام الحنفیۃ فہم بعض اصحاب ابی حنیفۃ النعمان بن ثابت زعموان الایمان ہو المعرفۃ والاقرار بااللہ ورسولہ۔۔۔۔۔
یعنی حنفیہ، ابو حنیفہ کے بعض اصحاب کا نام ہے جن کا نظریہ یہ ہے کہ ایمان اللہ اور اس کے رسول ﷺکی معرفت اور اقرار کا نام ہے۔
شیخ جیلانی فرقہ ناجیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
واما الفرقۃ الناجیۃ فہی اہل السنۃ والجماعۃ ۔۔۔۔۔ وما اسمہم الّا اصحاب الحدیث واہل السنۃ۔
یعنی فرقہ ناجیہ اہل النسۃ والجماعۃ ہے جن کا نام اصحاب الحدیث (اھل الحدیث) اور اہل السنۃ ہی ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ۲۱۴- ۲۲۱، ۲۲۲ )
یعنی حنفیہ شیخ جیلانی کے نزدیک گمراہ فرقوں میں سے ہے جن کا اہل السنۃ والجماعۃ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔
اسی لئے شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ موجودہ تمام مذہبی فتنوں مثلاً عیسائی مشنری، کمیونزم تحریک، چکڑالوی، انکار حدیث، مرزائی، شیعہ وغیرہ کی بنیاد فقہ حنفی کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اگرچہ کسی نے پَر سے پرندہ بنایا ہو، لیکن اس پَر کا وجود فقہ حنفی میں ہوتا ہے۔" (مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) ص ۳۰)۔۔۔۔۔
العرف الشذی از انور شاہ کشمیری دیوبندی میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات
الرد القوی علی العرف الشذي
تحریر ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ
مدرسہ دیوبند کے شیخ الحدیث اور اپنے معتدقدین کی نظر میں امام المحدثین میری مراد مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندیصاحب ہیں ۔انھوں نے سنن الترمذی پڑھائی تو ان کی تقریر کو جمع کرکے العرف الشذی کے نام سے شایع کیا گیا ،راقم الحروف ان دنوں سنن الترمذی پر احناف کی طرف لکھے جانے والے تمام حواشی تقاریر اور دروس کا تنقیدی جائزہ لے رہا ہے ۔ سب سے پہلے درس ترمذی از تقی عثمانی تھی اس پر کافی کام ہو چکا ہے والحمدللہ اور تقی صاحب نے بیہت زیادہ استفادہ اسی العرف الشذی سے کیا ہے اس لئے مناشب سمجھا کہ پہلے اس پر کام کر نشر کیا جائے تو اس کے راقم نے اپنی طرف سے لچھ لکھنے کی بجائے امام عبدالرحمن مبارکپوری کی شرح تحفۃ الالحوذی کا انتخاب کیا جو انھوں العرف الشذی کے تعاقب میں لکھا اسی کو جمع کر دیا اور یہ پیش خدمت ہے ۔اس سے تو اہل علم ہی فائدہ اٹھائیں گے اور بےشمار فوائد حاصل کریں گے ان شائ اللہ
ہدایہ میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات
فقہ حنفی کی بنیاد کیسی احادیث پر؟
امام ابن ابی العز الحنفی کی زبانی
احناف کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی فقہ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں آئیے اس کی حقیقت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ہدایہ کے مقدمے میں لکھا ہوا ہے :یہ کتاب عمدہ روایت پر مشتمل ہے ۔
یہ بات درست نہیں ہے آئیے اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور وہ بھی احناف کی زبانی ۔
پہلی مثال:
ملا مرغینانی صاحب لکھتے ہیں : ''والمفروض فی مسح الراس مقدار الناصیۃ ،وہو ربع الراس ،لما روی المغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ:''ان النبی ؐ اتی سباطۃ قوم فبال وتوضا ،ومسح علی ناصیتہ و خفیہ
''سر کے مسح میں پیشانی کی مقدار فرض ہے اور وہ سر کا چوتھائی حصہ ہے ،اس لے جو مغیرہ بن شعبہ نے روایت بیان کی ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قوم کی روڑی کے پاس آئے آپ نے پیشاب کیا اور وضو کیا ،اپنی پیشانی اور موزوں پر مسح کیا ۔
اقول:ملا مرغینانی صاحب نے ایک غلط مسئلہ ثابت کرنے کے لئے (کہ پیشانی پر مسح کرنا )جب کوئی صحیح حدیث نہ ملی تو انھوں نے قدوری صاحب کی پیروی کرتے ہوئے دو حدیثوں کو توڑ مروڑ کرایک کر دیا اور کچھ الفاظ حدیث نقل ہی نہ کئے اس کا اعتراف علماء احناف نے بھی کیا ہے ۔مثلا
١:حافظ زیلعی حنفی (نصب الرایۃ :ج١ص٤٠،ط مکتبہ حقانیہ پشاور )
٢:ابن ابی العز الحنفی (التنبیہ علی مشکلات الہدایہ :ج١ص٢٤٦)
٣:سروجی حنفی (الغایہ :بحوالہ التنبیہ علی مشکلات الہدایہ :ج١ص٢٤٥)
کیا یہ فقہ حنفی ہے ہدایہ کی اہمیت کس قدر ہے احناف کے ہاں لیکن علمائے احناف خود اس میں وارد احادیث کی نقاب کشائی کر رہے ہیں والحمد للہ ۔
مرغینانی صاحب نے جن دو حدیثوں کو ایک کر دیا ان کی اصل حقیقت درج ذیل ہے
۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
''ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم توضا ومسح بناصیتہ وعلی العمامۃ وعلی الخفین ۔''بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ،اپنی پیشانی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا
۔(صحیح مسلم :٢٤٧)
اس حدیث میں پیشانی کے ساتھ پگڑی پر مسح کرنے کا ذکر بھی ہے جس کو ملامرغینانی صاحب نے ذکر نہیں کیا ۔علامہ ابن ابی العز الحنفی نے تفصیلی بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ صرف پیشانی پر مسح کرنا ثابت نہیں ہے(التنبییہ علی مشکلات الہدایہ :ج١ص٢٤٥۔٢٥٣)
اور دوسری روایت اس طرح ہے
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان رسول اللہ ؐ اتی سباطۃ قوم فبال قائما ۔''بے شک رسول اللہ ؐ قوم کی روڑی کے پاس آئے اور آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا (سنن ابن ماجہ :٣٠٦)
دوسری مثال:
ملامرغینانی صاحب لکھتے ہیں : ''ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ وقال (ھذا وضو ء لاتقبل الصلاۃ الابہ ))،وتوضا مرتین مرتین وقال: ھذا وضوء من یضاعف لہ الاجر مرتین ،وتوضا ثلاثا ثلاثا ۔وقال :ھذا وضوئی و وضوء الانبیاء من قبلی ،فمن زاد علی ھذا او نقص فقد تعدی وظلم ))
اقول:یہ دو مختلف حدیثیں ہیں جن کو مرغینانی صاحب نے ایک بنا دیا ہے ۔اس بات کی وضاحت درج ذیل علماء نے کی ہے ۔
١
:حافظ زیلعی حنفی (نصب الرایہ :ج١ص٢٧)
٢:ابن ابی العز حنفی (التنبیہ :ج١ص٢٦٥۔٢٦٧)
٣:سروجی حنفی (التنبیہ :ج١ص٢٦٥۔٢٦٧)
٤:ابن ھمام حنفی (فتح القدیر :ج١ص٣١۔٣٢)
٥:حافظ ابن حجر عسقلانی(الدرایۃ :ج١ص٢٢)
نوٹ:او نقص والے الفاظ سنن ابی داود (٣٥د١)میں آتے ہیں اور شاذ ہیں(فتح الباری :ج١ص٢٣٣)
امام ابو حنیفہ کا تذکرہ تورات میں ؟!
فتاوی برہنہ (ج٢ص١٨٤)میں لکھا ہوا ھے کہ نعمان بن ثابت کا تذکرہ تورات میں بھی ہے ،معراج میں بھی امام ابو حنیفہ موضوع بحث رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام صاحب کے بارے میں پیش گوئی بھی کی تھی ۔(حقیقۃ التقلید ص:٦١)
عبدالمصطفی لکھتا ھے :
؏ حنیفہ حنیف کا تانیث ہے جس کے معنی ہیں عبادت کرنے والا اور دین کی طرف راغب ہونے والا ۔
؏ آپ کا حلقہ درس وسیع تھا اور آپ کے شاگرد اپنے ساتھ قلم دوات رکھتے تھے چونکہ اہل عراق دوات کو حنیفہ کہتے ہیں اس لیے آپ کو ابوحنیفہ کہا گیا یعنی دوات والے -
؏ آپ کی کنیت وضعی معنی کے اعتبار سے ہے یونی ابوالملۃ الحنیفۃ ۔ قرآن مجید میں رب تعالی نے مسلمانوں سے فرمایا : فاتبعو ملۃ ابراہیم حنیفۃ (آل عمران 95 ) امام اعظم رضی اللہ عنہ نے اسی نسبت سے اپنی کنیت ابوحنیفہ اختیار کی ، اسکا مفہوم ہے باطل ادیان کو چھوڑ کر دین حق اختیار کرنے والا (الخیرات الحسان 71)
امام اعظم رضی اللہ عنہ کا ذکر اسی کنیت کے ساتھ توریت میں آیا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا ذکر توراۃ میں ہے ، حضرت کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے جو توراۃ حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل فرمائی اس میں*ہمیں* یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں*ایک نور ہوگا جس کی کنیت ابوحنیفہ ہوگی ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے لقب سراج الامۃ سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ ( تعارف فقہ و تصوف 225 )
سید شاہ تراب لحق قادری صاحب کی کتاب امام اعظم سے اقتباس]
فتاوی برہنہ علمائ احناف کے ہاں معتبر کتاب ہے
ایک حنفی عالم دین محمد برہان الحق جلالی لکھتے ہیں :''
اور اسطرح کتب معتبرہ مثل ارشادالطالبین اور فتاویٰ برہنہ میں یہ منقول ہے کہ
ترجمہ:۔یعنی امام اعظم کوفہ کی مسجد میں تعلیم وتدریس اور فیض رسانی کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے توآپ کے ارد گردایک ہزار شاگرد بیٹھتے آپ کے چالیس جلیل القدر فقہا شاگرد آپ کے نزدیک بیٹھتے اور مسائل شرعیہ استخراج فرماتے تھے جب کسی مسئلے کی درستگی پر سب کا اتفاق ہو جاتاتو امام المسلمین بہت خوشی میں "الحمدللہ واللہ اکبر"کانعرہ بلند کرتے اور آپ کی موافقت میں حاضرین مجلس اللہ اکبر کانعرہ لگاتے اور مسئلہ کو کتاب میں نقل کر لیتے(حوالہ )
مشھور شاعر اور صوفی وارث علی شاہ اسی فتاوی برہنہ کی تعریف یوں کرتے ہیں :[B
فتاوی برہنہ منظوم شاہاں نال زبدیاں حفظ قراریا نیں
معارج النبوت خلاصیاں توں روضہ نال اخلاص پساریا نیں
زرداریاں دے نال شرح مُلا زنجانیاں نحو نتاریا نیں
کرن حفظ قرآن تفسیر دوراں، غیر شرح نوں دریاں ماریا نیں
(وارث شاہ) (حوالہ )
اے علمائ تقلید کیا یہ سچ ھے یا جھوٹ ؟
یہ کیوں کہا گیا ؟ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ھے [/B]
١:عام پڑھے لکھے لوگ امام صاحب کی عقیدت میں گن گائے کہ ہمارے کا تذکرہ تو توراۃ میں ہے اس لئے انھیں کی تقلید واجب ھے !
٢:یہ من گھڑت بات اس لئے احناف پیش کرتے ہیں تا کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے امام کا مقام بن جائے !!
٣:فقہ حنفی کی تائید تورات سے بھی حاصل کرنے کی غرض سے یہ بات بنائی گئی !!!
٤:ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنا پڑتا ہے تو فقہ حنفی غیر ثابت تھی بس اس کو ثابت کرنے کے لئے سب پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں !!!
امام ابو حنیفہ کا تذکرہ تورات میں ؟!
فتاوی برہنہ (ج٢ص١٨٤)میں لکھا ہوا ھے کہ نعمان بن ثابت کا تذکرہ تورات میں بھی ہے ،معراج میں بھی امام ابو حنیفہ موضوع بحث رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام صاحب کے بارے میں پیش گوئی بھی کی تھی ۔(حقیقۃ التقلید ص:٦١)
عبدالمصطفی لکھتا ھے :
؏ حنیفہ حنیف کا تانیث ہے جس کے معنی ہیں عبادت کرنے والا اور دین کی طرف راغب ہونے والا ۔
؏ آپ کا حلقہ درس وسیع تھا اور آپ کے شاگرد اپنے ساتھ قلم دوات رکھتے تھے چونکہ اہل عراق دوات کو حنیفہ کہتے ہیں اس لیے آپ کو ابوحنیفہ کہا گیا یعنی دوات والے -
؏ آپ کی کنیت وضعی معنی کے اعتبار سے ہے یونی ابوالملۃ الحنیفۃ ۔ قرآن مجید میں رب تعالی نے مسلمانوں سے فرمایا : فاتبعو ملۃ ابراہیم حنیفۃ (آل عمران 95 ) امام اعظم رضی اللہ عنہ نے اسی نسبت سے اپنی کنیت ابوحنیفہ اختیار کی ، اسکا مفہوم ہے باطل ادیان کو چھوڑ کر دین حق اختیار کرنے والا (الخیرات الحسان 71)
امام اعظم رضی اللہ عنہ کا ذکر اسی کنیت کے ساتھ توریت میں آیا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا ذکر توراۃ میں ہے ، حضرت کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے جو توراۃ حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل فرمائی اس میں*ہمیں* یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں*ایک نور ہوگا جس کی کنیت ابوحنیفہ ہوگی ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے لقب سراج الامۃ سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ ( تعارف فقہ و تصوف 225 )
سید شاہ تراب لحق قادری صاحب کی کتاب امام اعظم سے اقتباس]
فتاوی برہنہ علمائ احناف کے ہاں معتبر کتاب ہے
ایک حنفی عالم دین محمد برہان الحق جلالی لکھتے ہیں :''
اور اسطرح کتب معتبرہ مثل ارشادالطالبین اور فتاویٰ برہنہ میں یہ منقول ہے کہ
ترجمہ:۔یعنی امام اعظم کوفہ کی مسجد میں تعلیم وتدریس اور فیض رسانی کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے توآپ کے ارد گردایک ہزار شاگرد بیٹھتے آپ کے چالیس جلیل القدر فقہا شاگرد آپ کے نزدیک بیٹھتے اور مسائل شرعیہ استخراج فرماتے تھے جب کسی مسئلے کی درستگی پر سب کا اتفاق ہو جاتاتو امام المسلمین بہت خوشی میں "الحمدللہ واللہ اکبر"کانعرہ بلند کرتے اور آپ کی موافقت میں حاضرین مجلس اللہ اکبر کانعرہ لگاتے اور مسئلہ کو کتاب میں نقل کر لیتے(حوالہ )
مشھور شاعر اور صوفی وارث علی شاہ اسی فتاوی برہنہ کی تعریف یوں کرتے ہیں :[B
فتاوی برہنہ منظوم شاہاں نال زبدیاں حفظ قراریا نیں
معارج النبوت خلاصیاں توں روضہ نال اخلاص پساریا نیں
زرداریاں دے نال شرح مُلا زنجانیاں نحو نتاریا نیں
کرن حفظ قرآن تفسیر دوراں، غیر شرح نوں دریاں ماریا نیں
(وارث شاہ) (حوالہ )
اے علمائ تقلید کیا یہ سچ ھے یا جھوٹ ؟
یہ کیوں کہا گیا ؟ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ھے [/B]
١:عام پڑھے لکھے لوگ امام صاحب کی عقیدت میں گن گائے کہ ہمارے کا تذکرہ تو توراۃ میں ہے اس لئے انھیں کی تقلید واجب ھے !
٢:یہ من گھڑت بات اس لئے احناف پیش کرتے ہیں تا کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے امام کا مقام بن جائے !!
٣:فقہ حنفی کی تائید تورات سے بھی حاصل کرنے کی غرض سے یہ بات بنائی گئی !!!
٤:ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنا پڑتا ہے تو فقہ حنفی غیر ثابت تھی بس اس کو ثابت کرنے کے لئے سب پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں !!!
اے امت مسلمہ !
خدا راہ سمجھیں ہوشیار ہو جائیں اپنے ایمان و عقیدہ کی اصلاح کریں اپنی گردن سے تقلید کو دور کریں ،ورنہ یہ آل تقلید تمہیں صراط مستقیم پر نہیں آنے دیں گےبس من گھڑت باتیں بنا کر آپ کو تسلی دیں گے ۔
مقریزی حنفی نے الکامل فی الضعفء کے اختصار میں امام ابو حنیفہ کا ترجمہ حذف کیوں کیا ؟
علامہ مقریزی حنفی نے الکامل فی الضعفائ و علل الحدیث لابن عدی کا اختصار کیا اور سازش یہ کی کہ اپنے اختصار میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ حذف کردیا ۔دیکھئے (مختصر الکامل فی الضعفائ وعلل الحدیث ط:دار الجیل بیروت ص٧٥٥)
یہ کیوں کیا ؟اس کے کئی جواب دیئے جا سکتے ہیں مثلا
١:امام ابن عدی کے نزدیک ابوحنیفہ رحمہ اللہ ضعیف تھے ۔
٢:محدثین کے اقوال نقل کئے تھے کہ ابوحنیفہ ضعیف راوی ھے ۔
٣:تقلید امام ،غلو اور بد دیانتی پر اکساتی ھے اگر ذکر کر دیتے تو قیامت تک لوگ پڑھتے کہ حنفی عالم دین مقریزی رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ کو مختصر الکامل میں ضعیف ثابت کیا ھے !
٤:اپنے امام صاحب کے دفاع کی خاطر حقیقت کو بدل دینا احناف کے ہاں معمولی مسئلہ ہے ۔اس کی مثالیں بے شمار ملتی ہیں ۔
٥:مقریزی حنفی رحمہ اللہ نے الکامل کا اختصار کیوں کیا ؟
صرف امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کو ساقط کرنے کی خاطر انا للہ و انا الیہ راجعون
نصیحت :احناف ،دیوبندی اور بریلوی جب بھی کسی حدیث کی کتاب کی خدمت کریں شرح ،تخریج یا تحقیق کرنے کی صورت میں تو ان کا مطالعہ کرنے سے سمجھ آجاتی ہے کہ یہ کیوں لکھی گئی ہیں صرف اپنے امام صاحب کا دفاع کرنے کے لئے اور فقہ حنفی کو قرآن و حدیث پر فوقیت دینے کے لئے ۔اس کے بے شمار مثالیں اہل علم جانتے ہیں
اس کی حقیقت مفصل جاننے کے لئے ابھی یہاں یہاں یہاں یہاں کا مطالعہ کریں آپ احناف ،بریلوی اور دیوبندی گروپ کی قرآن و حدیث کے متعلق خدمات کی حقیت پالیں گے ان شااللہ جمہ حذف کیوں کیا ؟
علامہ مقریزی حنفی نے الکامل فی الضعفائ و علل الحدیث لابن عدی کا اختصار کیا اور سازش یہ کی کہ اپنے اختصار میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ حذف کردیا ۔دیکھئے (مختصر الکامل فی الضعفائ وعلل الحدیث ط:دار الجیل بیروت ص٧٥٥)
یہ کیوں کیا ؟اس کے کئی جواب دیئے جا سکتے ہیں مثلا
١:امام ابن عدی کے نزدیک ابوحنیفہ رحمہ اللہ ضعیف تھے ۔
٢:محدثین کے اقوال نقل کئے تھے کہ ابوحنیفہ ضعیف راوی ھے ۔
٣:تقلید امام ،غلو اور بد دیانتی پر اکساتی ھے اگر ذکر کر دیتے تو قیامت تک لوگ پڑھتے کہ حنفی عالم دین مقریزی رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ کو مختصر الکامل میں ضعیف ثابت کیا ھے !
٤:اپنے امام صاحب کے دفاع کی خاطر حقیقت کو بدل دینا احناف کے ہاں معمولی مسئلہ ہے ۔اس کی مثالیں بے شمار ملتی ہیں ۔
٥:مقریزی حنفی رحمہ اللہ نے الکامل کا اختصار کیوں کیا ؟
صرف امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کو ساقط کرنے کی خاطر انا للہ و انا الیہ راجعون
نصیحت :احناف ،دیوبندی اور بریلوی جب بھی کسی حدیث کی کتاب کی خدمت کریں شرح ،تخریج یا تحقیق کرنے کی صورت میں تو ان کا مطالعہ کرنے سے سمجھ آجاتی ہے کہ یہ کیوں لکھی گئی ہیں صرف اپنے امام صاحب کا دفاع کرنے کے لئے اور فقہ حنفی کو قرآن و حدیث پر فوقیت دینے کے لئے ۔اس کے بے شمار مثالیں اہل علم جانتے ہیں
اس کی حقیقت مفصل جاننے کے لئے ابھی یہاں یہاں یہاں یہاں کا مطالعہ کریں آپ احناف ،بریلوی اور دیوبندی گروپ کی قرآن و حدیث کے متعلق خدمات کی حقیت پالیں گے ان شااللہ
خلاصہ کیدانی میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات
کیدانی حنفی نے نماز کے محرمات کے بارے میں ایک باب باندھا ھے ،خلاصہ کیدانی کا مصنف لکھتا ہے: "الباب الخامس فی المحرمات والإشارة بالسبابة کأھل الحدیث" پانچواں باب محرمات (حرام چیزوں) میں اور شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا جس طرح اہل حدیث کرتے ہیں۔ (ص۱۵،۱۶)دوسرا نسخہ (خلاصہ کیدانی ص:٢١مترجم فارسی و افغانی )
احناف کے ہاں خلاصہ کیدانی کا مقام
سوال: علاقۂ کشمیر ضلع مظفرآباد میں ایک شخص بدعویٰ پیری آیا ہوا ہے، اپنا سلسلہ نقشبندی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، علمی قابلیت میں عربی میں "خلاصہ کیدانی" بھی نہیں پڑھا ہے؛ البتہ اردو میں تحریر وتقریر جانتا ہے، وعظ ونصیحت کرتا ہے جو کہ مطابق شرع ہوتی ہے، لباس عالمانہ پہنتا ہے، صرف شملہ چھوڑتا ہے، داڑھی مطابق شرع ہے،(حوالہ )
قبلہ ایاز صاحب لکھتے ہیں :
درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء واساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیة المصلّی ، المختصر القدوری، نورالایضاح، کنزالدقائق، مختصر الحقائق، مستخلص،شرح الیاس، شرح وقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دوکتابیں اور مستخلص وشرح الیاس کو ہٹادیا گیا ہے۔ جبکہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتاہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی وفقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔(حوالہ )
ایک مسنون عمل کو حرام قرار دینا ،کتنی بڑی جرات ھے ،اس طرح کی جسارت کرنے کی کیا وجوہات ھیں ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہر اہل علم حنفی طرز عمل سے واقف ہے کہ یہ کس طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کےدلوں میں قرآن و حدیث سے محبت ڈال دے ۔اور بدعات وغیرہ سے نفرت ڈال دے ۔
عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں کہ "تشہد میں جو رفع سبابہ کیا جاتا اس میں تردد تھا کہ اس اشارہ کا بقاء کسوقت تک کسی حدیث میں منقول ہے یا نہیں حضرت قدس سرہ کے حضور میں پیش کیا گیا فوراً ارشاد فرمایا کہ "ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ سے اشارہ فرما رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ اخیر تک اسکا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے" (تذکرة الرشید ۱۱۳/۱ ، حضرت سے رشید احمد گنگوہی مراد ہیں)
راقم اس ہر لکھنا چاہتا تھا دوران مطالعہ محترم کفایت اللہ بھائی کامضمون ملا وہ ہدیہ قارئین ہے
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ.
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔
اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں
:''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔
تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔
اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''
فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔
غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کوحرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔
عرض ہے کہ حرکت دینااشارہ کرنے کے خلاف ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کوچھوڑنالازم نہیں آتاکیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہورہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔
معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذادونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کوحرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے
:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)
اورامام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔
امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔
بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔
عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لاالہ ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الااللہ'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔
بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کامذاق اڑاناچھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟
واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کاکام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ''
لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ''یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے،دیکھئے:مسندأحمد:ج2119رقم 6000
خلاصہ کیدانی میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات
کیدانی حنفی نے نماز کے محرمات کے بارے میں ایک باب باندھا ھے ،خلاصہ کیدانی کا مصنف لکھتا ہے: "الباب الخامس فی المحرمات والإشارة بالسبابة کأھل الحدیث" پانچواں باب محرمات (حرام چیزوں) میں اور شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا جس طرح اہل حدیث کرتے ہیں۔ (ص۱۵،۱۶)دوسرا نسخہ (خلاصہ کیدانی ص:٢١مترجم فارسی و افغانی )
احناف کے ہاں خلاصہ کیدانی کا مقام
سوال: علاقۂ کشمیر ضلع مظفرآباد میں ایک شخص بدعویٰ پیری آیا ہوا ہے، اپنا سلسلہ نقشبندی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، علمی قابلیت میں عربی میں "خلاصہ کیدانی" بھی نہیں پڑھا ہے؛ البتہ اردو میں تحریر وتقریر جانتا ہے، وعظ ونصیحت کرتا ہے جو کہ مطابق شرع ہوتی ہے، لباس عالمانہ پہنتا ہے، صرف شملہ چھوڑتا ہے، داڑھی مطابق شرع ہے،(حوالہ )
قبلہ ایاز صاحب لکھتے ہیں :
درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء واساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیة المصلّی ، المختصر القدوری، نورالایضاح، کنزالدقائق، مختصر الحقائق، مستخلص،شرح الیاس، شرح وقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دوکتابیں اور مستخلص وشرح الیاس کو ہٹادیا گیا ہے۔ جبکہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتاہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی وفقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔(حوالہ )
ایک مسنون عمل کو حرام قرار دینا ،کتنی بڑی جرات ھے ،اس طرح کی جسارت کرنے کی کیا وجوہات ھیں ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہر اہل علم حنفی طرز عمل سے واقف ہے کہ یہ کس طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کےدلوں میں قرآن و حدیث سے محبت ڈال دے ۔اور بدعات وغیرہ سے نفرت ڈال دے ۔
عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں کہ "تشہد میں جو رفع سبابہ کیا جاتا اس میں تردد تھا کہ اس اشارہ کا بقاء کسوقت تک کسی حدیث میں منقول ہے یا نہیں حضرت قدس سرہ کے حضور میں پیش کیا گیا فوراً ارشاد فرمایا کہ "ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ سے اشارہ فرما رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ اخیر تک اسکا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے" (تذکرة الرشید ۱۱۳/۱ ، حضرت سے رشید احمد گنگوہی مراد ہیں)
راقم اس ہر لکھنا چاہتا تھا دوران مطالعہ محترم کفایت اللہ بھائی کامضمون ملا وہ ہدیہ قارئین ہے
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ.
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔
اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں
:''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔
تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔
اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''
فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔
غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کوحرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔
عرض ہے کہ حرکت دینااشارہ کرنے کے خلاف ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کوچھوڑنالازم نہیں آتاکیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہورہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔
معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذادونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کوحرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے
:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)
اورامام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔
امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔
بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔
عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لاالہ ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الااللہ'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔
بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کامذاق اڑاناچھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟
واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کاکام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ''
لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ''یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے،دیکھئے:مسندأحمد:ج2119رقم 6000۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے
کتب فقہ حنفی اور موضوع روایات ؟
جب ہم فقہ حنفی کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع روایات بھی ملتی ہیں جن سے استدلال کرتے ہیں ایسا کیوں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔مولانا یحیی گوندلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مراکز وضع
اسلام میں وضع حدیث کی ابتداء سبائی پارٹی کی طرف سے ھوئی تھی یہ لوگ مختلف بلاد اسلامیہ میں پھیل گئے تھے البتہ حجاز ان سرگرمیوں سے کسی حد تک محفوظ تھا اس لئے حجاز خصوصاً حرمین شرفین وضع حدیث کے فتنہ سے محفوظ رھے ھیں باقی تقریباً قابل ذکر علاقوں میں خال خال وضع حدیث کے جراثیم پیدا ھو گئے تھے لیکن اس کا اصل مرکز سرزمین عراق تھی اس لئے کہ یہ علاقہ ابتداء سے ھی فتنوں کا گڑھ اور مرکز چلا آ رھا ھے جناب رسول اللہ نے بھی اس علاقہ کو فتنوں اور شیطان کے سینگ کی زمین قرار دیا تھا جس کی تفصیل حدیث کی عام کتابوں میں موجود ھے فتنہ گروں کو اپنے پروگرام کو بام عروج تک پھنچانے کے لئے کسی مرکز کی ضرورت تھی اس کے لئے ان کی نگاہ سرزمین عراق پر پڑی اور اسے اپنے مشن کی آبیاری کے لئے موزوں خیال کیا۔
آئمہ کرام اور محدثین عظام نے اس صورت حال کو بھانپ لیا اور اس فتنے کے تدارک کے لئے مستعد ھو گئے روایات میں تحقیق و تفتیش کا عمل تو حضرت عثمان کی شھادت کے بعد شروع ھو چکا تھا مگر جب اھل عراق سے کوئی روایت نقل ھو کر آتی تو اس میں مزید احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ۔ صرف ان آئمہ کرام کی روایت کو قبول کی جاتی جن کی امانت، صداقت اور عدالت اظھر من الشمس تھی اور عام روایات اور یہ صحابہ کرام کے آخری عھد میں ہی شروع ھو چکا تھا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے عراقیوں کی ایک جماعت نے کسی مسئلہ پر استفسار کیا تو انہوں ان کے جواب میں فرمایا :۔
''ان من العراق قوماً یکذبون ویسخرون۔'' (طبقات ابن سعد:۹/۱۳)
'' بلا شبہ عراق میں کچھ لوگ ایسے بھی ھیں جو جھوٹ بولتے اور تمسخر اڑاتے ھیں۔''
تابعین نے بھی تجربہ سے معلوم کیا تھا کہ اھل عراق حدیث روایت کرنے کے اھل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی روایت قابل قبول ہے معروف تابعی حضرت طاؤس فرماتے ہیں:''اذا حدثک العراقی ماءۃ حدیث فاطرح تسعۃ و تسعین ۔''
''جب کوئی عراقی سو حدیثیں روایت کرے تو ان میں سے ننانوے کو پھینک دو''