• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری مجموعہ احادیث عذاب قبر

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
37. بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ:
37. باب: عذاب قبر سے پناہ مانگنا۔
حدیث نمبر: 6366
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن مسروق، عن عائشة، قالت: دخلت علي عجوزان من عجز يهود المدينة، فقالتا لي: إن اهل القبور يعذبون في قبورهم، فكذبتهما ولم انعم ان اصدقهما، فخرجتا ودخل علي النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله، إن عجوزين وذكرت له، فقال:" صدقتا إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم كلها"، فما رايته بعد في صلاة، إلا تعوذ من عذاب القبر.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ
مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی (بات کی) تصدیق نہیں کر سکی۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دو بوڑھی عورتیں تھیں، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے۔

كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
87. بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ:
87. باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا۔
حدیث نمبر: 1375
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا شعبة قال: حدثني عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، عن البراء بن عازب، عن ابي ايوبرضي الله عنهم , قال:" خرج النبي صلى الله عليه وسلم وقد وجبت الشمس، فسمع صوتا , فقال: يهود تعذب في قبورها"، وقال النضر: اخبرنا شعبة، حدثنا عون، سمعت ابي , سمعت البراء، عن ابي ايوب رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ابوحجیفہ نے، ان سے براء بن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے، سورج غروب ہو چکا تھا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آواز سنائی دی۔ (یہودیوں پر عذاب قبر کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ اور نضر بن شمیل نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی، ان سے عون نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا، انہوں نے براء سے سنا، انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
86. بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ:
86. باب: عذاب قبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1374
حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا عبد الاعلى، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، انه حدثهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم، اتاه ملكان فيقعدانه فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم؟ فاما المؤمن فيقول: اشهد انه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد ابدلك الله به مقعدا من الجنة فيراهما جميعا، قال قتادة: وذكر لنا انه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث انس , قال: واما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا ادري، كنت اقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلين".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے (منکر نکیر) اس کے پاس آتے ہیں ‘ وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کا ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کر دی جائے گی۔ (جس سے آرام و راحت ملے) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی ‘ فرمایا اور منافق و کافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تو نے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔

كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
49. بَابُ النَّمِيمَةُ مِنَ الْكَبَائِرِ:
49. باب: چغل خوری کرنا کبیرہ گناہوں میں سے
حدیث نمبر: 6055
حدثنا ابن سلام، اخبرنا عبيدة بن حميد ابو عبد الرحمن، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم من بعض حيطان المدينة، فسمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما، فقال:" يعذبان وما يعذبان في كبير وإنه لكبير، كان احدهما لا يستتر من البول، وكان الآخر يمشي بالنميمة، ثم دعا بجريدة فكسرها بكسرتين او ثنتين، فجعل كسرة في قبر هذا وكسرة في قبر هذا، فقال:" لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیدہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں منصور بن معمر نے، انہیں مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے کسی باغ سے تشریف لائے تو آپ نے دو (مردہ) انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری شاخ منگوائی اور اسے دو حصوں میں توڑا اور ایک ٹکڑا ایک کی قبر پر اور دوسرا دوسرے کی قبر پر گاڑ دیا۔ پھر فرمایا شاید کہ ان کے عذاب میں اس وقت تک کے لیے کمی کر دی جائے، جب تک یہ سوکھ نہ جائیں۔

كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
88. بَابُ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنَ الْغِيبَةِ وَالْبَوْلِ:
88. باب: غیبت اور پیشاب کی آلودگی سے قبر کا عذاب ہونا۔
حدیث نمبر: 1378
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما،" مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبرين , فقال: إنهما ليعذبان، وما يعذبان من كبير، ثم قال: بلى، اما احدهما فكان يسعى بالنميمة، واما احدهما فكان لا يستتر من بوله، قال: ثم اخذ عودا رطبا فكسره باثنتين، ثم غرز كل واحد منهما على قبر، ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے مجاہد نے ‘ ان سے طاؤس نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کے مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہو رہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کی قبروں پر گاڑ دیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہو جائے۔

كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
67. بَابُ الْمَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ:
67. باب: اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
حدیث نمبر: 1338
حدثنا عياش، حدثنا عبد الاعلى، حدثنا سعيد , قال: وقال لي خليفة، حدثنا يزيد بن زريع , حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له: ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم؟ فيقول: اشهد انه عبد الله ورسوله، فيقال: انظر إلى مقعدك من النار ابدلك الله به مقعدا من الجنة، قال النبي صلى الله عليه وسلم: فيراهما جميعا، واما الكافر او المنافق , فيقول: لا ادري كنت اقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين اذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن زریع نے ‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے ‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافر یا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔

كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
89. بَابُ الْمَيِّتِ يُعْرَضُ عَلَيْهِ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ:
89. باب: مردے کو دونوں وقت صبح اور شام اس کا ٹھکانا بتلایا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 1379
حدثنا إسماعيل , قال: حدثني مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن احدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة , والعشي، إن كان من اهل الجنة فمن اهل الجنة، وإن كان من اهل النار فمن اهل النار، فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح و شام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔
 
Top