• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری شریف حصہ اول۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
نماز کے اوقات کا بیان


باب : نماز کے اوقات اور ان کی فضیلت (کا بیان)

(۳۲۵)۔ سیدنا ابو مسعو د انصاریؓ، مغیرہ بن شعبہؓ کے پاس گئے، جبکہ وہ عراق میں تھے اور ایک دن نماز میں تاخیر ہو گئی تھی، کہا کہ اے مغیرہ ! (تم نے) یہ کیا کیا ؟ تم نہیں جانتے کہ (ایک دن) جبریلؑ تشریف لائے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے (بھی) پڑھی، پھر (دوسری) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (تیسری) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (چوتھی) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (پانچویں) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر جبریلؑ نے کہا کہ مجھے اسی طرح حکم ہوا ہے۔

باب : نماز (گناہوں) کا کفارہ ہے

(۳۲۶)۔ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لو گ امیر المومنین عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ فتنہ کے بارے میں رسول اللہﷺ کی حدیث تم میں سے کسے یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے (بالکل اسی طرح) یاد ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا کہ پھر بیان کیجیے تو میں نے کہا کہ آدمی کا وہ فتنہ جو اس کی بیوی اور اس کے مال اور اولاد میں ہوتا ہے نماز، روزہ، صدقہ اور امر (بالمعروف) اور نہی (عن المنکر) اس کو مٹا دیتا ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے کہا کہ میں یہ نہیں (پوچھنا) چاہتا بلکہ وہ فتنہ جو دریا کی طرح موج زن ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین ؟ اس فتنہ سے آپ کو کچھ خوف نہیں کیونکہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا اچھا :وہ دروازہ توڑ ڈالا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟ تو سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ توڑ ڈالا جائے گا۔ پھر امیر المومنین عمرؓ نے کہا تو پھر (وہ دروازہ) کبھی بند نہ ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا گیا کہ کیا عمرؓ اس دروازے کو جانتے تھے ؟ انھوں نے کہا ہاں (اس طرح جانتے تھے) جیسے (تم جانتے ہو) کہ دن کے بعد رات ہو گی۔ (سیدنا حذیفہؓ) نے وہ حدیث بیان کی جو غلط نہ تھی۔ پس ان سے (دروازے کا) پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ دروازہ ’’ امیر المومنین سیدنا عمرؓ تھے۔ ‘‘

(۳۲۷)۔ سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی (اجنبی) عورت کو بوسہ دے دیا پھر وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ سے بیان کیا تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت نازل فرما دی : ’’ نماز کو دن کے سروں میں اور کچھ رات گئے قائم کرو بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ‘‘ تو وہ شخص بولا کہ اللہ کے رسول ! کیا یہ میرے ہی لیے ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ میری تمام امت کے لیے ہے۔ ‘‘

(۳۲۸)۔ ایک اور روایت میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے :’’ میری امت میں سے ہر ایک (صغیرہ گناہ کا) کام کر نے والے کے لیے (یہ کفارہ) ہے۔ ‘‘


باب : نماز، اس کے وقت (معین) پر پڑھنے کی فضیلت

(۳۲۹)۔ سیدناعبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ نماز، جو اپنے وقت پر (پڑھی گئی) ہو۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس کے بعد والدین کی اطاعت کرنا۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ سیدنا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان فرمایا اور اگر میں آپﷺ سے زیادہ پوچھتا تو آپﷺ زیادہ بیان فرماتے۔

باب : پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں

(۳۳۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے ’’ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر بہتی ہو کہ وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو کہ تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا) اس کے میل کچیل کو باقی رکھے گا ؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یہ اس کے میل کچیل میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ‘‘

باب : نماز پڑھنے والا اپنے رب سے منا جات کرتا ہے

(۳۳۱)۔ ؂ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھا دے اور جب تھو کے تو چاہیے اپنے آگے نہ تھو کے اور نہ اپنی داہنی جانب، اس لیے کہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے۔ ‘‘

باب : گرمی کی شدت میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا

(۳۳۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب گرمی زیادہ بڑھ جائے تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی) ہے اور جہنم نے اپنے پروردگار سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار ! میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس کی سردی میں اور ایک سانس کی گرمی میں۔ اور وہی سخت گرمی ہے جس کو تم محسوس کرتے ہو اور سخت سردی ہے جسے تم پاتے ہو۔ ‘‘

(۳۳۳)۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبیﷺ کے ساتھ تھے، مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ پھر اس نے چاہا کہ اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : ’’ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی) ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو جائے تو (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔ ‘‘

باب : ظہر کا وقت زوال کے وقت سے (شروع ہوتا) ہے

(۳۳۴)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہﷺ جب آفتاب ڈھل گیا، باہر تشریف لائے اور آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا : ’’ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔ ‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھے،تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب تک کہ اپنے اس مقام پر ہوں۔ ‘‘ تو لوگ بہت زیادہ روئے اور آپﷺ نے کئی بار فرمایا : ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ پھر سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے پوچھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارا باپ حذافہ ہے۔ ‘‘ پھر آپ بار بار یہ فرما نے لگے کہ ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ تو امیر المومنین عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے : ’’ ہم اللہ جل جلالہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہو نے اور محمدﷺ کے پیغمبر ہونے سے خوش ہیں۔ ‘‘ پس آپﷺ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئی ہے، ایسی عمدہ چیز (جیسی جنت ہے) اور ایسی بری چیز (جیسی دوزخ ہے) کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘

(۳۳۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے،کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا، اس میں ساٹھ آیتوں اور سو آیتوں کے درمیان قرأت کرتے تھے اور ظہر کی نماز جب آفتاب ڈھل جاتا تھا، پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ ہم میں سے کوئی مدینہ کے کنارے تک جا کر لو ٹ آتا لیکن سورج کی دھوپ ابھی تیز ہو تی۔ راوی (ابو منہال) کہتے ہیں اور مغرب اور بارے میں جو کچھ کہا تھا میں بھول گیا اور عشاء کی تا خیر میں تہائی رات تک آپﷺ کچھ پروانہ کرتے تھے۔ اس کے بعد (راوی نے) کہا کہ نصف شب تک۔

باب : بغیر کسی عذر کے ظہر کی نماز کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دینا

(۳۳۶)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشاء کی سات رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں ۔

باب : عصر کا وقت (کس وقت ہوتا ہے ؟)

(۳۳۷)۔ سیدنا ابو برزہؓ کی اوقات نماز والی حدیث قریب گزری ہے (دیکھیں حدیث ۳۳۵ا،اس میں عصر کا وقت بتایا گیا ہے) اور اس روایت میں (ابو برزہؓ ) عشاء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اور عشاء کی نماز سے پہلے سو نے کو اور اس کے بعد بات کر نے کا برا جانتے تھے ’’ (اور اس کے بعد پوری حدیث بیان کی) ۔

(۳۳۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکے ہوتے تھے، اس کے بعد کوئی آدمی بنی عمرو بن عوف (کے قبیلے) تک جاتا تو انھیں نماز عصر پڑھتے ہوئے پاتا۔

(۲۳۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عصر کی نمازایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور تیز ہوتا تھا، پھر جا نے والا عوالی (مدینہ کی نواحی بستیوں) تک جاتا تھا اور ان لوگوں کے پاس ایسے وقت پہنچ جاتا کہ آفتاب بلند ہو تا تھا اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ سے چار میل پر یا اس کے قریب ہیں۔
باب : اس شخص کا گناہ جس کی نماز عصر جاتی رہے

(۳۴۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ وہ شخص جس کی نماز عصر جاتی رہے ایسا ہے گویا کہ اس کے اہل و مال ہلاک ہو گئے۔ ‘‘

باب : اس شخص کا گناہ جو (عمداً) نماز عصر کو چھوڑ دے

(۳۴۱)۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کسی غزوۂ میں بارش والے دن کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو یقیناً اس کا (نیک) عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ ‘‘

باب : نماز عصر کا فضیلت (کا بیان)

(۳۴۲) ۔ سیدنا جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ بے شک تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں وقت، تکلیف یا مشکل محسوس نہ کرو گے۔ لہٰذا اگر تم یہ کر سکتے ہو کہ آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے کی نماز پر (شیطان سے) مغلوب نہ ہو تو کر لو۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’ پس آفتاب کے طلوع و غروب ہو نے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو۔ ‘‘

(۳۴۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’کچھ فرشتے رات کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور کچھ فرشتے دن کو اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس رہے ہیں (آسمان پر) چڑھ جاتے ہیں، تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے، کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور (جب) ہم ان کے پاس پہنچے تھے (تب بھی) وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘

باب : جو شخص غروب (آفتاب) سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے (تو گویا کہ اسے پوری نماز مل گئی) ۔

(۳۴۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز عصر کی ایک رکعت آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے پا لے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب نماز فجر کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لے تو اسے (بھی) چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے۔

(۳۴۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے ؛ ’’ تمہاری بقا (کی مدت) با عتباران امتوں کے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسی ہی ہے جیسے نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک۔ تو ریت والوں کو تو ریت دی گئی اور انھوں نے کام کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا، وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا اور ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے تو دونوں اہل آفتاب نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ان لوگوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ہی قیراط دیا حالانکہ ہم نے کام زیادہ کیا ہے۔ اللہ عز و جل نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ کم دیا ہے ؟ وہ بولے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یہ میری رحمت ہے جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں (تمہارا کیا اجارہ ہے ؟) ‘‘
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب : مغرب کا وقت (کب شروع ہوتا ہے ؟)

(۳۴۶)۔ سیدنا رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ مغرب کی نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے ہر ایک (نماز پڑھ کے) ایسے وقت لوٹ آتا تھا کہ وہ اپنے تیر کے گر نے کے مقامات کو دیکھ لیتا تھا۔

(۳۴۷)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ نے کہا کہ نبیﷺ ظہر کی نماز ٹھیک دو پہر کو پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ آفتاب صاف اور چمک رہا ہوتا تھا اور مغرب کی جب آفتاب غروب ہو جاتا اور عشاء کی کبھی کسی وقت،کبھی کسی وقت۔ جب آپﷺ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے اور جب آپﷺ دیکھتے کہ لوگوں نے دیر کی تو دیر سے پڑھتے اور صبح کی نماز وہ لوگ یا یہ کہا کہ نبیﷺ اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

باب : جس نے اس ا مر کو برا جانا ہے کہ مغرب کو عشاء کہا جائے

(۳۴۸)۔ سیدنا عبداللہ مزنیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ اعراب تمہاری نماز مغرب کے نام پر تم سے غلبہ نہ کریں (یعنی نماز مغرب کا کچھ اور نام رکھ دیں) ‘‘ اور فرمایا : ’’ اعراب کہتے ہیں کہ وہ (یعنی مغرب) عشاء ہے۔ ‘‘

باب : عشاء (کی نماز) کی فضیلت

(۳۴۹) ۔ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ کہتی ہیں کہ ایک شب عشاء کی نماز میں رسول اللہﷺ نے تاخیر کر دی اور یہ (واقعہ) اشاعت اسلام سے پہلے (کا ہے) پس آپﷺ نہیں نکلے یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ نے (آپﷺ سے آ کر) کہا کہ عورتیں اور بچے سو رہے، پس آپﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا ’’ زمین والوں میں سوا تمہارے کوئی اس نماز کا منتظر نہیں۔ ‘‘

(۳۵۰)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ میں اور میرے وہ ساتھی جو کشتی میں میرے ہمراہ آئے تھے، بقیع بطحان میں ٹھہر ہوئے تھے اور نبیﷺ مدینہ میں تھے تو ان میں سے ایک ایک گروپ باری باری نبیﷺ کے پاس جاتا تھا۔ پھر (ایک دن) ہم سب یعنی میں اور میرے ساتھی نبیﷺ کے پاس گئے اور آپﷺ کو اپنے کام میں مصروفیت تھی لہٰذا (عشاء کی) نماز میں آپﷺ نے تاخیر کر دی یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ اس کے بعد نبیﷺ باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر جب آپﷺ اپنی نماز ختم کر چکے تو جو لوگ وہاں موجود تھے ان سے فرمایا : ’’ اس وقت میں تمہارے سوا کوئی نماز نہیں پڑھتا ‘‘ یا اس طرح فرمایا : ’’ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔ ‘‘ معلوم نہیں آپﷺ نے (ان دو جملوں میں سے) کیا فرمایا: ’’ ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے جو کہ رسول اللہﷺ سے ہم نے سنی، خوش ہو کر لوٹے۔

باب : جو شخص (نیند) سے مغلوب ہو جائے تو اس کے لیے عشاء سے پہلے سورہنا (جائز ہے)

(۳۵۱)۔ ام المومنین عائشہؓ کی حدیث، کہ رسول اللہﷺ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی تو امیر المومنین عمرؓ نے آپﷺ کو پکارا، پہلے گزر ی ہے (دیکھیے حدیث ۳۴۹) اس روایت میں اتنا زیادہ کہتی ہیں کہ صحابہ کرامؓ (عشا کی نماز) شفق کے غائب ہو جا نے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک پڑھ لیتے تھے۔ اور سیدنا ابن عباسؓ کی روایت میں ہے : ’’ نبیﷺ نکلے گویا کہ میں آپﷺ کی طرف اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپﷺ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا ہے اور آپﷺ اپنا ہاتھ اپنے سر مبارک پر رکھے ہوئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اگر میں اپنی امت پر گراں نہ سمجھتا تو یقیناً انھیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز اسی طرح (اسی وقت) پڑھا کریں۔ ‘‘
(۳۵۲)۔ سیدنا ابن عبا سؓ بتاتے ہیں کہ نبیﷺ نے اپنے سرپر ہاتھ کیسے رکھا تو انھوں نے اپنی انگلیوں کے درمیان کچھ تفریق کر دی اور اپنی انگلیوں کے سرے، سر کے ایک طرف رکھ دیے پھر ان کو ملا کر اس طرح سر پر کھینچ لائے یہاں تک کہ ان کا انگوٹھا ان کے کان کی لو سے، چہرے کے قریب ڈاڑھی کے کنارے سے مل گیا۔ نہ آپﷺ نے دیر کی اور نہ جلدی بس اسی طرح کیا جیسے میں نے تمہیں بتایا۔

باب : عشاء کا وقت آدھی رات تک (رہتا ہے)

(۳۵۳)۔ سیدنا انسؓ (عشاء کی نماز کے متعلق) بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گویا میں اس شب میں آپﷺ کی انگوٹھی کی چمک کو دیکھ رہا ہوں۔

باب : نماز فجر کی فضیلت (کا بیان)

(۳۵۴)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ‘‘

باب : فجر کا وقت

(۳۵۵)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ زید بن ثابتؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ صحابہ کرامؓ نے نبیﷺ کے ہمراہ سحری کھائی اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ تو سیدنا زیدؓ نے کہا کہ بقدر پچاس یاساٹھ آیات (کی تلاوت) کے (فاصلہ تھا) ۔

(۳۵۶)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سحری کھایا کر تا تھا پھر مجھے اس بات کی جلدی ہوتی تھی کہ میں فجر کی نماز رسول اللہﷺ کے ہمراہ ادا کروں۔

باب : فجر کی نماز کے بعد آفتاب کے بلند ہو نے سے پہلے (کوئی اور) نماز پڑھنا (جائز نہیں ہے)

(۳۵۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میرے سامنے چند پسندیدہ شخصیات نے کہ ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ میرے نزدیک امیر المومنین عمرؓ تھے، یہ بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد سور ج غروب ہو نے سے پہلے، نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

(۳۵۸)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ (اے لوگو!) تم اپنی نمازیں طلوع آفتاب کے وقت نہ ادا کرو اور نہ غروب آفتاب کے وقت۔ ‘‘

(۳۵۹)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جب آفتاب کا کنارا نکل آئے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو جائے اور جب آفتاب کا کنارا چھپ جائے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ (پورا آفتاب) چھپ جائے۔ ‘‘

(۳۶۰)۔ سیدناا بوہریرہؓ سے مروی حدیث کہ رسول اللہﷺ نے دو قسم کی بیع اور دو قسم کی پوشاک پہننے سے منع فرمایا ہے (اور یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے دیکھیے حدیث : ۲۴۱) اس حدیث میں اتنا زیادہ کہا ہے : ’’ اور دو نمازوں سے منع فرمایا : (۱) فجر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ آفتاب (اچھی طرح) نکل آئے اور (۲) عصر کے بعد (نماز سے منع فرمایا) یہاں تک کہ آفتاب (اچھی طرح) غروب ہو جائے۔ ‘‘

باب : غروب آفتاب سے پہلے نماز کا قصد نہ کرے

(۳۶۱)۔ امیر معاویہؓ سے مروی ہے انھوں نے کہا (اے لوگو!) تم ایک نماز ایسی پڑھتے ہو کہ بے شک ہم نے رسول اللہﷺ کی صحبت اختیار کی ہے مگر آپﷺ کو اسے پڑھتے نہیں دیکھا اور یقیناً آپ نے اس سے ممانعت فرمائی یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں۔

باب : عصر (کی نماز) کے بعد قضا نمازوں کا پڑھ لینا (جائز ہے)

(۳۶۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ قسم اس کی جو نبیﷺ کو دنیا سے لے گیا کہ کبھی آپﷺ نے عصر کی بعد دو رکعتیں ترک نہیں فرمائیں یہاں تک کہ آپﷺ اللہ سے جا ملے اور جب آپﷺ اللہ سے جا ملے، اس وقت (جسم بھاری ہونے کا باعث) آپﷺ نماز سے بوجھل ہو جاتے تھے اور آپﷺ اپنی بہت سی نمازیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور نبیﷺ ان دونوں کو یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں (ہمیشہ) پڑھا کرتے تھے اور گھر ہی میں پڑھتے تھے، اس خوف سے کہ آپﷺ کی امت پر گراں نہ گزرے۔ آپﷺ وہی بات پسند فرماتے تھے جو آپﷺ کی امت پر آسان ہو۔

(۳۶۳)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ دو رکعتوں کو پوشیدہ و آشکارا کبھی ترک نہ فرماتے تھے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں۔
باب : وقت کے چلے جانے کے بعد (قضا نماز کے لیے بھی) اذان کہنا

(۳۶۴)۔ سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک شب نبیﷺ کے ہمراہ سفر کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ کاش آپﷺ اخیر شب میں مع ہم سب لوگوں کے آرام فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم نماز (فجر) سے (غافل ہو کر) سو جاؤ۔ چنانچہ سیدنا بلالؓ بولے کہ میں تم سب کو جگا دوں گا۔ لہٰذا سب لیٹے رہے اور سیدنا بلالؓ اپنی پیٹھ اپنی اونٹنی سے ٹیک کر بیٹھ گئے مگر ان پر بھی نیند غالب آ گئی اور وہ بھی سو گئے۔ پس نبیﷺ ایسے وقت بیدار ہوئے کہ آفتاب کا کنارا نکل آیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے بلالؓ ! تمہارا کہنا کہاں گیا ؟‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ایسی نیند میرے اوپر کبھی نہیں ڈالی گئی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ (سچ ہے) اللہ نے تمہاری جانوں کو جس وقت چاہا قبض کر لیا اور جس وقت چاہا واپس کیا، اے بلالؓ !اٹھو اور لوگوں میں نماز کے لیے اذان دے دو۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے وضو فرمایا اور جب آفتاب بلند ہو گیا اور سفید ہو گیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔

باب : جو شخص وقت جاتے رہنے کے بعد لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے (وہ سنت پر ہے)

(۳۶۵)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطابؓ (غزوۂ) خندق میں آفتاب غروب ہو نے کے بعد اپنی قیام گاہ سے حاضر ہوئے اور کفار قریش کو برا کہنے لگے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں عصر کی نماز نہ پڑھ سکا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا تو نبیﷺ نے فرمایا : ’’ واللہ میں نے بھی عصر کی نماز (ابھی تک) نہیں پڑھی۔ ‘‘ پھر ہم (مقام) بطحان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپﷺ نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم سب نے (بھی) نماز کے لیے وضو کیا پھر آپﷺ نے عصر کی نماز آفتاب غروب ہو جانے کے بعد پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

باب : جو شخص کسی نماز (کے ادا کر نے) کو بھول جائے جس وقت یاد آئے، پڑھ لے۔

(۳۶۶)۔ سیدنا انس بن مالکؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نماز کو بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یا د آئے، پڑھ لے، اس کا کفارہ یہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۂ ’’ طہ ‘‘ میں) فرماتا ہے : ’’ اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ ‘‘

(۳۶۷)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ دیکھو ! لو گ نماز پڑھ چکے اور سو رہے اور تم برابر نماز میں رہے جب تک کہ تم نے نماز کا انتظار کیا۔ ‘‘

(۳۶۸)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث کہ نبیﷺ نے (ایک مرتبہ) عشاء کی نماز اپنی اخیر زندگی میں پڑھی۔ ۔ ۔ آخر تک (گزر چکی ہے دیکھیں حدیث ۹۶) اور اس حدیث میں سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ بے شک سو برس کے بعد جو شخص آج زمین کے اوپر ہے کوئی باقی نہ رہے گا۔ ‘‘ مراد آپﷺ کی اس سے یہ تھی کہ یہ قرن (دور) گزر جائے گا۔

(۳۶۹)۔ سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ کچھ غریب لو گ تھے اور نبیﷺ نے فرما دیا تھا : ’’ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو (ان میں سے) لے جائے اور اگر چار کا ہو تو پانچواں یا چھٹا ان میں سے لے جائے۔ ‘‘ اور امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ تین آدمی لے گئے اور نبیﷺ دس لے گئے، عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ میں تھا اور میرے ماں باپ۔ (راویِ حدیث ا بو عثمان نے کہا) اور میں نہیں جانتا کہ انھوں نے یہ بھی کہا (یا نہیں) کہ میری بیوی اور ہمارا خادم بھی تھا جو میرے اور ابو بکر صدیقؓ کے گھر میں مشترک تھا او ابو بکرؓ نے نبیﷺ کے ہاں رات کا کھانا کھا لیا اور تھوڑی دیرو ہیں ٹھہر رہے جہاں عشاء کی نماز پڑھی گئی تھی،لوٹ کر پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ نبیﷺ نے آرام فرمایا پھر اس کے بعد جس قدر رات، اللہ نے چاہا، گزار دی (وہیں رہے) پھر اپنے گھر میں آئے تو ان سے ان کی بیوی نے کہا کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کو آپ کے مہمانوں سے کس نے روک لیا تھا یا یہ کہا کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے مہمان سے ؟ تو وہ بولے کیا تم نے انھیں کھانا نہیں کھلایا ؟ انھوں نے کہا وہ نہیں مانے یہاں تک کہ آپ (رضی اللہ عنہ) آ جائیں، کھانا ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا مگر انھوں نے انکار کیا عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے خوف کے) جا کر چھپ گیا پس ابو بکر صدیقؓ نے اے لیئم ! اور پھر بہت سخت سست کہا اور مہمانوں سے کہا کہ تم خوب سیر ہو کر کھاؤ۔ اس کے بعد کہا کہ اللہ کی قسم ! میں ہر گز نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم جب کوئی لقمہ لیتے تھے تو اس کے نیچے اس سے زیادہ بڑھ جاتا تھا۔ پھر جب سب مہمان آسودہ ہو گئے اور کھانا جس قدر پہلے تھا اس سے زیادہ بچ گیا تو ابو بکر صدیقؓ نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اسی قدر تھا جیسا کہ پہلے تھا یا اس سے زیادہ بچ گیا تو ابو بکر صدیقؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ بو لیں کہ اپنی آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم ! یقیناً
یہ اس وقت پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر اس میں سے ابو بکر صدیقؓ نے کھایا اور کہا یہ یعنی ان کی قسم شیطان ہی کی طرف سے تھی بالآخر اس میں سے ایک لقمہ انھوں نے کھا لیا۔ اس کے بعد اسے نبیﷺ کے پاس اٹھا لے گئے وہ صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان کچھ عہد تھا، اس کی مدت گزر چکی تھی تو ہم نے بارہ آدمی علیحدہ علیحدہ کر دیے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھی، واللہ اعلم ! ہر شخص کے ساتھ کس قدر آدمی تھے، اس کھانے سے سب نے کھا لیا یا ایسا ہی کچھ کہا۔
 
Top