Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
نماز کے اوقات کا بیان
باب : نماز کے اوقات اور ان کی فضیلت (کا بیان)
(۳۲۵)۔ سیدنا ابو مسعو د انصاریؓ، مغیرہ بن شعبہؓ کے پاس گئے، جبکہ وہ عراق میں تھے اور ایک دن نماز میں تاخیر ہو گئی تھی، کہا کہ اے مغیرہ ! (تم نے) یہ کیا کیا ؟ تم نہیں جانتے کہ (ایک دن) جبریلؑ تشریف لائے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے (بھی) پڑھی، پھر (دوسری) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (تیسری) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (چوتھی) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (پانچویں) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر جبریلؑ نے کہا کہ مجھے اسی طرح حکم ہوا ہے۔
باب : نماز (گناہوں) کا کفارہ ہے
(۳۲۶)۔ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لو گ امیر المومنین عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ فتنہ کے بارے میں رسول اللہﷺ کی حدیث تم میں سے کسے یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے (بالکل اسی طرح) یاد ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا کہ پھر بیان کیجیے تو میں نے کہا کہ آدمی کا وہ فتنہ جو اس کی بیوی اور اس کے مال اور اولاد میں ہوتا ہے نماز، روزہ، صدقہ اور امر (بالمعروف) اور نہی (عن المنکر) اس کو مٹا دیتا ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے کہا کہ میں یہ نہیں (پوچھنا) چاہتا بلکہ وہ فتنہ جو دریا کی طرح موج زن ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین ؟ اس فتنہ سے آپ کو کچھ خوف نہیں کیونکہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا اچھا :وہ دروازہ توڑ ڈالا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟ تو سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ توڑ ڈالا جائے گا۔ پھر امیر المومنین عمرؓ نے کہا تو پھر (وہ دروازہ) کبھی بند نہ ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا گیا کہ کیا عمرؓ اس دروازے کو جانتے تھے ؟ انھوں نے کہا ہاں (اس طرح جانتے تھے) جیسے (تم جانتے ہو) کہ دن کے بعد رات ہو گی۔ (سیدنا حذیفہؓ) نے وہ حدیث بیان کی جو غلط نہ تھی۔ پس ان سے (دروازے کا) پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ دروازہ ’’ امیر المومنین سیدنا عمرؓ تھے۔ ‘‘
(۳۲۷)۔ سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی (اجنبی) عورت کو بوسہ دے دیا پھر وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ سے بیان کیا تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت نازل فرما دی : ’’ نماز کو دن کے سروں میں اور کچھ رات گئے قائم کرو بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ‘‘ تو وہ شخص بولا کہ اللہ کے رسول ! کیا یہ میرے ہی لیے ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ میری تمام امت کے لیے ہے۔ ‘‘
(۳۲۸)۔ ایک اور روایت میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے :’’ میری امت میں سے ہر ایک (صغیرہ گناہ کا) کام کر نے والے کے لیے (یہ کفارہ) ہے۔ ‘‘
باب : نماز، اس کے وقت (معین) پر پڑھنے کی فضیلت
(۳۲۹)۔ سیدناعبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ نماز، جو اپنے وقت پر (پڑھی گئی) ہو۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس کے بعد والدین کی اطاعت کرنا۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ سیدنا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان فرمایا اور اگر میں آپﷺ سے زیادہ پوچھتا تو آپﷺ زیادہ بیان فرماتے۔
باب : پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں
(۳۳۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے ’’ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر بہتی ہو کہ وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو کہ تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا) اس کے میل کچیل کو باقی رکھے گا ؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یہ اس کے میل کچیل میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ‘‘
باب : نماز پڑھنے والا اپنے رب سے منا جات کرتا ہے
(۳۳۱)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھا دے اور جب تھو کے تو چاہیے اپنے آگے نہ تھو کے اور نہ اپنی داہنی جانب، اس لیے کہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے۔ ‘‘
باب : گرمی کی شدت میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا
(۳۳۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب گرمی زیادہ بڑھ جائے تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی) ہے اور جہنم نے اپنے پروردگار سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار ! میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس کی سردی میں اور ایک سانس کی گرمی میں۔ اور وہی سخت گرمی ہے جس کو تم محسوس کرتے ہو اور سخت سردی ہے جسے تم پاتے ہو۔ ‘‘
(۳۳۳)۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبیﷺ کے ساتھ تھے، مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ پھر اس نے چاہا کہ اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : ’’ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی) ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو جائے تو (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔ ‘‘
باب : ظہر کا وقت زوال کے وقت سے (شروع ہوتا) ہے
(۳۳۴)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہﷺ جب آفتاب ڈھل گیا، باہر تشریف لائے اور آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا : ’’ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔ ‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھے،تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب تک کہ اپنے اس مقام پر ہوں۔ ‘‘ تو لوگ بہت زیادہ روئے اور آپﷺ نے کئی بار فرمایا : ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ پھر سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے پوچھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارا باپ حذافہ ہے۔ ‘‘ پھر آپ بار بار یہ فرما نے لگے کہ ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ تو امیر المومنین عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے : ’’ ہم اللہ جل جلالہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہو نے اور محمدﷺ کے پیغمبر ہونے سے خوش ہیں۔ ‘‘ پس آپﷺ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئی ہے، ایسی عمدہ چیز (جیسی جنت ہے) اور ایسی بری چیز (جیسی دوزخ ہے) کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘
(۳۳۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے،کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا، اس میں ساٹھ آیتوں اور سو آیتوں کے درمیان قرأت کرتے تھے اور ظہر کی نماز جب آفتاب ڈھل جاتا تھا، پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ ہم میں سے کوئی مدینہ کے کنارے تک جا کر لو ٹ آتا لیکن سورج کی دھوپ ابھی تیز ہو تی۔ راوی (ابو منہال) کہتے ہیں اور مغرب اور بارے میں جو کچھ کہا تھا میں بھول گیا اور عشاء کی تا خیر میں تہائی رات تک آپﷺ کچھ پروانہ کرتے تھے۔ اس کے بعد (راوی نے) کہا کہ نصف شب تک۔
باب : بغیر کسی عذر کے ظہر کی نماز کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دینا
(۳۳۶)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشاء کی سات رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں ۔
باب : عصر کا وقت (کس وقت ہوتا ہے ؟)
(۳۳۷)۔ سیدنا ابو برزہؓ کی اوقات نماز والی حدیث قریب گزری ہے (دیکھیں حدیث ۳۳۵ا،اس میں عصر کا وقت بتایا گیا ہے) اور اس روایت میں (ابو برزہؓ ) عشاء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اور عشاء کی نماز سے پہلے سو نے کو اور اس کے بعد بات کر نے کا برا جانتے تھے ’’ (اور اس کے بعد پوری حدیث بیان کی) ۔
(۳۳۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکے ہوتے تھے، اس کے بعد کوئی آدمی بنی عمرو بن عوف (کے قبیلے) تک جاتا تو انھیں نماز عصر پڑھتے ہوئے پاتا۔
(۲۳۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عصر کی نمازایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور تیز ہوتا تھا، پھر جا نے والا عوالی (مدینہ کی نواحی بستیوں) تک جاتا تھا اور ان لوگوں کے پاس ایسے وقت پہنچ جاتا کہ آفتاب بلند ہو تا تھا اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ سے چار میل پر یا اس کے قریب ہیں۔
باب : اس شخص کا گناہ جس کی نماز عصر جاتی رہے
(۳۴۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ وہ شخص جس کی نماز عصر جاتی رہے ایسا ہے گویا کہ اس کے اہل و مال ہلاک ہو گئے۔ ‘‘
باب : اس شخص کا گناہ جو (عمداً) نماز عصر کو چھوڑ دے
(۳۴۱)۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کسی غزوۂ میں بارش والے دن کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو یقیناً اس کا (نیک) عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ ‘‘
باب : نماز عصر کا فضیلت (کا بیان)
(۳۴۲) ۔ سیدنا جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ بے شک تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں وقت، تکلیف یا مشکل محسوس نہ کرو گے۔ لہٰذا اگر تم یہ کر سکتے ہو کہ آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے کی نماز پر (شیطان سے) مغلوب نہ ہو تو کر لو۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’ پس آفتاب کے طلوع و غروب ہو نے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو۔ ‘‘
(۳۴۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’کچھ فرشتے رات کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور کچھ فرشتے دن کو اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس رہے ہیں (آسمان پر) چڑھ جاتے ہیں، تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے، کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور (جب) ہم ان کے پاس پہنچے تھے (تب بھی) وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘
باب : جو شخص غروب (آفتاب) سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے (تو گویا کہ اسے پوری نماز مل گئی) ۔
(۳۴۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز عصر کی ایک رکعت آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے پا لے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب نماز فجر کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لے تو اسے (بھی) چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے۔
(۳۴۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے ؛ ’’ تمہاری بقا (کی مدت) با عتباران امتوں کے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسی ہی ہے جیسے نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک۔ تو ریت والوں کو تو ریت دی گئی اور انھوں نے کام کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا، وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا اور ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے تو دونوں اہل آفتاب نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ان لوگوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ہی قیراط دیا حالانکہ ہم نے کام زیادہ کیا ہے۔ اللہ عز و جل نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ کم دیا ہے ؟ وہ بولے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یہ میری رحمت ہے جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں (تمہارا کیا اجارہ ہے ؟) ‘‘
باب : نماز کے اوقات اور ان کی فضیلت (کا بیان)
(۳۲۵)۔ سیدنا ابو مسعو د انصاریؓ، مغیرہ بن شعبہؓ کے پاس گئے، جبکہ وہ عراق میں تھے اور ایک دن نماز میں تاخیر ہو گئی تھی، کہا کہ اے مغیرہ ! (تم نے) یہ کیا کیا ؟ تم نہیں جانتے کہ (ایک دن) جبریلؑ تشریف لائے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے (بھی) پڑھی، پھر (دوسری) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (تیسری) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (چوتھی) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (پانچویں) نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر جبریلؑ نے کہا کہ مجھے اسی طرح حکم ہوا ہے۔
باب : نماز (گناہوں) کا کفارہ ہے
(۳۲۶)۔ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لو گ امیر المومنین عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ فتنہ کے بارے میں رسول اللہﷺ کی حدیث تم میں سے کسے یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے (بالکل اسی طرح) یاد ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا کہ پھر بیان کیجیے تو میں نے کہا کہ آدمی کا وہ فتنہ جو اس کی بیوی اور اس کے مال اور اولاد میں ہوتا ہے نماز، روزہ، صدقہ اور امر (بالمعروف) اور نہی (عن المنکر) اس کو مٹا دیتا ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے کہا کہ میں یہ نہیں (پوچھنا) چاہتا بلکہ وہ فتنہ جو دریا کی طرح موج زن ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین ؟ اس فتنہ سے آپ کو کچھ خوف نہیں کیونکہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا اچھا :وہ دروازہ توڑ ڈالا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟ تو سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ توڑ ڈالا جائے گا۔ پھر امیر المومنین عمرؓ نے کہا تو پھر (وہ دروازہ) کبھی بند نہ ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا گیا کہ کیا عمرؓ اس دروازے کو جانتے تھے ؟ انھوں نے کہا ہاں (اس طرح جانتے تھے) جیسے (تم جانتے ہو) کہ دن کے بعد رات ہو گی۔ (سیدنا حذیفہؓ) نے وہ حدیث بیان کی جو غلط نہ تھی۔ پس ان سے (دروازے کا) پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ دروازہ ’’ امیر المومنین سیدنا عمرؓ تھے۔ ‘‘
(۳۲۷)۔ سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی (اجنبی) عورت کو بوسہ دے دیا پھر وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ سے بیان کیا تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت نازل فرما دی : ’’ نماز کو دن کے سروں میں اور کچھ رات گئے قائم کرو بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ‘‘ تو وہ شخص بولا کہ اللہ کے رسول ! کیا یہ میرے ہی لیے ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ میری تمام امت کے لیے ہے۔ ‘‘
(۳۲۸)۔ ایک اور روایت میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے :’’ میری امت میں سے ہر ایک (صغیرہ گناہ کا) کام کر نے والے کے لیے (یہ کفارہ) ہے۔ ‘‘
باب : نماز، اس کے وقت (معین) پر پڑھنے کی فضیلت
(۳۲۹)۔ سیدناعبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ نماز، جو اپنے وقت پر (پڑھی گئی) ہو۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس کے بعد والدین کی اطاعت کرنا۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ سیدنا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان فرمایا اور اگر میں آپﷺ سے زیادہ پوچھتا تو آپﷺ زیادہ بیان فرماتے۔
باب : پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں
(۳۳۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے ’’ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر بہتی ہو کہ وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو کہ تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا) اس کے میل کچیل کو باقی رکھے گا ؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یہ اس کے میل کچیل میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ‘‘
باب : نماز پڑھنے والا اپنے رب سے منا جات کرتا ہے
(۳۳۱)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھا دے اور جب تھو کے تو چاہیے اپنے آگے نہ تھو کے اور نہ اپنی داہنی جانب، اس لیے کہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے۔ ‘‘
باب : گرمی کی شدت میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا
(۳۳۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب گرمی زیادہ بڑھ جائے تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی) ہے اور جہنم نے اپنے پروردگار سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار ! میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس کی سردی میں اور ایک سانس کی گرمی میں۔ اور وہی سخت گرمی ہے جس کو تم محسوس کرتے ہو اور سخت سردی ہے جسے تم پاتے ہو۔ ‘‘
(۳۳۳)۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبیﷺ کے ساتھ تھے، مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ پھر اس نے چاہا کہ اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : ’’ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی) ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو جائے تو (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔ ‘‘
باب : ظہر کا وقت زوال کے وقت سے (شروع ہوتا) ہے
(۳۳۴)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہﷺ جب آفتاب ڈھل گیا، باہر تشریف لائے اور آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا : ’’ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔ ‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھے،تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب تک کہ اپنے اس مقام پر ہوں۔ ‘‘ تو لوگ بہت زیادہ روئے اور آپﷺ نے کئی بار فرمایا : ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ پھر سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے پوچھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارا باپ حذافہ ہے۔ ‘‘ پھر آپ بار بار یہ فرما نے لگے کہ ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ تو امیر المومنین عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے : ’’ ہم اللہ جل جلالہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہو نے اور محمدﷺ کے پیغمبر ہونے سے خوش ہیں۔ ‘‘ پس آپﷺ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئی ہے، ایسی عمدہ چیز (جیسی جنت ہے) اور ایسی بری چیز (جیسی دوزخ ہے) کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘
(۳۳۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے،کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا، اس میں ساٹھ آیتوں اور سو آیتوں کے درمیان قرأت کرتے تھے اور ظہر کی نماز جب آفتاب ڈھل جاتا تھا، پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ ہم میں سے کوئی مدینہ کے کنارے تک جا کر لو ٹ آتا لیکن سورج کی دھوپ ابھی تیز ہو تی۔ راوی (ابو منہال) کہتے ہیں اور مغرب اور بارے میں جو کچھ کہا تھا میں بھول گیا اور عشاء کی تا خیر میں تہائی رات تک آپﷺ کچھ پروانہ کرتے تھے۔ اس کے بعد (راوی نے) کہا کہ نصف شب تک۔
باب : بغیر کسی عذر کے ظہر کی نماز کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دینا
(۳۳۶)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشاء کی سات رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں ۔
باب : عصر کا وقت (کس وقت ہوتا ہے ؟)
(۳۳۷)۔ سیدنا ابو برزہؓ کی اوقات نماز والی حدیث قریب گزری ہے (دیکھیں حدیث ۳۳۵ا،اس میں عصر کا وقت بتایا گیا ہے) اور اس روایت میں (ابو برزہؓ ) عشاء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اور عشاء کی نماز سے پہلے سو نے کو اور اس کے بعد بات کر نے کا برا جانتے تھے ’’ (اور اس کے بعد پوری حدیث بیان کی) ۔
(۳۳۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکے ہوتے تھے، اس کے بعد کوئی آدمی بنی عمرو بن عوف (کے قبیلے) تک جاتا تو انھیں نماز عصر پڑھتے ہوئے پاتا۔
(۲۳۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عصر کی نمازایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور تیز ہوتا تھا، پھر جا نے والا عوالی (مدینہ کی نواحی بستیوں) تک جاتا تھا اور ان لوگوں کے پاس ایسے وقت پہنچ جاتا کہ آفتاب بلند ہو تا تھا اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ سے چار میل پر یا اس کے قریب ہیں۔
باب : اس شخص کا گناہ جس کی نماز عصر جاتی رہے
(۳۴۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ وہ شخص جس کی نماز عصر جاتی رہے ایسا ہے گویا کہ اس کے اہل و مال ہلاک ہو گئے۔ ‘‘
باب : اس شخص کا گناہ جو (عمداً) نماز عصر کو چھوڑ دے
(۳۴۱)۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کسی غزوۂ میں بارش والے دن کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو یقیناً اس کا (نیک) عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ ‘‘
باب : نماز عصر کا فضیلت (کا بیان)
(۳۴۲) ۔ سیدنا جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ بے شک تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں وقت، تکلیف یا مشکل محسوس نہ کرو گے۔ لہٰذا اگر تم یہ کر سکتے ہو کہ آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے کی نماز پر (شیطان سے) مغلوب نہ ہو تو کر لو۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’ پس آفتاب کے طلوع و غروب ہو نے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو۔ ‘‘
(۳۴۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’کچھ فرشتے رات کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور کچھ فرشتے دن کو اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس رہے ہیں (آسمان پر) چڑھ جاتے ہیں، تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے، کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور (جب) ہم ان کے پاس پہنچے تھے (تب بھی) وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘
باب : جو شخص غروب (آفتاب) سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے (تو گویا کہ اسے پوری نماز مل گئی) ۔
(۳۴۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز عصر کی ایک رکعت آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے پا لے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب نماز فجر کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لے تو اسے (بھی) چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے۔
(۳۴۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے ؛ ’’ تمہاری بقا (کی مدت) با عتباران امتوں کے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسی ہی ہے جیسے نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک۔ تو ریت والوں کو تو ریت دی گئی اور انھوں نے کام کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا، وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا اور ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے تو دونوں اہل آفتاب نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ان لوگوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ہی قیراط دیا حالانکہ ہم نے کام زیادہ کیا ہے۔ اللہ عز و جل نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ کم دیا ہے ؟ وہ بولے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یہ میری رحمت ہے جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں (تمہارا کیا اجارہ ہے ؟) ‘‘